ستر پوش لباس ستر ڈھانکنے کے ساتھ ساتھ زیب و زینت کے لئے پہنا جاتا ہے ۔ جھبی تو کہتے ہیں " کپڑے کی تہہ ، کرتی ہے شہ " یعنی کپڑے کا احتیاط سے استعمال عزت دلاتا ہے ۔ لباس کا استعمال رواج کا حصہ بھی بنتا ہے ۔ مثل ہے "کپڑے پہنے جگ بھاتا ، کھانا کھائے من بھاتا " یعنی لباس رواج کی مطابق پہننا چاہیے جبکہ کھانا اپنی مرضی کا کھانا چاہیے ۔ لباس کی اہمیت سماجی نفسیات اور مزاج کو متاثر کرتے ہوئے زبان و ادب پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ نہایت خوشی میں " جامے میں پھولا نہ سمانا " اور انتہائی غصے کی حالت میں " جامے سے نکل جانا " جیسے محاورے اس کی مثال ہے ۔ بنیادی ضرورت کی یہ ثقافتی جنس دھاگا ، تاگا، ڈورا یا ریشہ سے بنتی ہے ۔ تاگا کوئی نا آشنا چیز نہیں ہے یہ سوت یا ریشم کا وہ ریشہ ہے جس سے سلائی کی جاتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ سینے کے لئے سوئی میں دھاگا پرونے کو دھاگا ڈالنا کہتے ہیں ۔ دھاگا عام طور پر نظر بد سے بچنے ، کلائی کا درد دور کرنے اور مختلف تعویذوں کےلئے گلے ، بازوں اور کلائی پر باندھا جاتا ہے جبکہ یہ بات یاد رکھنے کےلئے انگلی پر بھی باندھا جاتا ہے ۔ دھاگا خود جس چیز سے بنتا ہے اسے اون یا روئی کہتے ہیں ۔ جو بھیڑ بکری وغیرہ کے بال یا بنولے سے نکالی ہوئی کپاس سے حاصل ہوتے ہیں ۔ ماضی میں بڑھے بوڑھے مقامی طور پر لکڑی کی ایک چرخی پراون اور روئی سے دھاگے بناتے تھے ۔ اکثر گھروں میں چرخیاں موجود تھیں ۔ جسے عام طور پر خواتین چلاتی تھیں ۔ وہ انگلیوں کے پوروں سے روئی مسل مسل کر پھوسڑے " پوسی" بناتیں ۔ پوسی کا سرا چرخ میں ڈال کر چرخی چلاتیں اور دھاگا بننے کے بعد دوسری گراری پر گولائی کی صورت میں چڑھ جاتا جس سے دھاگے کا گول گھپابن جاتا ، تاگےکے اس گھپے کو " ماشوڑہ " کہتے ہیں ۔ جو یا تو اپنی کسی ضرورت کے تحت بنایا جاتا تھا یا اسے جولاہوں کے ہاتھ فروخت کر کے گھر کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے ۔ یہ دھاگے جولاہوں کے ہاں بھی بنتے تھے ۔ ایک تار پراچہ لوگ بھی بناتے تھے جس کےلئے ایک گردش نما گردشا ( گرزنے) کو ایک ہاتھ سے آویزاں کرکے دوسرے ہاتھ سے گھمایا جاتا تھا ۔ تار جب لمبا ہوجاتا تو اسے گردشی مشین کو چڑھایا جاتا تھا ۔ اس تار سے جانوروں کےلئے بوری اور گدھوں وغیرہ کے ننگے پیٹھ کے لئے پالان وغیرہ بنائے جاتے تھے ۔ جبکہ ایک چرخی ( مشین ) پر کپڑے پر کپڑے بھی بنائے جاتے تھے ۔ چرخی چلانے والا " سرخی مار " کہلاتا تھا وہ نہ صرف اپنے گھر پر آرڈر لے کر کپڑے سیتے تھے بلکہ شادی والے گھر جاکر موبائیل سروس کے طور پر ہفتہ بھر میں شادی بیاہ کے تمام کپڑے بھی سی لیتے ۔ لیکن دھاگا پرونے ، کپڑے سینے اور چادر بننے کےلئے جو مشین زیادہ مشہور تھی وہ کھڈی کہلاتی ہے ۔ دیہی صنعت کی یہ مشین انتہائی بچپن میں دیکھا تھا ۔ اس وقت ہم گاوں کے دفتر والے گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ ہمارے مشرق میں دو مکان چھوڑ کر تیسرا ایک چھوٹا مکان جو ایک کونے میں واقع تھا اسلم ماما کا تھا ۔ جس کے صحن میں تین چار بکریاں تھیں ۔ آگے ایک عجیب و غریب چیز نظر آتی تھی میرے بھائی رشید خان جو عمر میں مجھ سے بڑے ہیں ۔ مجھے انگلی سے پکڑ کر وہاں لے جاتے ۔ ماما زمین سے تھوڑی اونچی جگہ پہ بیٹھ کر نیچے کھڈی میں پھیر ہلاتے تھے ۔ سامنے کھڈی پر تنا ہوا تاں ہوتا تھا ۔اس وقت ماما کی مصروفیات کیا تھے یہ میں بالکل نہیں جانتا تھا ۔ معلوم تب ہوا جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا اور ایک بار ہم جماعت ساتھی عبدالغفور کے ساتھ ان کے گھر گیا ۔ دیکھا ، تو ان کے والد کھڈی پر چادر ( شڑئ ) بنارہے تھے ۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ کھڈیاں تو کئ گھروں میں موجود تھیں ۔ جوانی کا زمانہ آیا تو معلوم ہوا کہ بھرنی سے بانا ڈالا جاتا ہے اور دندنے دار آلہ سے ڈوریاں سلجھاتے ہیں ۔ اس طرح گھونی، چرخی، پلا اور ماکھو کے نام بھی سیکھ لیے ۔
قارئین! کھڈوں پر کپڑا بنانے کا کام بر صغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں پھیلا ہوا تھا یہ صنعت اتنا موثر اور مقبول تھی کہ انگریز سامراج نے اٹھارویں صدی کے وسط میں ولائتی کپڑے کےلئے منڈی کی تلاش اور مقامی صنعتوں کی بیخ کنی کی خاطر بنگالی کاریگروں کی انگلیاں کاٹ لیں۔ ایک دانشور کا یہ قول اس موقع سے مناسبت رکھتا ہے کہ کسی قوم کی تباہی کا اس سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں جب اس قوم کی ثقافت کو ختم کیا جائے ۔ مقامی صنعت کےلیے اون اور روئی درکار تھی ۔ جس کی پیداوار ہزاروں سال سے یہاں ہو رہی تھی ۔ روئی کا ہی پہلے بار مشاہدہ کر کے سکندر اعظم تحیر میں پڑے تھے ۔ الغرض اس خطے کے ہر کونے کے دورے پر آئے ہوئے میجر راورٹی کے ایلچی ان کو یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ " سوات میں جو سیاہ ، سفید اور پھولدار چادریں بنتی ہیں وہ انہی دو گاوں درشخیلہ بالا اور پائیں میں تیار ہوتی ہیں ۔ یہ کام کشمیری جولاہوں کے ہاتھ میں ہے " ۔ اس بات بات سے ثابت ہوا کہ یہاں کے کاریگر مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد پیداوار کا ایک حصہ برآمد بھی کرتے تھے اور مقامی طور پر یہ پیداوار تجارتی لیں دین میں بلاشبہ سرفہرست تھی ۔ جس سے ہنرمندوں کے ساتھ تجارت پیشہ حضرات بھی فائدہ اٹھاتے تھے ۔ تا وقت یہ کہ 1849 سے انگریزی مصنوعات نے اثر دکھانا شروع کیا جس کی نشاندہی 1858 کے مطابق یہاں استعمال ہونے والی چند ایک مصنوعات سے ہوتی ہے ۔ پھر بھی اس وقت مقامی صنعتیں کامیابی سے چلتی تھی ۔ لیکن 1880 میں جب انگریزوں کا اثر و رسوخ مالاکنڈ تک پہنچا اور انہوں نے اپنے سیاسی ہتھکنڈوں کے بل پر یہاں کے ثقافتی اقدار اور معیشت کی جڑیں کھوکھلا کرنے کی کوشش کی ساتھ ہی انہوں نے مقامی ہنرمندوں کی سماجی حیثیت کمتر کرنے کی کوشش بھی کی ۔ جس سے مقامی صنعت کی شہتیر کو دیمک لگ گئی ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں تو برطانیہ اور جاپان ٹیکسٹائل کے میدان میں بے تاج بادشاہ تھے ۔ لامحالہ ولائ
☆ النّاسُ بِالّباس : انسان لباس سے پہچانا جاتا ہے ۔
یہی وجہ تھی کہ 1917 کے بعد والی سوات باچا صاحب نے اپنے ترجیحات میں جولاہوں کی صنعت جو درشخیلہ، دیولئی ، مینگورہ اور سلام پور وغیرہ میں تھی کو ترقی سے ہمکنار سمجھا ۔ شاید ترک مولات کی متحریکوں نے بھی اس صنعت کو کچھ حد تک سہارہ دیا ہو ۔ میاں گل جہانزیب نے بھی کچھ حد تک حوصلہ افزائی کی ہے ۔ لیکن انضمام ریاست کے بعد انحطاط کا وہ دور شروع ہوا جس نے اکیسویں صدی آغاز تک سوائے سلام پور کے اس صنعت کو ڈبو دیا ۔ 1990 میں ہمارے گاوں کی صنعت آخری سانسیں لے رہی تھی ۔ اب درشخیلہ میں صنعت تو کیا ان دکانوں کی نشانی باقی نہ رہی جس پر کھڈی ہوا کرتی تھی اور شال بنتی تھی ۔ میں نے ایک مشہور کاریگر سے بار بار دریافت کرنا چاہا کہ وہ کونسے اوزار استعمال کرکے کش طرح کام کرتے تھے پر وہ ہر بار ہنسی مذاق میں بات ٹالتا رہتا ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہوا کہ جب دیولئی جاکر معلوم ہوا کہ جولاہوں کے محلے کا نام جولا آباد بدل کر فضل آباد بن گیا ہے ۔ سلام پور کے علاوہ یہ صنعت بالکل معدوم ہو چکی ہے ۔ جس کی تباہی میں بہت سارے عوامل شامل ہیں ۔ یعنی غیروں کی دخل اندازی کے ساتھ ساتھ خود ہماری فیشن پرستی ، جامہ زیب بننے کےلئے لباس فاخرہ پہننے کی خواہش، باہر کے ملکوں سے پیسہ اور مصنوعات لانے کے مواقعوں ، غیروں کی لباس پسند کرنے کی جنونیت اور اپنے ہنرمندوں کو کمتر معاشرتی حیثیت دینے والی سوچ نے اس صنعت کا بیڑا غرق کردیا ۔ مقامی صنعتیں جو ترقی کی اکائی ہوتی ہیں ہم دیکھتے ہیں ایک ایک کرکے سب ختم ہوئیں ۔ ہم تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں، تبدیلی اس بات میں ضرور آئی ہے باقی سب تو ویسے کے ویسے ہیں ۔ ملکی معیشت تب ترقی کرتی ہے جب ان چھوٹے چھوٹے معاشی یونٹوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ملکہ وکٹوریہ نے محض لندن میں اعلان کیا تھا کہ ہر شخص گھر کی دیوار توڑ کر ایک کمرے میں دکان کھول دیں ۔ پوری دنیا نے دیکھا اس ایک اعلان نے برطانیہ کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ۔ حکومت وقت بھی صنعتوں کے بارے میں انقلابی اعلان کرے ۔ ورنہ کے نعرے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ کیونکہ اصل ترقی و تبدیلی صنعتیں لاتی ہیں ۔ پھر بھی کچھ نہیں کیا تو یہ ہماری نالائقی کی حد ہوگی ۔ اب تو چائنہ بھی دہلیز پہ کھڑا ہے ۔ کہاں وہ زمانہ جب گاوں سے وافر مقدار میں چادریں برآمد کی جاتی تھی اور کہاں یہ زمانہ کہ نئی نسل کو معلوم بھی نہیں ہے کہ یہاں بھی کسی زمانے میں ایک شاندار صنعت تھی ۔ جو زرعی زندگی سے وابستہ افراد کے کام آتی تھی اور گاوں کی پہچان بھی تھی ۔ اے کاش ! کوئی مقامی صنعت کو ترقی دیتا ۔