منگل، 30 اپریل، 2019

چرخی، کھڈی اور مقامی صنعتیں


      


ستر پوش لباس ستر ڈھانکنے کے ساتھ ساتھ زیب و زینت کے لئے پہنا جاتا ہے ۔ جھبی تو کہتے ہیں  " کپڑے کی تہہ ، کرتی ہے شہ " یعنی کپڑے کا احتیاط سے استعمال عزت دلاتا ہے ۔ لباس کا استعمال رواج کا حصہ بھی بنتا ہے ۔ مثل ہے "کپڑے پہنے جگ بھاتا ، کھانا کھائے من بھاتا " یعنی لباس رواج کی مطابق پہننا چاہیے جبکہ کھانا اپنی مرضی کا کھانا چاہیے ۔ لباس کی اہمیت سماجی نفسیات اور مزاج کو متاثر کرتے ہوئے زبان و ادب پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ نہایت خوشی میں " جامے میں پھولا نہ سمانا " اور انتہائی غصے کی حالت میں " جامے سے نکل جانا " جیسے محاورے اس کی مثال ہے ۔ بنیادی ضرورت کی یہ ثقافتی جنس دھاگا ، تاگا، ڈورا یا ریشہ سے بنتی ہے ۔ تاگا کوئی نا آشنا چیز نہیں ہے یہ سوت یا ریشم کا وہ ریشہ ہے جس سے سلائی کی جاتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ سینے کے لئے سوئی میں دھاگا پرونے کو دھاگا ڈالنا کہتے ہیں ۔ دھاگا عام طور پر نظر بد سے بچنے ، کلائی کا درد دور کرنے اور مختلف تعویذوں کےلئے گلے ، بازوں اور کلائی پر باندھا جاتا ہے جبکہ یہ بات یاد رکھنے کےلئے انگلی پر بھی باندھا جاتا ہے ۔ دھاگا خود جس چیز سے بنتا ہے اسے اون یا روئی کہتے ہیں ۔ جو بھیڑ بکری وغیرہ کے بال یا بنولے سے نکالی ہوئی کپاس سے حاصل ہوتے ہیں ۔ ماضی میں بڑھے بوڑھے مقامی طور پر لکڑی کی ایک چرخی پراون اور روئی سے دھاگے بناتے تھے ۔ اکثر گھروں میں چرخیاں موجود تھیں ۔ جسے عام طور پر خواتین چلاتی تھیں ۔ وہ انگلیوں کے پوروں سے روئی مسل مسل کر پھوسڑے " پوسی" بناتیں ۔ پوسی کا سرا چرخ میں ڈال کر چرخی چلاتیں اور دھاگا بننے کے بعد دوسری گراری پر گولائی کی صورت میں چڑھ جاتا جس سے دھاگے کا گول گھپابن جاتا ، تاگےکے اس گھپے کو " ماشوڑہ " کہتے ہیں ۔ جو یا تو اپنی کسی ضرورت کے تحت بنایا جاتا تھا یا اسے جولاہوں کے ہاتھ فروخت کر کے گھر کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے ۔ یہ دھاگے جولاہوں کے ہاں بھی بنتے تھے ۔ ایک تار پراچہ لوگ بھی بناتے تھے جس کےلئے ایک گردش نما گردشا ( گرزنے) کو ایک ہاتھ سے آویزاں کرکے دوسرے ہاتھ سے گھمایا جاتا تھا ۔ تار جب لمبا ہوجاتا تو اسے گردشی مشین کو چڑھایا جاتا تھا ۔ اس تار سے جانوروں کےلئے بوری اور گدھوں وغیرہ کے ننگے پیٹھ کے لئے پالان وغیرہ بنائے جاتے تھے ۔ جبکہ ایک چرخی ( مشین ) پر کپڑے پر کپڑے بھی بنائے جاتے تھے ۔ چرخی چلانے والا " سرخی مار " کہلاتا تھا وہ نہ صرف اپنے گھر پر آرڈر لے کر کپڑے سیتے تھے بلکہ شادی والے گھر جاکر موبائیل سروس کے طور پر ہفتہ بھر میں شادی بیاہ کے تمام کپڑے بھی سی لیتے ۔ لیکن دھاگا پرونے ، کپڑے سینے اور چادر بننے کےلئے جو مشین زیادہ مشہور تھی وہ کھڈی کہلاتی ہے ۔ دیہی صنعت کی یہ مشین انتہائی بچپن میں دیکھا تھا ۔ اس وقت ہم گاوں کے دفتر والے گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ ہمارے مشرق میں دو مکان چھوڑ کر تیسرا ایک چھوٹا مکان جو ایک کونے میں واقع تھا اسلم ماما کا تھا ۔ جس کے صحن میں تین چار بکریاں تھیں ۔ آگے ایک عجیب و غریب چیز نظر آتی تھی میرے بھائی رشید خان جو عمر میں مجھ سے بڑے ہیں ۔ مجھے انگلی سے پکڑ کر وہاں لے جاتے ۔ ماما زمین سے تھوڑی اونچی جگہ پہ بیٹھ کر نیچے کھڈی میں پھیر ہلاتے تھے ۔ سامنے کھڈی پر تنا ہوا تاں ہوتا تھا ۔اس وقت ماما کی مصروفیات کیا تھے یہ میں بالکل نہیں جانتا تھا ۔ معلوم تب ہوا جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا اور ایک بار ہم جماعت ساتھی عبدالغفور کے ساتھ ان کے گھر گیا ۔ دیکھا ، تو ان کے والد کھڈی پر چادر ( شڑئ ) بنارہے تھے ۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ کھڈیاں تو کئ گھروں میں موجود تھیں ۔ جوانی کا زمانہ آیا تو معلوم ہوا کہ بھرنی سے بانا ڈالا جاتا ہے اور دندنے دار آلہ سے ڈوریاں سلجھاتے ہیں ۔ اس طرح گھونی، چرخی، پلا اور ماکھو کے نام بھی سیکھ لیے ۔ 
     قارئین! کھڈوں پر کپڑا بنانے کا کام بر صغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں پھیلا ہوا تھا یہ صنعت اتنا موثر اور مقبول تھی کہ انگریز سامراج نے اٹھارویں صدی کے وسط میں ولائتی کپڑے کےلئے منڈی کی تلاش اور مقامی صنعتوں کی بیخ کنی کی خاطر بنگالی کاریگروں کی انگلیاں کاٹ لیں۔ ایک دانشور کا یہ قول اس موقع سے مناسبت رکھتا ہے کہ کسی قوم کی تباہی کا اس سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں جب اس قوم کی ثقافت کو ختم کیا جائے ۔ مقامی صنعت کےلیے اون اور روئی درکار تھی ۔ جس کی پیداوار ہزاروں سال سے یہاں ہو رہی تھی ۔ روئی کا ہی پہلے بار مشاہدہ کر کے سکندر اعظم تحیر میں پڑے تھے ۔ الغرض اس خطے کے ہر کونے کے دورے پر آئے ہوئے میجر راورٹی کے ایلچی ان کو یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ " سوات میں جو سیاہ ، سفید اور پھولدار چادریں بنتی ہیں وہ انہی دو گاوں درشخیلہ بالا اور پائیں میں تیار ہوتی ہیں ۔ یہ کام کشمیری جولاہوں کے ہاتھ میں ہے " ۔ اس بات بات سے ثابت ہوا کہ یہاں کے کاریگر مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد پیداوار کا ایک حصہ برآمد بھی کرتے تھے اور مقامی طور پر یہ پیداوار تجارتی لیں دین میں بلاشبہ سرفہرست تھی ۔ جس سے ہنرمندوں کے ساتھ تجارت پیشہ حضرات بھی فائدہ اٹھاتے تھے ۔ تا وقت یہ کہ 1849 سے انگریزی مصنوعات نے اثر دکھانا شروع کیا جس کی نشاندہی 1858 کے مطابق یہاں استعمال ہونے والی چند ایک مصنوعات سے ہوتی ہے ۔ پھر بھی اس وقت مقامی صنعتیں کامیابی سے چلتی تھی ۔ لیکن 1880 میں جب انگریزوں کا اثر و رسوخ مالاکنڈ تک پہنچا اور انہوں نے اپنے سیاسی ہتھکنڈوں کے بل پر یہاں کے ثقافتی اقدار اور معیشت کی جڑیں کھوکھلا کرنے کی کوشش کی ساتھ ہی انہوں نے مقامی ہنرمندوں کی سماجی حیثیت کمتر کرنے کی کوشش بھی کی ۔ جس سے مقامی صنعت کی شہتیر کو دیمک لگ گئی ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں تو برطانیہ اور جاپان ٹیکسٹائل کے میدان میں بے تاج بادشاہ تھے ۔ لامحالہ ولائ
تی کپڑے استعمال ہونے لگے ۔ 
       ☆ النّاسُ بِالّباس : انسان لباس سے پہچانا جاتا ہے ۔ 
یہی وجہ تھی کہ 1917 کے بعد والی سوات باچا صاحب نے اپنے ترجیحات میں جولاہوں کی صنعت جو درشخیلہ، دیولئی ، مینگورہ اور سلام پور وغیرہ میں تھی کو ترقی سے ہمکنار سمجھا ۔ شاید ترک مولات کی متحریکوں نے بھی اس صنعت کو کچھ حد تک سہارہ دیا ہو ۔ میاں گل جہانزیب نے بھی کچھ حد تک حوصلہ افزائی کی ہے ۔ لیکن انضمام ریاست کے بعد انحطاط کا وہ دور شروع ہوا جس نے اکیسویں صدی آغاز تک سوائے سلام پور کے اس صنعت کو ڈبو دیا ۔ 1990 میں ہمارے گاوں کی صنعت آخری سانسیں لے رہی تھی ۔ اب درشخیلہ میں صنعت تو کیا ان دکانوں کی نشانی باقی نہ رہی جس پر کھڈی ہوا کرتی تھی اور شال بنتی تھی ۔ میں نے ایک مشہور کاریگر سے بار بار دریافت کرنا چاہا کہ وہ کونسے اوزار استعمال کرکے کش طرح کام کرتے تھے پر وہ ہر بار ہنسی مذاق میں بات ٹالتا رہتا ہے ۔ افسوس تو اس بات پر ہوا کہ جب دیولئی جاکر معلوم ہوا کہ جولاہوں کے محلے کا نام جولا آباد بدل کر فضل آباد بن گیا ہے ۔ سلام پور کے علاوہ یہ صنعت بالکل معدوم ہو چکی ہے ۔ جس کی تباہی میں بہت سارے عوامل شامل ہیں ۔ یعنی غیروں کی دخل اندازی کے ساتھ ساتھ خود ہماری فیشن پرستی ،  جامہ زیب بننے کےلئے لباس فاخرہ پہننے کی خواہش، باہر کے ملکوں سے پیسہ اور مصنوعات لانے کے مواقعوں ، غیروں کی لباس پسند کرنے کی جنونیت اور اپنے ہنرمندوں کو کمتر معاشرتی حیثیت دینے والی سوچ نے اس صنعت کا بیڑا غرق کردیا ۔ مقامی صنعتیں جو ترقی کی اکائی ہوتی ہیں ہم دیکھتے ہیں ایک ایک کرکے سب ختم ہوئیں ۔ ہم تبدیلی کی باتیں کرتے ہیں، تبدیلی اس بات میں ضرور آئی ہے باقی سب تو ویسے کے ویسے ہیں ۔ ملکی معیشت تب ترقی کرتی ہے جب ان چھوٹے چھوٹے معاشی یونٹوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ملکہ وکٹوریہ نے محض لندن میں اعلان کیا تھا کہ ہر شخص گھر کی دیوار توڑ کر ایک کمرے میں دکان کھول دیں ۔ پوری دنیا نے دیکھا اس ایک اعلان نے برطانیہ کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ۔ حکومت وقت بھی صنعتوں کے بارے میں انقلابی اعلان کرے ۔ ورنہ کے نعرے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ کیونکہ اصل ترقی و تبدیلی صنعتیں لاتی ہیں ۔ پھر بھی کچھ نہیں کیا تو یہ ہماری نالائقی کی حد ہوگی ۔ اب تو چائنہ بھی دہلیز پہ کھڑا ہے ۔ کہاں وہ زمانہ جب گاوں سے وافر مقدار میں چادریں برآمد کی جاتی تھی اور کہاں یہ زمانہ کہ نئی نسل کو معلوم بھی نہیں ہے کہ یہاں بھی کسی زمانے میں ایک شاندار صنعت تھی ۔ جو زرعی زندگی سے وابستہ افراد کے کام آتی تھی اور گاوں کی پہچان بھی تھی ۔ اے کاش ! کوئی مقامی صنعت کو ترقی دیتا ۔

پیر، 29 اپریل، 2019

کب ہوگا انصاف ۔۔۔۔۔۔۔؟ کب بنے گا قانون ۔۔۔۔۔۔؟



   جی ہاں ۔۔۔۔ جب اربابِ اختیار کے گھر میں ایسا سانحہ آئے گا تب
 قانون بھی بنے گا اور تب انصاف بھی ہوگا ۔
     میں حویلیاں کی فریال کے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی فریادیں کر رہا تھا مگر آج پھر ضلع ہری پور کی تحصیل خان پور میں ایک اور ماں کا 7 سالہ بچہ درندوں کا شکار ہوگیا۔
     خدا کی قسم کلیجہ منہ کو آگیا یہ تصاویر دیکھ کر پاکستانیوں آئیں سب ملکر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ ایسے کتوں کو صرف اور صرف سرعام سنگسار کرنے کی سزا کا قانون نافذ کیا جائے ورنہ ہماری نسل تباہ ہو جائے گی۔ اب اس بچے کے اہل خانہ رو دھو کے چپ کر جائیں گے مگر ڈرو اس وقت سے جب کوئی اللّه کا بندا اٹھ کھڑا ہوا تو پھر نہ کوئی قانون بچے گا اور نہ ہی نہ اہل قانون دان۔
ہری پور میں بچے کو زیادتی کے بعد پھنڈا ڈال کر قتل کیا گیا ۔ ہری پور پولیس موقع پر پہنچ گئی ۔ بچے کی شناخت عمر کے نام سے ہوئی ۔ سات سالہ معصوم بچہ گورنمنٹ پرائمری اسکول جھولیان میں پہلی کلاس کا طالبعلم تھا ۔

جمعہ، 26 اپریل، 2019

غوبہ زرعی معاشرے کا ایک اہم کردار تھا ۔


   
      گائیوں کو چرانے والا سنسکرت میں گوپال اور ہندی میں گوپ کہلاتا ہے ۔ گوپی یا گوپن اس کی تائیث ہے جس کی معنی وہ گوالن جو دودھ بیچتی ہے ، گوپال کرشن جی کا لقب بھی ہے ۔ جبکہ گوپی گوالوں کی ان لڑکیوں میں ہر ایک کا لقب ہے جو ہندو عقیدہ کی رو سے بچپن میں کرشن جی کے ساتھ کھیلی تھیں ۔ گائے بھینس پالنے اور دودھ بیچنے کا کام گوالا اور گوالن بھی کرتے ہیں ۔ مثل ہے " گوالن اپنے دہی کو کھٹا نہیں کہتی " ۔ مزید براں گائے بھینس پالنے والا آبھیر کہلاتا ہے ۔ جو معمولی تغیر سے اہیر بنا ہے ۔ لغت میں اس کا مطلب وہ ذات ہے جس کے لوگ گائے بھینس پالتے ہیں اور خوشحال ہے ۔ اس طرح ریوڑ یا گلہ چرانے والا چرواہا اور گدڑیا کہلاتا ہے ۔ اہیر اور گدڑیا میں جو سماجی فرق ہے وہ ہمارے ہاں بجاڑ اور شپونکے میں ہے ۔ ایک کہاوت ہے " اہیر دیکھ گدڑیا مستانہ " یعنی اہیر کو نشے میں دیکھ کر گدڑیا بھی مست ہوا۔ گلہ بان اپنا پرایا ہر گلہ چراتا ہے لیکن چرواہا یا چرواہن صرف چروائی ( اجرت ) لے کر جانور چڑھاتے ہیں ۔ اس قسم کے پیشہ ور کو پنجاب میں ماہیوال اور ہمارے ہاں غوبہ کہتے تھے ۔ پنجابی ماہیوال کا حال احوال آپ رومانی داستان سوہنی ماہیوال پڑھنے اور اسی موضوع پر بنی فلم دیکھنے سے معلوم کر سکتے ہیں جبکہ غوبہ ہماری ثقافت کا وہ شخص تھا جو کسی بھی گاوں کے زمینداروں یا کسانوں سے اجرت لے کر ان کے جانور پالتا تھا ۔
گزشتہ زمانے میں ہر گاوں کی ایک چراگاہ یعنی ورشو ہوتی تھی ۔ جس میں اس گاوں کے جانوروں کا گلہ چرتا تھا ۔ گلہ کو پشتو میں گورہ کہتے تھے جبکہ جس راہ پر یہ گلہ گاوں سے ورشو پہنچایا جاتا تھا اسے " د گورے لار " کہتے تھے جو کہ تاحال اسے نام سے جانا جاتا ہے ۔ 
     غوبہ کسی نسلی ، نسبی یا کسی گروہ سے نہ تھا ۔ زرعی معاشرے میں کخے اور دہقان کی طرح ہر غریب بے روزگار غوبہ بن سکتا تھا جو اپنے کام جانور چرانےکے عوض میں گاوں کی مشترکہ کھیت سے حاصلات اور گھر گھر سے روٹی اکھٹا کرتا تھا ۔ کام اس کا یہ تھا کہ تمام زمیندار اور کسان اپنے اپنے گھروں سے جانور نکال کر اس کے حوالہ کرتے تھے ۔ جو اسے ایک میدان میں جمع کرتے تھے جس کے بعد جانوروں کا یہ ریوڑ اس کی سرپرستی میں بکریوں کے ممیانے اور مویشیوں کے آوازوں میں ورشو کی طرف رواں دواں ہوجاتا تھا ۔ غوبہ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ جانور کھڑی فصلوں کو نقصان نہ پہنچائے جبکہ زمیندار یا دہقان راستے کی دونوں جانب کھیتوں کے کناروں پر مضبوط باڑ لگاتے تھے ۔ تاکہ باغ یا فصل جانوروں سے محفوظ رکھ سکیں ۔ اگر کوئی بندہ درونڈا پر نی کرتا ، تو جانور کھیت میں داخل ہوتا اور فصل برباد کر دیتا ۔ نتیجتا غوبہ اور کخے ( فصل کی رکھوالی کرنے والا مزدور ) کا آپس میں خوب ہاتھا پائی ہوجاتی ۔  مویشی چراگاہ( ورشو ) پہنچتے ، وہاں دن بر چرتے ، شام ہونے تک غوبہ اسے پنڈغاتی میں جمع کرتے جہاں سے وہ اسے گاوں کی طرف روانہ کرتے ۔ غوبہ حسب معمول گاوں والوں کی جانور چرانے لے جاتا تھا ۔ وہ بیلہ ، گاھری ، جوتی بجار اور قسم قسم کےجانور لے جاتے تھے ۔ لیکن گاوں والے بعض اوقات گھابن ، سوئی ہوئی ( دودھ دیتی ) مویشی اور جانوروں کے بچے پھٹئیے پھٹور  ، کٹا کٹی ، بچھڑا بچھڑی اور لیلی لیلی گھر پر چھوڑتے تھے ۔ البتہ فارغ گھوڑے ، گدھے ، جوتی سانڈ اور بیل لے جانے میں کوئی قید نہ تھی ۔ ہاں بجار سانڈ اور بیل لے جانا لازمی سمجھا جاتا تھا ۔ جس سے جانوروں کی نسل کشی کی جاتی تھی ۔ غوبہ رکھنے کا رواج ایک زمانے سے رائج تھا ۔ جو زرعی انحطاط کی وجہ سے روبہ زوال ہوا اور ایک وقت ایسا ایا کہ بالکل ختم ہوا ۔ غوبہ کا پیشہ توختم  ہوا لیکن گاوں والوں نے ابھی مویشی چرانے کا رواج مستقل طور پر ختم نہیں کیا تھا ۔ لہذا وہ خود اپنے جانور چرانے لگے ۔ جو بعض اوقات جانوروں کو ورشو میں چھوڑ آتے تھے ۔ جہاں دو تین آدمی اپنی باری لے کر جانوروں کی رکھوالی کرتے تھے ۔ جبکہ سوئی ہوئی جانوروں کے مالکان صبح و شام دودھ دوہنے جاتے تھے ۔ کچھ حد تک تو مجھے بھی یاد ہے انتہائی بچپن کا زمانہ تھا ۔ ساری باتیں تو یاد نہیں تا ہم ورشو میں گدھے کا ڈھینچو ڈھینچو کرتے ہوئے رینکنا ، گرمی کی وجہ سے گائے کا گھامڑ ہونا ، گھوڑے کی ہنہنانا کی آوازیں ، کھردارجانوروں کا زمین کو اپنے کھروں یا سموں سے کھود کھود کر کھوروں کا وہ عمل جس سے جھکڑےکا اظہار ہوتا تھا ۔ جانوروں کا سینگ اڑانا اور ہر قسم جانوروں کی لڑائی یاد ہے ۔ بچے لٹھ کا کھیل ( مقامی لفظ لوڑغئی ) کھیلتے تھے جس میں جانور چرانے والی موٹی لاٹھی پر بیٹھ کر اونچی جگہ سےبچے پھسلتے ہیں ۔ جبکہ مشترکہ ورشو کا رواج بالکل نہ رہا ۔ تو یہی مویشی شفتل کی کھیتوں ، فصل سے خالی ونڈوں اور دریائے کے ٹاپوں میں چرانے جانے لگے ۔ اس زمانے میں یہ رواج بھی تھا کہ اجڑوں کو روم دے گا بھری ، بیلے ( خشک ) جانور یا گوئی کے جوتی بیل ان کے ساتھ ریوڑ میں بیچھتے تھے ۔ ایک بار ہم نے بھی اپنا ایک فربا بیل بھیجا تھا۔ تین مہینے بعد دیکھا تو ڈھڈی ، ریڑھ اور پسلیوں کی ہڈیاں نمایاں تھیں جبکہ گوشت غائب ۔ 
      غوبہ کا کردار کب ، کیوں اور کیسے ختم ہوا ؟ اس بحث میں نہیں پڑتے کیونکہ اب تو روایتی زرعی معاشرے کے تمام لوازمات نہ رہے اور نا ہی کوئی شخص آج کے زمانے میں فقط غلہ اور روٹی کےلئے مزدوری کرسکتا ہے ۔ گاوں والے بھی کثرت سے جانور پالنے کی پوزیشن میں نہیں نیز بنجر زمینیں آباد ہوچکی ہے ۔ زرخیز زمینوں پر سبزیاں اور پھل اگانے کا رواج چل نکلا ہے ۔ دریاؤں کے ٹاپوں گھاس سے خالی ہے سچ کہتے تو باجری اور ریت کی تلاش نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور ورشو میں جنگلات اگائےگئے ہیں ۔ ایسے میں تو غوبہ دور کی بات ہے ریوڑ پالنے والے گلہ بان نایاب ہورہے ہیں ۔ انحطاط کا یہ رفتار اسی طرح گامزن رہی تو گلہ اور گلہ بان بھی غوبہ کی طرح محض تاریخ کا بن کے رہ جائیں گے ۔ جب آج غوبہ پر قلم اٹھایا گیا ہے ٹھیک اسی طرح کوئی شخص گلہ بان سے متعلق آج کی ثقافت کو تاریخ میں زندہ کرے گا ۔

کیا جعلی عاملوں اور پیروں کا کوئی علاج نہیں ۔۔۔۔۔؟؟


پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی شہر ، گاوں دیہات میں اچھا سکول ، کالج اور ہسپتال ہو یا نہ ہو مگر دربار اور مزار ضرور ہوگا ۔ مزارات اور دربار سدا بہار کاروبار ہے ۔ سٹیل مل سے لے کر پی آئی اے تک ، ریلوے سے لے کر پی ٹی وی تک ہر ادارہ خسارے میں چلتا رہا مگر مجال ہے جو کھبی مزارات کا کاروبار ماند پڑا ہو ۔ اس بزنس کو زوال نہیں ہے ۔
پنجاب کے بعد سب سے زیادہ مزارات آزاد کشمیر میں ہیں ۔ صرف کشمیر کے درباروں اور مزارات کی سالانہ انکم 159.8 ملین روپے ہیں ۔ لاہور کے ایک معروف دربار میں صرف جوتے رکھنے کا ٹھیکہ 2 کروڑ روپے پر ہوتا ہے ۔  جبکہ اسی مزار کی سال 2018 میں 25 کروڑ 90 لاکھ روپے کی ریکارڈ انکم ہوئی ۔ مزار پیر مکی کی سالانہ انکم 48 لاکھ روپے ، بی بی پاک دامن 31 لاکھ روپے ، دربار شاہ رکن 21 لاکھ روپے ،
 میاں میر 10 لاکھ روپے اور مادھو لال 6 لاکھ روپے ہیں ۔ ان درباروں اور مزارات میں سے جو محکمہ اوقاف کے تحت ہیں وہاں کرپشن کے قصے زبان زد عام و خاص ہے ۔ ہزاروں دربار اور مزارات وہ ہیں جو محکمہ اوقاف کے تحت نہیں ہیں ان کی انکم بھی منجور اور مافیا کھاتے ہیں ۔ 
     سال گزشتہ راولپنڈی کے ایک پیر صاحب کے بیٹے کی شادی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 1 ارب روپے کی فضول خرچی کی گئ ۔ غریب مریدوں کے چندے سے منعقد مہنگے ہوٹل کی تقریب میں سیاستدان ، بیوروکریٹ اور صحافی تو تھے ، شاید ہی کسی غریب مریدوں کو یہاں مدعو کیا گیا ہو ۔
    ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی 
         گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
     موصوف کی اسلام آباد کے پوش علاقے میں کئ بنگلے ، کئ پیٹرول پمپ اور کئ شادی ہال ہیں اور یہ اثاثے گدی نشین کی دَین ہیں ۔ مریدوں کی خون پسینے کی کمائی سے کھڑا کیا بزنس ہیں ۔ مستزاد یہ کہ ان درباروں میں وہ شرمناک کام ہورہے ہیں جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ انہی درباروں میں بیٹھے جعلی پیر مذہب کے بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن جاتے ھیں ۔
 کچھ عرصہ پہلے نیو ٹی وی کے پروگرام پکار میں انہی درباروں میں سے ایک دربار کے منجور کرنٹ بابا نے انکشاف کیا کہ وہ اب تک 700 سے زائد بے اولاد خواتین کے ساتھ ریپ کر چکا ہیں ۔ ان میں ایک دس سالہ بچی بھی شامل تھی جس کو دو بار اس وحشی درندے نے اپنے حوس کا نشانہ بنا ڈالا ۔ کرنٹ بابا اپنی استاد کا نام سرکٹ بابا بتاتا ہے ۔ شاگرد کی شکار کا یہ حال ہے تو استاد کا آپ خود اندازہ لگائیں ۔ یہ سب خواتین ان جاہل پیروں اور عاملوں  کے پاس بے اولادی کا علاج کرانے جاتی تھی ۔ یہ وحشی درندہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور پھر ڈرا دھمکا کر خاموش کراتا تھا کہ اگر کسی کو بتادیا تو میرا موکل تمہیں جلا دیگا اور یہ خوف کے مارے چپ ہوجاتی تھی ۔ اسی طرح کے واقعات درباروں اور مزاروں میں تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں ۔ یہ کوئی معمولی نوعیت کی جرائم نہیں حکومت کو فوری طور پر مزاروں اور درباروں میں بیٹھے جعلی عاملوں اور پیروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے تاکہ مزید عزتیں پامال ہونے سے بچ جائے ۔ ان درباروں میں پروکش پیروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے کہ وہ غریبوں سے پیسے بٹور کر کہا اور کیسے خرچ کرتے ہیں ؟