اتوار، 5 مئی، 2019
☆ ریاست دیر پر اخون خیل قوم کی حکمرانی ☆
دیر پر شاہی خاندان اخون خیل نے تقریباً تین سو پچاس سال تک حکومت کی ہے ۔شاہی خاندان کے حکمرانی اخون الیاس بابا لاجبوک سے شروع ہوکر نواب شاہ خسرو پر ختم ہوتی ہے ۔اخون کے معنی سکالر اور عالم دین کے اولاد کی ہے ۔
اخون الیاس بابا لاجبوک(1626-1676) دیر کے شاہی خاندان کے مورث اعلیٰ اخوان الیاس نہاگدرہ میں پیدا ہوئے اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے ہندوستان چلا گیا ۔ہندوستان میں حضرت بنوریؒ کی شاگردی میں کئی سال گزارنے کے بعد ان کے ساتھ مکہ مکرمہ چلےگئے ۔مکہ میں چھ ماہ گزارنے کے بعد جب اخون الیاس وطن واپس پہنچے توا ن کے علم اور تقویٰ کے چرچے دور دور تک پھیل گئے ۔اخون الیاسؒ کے محفل میں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتاتھا اور دور دور سے لوگ اپنے مرادیں اور تکالیف کی شرعی حل نکالنے ان کے دربار تشریف لاتے ۔روحانی بزرگ ہونے کے ناطے لوگوں نے دل کھول کر آپ کی عطیات دیں ،یہی وجہ تھی کہ قلیل وقت میں آپ کے پاس بہت مال و دولت جمع ہوئے اور سب اقوام نے مشترکہ طور پر انکی تاج پوشی کی اور اپنا حکمران اور رہنما مقرر کیا ۔اس روحانی بزرگ نے 1676ء میں وفات پائی ۔آج بھی لاجبوک درہ میں ان کا مزار موجود ہے ۔
مولانااسماعیل(1676-1752) اپنے والد کے وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے ۔علم اپنے والد سے حاصل کرکے زہد و تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے ، والد کی طرح ملااسماعیل بھی علاقے میں کافی مشہور تھے اور ان کے دربار میں بھی ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا ۔ وفات کے بعد ان کو بی بیوڑ میں سپر دخاک کر دیا گیا۔
خان غلام خان(1752-1804) مولاناسماعیل کے وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے خان غلام خان گدی نیشن ہوئے ۔دولت اور جائیداد کی فروانی نے آپ کو روحانیت سے دنیا داری کے طرف مائل کردیا ۔ یہیں وجہ ہے کہ آپ نے بی بیوڑ میں باقاعدہ خانیزم کی بنیاد رکھی اپ نے 1804ء کو بی بیوڑ میں وفات پائی ۔
خان ظفر خان(1804-1814)خان غلام خان کے وفات کے بعد ان کے جانشین مقررہوئے۔ اُنہوں نے بی بیوڑ کو خیر باد کہ کر دیر خاص میں رہائش اختیار کی اور دیر خاص میں اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔یوسفزئی جنگجوؤں کو لے کر کوہستانی کافروں کے شاہی محل پر ہلہ بول دیا ۔ بعد میں اسی قلعہ کو گراکر وہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا اور دیر خاص کو اپنا دارلخلافہ کی حثیت دی ۔آپ 1814ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
خان قاسم خان(1814-1822) اپنے والد ظفر خان کے وفات کے بعد تخت نشین ہوئے ۔ آپ نے پہلی مرتبہ اسمار اور سخاکوٹ تک کے علاقے اپنے ریاست میں شامل کردی ۔ آپ کے بہادری اور شجاعت سے متا ثر ہوکر مہتر چترال شاکٹور نے اپنی بہن آپ کے نکاح میں دے کر چترال اور دیر کے دشمنی اور عداوتوں کی بیخ کنی کی۔ آپ ایک مدبر، زیرک اور بیدار مغز حکمران ثابت ہوئے۔1822 ء میں اپنے بیٹے آذاد خان کے ہاتھوں قتل ہوئے اور دیر کے شاہی مقبرے میں مدفون ہے ۔
خان غزن خان(1822-1868)خان قاسم علی خان کی شہادت کے بعد دیر کے خوانین اور قبائلی عمائدین نے قابل اخوانزادہ کی قیادت میں چترال جاکر غزن خان کو اپنے ہمراہ لے آئے اور اسے دیر کے تحت پر بٹھادیا۔اس وقت خان غزن خان کی عمر سترہ سال تھی اور والد کے شہادت کے بعد مہتر چترال( جوا ن کا ماموں تھا) نے ان بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے ڈرسے چترال لے گئے تھے۔خان غزن خان نے بھی والد کی نقش قدم پر چل کر ریاست کو مزید وسعت دی ۔ آپ 1828ء میں وفات پاگئے ۔ خان غزن کے دور کو دیر کو ترقی دی اور بہت علاقوں کو ریاست دیر میں شامل کیا گیا۔
خان رحمت اللہ خان(1870-1884)خان غزن خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رحمت اللہ خان نے عنان حکومت سنبھالی ۔ تحت نشین ہونے کے بعد آپ نے امور ریاست پر خاص توجہ دے کر کافی اصلاحات کیں۔ آپ کے بیٹے اور آ پ کے درمیاں اقتدار پر کافی رسہ کشی رہی ۔ آپ 1880ء کو اس درا فانی سے کوچ کرگئے۔
خان محمد شریف خان(1884-1904) خان محمد شریف خان کو اقتدار کی رسہ کشی کے سلسلے میں اس کے بھائی نے قتل کرنے کی کافی کوشیشیں کی لیکن نا کام رہے ،ایک دفعہ اس کے بھائی جمروز نے اسے گولی کانشانہ بنایا لیکن خوش قسمتی سے گولی خان محمد شریف خان پر نہیں لگی اور وہ بچ گئے اور اس کے نتیجے میں جمروز اور اس کا بیٹا قتل ہوئے ۔خان محمد شریف خان دیر کا پہلا با ضابطہ نواب تھے کیونکہ انگریز حکومت نے 1885 ء میں انہیں چکدرہ قلعہ میں نواب دیر جیسے انگریزی ”ڈیوک“کہتے ہیں، کے لقب سے نوازا ۔خان محمد شریف خان پچپن سال کی عمر میں فالج کی بیماری سے تیمرگرہ کے مشہور مذہبی بزرگ "تیمرگرہ صاحب " کی گود میں انتقال کرگئے ۔
نوا ب اورنگزیب خان(1904-1924)نواب محمد شریف خان کے وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد اورنگزیب خان شاہی کرسی پر برا جمان ہوئے ، نواب دوئم کے قوت گویائی میں فرق تھا اس لیے تاریخ کے کتابوں میں اسے "چاڑا نواب " کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ نواب اورنگزیب خان نہایت ہی انصاف پسند اور راست گو انسان تھے اور ہاں اسلامیہ کالج پشاور کے تعمیر میں نواب دوم نے دل کھول کر چندہ بھی دیا ۔
نواب محمد شاہ جہان(1924-1969) نواب محمد اورنگزیب کے رحلت کے بعد ان کے بیٹے شاہ جہان تحت نشین ہوئے ۔آپ ایک بیدار مغز، زیرک اور بارعب نواب کے طور پر ریاست کے اندر اور باہر پہچانے جاتے تھے ۔ نواب کو ایوب خان نے 1963ء میں معزول کرکے نظر بند کردیا گیا اور ان کے جگہ ولی عہد نواب شاہ خسرو کو دیر کا نواب مقرر کر دیا گیا لیکن نظام حکومت میں ناکامی کی وجہ سے حکومت پاکستان نے 1969ء میں دیر سے نوابی ختم کرتے ہوئے دیر کو الگ ضلع بنانے کا اعلان کیا اور اُسے باقاعدہ پاکستان میں ضم کردیا گیا ۔
تحریر : شانزیب خان اخون خیل

سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
-
دیر پر شاہی خاندان اخون خیل نے تقریباً تین سو پچاس سال تک حکومت کی ہے ۔شاہی خاندان کے حکمرانی اخون الیاس بابا لاجبوک سے شروع ہوکر نواب ...
-
پشاور(عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پشاور کے علاقہ ریگی میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے ک...
-
19 مارچ کو کورونا سے متاثرہ مریض پروفیسر فضل غفور نے بہا شنگرتان میں ایک جنازہ میں شرکت کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم کی میڈیا ...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں