جمعہ، 26 اپریل، 2019

کیا جعلی عاملوں اور پیروں کا کوئی علاج نہیں ۔۔۔۔۔؟؟


پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی شہر ، گاوں دیہات میں اچھا سکول ، کالج اور ہسپتال ہو یا نہ ہو مگر دربار اور مزار ضرور ہوگا ۔ مزارات اور دربار سدا بہار کاروبار ہے ۔ سٹیل مل سے لے کر پی آئی اے تک ، ریلوے سے لے کر پی ٹی وی تک ہر ادارہ خسارے میں چلتا رہا مگر مجال ہے جو کھبی مزارات کا کاروبار ماند پڑا ہو ۔ اس بزنس کو زوال نہیں ہے ۔
پنجاب کے بعد سب سے زیادہ مزارات آزاد کشمیر میں ہیں ۔ صرف کشمیر کے درباروں اور مزارات کی سالانہ انکم 159.8 ملین روپے ہیں ۔ لاہور کے ایک معروف دربار میں صرف جوتے رکھنے کا ٹھیکہ 2 کروڑ روپے پر ہوتا ہے ۔  جبکہ اسی مزار کی سال 2018 میں 25 کروڑ 90 لاکھ روپے کی ریکارڈ انکم ہوئی ۔ مزار پیر مکی کی سالانہ انکم 48 لاکھ روپے ، بی بی پاک دامن 31 لاکھ روپے ، دربار شاہ رکن 21 لاکھ روپے ،
 میاں میر 10 لاکھ روپے اور مادھو لال 6 لاکھ روپے ہیں ۔ ان درباروں اور مزارات میں سے جو محکمہ اوقاف کے تحت ہیں وہاں کرپشن کے قصے زبان زد عام و خاص ہے ۔ ہزاروں دربار اور مزارات وہ ہیں جو محکمہ اوقاف کے تحت نہیں ہیں ان کی انکم بھی منجور اور مافیا کھاتے ہیں ۔ 
     سال گزشتہ راولپنڈی کے ایک پیر صاحب کے بیٹے کی شادی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 1 ارب روپے کی فضول خرچی کی گئ ۔ غریب مریدوں کے چندے سے منعقد مہنگے ہوٹل کی تقریب میں سیاستدان ، بیوروکریٹ اور صحافی تو تھے ، شاید ہی کسی غریب مریدوں کو یہاں مدعو کیا گیا ہو ۔
    ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی 
         گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
     موصوف کی اسلام آباد کے پوش علاقے میں کئ بنگلے ، کئ پیٹرول پمپ اور کئ شادی ہال ہیں اور یہ اثاثے گدی نشین کی دَین ہیں ۔ مریدوں کی خون پسینے کی کمائی سے کھڑا کیا بزنس ہیں ۔ مستزاد یہ کہ ان درباروں میں وہ شرمناک کام ہورہے ہیں جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ انہی درباروں میں بیٹھے جعلی پیر مذہب کے بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن جاتے ھیں ۔
 کچھ عرصہ پہلے نیو ٹی وی کے پروگرام پکار میں انہی درباروں میں سے ایک دربار کے منجور کرنٹ بابا نے انکشاف کیا کہ وہ اب تک 700 سے زائد بے اولاد خواتین کے ساتھ ریپ کر چکا ہیں ۔ ان میں ایک دس سالہ بچی بھی شامل تھی جس کو دو بار اس وحشی درندے نے اپنے حوس کا نشانہ بنا ڈالا ۔ کرنٹ بابا اپنی استاد کا نام سرکٹ بابا بتاتا ہے ۔ شاگرد کی شکار کا یہ حال ہے تو استاد کا آپ خود اندازہ لگائیں ۔ یہ سب خواتین ان جاہل پیروں اور عاملوں  کے پاس بے اولادی کا علاج کرانے جاتی تھی ۔ یہ وحشی درندہ ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور پھر ڈرا دھمکا کر خاموش کراتا تھا کہ اگر کسی کو بتادیا تو میرا موکل تمہیں جلا دیگا اور یہ خوف کے مارے چپ ہوجاتی تھی ۔ اسی طرح کے واقعات درباروں اور مزاروں میں تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں ۔ یہ کوئی معمولی نوعیت کی جرائم نہیں حکومت کو فوری طور پر مزاروں اور درباروں میں بیٹھے جعلی عاملوں اور پیروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے تاکہ مزید عزتیں پامال ہونے سے بچ جائے ۔ ان درباروں میں پروکش پیروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے کہ وہ غریبوں سے پیسے بٹور کر کہا اور کیسے خرچ کرتے ہیں ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں