جمعہ، 7 فروری، 2020

سات فروری، عظیم شاعر و سیاست دان اجمل خٹک کا یومِ وفات


معروف پاکستانی سیاست دان، شاعر، ادیب اور قوم پرست راہنما اجمل خٹک 1925ء میں اکوڑہ خٹک کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 

ان کے والد بزرگوار حکمت خان  بھی قومی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد معلمی کا پیشہ اختیار کیا، لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ علمی استعداد بھی بڑھاتے رہے۔ منشی فاضل، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ 

ریڈیو پاکستان پشاور سے بطورِ سکرپٹ رائٹر وابستہ رہے، کافی عرصہ روزنامہ انجام پشاور کے ایڈیٹر رہے۔ سیاست میں اجمل خٹک ابتدا ہی سے قوم پرستانہ خیالات کے مالک رہے۔ شروع شروع میں زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے حق میں رہے۔ پھر رفتہ رفتہ خان عبدالغفار خان کے زیرِ اثر پختونستان کی بھی حمایت کی۔ اسی وجہ سے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے۔

 خان عبدالولی خان کی صدارت میں نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے۔ جب 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کو غیر قانونی جماعت قرار دیا اور حکومت نے پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ان کو بھی گرفتار کرنا چاہا، لیکن اجمل خٹک روپوش ہوکر افغانستان چلے گئے وہاں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے لگے۔

جب افغانستان میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو ان کی عملی مدد کی اور افغانستان اور پاکستان کے پختون لیڈروں کی حمایت حاصل کرنے کےلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن سویت یونین کی تحلیل اور افغانستان میں اس کی شکست کے بعد اپریل 1989ء میں بےنظیر بھٹو کے عہدِ حکومت میں واپس پاکستان آئے اور یہاں کی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ 

1990 تا 1993ء قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ مارچ 1994ء میں چھ سال کےلیے صوبہ سرحد(خیبر پختون خوا) کی جانب سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ آخری دونوں میں عمر کی زیادتی کی وجہ سے عملی سیاست سے کنارہ کش رہے۔

بطورِ شاعر و ادیب اجمل خٹک ترقی پسند تحریک سے متاثر رہے۔ پشتو اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ دونوں زبانوں کے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ”جلا وطن“ کی شاعری بھی ان کا مجموعہ کلام ہے۔ جس میں افغانستان کے دوران جلا وطنی کے احساسات و جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔

آپ کی تیرہ کتابیں اور سترہ رسالے شائع ہوئے ہیں، ان کے اردو تصانیف میں، پشتو ادب کی تاریخ، عالمی ادب و خوشحال خان خٹک اور جلا وطنی کی شاعری جبکہ پشتو تصانیف میں، پښتانۀ شعرا، ژوند او فن، د غيرت چيغه، کچکول، باتور، دا زۀ پاگل ووم، دوخت چغه، گلونه تکلونه، گل پرهر، سرې غونچې، ځنډ و خنډ، افغان ننگ، دژوند چغه اور قيصه زما دادبى ژوند شامل ہیں۔

اجمل خٹک نے صحافت کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ وہ پشتو اور اردو زبانوں کے کئی اخبارات اور رسائل کے مدیر رہے جن میں انجام، شہباز، عدل، رہبر اور بگرام قابل ذکر ہیں۔

اجمل خٹک، جو کافی عرصہ سے علیل تھے، سات فروری، 2010ء کو پشاور کی ایک مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ کافی عرصہ وہ سیاست سے کنارہ کش رہے اور زندگی کی آخری ایام انہوں نے اپنے آبائی گاؤں اکوڑہ خٹک میں گزارے اور آپ کو وہی سپردِ خاک کر دیا گیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر پچاسی برس تھی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں