جمعہ، 26 اپریل، 2019

غوبہ زرعی معاشرے کا ایک اہم کردار تھا ۔


   
      گائیوں کو چرانے والا سنسکرت میں گوپال اور ہندی میں گوپ کہلاتا ہے ۔ گوپی یا گوپن اس کی تائیث ہے جس کی معنی وہ گوالن جو دودھ بیچتی ہے ، گوپال کرشن جی کا لقب بھی ہے ۔ جبکہ گوپی گوالوں کی ان لڑکیوں میں ہر ایک کا لقب ہے جو ہندو عقیدہ کی رو سے بچپن میں کرشن جی کے ساتھ کھیلی تھیں ۔ گائے بھینس پالنے اور دودھ بیچنے کا کام گوالا اور گوالن بھی کرتے ہیں ۔ مثل ہے " گوالن اپنے دہی کو کھٹا نہیں کہتی " ۔ مزید براں گائے بھینس پالنے والا آبھیر کہلاتا ہے ۔ جو معمولی تغیر سے اہیر بنا ہے ۔ لغت میں اس کا مطلب وہ ذات ہے جس کے لوگ گائے بھینس پالتے ہیں اور خوشحال ہے ۔ اس طرح ریوڑ یا گلہ چرانے والا چرواہا اور گدڑیا کہلاتا ہے ۔ اہیر اور گدڑیا میں جو سماجی فرق ہے وہ ہمارے ہاں بجاڑ اور شپونکے میں ہے ۔ ایک کہاوت ہے " اہیر دیکھ گدڑیا مستانہ " یعنی اہیر کو نشے میں دیکھ کر گدڑیا بھی مست ہوا۔ گلہ بان اپنا پرایا ہر گلہ چراتا ہے لیکن چرواہا یا چرواہن صرف چروائی ( اجرت ) لے کر جانور چڑھاتے ہیں ۔ اس قسم کے پیشہ ور کو پنجاب میں ماہیوال اور ہمارے ہاں غوبہ کہتے تھے ۔ پنجابی ماہیوال کا حال احوال آپ رومانی داستان سوہنی ماہیوال پڑھنے اور اسی موضوع پر بنی فلم دیکھنے سے معلوم کر سکتے ہیں جبکہ غوبہ ہماری ثقافت کا وہ شخص تھا جو کسی بھی گاوں کے زمینداروں یا کسانوں سے اجرت لے کر ان کے جانور پالتا تھا ۔
گزشتہ زمانے میں ہر گاوں کی ایک چراگاہ یعنی ورشو ہوتی تھی ۔ جس میں اس گاوں کے جانوروں کا گلہ چرتا تھا ۔ گلہ کو پشتو میں گورہ کہتے تھے جبکہ جس راہ پر یہ گلہ گاوں سے ورشو پہنچایا جاتا تھا اسے " د گورے لار " کہتے تھے جو کہ تاحال اسے نام سے جانا جاتا ہے ۔ 
     غوبہ کسی نسلی ، نسبی یا کسی گروہ سے نہ تھا ۔ زرعی معاشرے میں کخے اور دہقان کی طرح ہر غریب بے روزگار غوبہ بن سکتا تھا جو اپنے کام جانور چرانےکے عوض میں گاوں کی مشترکہ کھیت سے حاصلات اور گھر گھر سے روٹی اکھٹا کرتا تھا ۔ کام اس کا یہ تھا کہ تمام زمیندار اور کسان اپنے اپنے گھروں سے جانور نکال کر اس کے حوالہ کرتے تھے ۔ جو اسے ایک میدان میں جمع کرتے تھے جس کے بعد جانوروں کا یہ ریوڑ اس کی سرپرستی میں بکریوں کے ممیانے اور مویشیوں کے آوازوں میں ورشو کی طرف رواں دواں ہوجاتا تھا ۔ غوبہ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ جانور کھڑی فصلوں کو نقصان نہ پہنچائے جبکہ زمیندار یا دہقان راستے کی دونوں جانب کھیتوں کے کناروں پر مضبوط باڑ لگاتے تھے ۔ تاکہ باغ یا فصل جانوروں سے محفوظ رکھ سکیں ۔ اگر کوئی بندہ درونڈا پر نی کرتا ، تو جانور کھیت میں داخل ہوتا اور فصل برباد کر دیتا ۔ نتیجتا غوبہ اور کخے ( فصل کی رکھوالی کرنے والا مزدور ) کا آپس میں خوب ہاتھا پائی ہوجاتی ۔  مویشی چراگاہ( ورشو ) پہنچتے ، وہاں دن بر چرتے ، شام ہونے تک غوبہ اسے پنڈغاتی میں جمع کرتے جہاں سے وہ اسے گاوں کی طرف روانہ کرتے ۔ غوبہ حسب معمول گاوں والوں کی جانور چرانے لے جاتا تھا ۔ وہ بیلہ ، گاھری ، جوتی بجار اور قسم قسم کےجانور لے جاتے تھے ۔ لیکن گاوں والے بعض اوقات گھابن ، سوئی ہوئی ( دودھ دیتی ) مویشی اور جانوروں کے بچے پھٹئیے پھٹور  ، کٹا کٹی ، بچھڑا بچھڑی اور لیلی لیلی گھر پر چھوڑتے تھے ۔ البتہ فارغ گھوڑے ، گدھے ، جوتی سانڈ اور بیل لے جانے میں کوئی قید نہ تھی ۔ ہاں بجار سانڈ اور بیل لے جانا لازمی سمجھا جاتا تھا ۔ جس سے جانوروں کی نسل کشی کی جاتی تھی ۔ غوبہ رکھنے کا رواج ایک زمانے سے رائج تھا ۔ جو زرعی انحطاط کی وجہ سے روبہ زوال ہوا اور ایک وقت ایسا ایا کہ بالکل ختم ہوا ۔ غوبہ کا پیشہ توختم  ہوا لیکن گاوں والوں نے ابھی مویشی چرانے کا رواج مستقل طور پر ختم نہیں کیا تھا ۔ لہذا وہ خود اپنے جانور چرانے لگے ۔ جو بعض اوقات جانوروں کو ورشو میں چھوڑ آتے تھے ۔ جہاں دو تین آدمی اپنی باری لے کر جانوروں کی رکھوالی کرتے تھے ۔ جبکہ سوئی ہوئی جانوروں کے مالکان صبح و شام دودھ دوہنے جاتے تھے ۔ کچھ حد تک تو مجھے بھی یاد ہے انتہائی بچپن کا زمانہ تھا ۔ ساری باتیں تو یاد نہیں تا ہم ورشو میں گدھے کا ڈھینچو ڈھینچو کرتے ہوئے رینکنا ، گرمی کی وجہ سے گائے کا گھامڑ ہونا ، گھوڑے کی ہنہنانا کی آوازیں ، کھردارجانوروں کا زمین کو اپنے کھروں یا سموں سے کھود کھود کر کھوروں کا وہ عمل جس سے جھکڑےکا اظہار ہوتا تھا ۔ جانوروں کا سینگ اڑانا اور ہر قسم جانوروں کی لڑائی یاد ہے ۔ بچے لٹھ کا کھیل ( مقامی لفظ لوڑغئی ) کھیلتے تھے جس میں جانور چرانے والی موٹی لاٹھی پر بیٹھ کر اونچی جگہ سےبچے پھسلتے ہیں ۔ جبکہ مشترکہ ورشو کا رواج بالکل نہ رہا ۔ تو یہی مویشی شفتل کی کھیتوں ، فصل سے خالی ونڈوں اور دریائے کے ٹاپوں میں چرانے جانے لگے ۔ اس زمانے میں یہ رواج بھی تھا کہ اجڑوں کو روم دے گا بھری ، بیلے ( خشک ) جانور یا گوئی کے جوتی بیل ان کے ساتھ ریوڑ میں بیچھتے تھے ۔ ایک بار ہم نے بھی اپنا ایک فربا بیل بھیجا تھا۔ تین مہینے بعد دیکھا تو ڈھڈی ، ریڑھ اور پسلیوں کی ہڈیاں نمایاں تھیں جبکہ گوشت غائب ۔ 
      غوبہ کا کردار کب ، کیوں اور کیسے ختم ہوا ؟ اس بحث میں نہیں پڑتے کیونکہ اب تو روایتی زرعی معاشرے کے تمام لوازمات نہ رہے اور نا ہی کوئی شخص آج کے زمانے میں فقط غلہ اور روٹی کےلئے مزدوری کرسکتا ہے ۔ گاوں والے بھی کثرت سے جانور پالنے کی پوزیشن میں نہیں نیز بنجر زمینیں آباد ہوچکی ہے ۔ زرخیز زمینوں پر سبزیاں اور پھل اگانے کا رواج چل نکلا ہے ۔ دریاؤں کے ٹاپوں گھاس سے خالی ہے سچ کہتے تو باجری اور ریت کی تلاش نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور ورشو میں جنگلات اگائےگئے ہیں ۔ ایسے میں تو غوبہ دور کی بات ہے ریوڑ پالنے والے گلہ بان نایاب ہورہے ہیں ۔ انحطاط کا یہ رفتار اسی طرح گامزن رہی تو گلہ اور گلہ بان بھی غوبہ کی طرح محض تاریخ کا بن کے رہ جائیں گے ۔ جب آج غوبہ پر قلم اٹھایا گیا ہے ٹھیک اسی طرح کوئی شخص گلہ بان سے متعلق آج کی ثقافت کو تاریخ میں زندہ کرے گا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں