بدھ، 30 ستمبر، 2020

غلام بن کر نہیں رہ سکتا، عزت کی زندگی جینے کا فیصلہ کرلیا ہے، نواز شریف


لندن (عصرِنو) سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں غلام بن کر نہیں رہ سکتا، بلکہ پاکستانی بن کر رہنا چاہتا ہوں، عزت کی زندگی جینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس لاہور میں ہوا، جس میں مریم نواز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، محمد زبیر اور راجہ فاروق شریک ہوئے۔ اجلاس میں شہباز شریف کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور، درپیش حالات کے پیش نظر سیاسی حکمت عملی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر مشاورت کی گئی۔

اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا کہنا تھا کہ آج تو ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آ گئے ہیں۔ ہم آزاد شہری نہیں ہیں، اپنے آپ سے پوچھے کیا آپ ازاد شہری ہیں ۔۔۔؟ وہ وقت دور نہیں جب تمام چیزوں کا حساب دینا ہوگا۔ دو ٹوک فیصلہ کیا ہے کہ ذلت کی زندگی ہم نہیں جی سکتے۔ ظلم اور زیادتیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا قوم نے فیصلہ کر لیا تو تبدیلی سالوں میں نہیں چند مہینوں اور ہفتوں میں آجائے گی۔

اُنہوں نے اجلاس میں شریک اپنے اراکین اسمبلی سے سوال کیا کہ جس پارلیمنٹ کے آپ کے رُکن ہیں وہ کتنی خود مختار ہے۔ مجھے لوگوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس پارلیمنٹ کو کوئی اور چلا رہا ہے۔ دوسرے لوگ  پارلیمنٹ میں آ کر بتاتے ہیں کہ آج ایجنڈا کیا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ جسے لائے ہیں اس کا ذہن خالی ہے، پچھتا تو رہے ہوں گے، آپ لائے، آپ کو ہی جواب دینا ہوگا۔  یہ بندہ تو قصور وار ہے ہی لیکن لانے والے اصل قصور وار ہیں، اس کا جواب بھی اُنہیں  دینا ہوگا۔ پی ڈی ایم کا فیصلہ ہے کہ اس کا جواب دینا ہوگا۔

سربراہ مسلم لیگ ن نے کہا کہ روزانہ کی بنیادوں پر پارٹی کو دستیاب رہوں گا، پارٹی جو فرض سونپے گی، ادا کروں گا۔ آپ کی مشاورت کا منتظر ہوں کہ اِن مقاصد کے حصول کےلیے کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔

اُنہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے ساتھ سلوک پر دُکھا ہوں، ہمارے بچوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، تاریخ میں ایسا سیاہ رویہ نہیں ہوا، جو کچھ  ہو رہا ہے اس سے ہمارے جذبے مزید بڑھے ہیں، اور ہم اپنی جدوجہد مزید تیز کریں گے۔

نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ساتھی جُرأت سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں، شہبازشریف نے بے مثال جرات و بہادری اور استقلال کا مظاہرہ کیا ہے، وہ مردِ میدان ہیں، اُنہوں نے مشکلات کے سامنے سر نہیں جھکایا،  ہمارے بیانیے کو تقویت دینے میں کردار ادا کیا، اور وفاداری و نظریاتی وابستگی کی مثال قائم کی، مشکل کو برداشت کرکے کردار ادا کریں گے تو قوم کو تمام مصیبتوں سے نجات مل جائے گی۔

قائد (ن) لیگ نے کہا کہ شہباز شریف کو سیلوٹ کرتا ہوں کہ اُنہوں نے دیانتداری سے قوم اور ملک کی خدمت کی، پنجاب میں دن رات محنت کرکے بجلی کے کارخانے لگائے، اسحاق ڈار نے وسائل مہیا کیے، یہ تمام سہرا شہباز شریف، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اُن سرکاری افسران کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے توانائی کی قلت ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

آرمی پبلک سکول حملہ سکیورٹی کی ناکامی قرار، سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم

پشاور میں سنہ 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کےلیے تشکیل پانے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے چھ برس قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے سے متعلق تحقیقات کےلیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل تھا اور اس نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جولائی 2020ء میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔

رپورٹ میں مزید کیا کہا گیا ہے ۔۔۔؟
انکوائری کمیشن نے سکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں جب کہ دھمکیوں کے بعد سکیورٹی گارڈز کی تعداد میں کمی کے علاوہ درست مقامات پر عدم تعاون کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کا انتظام فوج کے ذمے ہوتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ اس کے لیے فوج کے اپنے ہی اہلکار مامور ہوں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند سکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ افغانستان سے شدت پسند مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل ہوئے اور ان شدت پسندوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری کو کسی طور پر بھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اپنا ہی خون غداری کر جائے تو اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں، اور کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کرسکتی جب دشمن اندر سے ہی ہو۔

رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ کیسے انسدادِ دہشتگردی کے قومی ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی طرف سے فوج کے مراکز فوجی افسران اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے ایک عمومی الرٹ جاری کیا تھا اور اس الرٹ کے بعد فوج نے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اے پی ایس کے واقعے نے فوج کی شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

عدالت کا اٹارنی جنرل کے تبصرے بھی پبلک کرنے کا حکم
اس سے قبل چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک سکول سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت نے اس کمیشن کی رپورٹ سے متعلق اٹارنی جنرل کے کمنٹس بھی پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اس بات کا تعین اوپر سے ہونا چاہیے کہ کس کی غفلت کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سیکیورٹی اداروں کو اس حملے کی منصوبہ بندی اور سازش کے بارے میں اطلاع ہونی چاہیے تھی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اتنی سکیورٹی میں بھی عوام محفوظ نہیں ہیں تو یہ بات لمحہ فکریہ ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کس کی عفلت سے ہوا اس بارے میں کسی نے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں جو کہ قابل افسوس امر ہے۔ سماعت کے دوران واقعے میں شہید ہونے والے طلب علموں کے والدین نے عدالت کو بتایا کہ یہ واقعہ دہشت گردی کا نہیں بلکہ ”ٹارگٹ کلنگ“ کا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں یہ المیہ رہا ہے کہ کسی بھی واقعے میں نیچے والوں کو پکڑا جاتا ہے جب کہ بڑے لوگوں کو پوچھا بھی نہیں جاتا۔
اُنہوں نے کہا کہ کم از کم آرمی پبلک سکول کے واقعے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اوپر والے لوگوں کو پکڑا جانا چاہیے، جو بھی فرائض میں غفلت کا مرتکب پایا گیا ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ اس واقعے نے پوری قوم کو رنجیدہ کر دیا تھا۔

”وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے“
اس واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ زندہ لاشوں کی طرح گھوم رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ہی ان ذمہ داروں کو سزا مل جائے جو ان بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ لوگ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے اس میں کامیاب رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب عوام محفوظ نہیں ہیں تو اتنا بڑا ملک اور نظام کیسے چلایا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا چاہیے جس سے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔

سرکاری تحقیقات سے مطمئن نہیں، والدین
اس واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں اپنے بچوں کا کیس لڑنا چاہتے ہیں۔ سماعت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہویے انہوں نے کہا کہ اُنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ فائرنگ کس نے کی، بلکہ اُنہیں تو صرف یہ غرض ہے کہ اصل ذمہ داروں کا تعین ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ ان کے بچے تو واپس نہیں آسکتے لیکن اس اقدام سے دوسرے بچوں کو تحفظ ملے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس واقعے سے متعلق حکمرانوں نے جس طرح کی تحقیقات کروائی ہیں اس سے وہ کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہیں اور اگر وہ عدالتی فیصلے سے بھی مطمئن نہ ہوئے تو اگلے اقدام کے بارے میں سوچیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی جامع تحقیقات کا مطالبہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔

کمیشن نے رپورٹ کیسے تیار کی ۔۔۔؟
کمیشن کی جانب سے اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور مارے جانے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن میں 101 عام شہری اور 31 سکیورٹی اہلکار اور افسران شامل تھے۔ یہ تحقیقاتی کمیشن سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے طلبا اور اساتذہ کے والدین کی درخواست پر 2018ء میں قائم کیا تھا۔ پشاور کے وارسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول پر مسلح شدت پسندوں نے 16 دسمبر 2014 کو حملہ کر کے طلبہ، اساتذہ اور عملے کے ارکان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں 147 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والا گروپ 27 ارکان پر مشتمل تھا جس کے نو ارکان مارے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر سزا دی ہے تاہم شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا مؤقف رہا ہے کہ ان کے بچے ایک چھاؤنی میں قائم فوج کے زیر انتظام سکول میں حصولِ تعلیم کےلیے گئے تھے وہ جنگ کے محاذ پر نہیں تھے اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کی فیس سکول انتظامیہ کو باقاعدگی سے دیتے تھے تو پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا، کس کی ایما پر ہوا اور کس کی غفلت کا نتیجہ تھا۔۔۔؟ 

والدین کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ اس سلسلے میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور جن کی غفلت یا لاپرواہی سے یہ حملہ ہوا ہے انہیں سزا دی جائے۔

جمعرات، 24 ستمبر، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر پانچ


قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  
عُنوان: ظالم اور مظلوم
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

 ہمارا فرض دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلانا ہے۔ ہم ہر اُس قوم اور حکومت کی مخالفت کریں گے، جو مخلوقِ خُدا پر ظلم ڈھاتی ہو، چاہے ظالم ہمارا بھائی اور ہم مذہب کیوں نہ ہو۔ 


توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر چار


قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  
عُنوان: جمہوریت
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

میرا عقیدہ ہے کہ جب تک ایک قوم اجتماعی طور پر بیدار نہیں ہوتی، اس وقت تک اس قوم میں سیاسی شعور نہیں آسکتا اور جس قوم میں سیاسی شعور کا فقدان ہو، اس میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ 

توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

جمعرات، 17 ستمبر، 2020

سوشل میڈیا، ترقی یافتہ گلوبل ولیج کا ضامن


سوشل میڈیا جسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ بھی کہا جاتا ہے، دورِ جدید میں اپنے وسیع استعمال کی وجہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سوشل میڈیا نے فاصلوں کی وسعتوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت کے سات براعظموں پر پھیلی اس دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دینے کے ساتھ حیاتِ انسانیت کو ایک نیا رُخ دیا ہے۔ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ دنیا کے بڑے تھنک ٹینک پرائیویٹ و سرکاری ادارے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگانے کےلیے کافی ہے کہ یہ ایک ہی کلک پر پوری دنیا اُلٹا سکتا ہے۔

دنیا کے سبھی ممالک جہاں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی وجہ سے مستفید ہورہے ہیں، وہیں بڑی حد تک اس کے غلط استعمال کی وجہ سے نقصانات کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں دوسری طرف اس کے بھیانک نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ دنیا میں جرائم کی شرح میں اضافہ سوشل میڈیا کا مرہونِ منت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں روزانہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہونے والے جرائم کے ہزاروں کیسز جن میں قتل، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، راہ زنی، سائبر کرائمز وغیرہ شامل ہیں، سب سوشل میڈیا ہی کے زیرِ اثر وجود میں آتے ہیں۔ سُپر پاؤرز کہلانے والے ممالک بھی اس وقت سوشل میڈیا کے نرغے میں ہیں اس لیے اس کے منفی استعمال کی روک تھام کےلیے کیے جانے والے سبھی اقدامات بے سود اور ناکام نظر آتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ امریکی صدارتی انتخابات میں ہونے والی روسی مداخلت سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

اس کے ساتھ سائبر کرائمز کرنے والے بھی دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ جرائم کی بنیادیں مضبوط ہوچکی ہیں ، اور آئے روز تہلکہ خیز انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت سائبر کرائمز کے جو کیسز پوری دنیا میں سامنے آئے ہیں، اُن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جرائم کی فہرست آئے روز لمبی ہوتی جارہی ہیں جن میں اندوہناک واقعات جنسی زیادتی، قتل، اغوا برائے تاوان اور ہیکنگ وغیرہ سرِفہرست ہیں۔

قارئین! مملکت خداداد میں بھی سائبر کرائمز کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔  فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جرائم میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی سائٹس "فیس بُک" اور پیغام رسانی کی ایپ "واٹس ایپ" کے زریعہ بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس کی نسبت رواں سال بلیک میلنگ کے واقعات میں 40 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سائبر کرائم ونگ میں فیس بُک پر بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک ہونے کی 3560 شکایات موصول ہوئیں جب کہ گذشتہ برس اِن کی تعداد 2236 تھی۔ 

اگر ایک طرف یہ حال ہے، تو دوسری طرف سوشل میڈیا نے طالب علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ طالب علموں کی بہت بڑی تعداد یوٹیوب پر موجود اسباق سے بڑی حد تک مستفید ہورہی ہے جو اُن کے کیریئر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوٹیوب پر ہزاروں کی تعداد میں مفت اسباق و دیگر مواد دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں موجود اسلامی ویڈیوز روحانی تسکین کا زریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے سنہرے اُصولوں کو ترتیب دیتی ہیں۔ اس طریقہ تعلیم نے جہاں ایک طرف طالب علموں کی سہولت میں اضافہ کردیا ہے تو وہیں "یوٹیوب" کو بھی منافع بخش بنا دیا ہے۔

قارئین! کوئی بھی چیز خود اچھی یا بُری نہیں ہوتی بلکہ اس کا طریقہ استعمال اچھا یا بُرا ہوتا ہے۔ فیس بُک ہی پر بہت سی ویب سائٹس ہیں جو نئی نسل کےلیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ جن میں کچھ کا ذکر مناسبِ حال سمجھتا ہوں۔ 
”لفظونہ ڈاٹ کام“ کے بانی ایڈیٹر امجد علی سحابؔ تاریخی واقعات و شخصیات کی کھوج لگا کر اُسے سائٹ پر ڈالتے ہیں، تو ”لیکوال ڈاٹ کام“ پر عصمت علی اخون پشتو کے گمنام شعراء و ادباء کو لوگوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔ جلال الدین یوسف زئی ”انسائیکلو پیڈیا آف سوات“ پر ریاستِ سوات کی تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہیں، تو فیاض ظفر ”باخبر سوات ڈاٹ کام“ پر پَل پَل کی مُصدقہ خبر دیتے ہیں۔ فضل خالق اگر ”مارننگ پوسٹ“ پر علاقائی خبروں کے ساتھ ساتھ جنت نظیر وادی سوات کے چھپے گوشے ہم کو دیکھاتے ہیں، تو ”غگ نیوز ڈاٹ کام“ کے مراد یاسین اور مختار احمد مختار تاریخی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر ماہرین کا انٹرویوز لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ الغرض سوات نیوز ڈاٹ کام، زمونگ سوات ڈاٹ کام، زما سوات ڈاٹ کام، شمال نیوز ڈاٹ کام، نیوز میوز ڈاٹ کام، سپین سر نیوز ڈاٹ کام اور سوات ون ڈاٹ پی کے تازہ ترین خبروں کے ساتھ ساتھ صحت، کھیل و ثقافت کو سائٹس پر ڈالتے ہیں جب کہ ”درسِ قرآن ڈاٹ کام“ دنیا بھر کے معروف علماء کی بیانات، تفسیرِ قرآن اور شرعی مسائل کا حل بتاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل اِن تمام چیزوں سے غافل ہوکر پب جی، ٹِک ٹاک اور سیاسی و مذہبی جنونیت کی لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔

جہاں سوشل میڈیا کے مثبت پہلو اُجاگر ہورہے ہیں، وہیں دوسری طرف اس کے منفی پہلوؤں کا چہرہ بھی بے نقاب ہورہا ہے۔

سوشل میڈیا نے انسانی اخلاقیات کو بُری طرح متاثر کیا ہے جس سے انسانی اَقدار گراوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی لت اور مذہبی و سیاسی جنونیت نے انسانیت کو نفسیاتی عارضے میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا، امیر غریب، مزدور، دیہاڑی دار، موٹا پتلا، کالا گورا سبھی اس لت کا شکار نظر آتے ہیں۔ عُریانیت و فحاشی کے پھیلاؤ کا زمہ دار بھی سوشل میڈیا ہی ہے۔ فحاشی کا منبع لاکھوں کی تعداد میں موجود ”پورن ویڈیوز“ ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آئے روز مختلف قسم کے عجیب و غریب واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ بعض افراد مسخ شدہ لاشوں کی تصویریں، جنگ و جدل کی خون ریزی اور گالم گلوچ نشر کرتے ہیں جس سے لوگوں میں بے چینی اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ذریعے چھپے جرائم بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔ 

مثلاً چند مہینے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں پاکستان کی مشہور و معروف یونیورسٹی کا دل دہلا دینے والا انسانیت سوز اور تاریخ کا بد ترین سکینڈل بے نقاب ہوا، جس سے انسانیت بھی شرم سار ہے۔ اسی طرح زینب، عاصمہ، فرشتہ، کراچی میں پانچ سالہ مروہ یا گزشتہ روز لاہور موٹر وے پر خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُن سے سوشل میڈیا ہی نے پردہ اُٹھایا۔ 

اگر کہا جائے کہ سوشل میڈیا کے بغیر زندگی ممکن نہیں، تو کہنا بے جا نہ ہوگا کیوں کہ اب سوشل میڈیا انسانی و سماجی معاملات کا لازمی جُزو بن چکا ہے۔ کاروباری لحاظ سے یہ وہ ذریعہ آمدن ہے جو انسان کو روزانہ کی بنیاد پر اخراجات برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ 

سوشل میڈیا کے اگر نقصانات ہیں، تو فائدوں کی فہرست بھی خاصی لمبی ہے۔ اگر سوشل میڈیا کی ضرورت کو مثبت استعمال کی حد تک لیا جائے، تو ”گلوبل ولیج“ کی ترقی کا نیا باب رقم کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا مثبت استعمال ممکن بناتے ہیں یا پھر منفی ۔۔۔؟

                      تحریر: اختر حسین ابدالؔی 

منگل، 15 ستمبر، 2020

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی و ضلعی قائدین کا ”باچا ہاؤس مٹہ“ آمد، تمام گلے شکوے دور

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی و ضلعی قائدین اے این پی ضلع سوات کے راہنماء اور اتفاق ایسوسی ایشن مٹہ بازار کے سابق صدر اکبر باچا  کے رہائش گاہ پہنچ گئے، تمام تحفظات دور کیے گئے، مل بیٹھ کر پارٹی کو کامیابی تک لے جائیں گے، تحفظات ہر کارکن کا بنیادی حق ہیں کیوں کہ اس وقت پارٹی کارکنان مشکلات برداشت کرکے پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں، مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری بریگیڈئیر ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد سلیم خان کی گفتگو

سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری بریگیڈئیر ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد سلیم خان، سابق ضلع نائب ناظم عبدالجبار خان اور سابق اپوزیشن لیڈر تحصیل کونسل مٹہ صلاح الدین خان نے اے این پی ضلع سوات کے راہنما اور اتفاق ایسوسی ایشن مٹہ بازار کے سابق صدر اکبر باچا کو منانے اُن کی رہائش گاہ (باچا ہاؤس مٹہ) پہنچ گئے اور اُن کے تمام تحفظات دور کیے گئے۔ 

اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سلیم خان اور عبدالجبار خان نے کہا کہ صوبائی صدر ایمل ولی خان کا واضح پیغام ہے کہ مقامی قائدین اور کارکنان پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہے جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ مقامی قائدین کا پارٹی کےلیے قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ 

اُنہوں نے کہا کہ اے این پی کے مقامی قائدین اور کارکنان نہ جُھکنے والے ہیں اور نہ ہی بِکنے والے، جس کی وجہ سے پارٹی قائدین اُن پر فخر کرتے ہیں اور انشاءاللہ پارٹی قائدین اپنی کارکنان اور مقامی قائدین کی عزت اور حقوق کےلیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ 

اُنہوں نے مزید کہا کہ اے این پی ہم سب کی مشترکہ پارٹی ہے اور ہم سب مل کر پارٹی کو مضبوط بنائیں گے۔ اس موقع پر اکبر باچا کا چھوٹا بھائی اور اے این پی تحصیل مٹہ کے راہنما خان باچا، اتفاق ایسوسی ایشن مٹہ بازار کے صدر محمد زبیر، سابق صدر عبدالقیوم، فراموش خان باماخیلہ، عبدالغفار خان ایڈوکیٹ، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ کے صدر اختر حسین ابدالؔی اور دیگر قائدین موجود بھی تھے۔ 

جمعہ، 11 ستمبر، 2020

موٹروے پر خاتون کی عصمت دری انتہائی شرم ناک ہے، ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، شاہی دوران خان

موٹروے پر خاتون کی عصمت دری کا واقعہ ریاستِ مدینہ کے دعویداروں کے مُنھ پر طمانچہ ہے، پنجاب پولیس عہدوں کے کشمکش کی بجائے فرائض کو مقدم رکھے، شاہی دوران خان 

سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے لاہور رنگ روڈ سے چند کلو میٹر دور موٹروے پر خاتون کی عصمت دری کے واقعہ پر اِظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ معصوم بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ آئینِ پاکستان کی رو سے ہر شہری کی جان و مال کی تحفظ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہیں۔ 

دوسری ‏طرف سی سی پی او لاہور کی جانب سے موٹروے واقعے میں متاثرہ خاتون کو ذمہ دار قرار دینے کو بھی اِنتہائی شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی ذہنیت کے آفیسر کو اہم عہدے پر تعیناتی کےلیے حکومت ذمہ دار ہے، اور حکومت ہی کا محاسبہ ہونا چاہئیے۔
 
اُنہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ریاستِ مدینہ کے دعویداروں، پنجاب اور موٹروے پولیس کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پنجاب پولیس عہدوں کی کشمکش کی بجائے فرائض کی بجا آوری کو مقدم رکھیں کیوں کی پولیس کا کام عوام کی زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں بلکہ اُن کی حفاظت کرنا ہے۔ 

جمعرات، 3 ستمبر، 2020

ادريس باچا چا چې د قام د پرمختګ دپاره خپلې خوشحالۍ په سيند لاهو کړې

په نن سبا وخت کښې هر سړے دا هڅه کوي چې د نفسا نفسي په دې دور کښې ځان له یؤ لوړ او د ویاړ مقام جوړ کړي۔ هم په دغه خلکو کښې د سوات سيمي سره تعلق لرونکے پنځه دېرش کلن ځوان ادريس باچا هم دے چې په بريکوټ نومې کلي سوات کښې زېږيدلے دے۔ ادریس باچا د خپل محنت اؤ قربانو له خاطره په پښتون خوا سيمه کښې ځان له يؤ ځانګړے مقام جوړ کړے دے۔ 

ادريس باچا د مزدورۍ په خاطر د نړۍ نورو هېوادونو کښې هم جوند کړے خو چې کله د منظور پشتين په مشرۍ کښې (پي ټي اېم) پښتون ژغورنې غورځنګ په وجود کښې راغے نو ادريس باچا د خپل قام دپاره هرڅه پرېښودل اؤ د غورځنګ تر څنګ ئې د قام خدمت ته ملا وتړله.

ادريس باچا د پښتون ژغورنې غورځنګ د سيوري لاندې خپلې هلې ځلې کوي او د پښتون قام د پرمختګ دپاره ئې شپه ورځ په ځان يؤ کړي دي۔ رياست چې د پښتنو سره کوم ظلمونه کوي يا پرې کوم تورونه لګوي د هغې خلاف ادريس باچا د پي ټي اېم د فلېټ فارم نه يؤ توان مند آواز پورته کړے دے او پورته کوي۔ هم له دې خاطره په بېلابېلو وختونو کښې ئې مختلف ورځې شپې په زندان کښې هم تېرې کړي او مختلِف ستونزې او تکلیفونه ئې برداشت کړي۔

د ادريس باچا د غورځنګ مشر منظور احمد پشتين سره يؤ خوندور عکس

د رياست له خوا په ادريس باچا د غدارۍ تورونو لګېدۀ سره سره ډېرې مقدِمې هم درج شوي چې له کبله ئې په کور څوځله د چاپو ترمخه ګرفتار کړے شوے دے، په ځينې مقدمو کښې زندان ته هم اچول شوے چې د ټولو نه لویه مُقدِمه پکښې د غدّارۍ وه۔ 

نن ۲۰٢٠ کال دے خو نن هم باچا دقام په مینځ کښې ولاړ دے بار بار ورته وئیل کیږي چې د خپل کار نه وروسته شه خو ولې ښاغلے د قام د ښېګړې نه په شا کیږي نۀ، یقیناً چې خپلې ورځي شپې د قام په خذمت کښې سبا کوي۔ ډېرې سختې او تکلیفونه ئې برداشت کړي دي او برداشت کوي، پښتنو له پکار دي چې په ژوندوني خپل خېرخوا وپېژني او قدر ئې اوکړي ۔

 ادریس باچا په نن دور کښې د پښتنو دپاره يؤ اتل دے چې د وياړ وړ شخصيت دے 
 اللہ تعالیٰ دي باچا له ډېر عمر ورکړي. آمین

زۀ خپل ليک د عزيزالله غالب صېب په دې شعرونو ترسره کؤم

داسې بذدله واکداران مې د وطن دي چې تل
د غلامۍ په زنځيرونو کښې ژوندون تېروي
مېړني نۀ مري اؤ کۀ اومري مرګ ئې مرګ مۀ ګڼئ
مدام ژوندي وي چې په زړونو کښې ژوندون تېروي

                                   ليک: اختر حسېن ابدالي

بدھ، 2 ستمبر، 2020

سیلاب نے ضلع سوات میں تباہی مچا دی، وزیرِاعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء حکومتی مشینری سمیت غائب


سوات (عصرِنو) ضلع سوات میں بارشوں نے تباہی مچاتے ہوئے 2010ء کی یاد تازہ کردی، وزیر اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء، علاقے کی منتخب ایم پی اے اور حکومتی مشینری غائب، لوگ اپنے مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیوں میں مصروف

تفصیلات کے مطابق وادی سوات میں بارشوں کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور دریائے سوات میں اُونچے درجے کا سیلاب آیا ہے، لیکن حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وزیراعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور حکومتی اراکین منظرنامے سے مکمل طور پر غائب ہیں۔ سوات کے بالائی علاقے کالام، اُتروڑ، بحرین اور مدین مکمل سیلاب کی زد میں آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے کاروباری مراکز تباہ ہوچکے ہیں۔ گھروں کو بے تحاشا نقصان پہنچ چکا ہے، سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہیں، باغات کو بھی شدید نقصان پہنچ چکا ہے، ندی نالوں میں طغیانی کے باعث سڑکوں کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور کئی علاقوں کے درمیان زمینی رابطے منقطع ہوچکے ہیں۔

  جامع مسجد بلال (بحرین) جو کل رات سیلابی ریلے کی وجہ سے شہید ہوئی 

مدین میں آٹھ افراد لقمہ اَجل بن چکے ہیں جب کہ کئی زخمی افراد ہسپتالوں میں زیرِ علا ج ہیں۔ حکومت کی جانب سے صرف جاں بحق افراد کےلیے پانچ لاکھ روپے کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن گھروں، باغات اور کاروباری مراکز کےلیے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے گئے ہیں۔ سوات سے وزیراعلیٰ، حکومتی اراکین پشاور جب کہ وفاقی وزیر اور ایم این ایز اسلام آباد کے دفاتر میں بیٹھ کر عوام کی تباہی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو اپنے ضلع کا دورہ کرنے کی بھی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔