سوات (عصرِنو) ضلع سوات میں بارشوں نے تباہی مچاتے ہوئے 2010ء کی یاد تازہ کردی، وزیر اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء، علاقے کی منتخب ایم پی اے اور حکومتی مشینری غائب، لوگ اپنے مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیوں میں مصروف
تفصیلات کے مطابق وادی سوات میں بارشوں کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور دریائے سوات میں اُونچے درجے کا سیلاب آیا ہے، لیکن حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وزیراعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور حکومتی اراکین منظرنامے سے مکمل طور پر غائب ہیں۔ سوات کے بالائی علاقے کالام، اُتروڑ، بحرین اور مدین مکمل سیلاب کی زد میں آئی ہیں۔ جس کی وجہ سے کاروباری مراکز تباہ ہوچکے ہیں۔ گھروں کو بے تحاشا نقصان پہنچ چکا ہے، سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہیں، باغات کو بھی شدید نقصان پہنچ چکا ہے، ندی نالوں میں طغیانی کے باعث سڑکوں کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے اور کئی علاقوں کے درمیان زمینی رابطے منقطع ہوچکے ہیں۔
مدین میں آٹھ افراد لقمہ اَجل بن چکے ہیں جب کہ کئی زخمی افراد ہسپتالوں میں زیرِ علا ج ہیں۔ حکومت کی جانب سے صرف جاں بحق افراد کےلیے پانچ لاکھ روپے کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن گھروں، باغات اور کاروباری مراکز کےلیے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے گئے ہیں۔ سوات سے وزیراعلیٰ، حکومتی اراکین پشاور جب کہ وفاقی وزیر اور ایم این ایز اسلام آباد کے دفاتر میں بیٹھ کر عوام کی تباہی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو اپنے ضلع کا دورہ کرنے کی بھی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں