میں پیر آباد کراچی کے چاٹی ہوٹل کی بات ہرگز نہیں کررہا ، بلکہ اس چاٹی کو نوک قلم سے سطح قرطاس پر اتار رہا ہوں جس میں ہماری خواتین دودھ یا دہی کے خاص مقدار انڈھیلتی ، پھر اس دودھ اور دہی کو متھانی ( منڈاڑوں ) کے ذریعے بلو کر مکھن اور لسی بناتیں ۔ نکالی ہوئی چکنائی یعنی مکھن کو جلتی آگ پر جوش دیتیں اور گھی نکالتیں ۔ دودھ دہی اور پانی متھ کرنے کے بعد جو مفرح مشروب ( لسی ) رہ جاتا اسے روایتی خوراک کے طور پر گھر ، اڑوس پڑوس اور رشتے داروں کےلئے رکھتیں ۔
مٹی کے بنے ہوئے بڑے برتن چاٹی کو ایک ستون کے پاس رکھا جاتا ۔ چاٹی لڑھک نہ جائے ، اس مقصد کےلئے پیندے کے نیچے اینڈوا یا گردی رکھی جاتی ۔ اسی طرح نظر بد سے بچنے کےلئے چاٹی کے گلے میں وہ رسی باندھی جاتی جس میں سفید سیپی ، نیلا دانہ اور گھنگروں پروئے جاتے ۔ متھانی کا سرا ستون کے ساتھ ساتھ باندھا جاتا ۔ جس سے متھانی کا بیلنس برقرار رہتا ۔ چاٹی کے اوپر ایک سوراخ دار چپو رکھا جاتا ۔ جس میں متھانی 90 زاویہ میں رہتی ۔ چپو سے اوپر ایک اور رسی ہوتی جسے عموما "روگ " کہتے ہیں ۔ گھریلوں خاتون چاٹی کے سامنے ایک کھٹولے پر بیٹھ کر روگ ایک ہاتھ سے کھینچتی ، اور دوسرا ہاتھ آگے کی طرف ڈھیلا کرتی ۔ یہی لسی بلونے کا عمل تھا ، جسے ہم آج بجلی کے مدھانی یا ہاتھ کی متھانی سے کرتے ہیں ۔
قارئین ! دودھ ، دہی ، گھی اور لسی ہماری ثقافت کے اہم اجزا ہیں ۔ غریب سے غریب شخص بھی اپنے خستہ گھر میں بھینس پالتا ہے ۔ حسین احمد صادق کے جاناں کا خستہ گھر ، جو کچھ مٹی سے بنا ہے اور جسے جگہ جگہ دھوئیں نے کالا کیا ہے ۔ حسین احمد کی اس مشہور گیت کا ایک شعر ملاحظہ ہو :میخہ لنگہ شوملی ڈیرے د یچکوڑے دہ کوچو ڈک دےنن بہ حلق زما غوڑ شی دا دہ ڈیرے مودے سپور دےدیہی معاشرے کی عورت ہر روز دودھ ، دہی ، لسی اور گھی سنبھالنے کا بندوبست کرتی ہے ۔ وہ دودھ کا برتن چولہے پر رکھ کر اسے جوش دیتی ہے ۔ جمانے کےلئے دودھ ہانڈی میں رکھتی ہیں ۔ جب ماستہ ( دہی ) تیار ہوتا ہے تو کچھ کھانے کےلئے الگ رکھتی ہے ۔ جب کہ زیادہ تر مکھن نکالنے کی خاطر چاٹی میں ڈالتی ہے ۔ بلونے کے بعد مکھن نکال کر دوسرے برتن میں رکھتی ہے ، جب کہ لسی چاٹی میں رہ جاتی ہے ۔ ڈاکٹر محمد نواز طائر نے ایک نظم " د ماشوم سحر " میں کیا خوب کہا ہے کہ ،پئی غوڑی شوملے د ابئی لاسونہ خواگہ کڑی دیپئی د نن سحر یہ بیا دوختہ پاخہ کڑی دی
گھی اور چاٹی روایت کی رو سے نیک شگون ہے اس کا اندازہ فوک لور سے خوب لگایا جا سکتا ہے ۔ ہم احتراما غوڑ خان اور غوڑہ بی بی نام بھی رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ اس ٹپہ میں ہیں :
خپلہ ابئی ساڑہ غوڑی دیپردئی کی غوڑہ شی لڑمون بہ دی سیزینہ
یا ہم شیر خوار بچے کو جب پیروں پر اچالتے تھے تو کہتے تھے ۔بامبلئی غوڑ چاٹیمور دی دہ مستو چاٹیپلار دی دہ شوملو چاٹی
بچوں کو فوک لوری صوتوں میں دودھ لسی کا ذکر جگہ جگہ پایا جاتا ہے ۔ مثلاًنرئی شوملے شومپہ دیوال توے شومیا بہ کہ ابئینشتہ کونڈئی پئیچہ پکی ڈوبہ کڑم سینپئی
پشتو زبان کی ایک کہاوت ہے " دا دل دی او دہ شوملو دہ غاڑی دی " ۔ اکبر علی آبشاؔر کہتے ہیں کہ ہمارے مردان میں لسی بال دھونے کےلئے بھی استعمال ہوتی تھی ۔ ہم نے ہندو مذہب میں دودھ سے دھونے اور نہلانے کی بات سنی تھی ۔ شاید ہندوستان سے ذیادہ نزدیک ہونے کی وجہ سے پشتون بھی دودھ دہی بطور شگون استعمال کرتے تھے ۔ جبھی تو ہم بارش تھم جانے کی خاطر " سپین مخے تور مخے " میں آٹا گھروں سے مانگتے ہوئے یہ صوت کہتے :پہ شوملو یہ لامبہ ویپہ غوڑو یہ غوڑہ وییا بہ کہ گوگوشتودومرہ غوڑی نشتہچہ پری ڈونگہ غوڑہ کڑو
لسی گرمیوں کی تپتی دھوپ میں پیاز کی گھٹا اور چاول میں اوگرہ بنا کر بہترین خوراک تھی ، اور غنودگی لانے میں بھی معاون تھی ۔ لسی متھنے کے دوران ماں کا بچوں کی روٹی پر مکھن رکھنا ، جوانوں کا لسی پیتے وقت مونچھوں میں مکھن کے چھوٹے چھوٹے قتلوں کا پھنس جانا اور جسے تاو دے کر جوان شان بے نیازی میں چکنائی سے مونچھ کو چمکاتے ۔ کیا عجیب منظر تھا ۔ دیسی گھی مقامی تجارت کا اہم جز تھا ۔ ملاکنڈ کے پولیٹیکل ایجنٹ مہک موہن 1900 میں برآمد شدہ گھی کی قیمت ساڑھے اٹھارہ لاکھ بتاتے ہیں ۔ دیسی گھی مقامی طور پر بننے والے ڈبوں میں برآمد کیا جاتا تھا ۔ گویا ڈبے بنانے والے ڈبگروں کا کام بھی خوب چلتا تھا ۔ لسی ، مکھن اور دیسی گھی کے پیڑے سے مہمانوں کی ضیافت کی جاتی تھیں ۔ لیکن جہاں انگریز بہادر مقامی صنعتوں کی تباہی پر تلا ہوا تھا وہاں اس نے دیسی گھی کی خلاف ایک خطرناک مہم چلائی ۔ وہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ڈرامے منعقد کرتے اور سیگریٹ ، لیپٹن چائے اور ڈالڈا کی تشہیر کرتے ۔
صحافت اور تعلقات عامہ کے طلبہ کو خوب معلوم ہوگا کہ لسی پینے والوں کو کھانستے ہوئے تھیڑ میں سکھایا جاتا ۔ اور جب وہ ایک گھونٹ چائے کا چسکا لگاتا تو فورا تازہ دم ہوجاتا ۔ اس طرح اداکار ایک لطیفہ کہتا کہ " لسی پینے والے شخص کے گھر چور نہیں جاتا کیونکہ لسی پینے والا ساری رات کھانستا رہتا ہے ۔ چور یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ گھر والا جاگ رہا ہے ۔ اس لئے کھانسنے سے لسی پینے والا چوروں سے بچ جاتا ہے "۔
بے شک انگریز چائے اور ڈالڈا متعارف کرانے میں کامیاب ہوا ۔ لیکن برسوں سے رائج لسی کی روایت ختم نہ کرسکے ۔ آج بھی پنجاب کے نواحات میں لسی مرغوب غذا ہے ۔ یہ مشروب بازاروں میں بھی عام ہے گویا یہ مشروب دیہاتوں سے زیادہ شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب بہت جلد یہ ہمارے قومی مشروب گنے کی رس کی جگہ لے لے گی ۔ کیوں کہ پہلے تو مکھن کی وجہ سے ہمیں لسی فری میں مل جاتی لیکن اب لسی فرمائش پر تیار کی جاتی ہے ۔ لسی کی اہمیت جب بڑھ رہی تھی تو بعض لوگ گھروں میں بھی لسی کا بھرا لوٹا فروخت کرنے لگے ۔ غرض یہ کہ چاٹی ، متھانی ، مکھن ، دودھ ، دہی ، گھی اور لسی ثقافت کے اہم اجزا ہیں ۔آخرمیں موضوع سے متعلق چند ٹپے ملاحظہ ہو :وڑہ کوچیانو لہ مے ورکڑئیچکئی چکئی ماستہ بہ خورم لویہ بہ شمہ
جینئی دہ برہ بانڈے راغلہپہ تور سالو یہ شوملو لاری کڑی دینہ
مور یہ پہ چم کے شوملے غواڑیلور یہ پہ چم کے میلمانہ راگرزہ وینہ
تحریر : ساجد ابو تلتان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں