جمعرات، 17 ستمبر، 2020

سوشل میڈیا، ترقی یافتہ گلوبل ولیج کا ضامن


سوشل میڈیا جسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ بھی کہا جاتا ہے، دورِ جدید میں اپنے وسیع استعمال کی وجہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سوشل میڈیا نے فاصلوں کی وسعتوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت کے سات براعظموں پر پھیلی اس دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دینے کے ساتھ حیاتِ انسانیت کو ایک نیا رُخ دیا ہے۔ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ دنیا کے بڑے تھنک ٹینک پرائیویٹ و سرکاری ادارے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگانے کےلیے کافی ہے کہ یہ ایک ہی کلک پر پوری دنیا اُلٹا سکتا ہے۔

دنیا کے سبھی ممالک جہاں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی وجہ سے مستفید ہورہے ہیں، وہیں بڑی حد تک اس کے غلط استعمال کی وجہ سے نقصانات کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں دوسری طرف اس کے بھیانک نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ دنیا میں جرائم کی شرح میں اضافہ سوشل میڈیا کا مرہونِ منت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں روزانہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہونے والے جرائم کے ہزاروں کیسز جن میں قتل، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، راہ زنی، سائبر کرائمز وغیرہ شامل ہیں، سب سوشل میڈیا ہی کے زیرِ اثر وجود میں آتے ہیں۔ سُپر پاؤرز کہلانے والے ممالک بھی اس وقت سوشل میڈیا کے نرغے میں ہیں اس لیے اس کے منفی استعمال کی روک تھام کےلیے کیے جانے والے سبھی اقدامات بے سود اور ناکام نظر آتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ امریکی صدارتی انتخابات میں ہونے والی روسی مداخلت سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

اس کے ساتھ سائبر کرائمز کرنے والے بھی دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ جرائم کی بنیادیں مضبوط ہوچکی ہیں ، اور آئے روز تہلکہ خیز انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت سائبر کرائمز کے جو کیسز پوری دنیا میں سامنے آئے ہیں، اُن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جرائم کی فہرست آئے روز لمبی ہوتی جارہی ہیں جن میں اندوہناک واقعات جنسی زیادتی، قتل، اغوا برائے تاوان اور ہیکنگ وغیرہ سرِفہرست ہیں۔

قارئین! مملکت خداداد میں بھی سائبر کرائمز کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔  فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جرائم میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی سائٹس "فیس بُک" اور پیغام رسانی کی ایپ "واٹس ایپ" کے زریعہ بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس کی نسبت رواں سال بلیک میلنگ کے واقعات میں 40 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سائبر کرائم ونگ میں فیس بُک پر بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک ہونے کی 3560 شکایات موصول ہوئیں جب کہ گذشتہ برس اِن کی تعداد 2236 تھی۔ 

اگر ایک طرف یہ حال ہے، تو دوسری طرف سوشل میڈیا نے طالب علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ طالب علموں کی بہت بڑی تعداد یوٹیوب پر موجود اسباق سے بڑی حد تک مستفید ہورہی ہے جو اُن کے کیریئر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوٹیوب پر ہزاروں کی تعداد میں مفت اسباق و دیگر مواد دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں موجود اسلامی ویڈیوز روحانی تسکین کا زریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے سنہرے اُصولوں کو ترتیب دیتی ہیں۔ اس طریقہ تعلیم نے جہاں ایک طرف طالب علموں کی سہولت میں اضافہ کردیا ہے تو وہیں "یوٹیوب" کو بھی منافع بخش بنا دیا ہے۔

قارئین! کوئی بھی چیز خود اچھی یا بُری نہیں ہوتی بلکہ اس کا طریقہ استعمال اچھا یا بُرا ہوتا ہے۔ فیس بُک ہی پر بہت سی ویب سائٹس ہیں جو نئی نسل کےلیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ جن میں کچھ کا ذکر مناسبِ حال سمجھتا ہوں۔ 
”لفظونہ ڈاٹ کام“ کے بانی ایڈیٹر امجد علی سحابؔ تاریخی واقعات و شخصیات کی کھوج لگا کر اُسے سائٹ پر ڈالتے ہیں، تو ”لیکوال ڈاٹ کام“ پر عصمت علی اخون پشتو کے گمنام شعراء و ادباء کو لوگوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔ جلال الدین یوسف زئی ”انسائیکلو پیڈیا آف سوات“ پر ریاستِ سوات کی تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہیں، تو فیاض ظفر ”باخبر سوات ڈاٹ کام“ پر پَل پَل کی مُصدقہ خبر دیتے ہیں۔ فضل خالق اگر ”مارننگ پوسٹ“ پر علاقائی خبروں کے ساتھ ساتھ جنت نظیر وادی سوات کے چھپے گوشے ہم کو دیکھاتے ہیں، تو ”غگ نیوز ڈاٹ کام“ کے مراد یاسین اور مختار احمد مختار تاریخی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر ماہرین کا انٹرویوز لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ الغرض سوات نیوز ڈاٹ کام، زمونگ سوات ڈاٹ کام، زما سوات ڈاٹ کام، شمال نیوز ڈاٹ کام، نیوز میوز ڈاٹ کام، سپین سر نیوز ڈاٹ کام اور سوات ون ڈاٹ پی کے تازہ ترین خبروں کے ساتھ ساتھ صحت، کھیل و ثقافت کو سائٹس پر ڈالتے ہیں جب کہ ”درسِ قرآن ڈاٹ کام“ دنیا بھر کے معروف علماء کی بیانات، تفسیرِ قرآن اور شرعی مسائل کا حل بتاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل اِن تمام چیزوں سے غافل ہوکر پب جی، ٹِک ٹاک اور سیاسی و مذہبی جنونیت کی لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔

جہاں سوشل میڈیا کے مثبت پہلو اُجاگر ہورہے ہیں، وہیں دوسری طرف اس کے منفی پہلوؤں کا چہرہ بھی بے نقاب ہورہا ہے۔

سوشل میڈیا نے انسانی اخلاقیات کو بُری طرح متاثر کیا ہے جس سے انسانی اَقدار گراوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی لت اور مذہبی و سیاسی جنونیت نے انسانیت کو نفسیاتی عارضے میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا، امیر غریب، مزدور، دیہاڑی دار، موٹا پتلا، کالا گورا سبھی اس لت کا شکار نظر آتے ہیں۔ عُریانیت و فحاشی کے پھیلاؤ کا زمہ دار بھی سوشل میڈیا ہی ہے۔ فحاشی کا منبع لاکھوں کی تعداد میں موجود ”پورن ویڈیوز“ ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آئے روز مختلف قسم کے عجیب و غریب واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ بعض افراد مسخ شدہ لاشوں کی تصویریں، جنگ و جدل کی خون ریزی اور گالم گلوچ نشر کرتے ہیں جس سے لوگوں میں بے چینی اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ذریعے چھپے جرائم بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔ 

مثلاً چند مہینے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں پاکستان کی مشہور و معروف یونیورسٹی کا دل دہلا دینے والا انسانیت سوز اور تاریخ کا بد ترین سکینڈل بے نقاب ہوا، جس سے انسانیت بھی شرم سار ہے۔ اسی طرح زینب، عاصمہ، فرشتہ، کراچی میں پانچ سالہ مروہ یا گزشتہ روز لاہور موٹر وے پر خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُن سے سوشل میڈیا ہی نے پردہ اُٹھایا۔ 

اگر کہا جائے کہ سوشل میڈیا کے بغیر زندگی ممکن نہیں، تو کہنا بے جا نہ ہوگا کیوں کہ اب سوشل میڈیا انسانی و سماجی معاملات کا لازمی جُزو بن چکا ہے۔ کاروباری لحاظ سے یہ وہ ذریعہ آمدن ہے جو انسان کو روزانہ کی بنیاد پر اخراجات برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ 

سوشل میڈیا کے اگر نقصانات ہیں، تو فائدوں کی فہرست بھی خاصی لمبی ہے۔ اگر سوشل میڈیا کی ضرورت کو مثبت استعمال کی حد تک لیا جائے، تو ”گلوبل ولیج“ کی ترقی کا نیا باب رقم کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا مثبت استعمال ممکن بناتے ہیں یا پھر منفی ۔۔۔؟

                      تحریر: اختر حسین ابدالؔی 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں