منگل، 11 اگست، 2020

12 اگست، جب بابڑہ کے میدان میں پختونوں پر قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی


12 اگست 1948ء وہ بدقسمت دن تھا جب ملک کے پہلے گورنر جنرل ملک میں آمریت کی بُنیاد رکھ چکے تھے، اور صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کے منتخب اور آئینی حکومت کو ختم کیا گیا تھا۔ 

قائدِ اعظم اور قیوم خان کشمیری نے مل کر صوبے میں مسلم لیگ کی حکومت بدستِ زور قائم کی تھی۔ تحریکِ آزادی میں صفِ اوّل کے راہنما اور خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا سمیت صوبے کی دیگر اہم شخصیات کو قید میں ڈال دیا گیا تھا۔

جولائی 1948ء میں صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی سے ایک کالا قانون پاس کرایا گیا، جس کے مطابق صوبائی حکومت کسی بھی شخص کو گرفتار یا نظر بند کراسکتی ہے۔ لیکن کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اپنی گرفتاری کی وجہ جان سکے یا اپنی سزا کو عدالت میں چیلنج کر سکے۔ مزید یہ کہ حکومت کو یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی شہری کی جائیداد کسی بھی وجہ سے ضبط کرسکے گی۔ اِس بل بارے قیوم خان صرف اتنا ہی کہتے تھے کہ ”یہ سب کچھ میں صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی حکم کے تابع میں کر رہا ہوں۔“

مذکورہ بِل کے تحت سینکڑوں قوم پرست راہنماؤں پر تشدّد کیا گیا، پابندِ سلاسل کیے گئے اور اُن کی جائیدادیں ضبط کردی گئی۔ 

12 اگست 1948ء کو خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنوں نے باچا خان اور دیگر راہنماؤں کے گرفتاری اور اس بِل کے خلاف ایک پُرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہا۔

یہ لوگ فلسفہ عدمِ تشدّد کے علمبردار باچا خان بابا کے سچے پیروکار تھے، اور اِس بات کا خاص خیال رکھنے والے تھے کہ کھبی اُن کے ہاتھ سے عدمِ تشدّد کا دامن نہ چُھڑے، اور یہی وجہ تھی کہ احتجاج میں شرکت کےلیے خالی ہاتھ جانا لازم قرار دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کسی بھی شخص کو ڈنڈا ساتھ رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ 

مظاہرین کو جلوس کی شکل میں چارسدہ سے بابڑا کے میدان تک جانا تھا۔ 12 اگست سے کچھ دن پہلے ہی مختلف اخبارات میں احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ اسی وجہ سے  12 اگست 1948ء کو ہزاروں کی تعداد میں لوگ چارسدہ میں جمع ہوگئے اور بابڑا کی طرف چل پڑیں۔  

شروع میں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید حکومت کو اِس احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن جب یہ پُرامن مظاہرین (جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے)، بابڑا کے مقام پر پہنچ گئے، تو قیوم خان پولیس اور ملیشہ کے ساتھ مظاہرین کے سامنے آیا، جلوس کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ لیکن جلوس آگے چلتا رہا کہ اچانک اندھا دُھند فائرنگ کھول دی گئی اور نہتے معصوم لوگ زمین پر تڑپنے لگیں۔ 

قریبی گھروں میں خواتین نے جب گولیوں کی آوازیں سنی تو پولیس کو روکنے کےلیے سر پر قران شریف رکھ کر میدان کی طرف چل دوڑی، لیکن اُن پر بھی گولیاں برسا دی گئی۔

یہ قتلِ عام تقریباً 45 منٹ تک جاری رہا جس کے نتیجے میں 600 سے لے کر 700 تک لوگ شہید ہوئے جب کہ ایک ہزار سے لے کر بارہ سو تک کے قریب لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ کچھ دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِسی دن اموات مذکورہ شمار سے بھی ذیادہ تھی اور تقریباً دو سو پچاس لاشوں کو دریا میں پھینکا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دن اموات کی صحیح تعداد کا آج تک کسی کو پتہ نہیں چلا، کیوں کہ 12 اگست کے بعد اور بھی وحشیت دکھائی گئی اور کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے اپنے عزیزوں کی موت کی خبر پوشیدہ رکھی۔

قیوم خان کی فرعونیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب اُنہوں نے ستمبر 1948ء میں اسمبلی اجلاس کے دوران کہا کہ” 12 اگست کو میں نے بابڑا پر دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کیا تھا۔ جب لوگ منتشر نہ ہوئے تو اُن پر گولیاں چلائی گئی، اور یہ اُن کی خوش قسمتی تھی کیوں کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا تھا، ورنہ اُس دن وہاں سے کسی کو بھی زندہ نہیں جانے دیا جاتا۔“

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں