ہفتہ، 30 مئی، 2020

پاکستان کورونا کو شکست دینے والے ٹاپ 20 ممالک میں شامل


پاکستان کورونا کو شکست دینے والے ٹاپ 20 ممالک میں شامل، پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد اور مرنے والوں کی شرح عالمی اوسط سے بہت کم ہے۔

کراچی (عصرنو۔ تازہ ترین۔ 29 مئی2020) کورونا وائرس کی عالمی وباء کے تناظر میں کم تر شرحِ اموات اور اس بیماری کو شکست دے کر صحت یاب ہوجانے والوں کی ایک بڑی تعداد کے تناظر میں دنیا بھر کے 210 سے زائد ممالک میں پاکستان کا 19 واں نمبر ہے۔ 

اگر ایک طرف دنیا بھر میں ناول کورونا وائرس (کووِڈ 19) سے متاثرہ افراد کی تعداد ساٹھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے اور ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد اس وباء کے ہاتھوں موت کے منہ میں پہنچ چکے ہیں، تو دوسری جانب کورونا وائرس کے پچیس لاکھ سے زیادہ متاثرین اس بیماری کو شکست دے کر صحت یاب بھی ہوچکے ہیں، جو ایک خوش آئند بات ہے۔ پاکستان بھی ان ٹاپ 20 ملکوں میں شامل ہے جو اس عالمی وباء کو بڑے پیمانے پر شکست دے رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 2,076 نئے کیسز کے ساتھ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی کل تعداد 61,226 ہوچکی ہے۔ البتہ پاکستان میں اب تک کیے گئے 508,086 کورونا ٹیسٹوں کے مقابلے میں یہ تعداد صرف 12 فیصد بنتی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں سے 20,231 مکمل صحت یاب ہوچکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وطنِ عزیز میں کورونا کو شکست دینے والے مریضوں کی شرح 33 فیصد ہے جو ایک حوصلہ افزا امر ہے۔

آبادی کے تناظر میں دیکھا جائے تو کورونا وائرس سے متاثرہ پاکستانیوں کی شرح 0.0278 فیصد یعنی دس لاکھ میں سے 278 ہے جو عالمی اوسط 745 فی دس لاکھ سے بہت کم ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کے لحاظ سے جائزہ لیں تو کورونا وائرس کے ہاتھو لقمہ اجل بننے والوں کا تناسب 0.0006 فیصد یعنی دس لاکھ میں سے صرف 06 ہے۔ یہ بھی عالمی اوسط 45.9 فی دس لاکھ سے بہت کم ہے۔ ان تمام نکات کی بنیاد پر پاکستان ان 20 ملکوں میں شامل ہے جو کورونا وائرس کے خلاف بہت بہتر انداز میں کامیاب ہورہے ہیں۔

جمعرات، 28 مئی، 2020

منتخب نمائندوں کی غفلت، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال مٹہ مسائل کی دلدل میں/ خصوصی رپورٹ


سوات (عصرِنو) منتخب نمائندوں کی غفلت اور عدمِ توجہ کی وجہ سے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال مٹہ (ذاکر خان شہید کیٹیگری سی ہسپتال) اپنی بے بسی کا رونا رو رہا ہے۔ جا بجا گندگی کے ڈھیر، بجلی کی ناقص انتظامات اور کئی اشیاء ٹوٹ پھوٹ کا شکار 

تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال جو کہ ضلع سوات کی تیسری بڑی ہسپتال ہے، لیکن حکومت اور انتظامیہ کی غفلت اور عدم توجہ کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل نے اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ہسپتال کے ایم ایس افس کے عین سامنے واقع لیبر روم کے کھڑکی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس میں اندر ڈیلیوری بیڈ پر پڑی خواتین آسانی سے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اب تک کسی نے اُسے بنانے کی زحمت ہی نہیں کی۔

ہسپتال کے پچھلے حصے میں تعمیراتی کام کےلیے گرانے والی دیوار ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ بن سکا، ہسپتال انتظامیہ نے عارضی پردہ لگا رکھا ہے لیکن اس کے باوجود لیبر روم اور فی میل وارڈ میں داخل مریض باہر راستے پر گزرنے والے لوگوں کو نظر آرہی ہیں۔ 

اسی طرح ہسپتال میں جا بجا گندگی کے ڈھیر نظر آتی ہے، جو مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ خود ہسپتال کی سٹاف اپنے ماسک اور گلاؤز (دستانے) ڈسٹ بِن میں ڈالنے کی بجائے زمین پر پھینکتے ہے جس سے کورونا وائرس مزید پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ 

اس کے علاوہ بجلی کے ناقص انتظامات نے بھی کئی مسائل کو جنم دیا ہے کیوں کہ ہر طرف بجلی کے کھلے اور آویزاں تاریں نظر آرہے ہیں، جو کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ 

حکومت نے اگر اِن اہم اور حل طلب مسائل کی طرف توجہ نہ دی اور ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو بقولِ شاعر! 
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 

منگل، 26 مئی، 2020

قصور: جنسی حوس پوری نہ کرنے پر کانسٹیبل نے حافظِ قرآن کو باپ کے سامنے گولی مار کر قتل کردیا


قصور (عصرِنو) بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے بدنام قصور میں جنسی حوس پوری نہ کرنے پر پولیس کانسٹیبل نے ایف ایس سی کے طالب علم اٹھارہ سالہ حافظِ قرآن کو باپ کے سامنے گولی مار کر قتل کردیا.

ایف آئی آر کے مطابق کھڈیاں خاص میں قاری خلیل الرحمٰن اپنے بیٹوں قاری سمیع الرحمٰن اور قاری صفیع الرحمٰن کے ہمراہ نمازِ فجر کےلیے مسجد جارہا تھے، کہ راستے میں پولیس کانسٹیبل معصوم علی آگیا اور قاری سمیع الرحمٰن سے جنسی تسکین کی خواہش کا اظہار کیا۔ قاری سمیع الرحمٰن نے معصوم علی کے بات ماننے سے انکار کیا۔ جس پر کانسٹیبل طیش میں آکر سمیع الرحمٰن کو ان کے باپ خلیل الرحمٰن کے سامنے گولی مار کر قتل کردیا۔ 

ڈی پی او قصور نے تھانہ کھڈیاں کے علاقے میں نوجوان کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعے میں ملوث پولیس اہلکار کو گرفتار کردیا گیا ہے اور اُن کے خلاف انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکار کو قرار واقعی سزا دلوا کر اُسے نشان عبرت بنائیں گے۔

دوسری جانب حافظ سمیع الرحمٰن کے بیہمانہ قتل پر پاکستانی سراپا احتجاج ہیں، اور اس وقت ٹویٹر پر ”جسٹس فار سمیع الرحمٰن“ ٹاپ ٹرینڈ کررہا ہے۔

ہفتہ، 23 مئی، 2020

کچھ سعید اللہ خادمؔ کے بارے میں


بعض لوگ کارخانۀ ایزدی کی طرف سے اس اُجڑے ہوئے دیار کےلیے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوتے ہیں، اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر عقدہ کشا بن جاتے ہیں۔ ان با کمال ناخداؤں کی زندگی کا ہر ایک باب تابناک اور سبق آموز ہے۔ ان کی بچپن پر نظر دوڑائیں یا طالبِ علمی کے زمانے کے احوال پڑھیں، معلمانہ زندگی دیکھیں یا ادبی خوبیاں، ہر جگہ روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے۔ انہی نباضِ قوم و ملت میں ایک معتبر حوالہ وادی سوات سے تعلق رکھنے والے ”سعیداللہ خادم“ بھی ہے، جنہوں نے پشتو زبان و ادب میں اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے۔ 

متوسط جسم، میانہ قد، سرخ و سپید چہرہ، سفید داڑھی، مناسب کالی مونچھیں جن میں ایک آدھ سفید بال، روشن آنکھیں، چال ڈھال میں سلاست روی، آواز میں دھیما پن، پر تاثیر لہجہ اور من موہنی مسکراہٹ جس نے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ 

آپ کا اصل نام سعید اللہ جب کہ خادمؔ تخلص ہے۔ آپ یکم مئی 1968ء کو یوسف زئی قبیلے کے اکاخیل خاندان میں محمد کریم کے گھر اشاڑی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے حاصل کی، جب کہ میٹرک کا امتحان 1985ء کو گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول برہ درشخیلہ سے پاس کیا۔ پھر 1988ء کو ایف اے کا امتحان پشاور بورڈ سے پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔ 

آپ ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ بیٹھے اور اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1990ء کو تور ورسک بونیر میں اپوائنٹمنٹ کے بعد کیا۔ آپ کے شاعر بننے کی داخلی عوامل میں آپ کی شاعری سے دلی لگاؤ، جب کہ خارجی عوامل میں اُس وقت کے حالات شامل تھے۔ آپ کی شاعری کا فنی خوبی اور بنیادی وصف اس کی سلاست اور روانی ہے، لیکن خیال اور جذبہ تک پہنچنا آسان نہیں، کیوں کہ آپ کی شاعری مشکل راہوں پر چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کےلیے بہت جلد اُن کی شعر سے معنی اخذ کرنا مشکل ہے۔ اس حوالے سے حکیم اللہ بریالؔے کچھ یوں لکھتے ہیں: ”خادم صاحب دوسروں کی غیبت اور بے عزتی کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ جس قدر ان کی باتیں میٹھی اور رسیلی ہے، اس قدر ان کی شاعری میں مٹھاس ہے۔ آپ کی شاعری گہری ہے جو آسانی سے عام قاری کی سمجھ میں نہیں آتی، سمجھنے کےلیے قاری کو کئی بار سمندر میں غوطہ لگانا پڑتا ہے۔ بقولِ روغاؔنے بابا! خادم صاحب صحیح معنوں میں ”حمزۂ سوات“ ہیں۔“

 آپ کی ابتدائی شاعری رومانیت کے عطر بیزی سے معطر دیکھائی دیتا ہے۔ موصوف نے 2000ء میں اپنا پہلا شعری مجموعہ ”جوند او جانان“ کے نام سے شائع کیا، جس میں ذیادہ تر رومانیت کو چھیڑا گیا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُنہوں نے اپنے قلم کی باگ پشتون قوم کی اُلجھی ہوئی حالات کی طرف موڑتے ہوئے اسے شعر میں بہتر انداز سے سمویا۔  

آپ مختلف موضوعات پر شاعری کے مختلف اصناف یعنی غزل، نظم اور قطعہ وغیرہ پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہیں کہ ”صنف جو بھی ہو، مسئلہ صنف کا نہیں بلکہ ایک موثر پیغام کا ہے۔ جس صنف میں بھی ایک مثبت اور موثر پیغام اُجاگر ہوسکتا ہے، اسے میں ہی لکھنا چاہیے“۔ لیکن خود آپ کا پسندیدہ صنف غزل ہے، کیوں کہ غزل ہی آپ کی وجہ شہرت ہے۔ اسی لیے غزل لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کی ایک غزل کا مقطع ملاحظہ ہو: 
زما آرزو خو دَ محل بہ پہ سہ چل پورہ شی 
خو بیا بہ سنگہ  آرزوگانے دَ  محل پورہ شی 

آپ کے بقول! ”مجھے وہ تمام شعراء پسند ہیں جو پشتو زبان و ادب اور پشتون قوم کی خدمت کررہے ہیں۔“ لیکن پھر بھی اپنے آئیڈیل شعراء میں حمزہ بابا، رحمت شاہ سائلؔ، عبدالرحیم روغانؔے، محمد حنیف قیسؔ اور محمد گل منصورؔ جیسے قدآوروں کے نام گردانتے ہیں۔ 

قارئین! خادم صاحب پشتو زبان کے علاوہ اردو میں بھی کمال کی شاعری کرتے ہیں،  کیوں کہ اُنہیں پشتو زبان کے علاوہ اردو زبان پر بھی خوب دسترس حاصل ہیں، اسی لیے آپ کا آنے والا شعری مجموعہ اردو ہی کا ہوگا۔ جب ایک درویش انسان جنونِ عشق سے نکل کر دنیا کا سامنا کرتا ہے، تو دنیا سے اس کا مِلن کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس کیفیت کو خادمؔ صاحب اردو کے ایک شعر میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
کیا قیامت ہے کہ مجھ سے دشت گھبرانے لگا 
اے جنونِ عشق میں کیوں ہوش میں آنے لگا 

قارئین! شعراء اور ادباء کے عزت افزائی کی خاطر ان کو القابات سے نوازنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیوں کہ ماضی میں بھی بہت سے شعراء اور ادباء کو مختلف القابات مل چکے ہیں۔ اسی لیے اُن کی گراں قدر خدمات کے صِلے میں وادی سوات کے سفید ریش شاعر اور بابائے قطعہ عبدالرحیم روغاؔنے نے آپ کو ”حمزۀ سوات“ کے لقب سے نوازا۔ جن کے بارے میں روغانے کچھ یوں فرماتے ہیں: ”سعیداللہ خادمؔ میرا پسندیدہ شاعر ہیں، ان کا شمار وادی سوات کے صف اول شعراء میں ہوتا ہے۔ میں بہ ذاتِ خود اِن کی شخصیت، فن اور فکر سے اس حد تک متاثر ہوں کہ انہیں "حمزۀ سوات" کے لقب سے پکارتا ہوں۔“ 

آپ ”ادبی ٹولنوں“ اور مشاعروں سے خود کو کچھ دور ہی رکھتے ہیں جس کی وضاحت کچھ آپ کچھ یوں کرتے ہیں: ”ادبی ٹولنے“ فنڈ کی کمی اور وسائل کی عدم دستیابی کا شکار ہے اس لیے ٹولنے معیاری کتب شائع کرنے سے قاصر ہیں۔ آج کل ”ٹولنے“ محض مشاعرے ہی منعقد کرسکتے ہیں۔ جب کہ مشاعروں کے حوالے سے آپ کچھ یوں فرماتے ہیں: ”مشاعروں سے ایک مثبت اور موثر پیغام اُجاگر ہونا خامِ خیالی ہے کیوں کہ مشاعرے میں ہمیشہ وہی کلام پڑھ کر سنایا جاتا ہے جس سے شاعر کو داد ملنے کی توقع ہو۔“ 

آپ ادب میں اصلاحی تنقید کے بڑی حد تک قائل ہیں جس کا اقرار کچھ یوں کرتے ہیں: ”ادب کو ترقی سے ہمکنار کرنے کےلیے ہمیں تنقید برداشت کرنا ہوگی، کیوں کہ تنقید ہی کی وجہ سے ادب اپنی ارتقائی منازل طے کرسکتی ہے۔“

قارئین! سعید اللہ خادم ایک بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے نثرنگار بھی ہیں، جنہوں نے حال ہی میں خط نسخ اور نستعلیق پر تحقیقی کتاب ”اداگانے دہ قلم“ مکمل کی ہے، جو زیرِ طبع ہے۔ اس تحقیق سے نہ صرف نوجوان شعراء اور محققین فائدہ اُٹھا سکیں گے، بلکہ بی ایس پشتو کے طلبہ بھی مستفید ہو سکیں۔

گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ شعبہ سوشیالوجی کے لیکچرار وقار احمد جو کہ سعیداللہ خادمؔ کے اقرباء میں سے ہیں، اس لیے اُن کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع اکثر اُنہیں ملتا ہے۔ بقولِ وقار احمد! ”خادم صاحب نرم مزاج، قدر دان اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں۔ دوسروں کی رائے، خیالات اور مافی الضمیر کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری معنی خیز اور متنوع پیغامات سے بھری پڑی ہے، جس میں سیاسی، سماجی اور گھریلوں مسائل واضح طور پر نظر آتے ہیں۔

جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ اُنہیں اپنی قوم کی خدمت کرنے کا بھرپور موقع دے، آمین 
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ 

                            بلاگر: اختر حسین ابدالؔی 

جمعہ، 22 مئی، 2020

پی آئی اے کا مسافر طیارہ کراچی میں گِر کر تباہ


کراچی (عصرِنو) پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوائی اڈے کے قریب ایک مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا ہے اور اس حادثے میں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

سول ایوی ایشن کے ترجمان کے مطابق یہ ایئر بس اے 320 طیارہ ملک کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کا تھا اور لاہور سے کراچی آ رہا تھا کہ لینڈنگ سے قبل حادثے کا شکار ہو گیا۔

ترجمان نے بتایا ہے کہ پی آئی اے کی یہ پرواز پی کے 8303 دوپہر ایک بجے لاہور سے روانہ ہوئی تھی۔ حکام کے مطابق طیارے پر 107 افراد سوار تھے جن میں عملے کے آٹھ ارکان اور 99 مسافر شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق طیارہ ماڈل کالونی کے قریب ایسے علاقے میں گرا ہے جہاں انسانی آبادی موجود ہے۔
طیارہ گرنے کے بعد اس میں اور اس کی زد میں آنے والی گاڑیوں میں آگ لگ گئی۔ ٹی وی پر دکھائی دینے والی فوٹیج میں بھی جائے حادثہ سے دھوئیں کے کالے بادل اٹھتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

حادثے کی اطلاع ملتے ہی امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں اور حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جائے حادثہ سے دور رہیں تاکہ امدادی کارروائیوں میں خلل پیدا نہ ہو۔

تاحال حکام کی جانب سے حادثے کی وجوہات اور اس سے ہونے والی جانی اور مالی نقصانات کے بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی ہے تاہم آبادی پر گرنے کی وجہ اس حادثے میں ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں کوورنا کی وبا پھیلنے کے بعد اندرونِ ملک پروازوں کا سلسلہ دو ماہ تک معطل رہنے کے بعد حال ہی میں شروع ہوا ہے۔
مزید تفصیلات آ رہی ہیں۔

پختون ایس ایف خیبر پختونخواہ کا سمسٹر فیسوں میں معافی کا مطالبہ


پشاور (عصرِنو) موجودہ سخت اور مشکل حالات میں طلبہ اپنے ضروریات زندگی پورے نہیں کرسکتے، تو فیس کہاں سے ادا کریں؟ سمسٹر فیسوں کو پچاس فی صد معاف کیا جائے، جمشید وزیر 

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن خیبر پختونخواہ کی آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئرمین جمشید وزیر نے ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے سمسٹر فیسوں میں پچاس فی صد معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ 

آرگنائزنگ کمیٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سہیل اختر کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں موجودہ کورونا وباء نے تمام تر معمولات زندگی متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ چنانچہ غریب طلبہ اپنی سمسٹر فیس ادا نہیں کر سکتے لہٰذا حکومت فیسوں میں کمی کا اعلان کریں۔ 

بدھ، 20 مئی، 2020

پشتو زبان کے معروف شاعر سعید سالار پنجاب میں غیر قانونی طور پر گرفتار


پشاور (عصرِنو) پشتو زبان و ادب کے اُستاد سعید سالار فیصل آباد پنجاب میں غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق سعید سالار پنجاب میں قرنطینہ کیے گئے تھے۔ لیکن قرنطینہ سنٹر میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اُنہوں سے سنٹر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کی اور لکھا کہ ”قرنطینہ سنٹر میں سہولیات نہ ہونے کی برابر ہے، لہٰذا حکومت ہمیں سہولیات دیں یا ہمیں رخصت کریں“۔ 

جس پر ڈپٹی کمشنر فیصل آباد نے طیش میں آکر اُن پر تشدد کی اور حکم دیا کہ باقی تمام لوگوں کو رہا کیا جائے اور اُن کو حراست میں لے کر اُن پر مقدمہ درج کیا جائے۔ جس کے بعد پولیس نے اُن پر مقدمہ درج کرکے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 

پیر، 18 مئی، 2020

تعلیم کے حوالے سے صوبائی حکومت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔ پختون ایس ایف سوات


 تعلیم کے حوالے سے صوبائی حکومت کا رویہ غیر ذمہ دارنہ ہے۔ پختون ایس ایف سوات کے صدر شہاب باغی  

ضلعی جنرل سیکرٹری طارق حسین باغی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہے۔ تعلیمی پالیسی مرکزی حکومت کے طرف سےجاری کرنا غیر ذمہ دارانہ اور 18 آئینی ترمیم کے خلاف ورزی ہے۔ 

کرونا وباء اور کے لاک ڈاؤن کے وجہ سے تمام طلبہ کے فیسوں کو معاف کیا جائے۔ 

حکومت آن لائن کلاسسز شروع کرنے سے پہلے تمام طلبہ کو انٹر نیٹ کی سہولت فراہم کرے اور خصوصاً نئی ضم شدہ اضلاع میں 3g/4g نیٹ کے سہولت فعال کیا جائے بصورت دیگر ہم آن لائن کلاسوں کے مخالفت کرینگے۔ 

 لاک ڈاون کے بازاروں سے ختم ہونے کی خبریں آرہے ہے۔اور تعلیمی ادارے بند ہے۔ کرونا وبا کےحوالے سے حکومت  کے غیر سنجیدگی کے بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

منگل، 12 مئی، 2020

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں معصوم بچوں کو نشانہ بنانا بُزدلانہ فعل ہے، پختون ایس ایف سوات


سوات (عصرِنو) پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے صدر شہاب باغی نے ننگرہار افغانستان میں بچوں کے ہسپتال پر دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کے اس مقدس مہینے میں معصوم بچوں کو نشانہ بنانا بُزدلانہ فعل ہے۔ 

جنرل سیکرٹری طارق حسین باغی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے پختون ایس ایف سوات اس بُزدلانہ حرکت کی مذمت کرتی ہیں۔

 اُنہوں نے کہا کہ غم کے اس گھڑی میں ہم اور ہمارے دعائیں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے دست بہ دعا ہیں کہ رمضان کے اس مقدس اور بابرکت مہینے کی خاطر افغانستان میں امن آئے، کیوں کہ افغان قوم نے امن کی خاطر لازوال قربانیاں دی ہیں۔ 

ہفتہ، 2 مئی، 2020

پشتون تحفظ مومنٹ کے راہنماء عارف وزیر قاتلانہ حملے کے بعد ہسپتال میں انتقال کر گئے


جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے کزن عارف وزیر ہفتے کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں چل بسے۔

وانا کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) عثمان خان نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ واضح رہے کہ حملے کے بعد انہیں علاج کے لیے اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دم توڑ گئے۔

قبل ازیں ایک عہدیدار نے بتایا تھا کہ جمعہ کو عارف وزیر پر وانا کے قریب غواہ خواہ میں ان کے گھر کے باہر گاڑی میں سوار مسلح افراد نے فائرنگ کی تھی۔

عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ عارف وزیر کو گولی لگنے سے شدید زخم آئے تھے اور وہ تشویشناک حالت میں تھے۔

ابتدائی طور پر انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن بعد ازاں علاج کے لیے انہیں اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔

واضح رہے کہ عارف وزیر رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم رہنما علی وزیر کے کزن تھے اور تقریباً ایک ماہ قبل ضمانت پر جیل سے رہا ہوئے تھے۔
علاوہ ازیں ایک رپورٹ کے مطابق واقعے پر موجود عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ عارف وزیر کے گارڈز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں 02 حملہ آور بھی زخمی ہوئے تاہم مسلح افراد ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔

واضح رہے کہ عارف وزیر کے خاندان کے 07 لوگ سال 2007 میں وانا میں عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوچکے ہیں، جس میں ان کے والد سعداللہ جان اور انکل مرزا عالم بھی شامل تھے۔