اس کہاوت کا مطلب ہے انصاف ہونا ، اور یہ ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب سچ اور جھوٹ الگ ہوجائیں اور کسی کو اس کے اچھے یا برے کام کا بدلا ملے ۔
اس کی کہانی یوں ہے کہ ، ایک گوالا بڑا بے ایمان تھا اور دودھ میں پانی ملا کر بیچا کرتا تھا ۔ بہت جلد اس نے اچھے خاصے پیسے جمع کر لئے ۔ ایک روز اس نے ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور اپنے گاؤں کی طرف چلا ۔
گرمی کا موسم تھا ۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا ۔ گوالے کے راستے میں ایک دریا پڑا ۔ اس نے سوچا چلو نہا لیتے ہیں ۔ روپے کی تھیلی اس نے ایک درخت کے نیچے رکھی ۔ تھیلی پر کپڑے ڈال دئیے اور لنگوٹ کس کر پانی میں کود پڑا ۔
اس علاقے میں بندر بہت پائے جاتے تھے ۔ اتفاق کی بات ایک بندر درخت پر چڑھا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا ۔ گوالے کے پانی میں اترتے ہی بندر درخت سے اترا اور روپے کی تھیلی لے کر درخت کی ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا ۔ گوالا پانی سے نکلا اور بندر کو ڈرانے لگا ، لیکن بندر نے تھیلی کھولی اور روپے کو ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا ۔
درخت دریا کے کنارے سے بہت قریب تھا اور روپے اڑ اڑ کر پانی میں گرنے لگے ۔ گوالے نے روپے کو پکڑنے کی بہت کوشش کی ، لیکن پھر بھی آدھے روپے پانی میں جا گرے ۔
راستہ چلتے لوگ جو گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے اور یہ تماشہ دیکھنے جمع ہوگئے تھے ، گوالے کی چیخ و پکار سن کر کہنے لگے ، ”دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا“۔ یعنی گوالے نے جو آدھے پیسے دودھ میں پانی ملا کر بے ایمانی سے کمائے تھے وہ پانی میں مل گئے ۔
بہت خوب جناب
جواب دیںحذف کریں