خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا 06 فروری 1890ء کو ہشنغر اُتمانزوں میں بہرام خان کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں محمد اسماعیل سے حاصل کی ۔ میٹرک امتحان پاس کرنے کے غرض اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صیب کے ہمراہ پشاور سکول چلے گئے ۔ وہاں سے میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے مشن کالج شفٹ ہوگئے ۔
باچا خان بچپن ہی سے پختونوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوشاں تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی پُرامن جدوجہد کا پرچار کیا ۔ اپ برطانوی سامراج کی ظلم اور نا انصافی کے خلاف مسلسل جدو جہد کرتے رہے اور 1929ء میں برطانوی سامراج کے خلاف ایک پُر امن تحریک (خدائی خدمتگار) کی بنیاد رکھی ۔ آپ نے خواتین کی تعلیم و ترقی پر زور دیا ۔ انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔
باچا خان پاکستان کو ایک مضبوط اور جمہوری ریا ست دیکھنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے افغان جنگ میں پاکستان کی بطور فریق سخت مخالفت کی اور انتہا پسندوں کے خلاف آواز بلند کی ۔ باچا خان پختونوں کے لحاظ سے ایک حقیقی قوم پرست اور انقلابی رہنما تھے ۔ اس لئے انہوں نے ان کی حق کی بات تو کی لیکن دوسروں کی حق تلفی کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے پختونوں کو اپنی زبان اور کلچر پر فخر کرنا سکھایا لیکن دوسروں کی تحقیر کی اور نہ دوسروں سے نفرت کا درس دیا ۔ وہ پختونوں کے آیئنی اور قانونی حقوق حاصل کرنے کے لیے تو مگن رہے لیکن کبھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی ۔ دوسروں سے لڑوانے کی بجائے انہوں نے پختون جیسی جنگجو قوم کو عدم تشدّد کا درس دیا ۔ ذاتی فائدے کےلئے کسی غیر قوم سے ساز باز نہیں کی لیکن قوم کے فائدے کےلئے ہر کسی سے مکالمہ اور تعاون کیا ۔ خود زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا لیکن اپنی سہولت کےلئے کبھی بھی اپنی قوم کو آزمائش میں نہیں ڈالا۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تو پختونوں کے بچوں کو بھی لکھنے پڑھنے کی نصیحت کرتے رہے ، اور ان کی تعلیم وتربیت کےلئے بساط بھر کوششیں کیں ۔ ان کی زبان سے کھبی کسی نے پنجابی ، سندھی یا بلوچی وغیر کےلئے گالی نہیں سنی لیکن خود کبھی کسی پنجابی یا فوجی حکمران کے حکومتی دسترخوان سے مستفید نہیں ہوئے ۔
بدقسمتی سے باچا خان جیسے تاریخی شخصیت کو پاکستان نے فراموش کر دیا ہے ۔ اس عظیم لیڈر کا انتقال 20 جنوری 1988ء کو اٹھانوے سال کی عمر میں نظربندی کے دوران ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ آمین
تحریر : اختر حسین ابدالؔی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں