بدھ، 22 جنوری، 2020

مادری اور قومی زبان کی اہمیت


 گواہ ہے جس قوم نے ترقی کی ہے اس قوم کی زبان پر راج کرتی آئی ہے ۔ سومیری ، آریائی ، سامی ، یونانی ، پالی اور فارسی تہذیبیں اور زبانیں دنیا کےلیے مثال ہے ۔

 پھر عرب فتوحات نے شمالی افریقہ کو ، فارسی اسلامی ثقافت کی زبان بنی تو وسط ایشیا اور جنوب ایشیا کو اسی طرح ترکی زبان اور انگریزی زبانوں نے دنیا کو متاثر کیا ۔یہ زبانیں اس لیے ترقی کرتی گیئں کیوں کہ تمام تر سرکاری معمولات ، تجارت اور علم سن زبانوں میں تھے ۔ پھر یہ زبانیں وقتاً فوقتاً اپنی بین الاقوامی حیثیت بحال نہ رکھ سکیں ۔ حتی کہ بعض انتہائی مقامی زبانیں تو بالکل ختم ہوئیں ، کچھ محدود علاقے تک محدود ہوئیں جبکہ بعض زبانوں کی شکل بدل گئی ، جیسے سنسکرت کا انو نال کو ہندی میں اور عبرانی کا عربی میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔

سنسکرت آریاوں کی مقدس زبان تھی مذہبی کتب اور علم کی ترسیل اسی زبان میں ہوتی تھی ۔ یاینی جیسے گرائمر دان بھی ایسی زبان میں ہو گزرے ۔ لیکن جب یہ خواص کی زبان بنی تو صفحہ ہستی سے مٹ گئی ۔ مقابلے میں پالی وہ زبان تھی جس میں بدھ مت تعلیمات عوام و خواص کےلیے یکساں تھے ۔ پس شہرت کے ساتھ ساتھ علمی سعادت بھی پائی ۔بارویں صدی عیسوی جاپانی ادب میں خواتین کےلیے اہم تھی ۔اشرافیہ مرد اس وقت چینی زبان باعث افتخار سمجھتے تھے ۔ لہذا زبان میں نام پیدا کرنا تو کجا جاپانی زبان کی تاریخ سے بھی محروم ہوئے ۔

 حضرت شاہ ولی اللہ کی شہرہ آفتاب کتاب " حجت البالغہ " فارسی زبان میں خواص کےلیے نہ ہوتی تع عوامی پذیرائی ضرور حاصل کرتی ۔ غالب بھی فارسی زبان پر فخر محسوس کرتے تھے لیکن پہچان ان کو اردو نے دی جو کہ مقامی زبان تھی ۔ اسی طرح اقبال بے شک اردو اور فارسی زبانوں میں اعلیٰ مقاموں پر فائز ہوئے لیکن پنجابی زبان ، ادب اور تاریخ میں گمنام ہوگئے ۔ عام پنجابی بھلے شاہ کو جانتے ہیں لیکن اقبال کو نہیں ۔ جبکہ ان کے ہم عصر ٹیگور نے گمنام زبان بنگالی میں اپنے خیالات کا اظہار کرکے پوری دنیا میں بنگالی کا لوہا منوا کر خود کو نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا ۔اگرچہ ظاہر آفریدی اردو ادب کے قدر دان ہیں لیکن شہرت ان کو پشتو افسانوں سے ملی ہے ۔

 یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے پشتون شعراء و ادباء نے اردو زبان و ادب میں نام پیدا کیا ہے لیکن انھیں بچپن میں وہ ماحول ملا ہے جو ایک اردو دان کو نصیب ہونا چاہیے ۔ 

شیکسپیئر اور چیخوف ادب کے افق پر اس لیے چمکے کیوں کہ انہوں نے اپنی اپنی زبانوں میں ادب تخلیق کی ہے ۔ امیر حمزہ خان شنواری اگر کسی اور زبان میں غزل کہتے تو ہرگز بابائے غزل نہ کہلاتے ۔ ذاتی تجربے کی بات ہے کسی علمی مسئلے کہ تہہ تک تب تک نہیں پہنچ پاتا جب تک اس خاص مسئلے سے متعلق پشتو زبان کی کوئی کتاب نہ پڑھی ہو ۔ ہر زبان سیکھنے کےلیے اپنی زبان اکائی ہوتی ہے ۔

 ہر زبان کی کچھ بنیادی آوازیں ہوتی ہیں جس کا استعمال بچپن کے فوک لوری گیت میں کیا جاتا ہے ۔ حتی کہ بندہ خواب بھی اپنی مادری زبان میں دیکھتے ہیں ۔ اس لیے بندہ دن رات محنت کرنے کے باوجود کسی اور زبان پر سو فیصد عبور حاصل نہیں کر سکتا ۔ پس ثابت ہوا کہ مادری زبان میں روزمرہ اور محاورہ کا صحیح استعمال ، املا اور انشاء کی درستگی اور ما فی الضمیر کا موثر اظہار اور زبانوں کے برعکس آسان ہے ۔ 

بد قسمتی سے ہم میں سے اکثر افراد پشتو زبان سے لاعلمی پر فخر محسوس کرتے ہیں حالاں کہ وہ انگریزی بھی نہیں جانتے ۔ جب لکھنے بیٹھ جاتے ہیں تو پشتو الفاظ انگریزی حروف میں لکھتے ہیں ۔ ایک دوست اپنی زبان کا رونا روتے ہوئے فرماتے ہیں کہ " ہماری عبادت عربی میں ، سرکاری معمولات انگریزی میں ، حصول تعلیم اردو میں اور گالیاں پشتو میں دیتے ہیں "۔

قارئین ! کسی قوم کی زبان اس قوم کی ثقافت کا آئینہ دار ہوتی ہے ۔ ثقافت اور زبانیں تب زندہ رہتی ہیں جب وہ قوم متحد اور مضبوط ہوں اور مضبوطی اسی میں ہے کہ ملک کی تمام بڑی بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔ جب یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک میں تین زبانیں قومی ہوسکتی ہیں تو ہمارے ملک میں کیوں نہیں ۔ 

یاد رہے کہ زبانوں کو اہمیت نہ دینے سے قومیں اپنا راستہ بھول جاتی ہیں اور ہم تو اس تجربے سے گزر چکے ہیں کیوں کہ زبان ہی ملک کو دو لخت کرنے کا باعث بنی تھی ۔ 

لفظ مقدس ہے ، اس میں قوم کی ثقافت اور تہذیب محفوظ ہوتی ہے جسے پشتو میں " ننواتے " ، "جرگہ " اور " مرکہ " ، یہ الفاظ خدا ناخواستہ اگر ختم ہوجائے تو تاریخی طور پر پشتون کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ کب تک ہم غیروں کی زبان بولتے رہیں گے ؟ آپ بتائے کتنے صاحب کمال انگریزی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، اور کتنے ہیں جو اس زبان کا ادراک رکھتے ہیں ۔ ہمارے تو تمام تر معمولات اور معاملات زندگی اپنی زبانوں میں ہوتی ہے ۔ 

میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب داد کے مستحق ہیں جنہوں نے 1937ء میں ریاست سوات میں پشتو زبان کو دفتری اور سرکاری زبان بنا دی تھی ۔

لہذا لازم ہے کہ بچے کو مادری زبانوں میں پڑھانے کا بندوبست کیا جائے ۔ لیکن افسوس ! یہاں تو انگریزی بولنا پسند ہے چاہے بندہ میٹرک پاس کیوں نہ ہو اور کچھ ملے یا نہ ملے کم از کم تعلیم کی وزارت تو ان کو مل ہی جاتی ہے ۔
بقول خوشحال خان بابا !
پرہ دئی ژبہ زدہ کول کہ لوئی کمال دے 
خپلہ    ژبہ    ہیرول    بے    کمالی    دہ 

                                                 راقم / ساجد ابو تلتان 

1 تبصرہ: