پیر، 31 اگست، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر تین

قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  

عُنوان: اختلاف
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

جب کسی گروہ میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے، تو خواہ وہ بہت اچھے اور زور آور کیوں نہ ہو، بےکار ہوجاتے ہیں، اور اُن کی طاقت ایک دوسرے کو نیچے گرانے میں صَرف ہوتی ہے۔ اگرچہ خدمت میں اختلاف نہیں ہوتا، اختلاف خود غرضی سے پیدا ہوتا ہے۔ 


توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

اتوار، 30 اگست، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر دو


قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  
عُنوان: بد قِسمت قوم 
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

دُنیا میں وہ قوم بد قِسمت ہوتی ہے جس میں ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو خود ملک اور قوم کی خدمت کےلیے تیار نہ ہو اور جو لوگ خدمت کرتے ہیں، اُن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔


توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

ہفتہ، 29 اگست، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قِسط نمبر ایک

قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان 
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

قومیں صرف دم و درود سے بیدار نہیں ہوتیں، قوموں کو بیدار کرنے کےلیے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہیں جو دیانت دار، مخلص، بے غرض، ایمان دار اور صرف خدا کی خاطر اپنی قوم کی خدمت کےلیے تیار ہو۔ 

اگر قوم کی ترقی کا دار و مدار صرف دم و درود پر ہوتا، وظائف و دعاؤں سے قومیں ترقی کرتے تو ہمارے پیارے پیغمبرِ اسلام صلى الله عليه و سلم اتنی محنت کرتے نہ قربانیاں دیتے اور نہ ہی اتنی تکالیف اُٹھاتیں۔

توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

جمعہ، 28 اگست، 2020

سوات: مدین شاہ گرام اور تیرات نالے میں طغیانی، متعدد مکانات تباہ، تین افراد جاں بحق

سوات (عصرِنو) گزشتہ روز ہونے والی بارشوں نے وادی سوات کے پُر فِضاء مقام مدین میں تباہی مچا دی۔ متعدد مکانات تباہ، تین افراد جاں بحق جبکہ دس سے زائد لاپتہ ہیں

 عصرِنو رپورٹ کے مطابق سوات کے علاقے مدین شاہ گرام اور تیرات نالے میں طغیانی آ گئی ہے جس کی وجہ سے متعدد مکانات تباہ ہوئے ہیں جب کہ تین افراد جاں بحق اور دس سے زائد لاپتہ ہوگئے ہیں۔

سوات کے سیاحتی مقام مدین میں سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاری کا منظر                   
 
ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے دس افراد لاپتہ ہے۔ سیلابی ریلوں سے رابطہ پُل سمیت دیگر املاک کو نقصان پہنچا ہیں، جب کہ علاقے میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم اور عوامی نیشنل پارٹی کے سابق ایم پی اے سید جعفر شاہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کررہے ہیں  

دوسری طرف وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے شاہ گرام اورتیرات نالے میں طغیانی سے جانی نقصان پر اِظہار افسوس کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو متاثرہ علاقے میں امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان کا کہنا تھا کہ متاثرین کو امدادی سامان اور دیگر اشیائے ضروریہ پہنچائی جائیں اور متاثرہ مکینوں کےلیے عارضی رہائش کا بندوبست کیا جائے۔

بدھ، 26 اگست، 2020

حیات بلوچ کی بیہمانہ قتل کے خلاف ملک کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم 21 بلوچ طلبہ کا احتجاجاً ڈگریاں چھوڑنے کا اعلان



کوئٹہ (عصرِنو) حیات بلوچ کی بیہمانہ قتل کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم بلوچستان کے 21 طلبہ نے ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے احتجاجاً اپنے ڈگریاں چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ 

بلوچستان کے ایک طالب علم قادر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ " شہید حیات بلوچ کی قتل کے خلاف مجھ سمیت پاکستان کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم 21 بلوچ طلبہ نے احتجاجاً اپنے ڈگریاں چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ ہمیں معلوم ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہیں، لیکن جس معاشرے میں تعلیم یافتہ ہونے کا انعام محض آٹھ گولیاں ہو، تو وہاں تعلیم حاصل کرنے کا فائدہ کیا  ہے ۔۔۔؟"۔


واقعے کا مختصر داستان
حیات بلوچ جامعہ کراچی میں فزیالوجی کے فائنل سمسٹر کا طالب علم تھا، اور بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے طلبہ سیاست میں ایک فعال کردار ادا کررہا تھا۔ چھٹیوں کی وجہ سے گھر آیا تھا۔

13 اگست کو تُربت کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر بم حملہ ہوا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر سڑک کے ساتھ کھجور کے باغ میں حیات بلوچ اپنے والدین کے ساتھ ہاتھ بٹانے کی غرض سے موجود تھا۔ ایف سی اہلکاروں نے اُن کو والدین کے سامنے ہاتھ باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سڑک پر گھسیٹ کر اُس کے سینے میں آٹھ گولیاں داغ دیں اور یوں اپنی آنکھوں میں مستقبل کی خواب سجانے والا حیات ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے قتل ہوگیا۔

قتل ہونے کے بعد حیات کی خون میں لت پت لاش کے سامنے اُن کے والدین آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے فریاد کرتے ہوئے بے بس نظر آرہے ہیں 

اس واقعہ کے بعد نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے اندر طلبہ اور محنت کشوں میں ایک دُکھ اور درد اُبھرتا گیا اور یوں سوشل میڈیا پر حیات بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف بھر پور انداز میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ 

پیر، 24 اگست، 2020

اسفندیار ولی خان پر جھوٹی الزامات، عدالت کا شوکت یوسف زئی کو ڈیڑھ ارب ہرجانہ ادا کرنے کا حکم

جولائی 2019ء میں شوکت یوسف زئی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے 25 ملین ڈالر کی عوض پختونوں کی سروں کا سودا کیا ہے۔

پشاور (عصرِنو) پشاور کے عدالت نے سابق صوبائی وزیر اور تحریکِ انصاف کے سابق ترجمان شوکت یوسف زئی کو ڈیڑھ ارب ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق شوکت یوسف زئی نے اسفندیار ولی خان پر 25 ملین ڈالر کے عوض پختونوں کے سروں کا سودا کرنے کا الزام لگایا تھا۔ جس پر  اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے شوکت یوسف زئی سے سرِعام معافی مانگنے یا 15 کروڑ ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ شوکت یوسف زئی کو بار بار نوٹسز جاری کیے لیکن وہ عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔ جس پر عدالت نے یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے شوکت یوسف زئی کو 
ڈیڑھ ارب ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالتی فیصلے کے اہم نکات 
شوکت یوسفزئی اے این پی سربراہ پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ کرسکے، یکطرفہ فیصلہ جاری

سابق حکومتی ترجمان اور موجودہ وزیر محنت شوکت یوسفزئی عدالت میں جواب نہ دے سکے

عدالت نے صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کی عدم پیشی پر اسفندیارولی خان کے حق میں فیصلہ سناتی ہے

شوکت یوسفزئی نے 25 جولائی 2019ء میں اپوزیشن جلسے کے بعدالزام لگایا تھا کہ ”اسفندیارولی خان نے 25ملین ڈالر میں پختونوں کا سودا کیا“

ڈسٹرکٹ سیشن جج پشاور نے کئی نوٹسز جاری کئے لیکن شوکت یوسفزئی پیش نہ ہوسکے

شوکت یوسفزئی کے بے بنیاد الزامات کے خلاف اے این پی سربراہ نے 15 کروڑ روپے ہرجانے اور ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا

آج تک شوکت یوسفزئی کسی بھی نوٹس کا جواب نہ دے سکے نہ ہی الزامات ثابت کرنے کےلیے شواہد پیش کرسکے

عدالت نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر کے حق میں فیصلہ دے دیا

اتوار، 23 اگست، 2020

بھارت میں خدائی خدمت گار ایمبولینس سروس کا آغاز

خدائی خدمت گار ایمبولینس سروس کا مقصد بھارت کے باشندوں کو فری ایمبولینس سروس مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو باچا خان کی سوچ، افکار اور پیغام پہنچانا ہیں۔

دہلی (عصرِنو) بھارت میں خدائی خدمت گار تنظیم نے ایمبولینس سروس شروع کی ہے۔ سروس کے تمام ایمبولینس گاڑیوں کو خدائی خدمت گار تحریک کے بانی اور فلسفہ عدم تشدّد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی تصاویر سے مزیّن کیا گیا ہے۔

ایک ایمبولینس پر خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا تصویر نمایاں ہے

 خدائی خدمت گار ایمبولینس سروس کے سربراہ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سروس شروع کرنے مقصد صرف اور صرف مذہب اور رنگ و نسل سے بالاتر ہوکر پوری انسانیت کو فری ایمبولینس سروس مہیا کرنا اور ساتھ ہی ساتھ باچا خان کی خدمت، سوچ اور افکار لوگوں تک پہنچانا ہے۔
 
اُنہوں نے مزید کہا کہ ہماری یہ سروس غیر مسلموں اور مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش ہے کہ خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا ایک ایماندار، مخلص، محنتی، سچّا اور اپنی اصولوں پر کار بند رہنے والے عظیم لیڈر تھے۔ جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف لڑکر برِصغیر پاک و ہند کو انگریزوں سے آزادی دلائی۔

جمعہ، 21 اگست، 2020

سینیٹر میر حاصل بزنجو کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا پورا نہیں ہوگا، ایوب خان اشاڑی

سوات (عصرِنو) نیشنل پارٹی کے سربراہ، بلوچ قوم پرست سیاست دان اور مظلوم و محکوم قومیتوں کی توانا آواز سینیٹر میر حاصل بزنجو پیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے اِنتقال کر گئے ہیں، اُن کے اِنتقال پر ملکی سیاسی و سماجی رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے بھی سینیٹر میر حاصل بزنجو کی وفات پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میر حاصل بزنجو کی انتقال سے نہ پُر ہونے والا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ 

اُنہوں نے کہا کہ میر حاصل بزنجو کو کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف ہمت و حوصلے سے لڑتے ہوئے دیکھا، اور آپ آخری وقت تک اپنی قوم کی خدمت میں سرگرم رہے۔ اُن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ 

 ایوب خان اشاڑی نے کہا کہ حاصل بزنجو نیشنل پارٹی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ اُن کی وفات کی خبر سُن کر بہت دُکھ ہوا، ایوب اشاڑی نے اہلِ خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کی بلند درجات اور اہلِ خانہ کےلیے صبرِ جمیل کی دعا کی۔

جمعرات، 13 اگست، 2020

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تاریخی امن معاہدہ، سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے پر اتفاق کر لیا ہے۔

صدر ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو اظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے جمعرات کو ایک مشترکہ بیان میں اس امید کا اظہار کیا کہ یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطی میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گا۔

اب تک اسرائیل اور خیلج کے عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں تھے۔ دونوں ملکوں میں ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کی وجہ سے غیر رسمی رابطے تھے۔

منگل، 11 اگست، 2020

12 اگست، جب بابڑہ کے میدان میں پختونوں پر قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی


12 اگست 1948ء وہ بدقسمت دن تھا جب ملک کے پہلے گورنر جنرل ملک میں آمریت کی بُنیاد رکھ چکے تھے، اور صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) کے منتخب اور آئینی حکومت کو ختم کیا گیا تھا۔ 

قائدِ اعظم اور قیوم خان کشمیری نے مل کر صوبے میں مسلم لیگ کی حکومت بدستِ زور قائم کی تھی۔ تحریکِ آزادی میں صفِ اوّل کے راہنما اور خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا سمیت صوبے کی دیگر اہم شخصیات کو قید میں ڈال دیا گیا تھا۔

جولائی 1948ء میں صوبہ سرحد کی صوبائی اسمبلی سے ایک کالا قانون پاس کرایا گیا، جس کے مطابق صوبائی حکومت کسی بھی شخص کو گرفتار یا نظر بند کراسکتی ہے۔ لیکن کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اپنی گرفتاری کی وجہ جان سکے یا اپنی سزا کو عدالت میں چیلنج کر سکے۔ مزید یہ کہ حکومت کو یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ کسی بھی شہری کی جائیداد کسی بھی وجہ سے ضبط کرسکے گی۔ اِس بل بارے قیوم خان صرف اتنا ہی کہتے تھے کہ ”یہ سب کچھ میں صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی حکم کے تابع میں کر رہا ہوں۔“

مذکورہ بِل کے تحت سینکڑوں قوم پرست راہنماؤں پر تشدّد کیا گیا، پابندِ سلاسل کیے گئے اور اُن کی جائیدادیں ضبط کردی گئی۔ 

12 اگست 1948ء کو خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنوں نے باچا خان اور دیگر راہنماؤں کے گرفتاری اور اس بِل کے خلاف ایک پُرامن احتجاج ریکارڈ کرانا چاہا۔

یہ لوگ فلسفہ عدمِ تشدّد کے علمبردار باچا خان بابا کے سچے پیروکار تھے، اور اِس بات کا خاص خیال رکھنے والے تھے کہ کھبی اُن کے ہاتھ سے عدمِ تشدّد کا دامن نہ چُھڑے، اور یہی وجہ تھی کہ احتجاج میں شرکت کےلیے خالی ہاتھ جانا لازم قرار دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کسی بھی شخص کو ڈنڈا ساتھ رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ 

مظاہرین کو جلوس کی شکل میں چارسدہ سے بابڑا کے میدان تک جانا تھا۔ 12 اگست سے کچھ دن پہلے ہی مختلف اخبارات میں احتجاج کی کال دی گئی تھی۔ اسی وجہ سے  12 اگست 1948ء کو ہزاروں کی تعداد میں لوگ چارسدہ میں جمع ہوگئے اور بابڑا کی طرف چل پڑیں۔  

شروع میں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید حکومت کو اِس احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن جب یہ پُرامن مظاہرین (جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے)، بابڑا کے مقام پر پہنچ گئے، تو قیوم خان پولیس اور ملیشہ کے ساتھ مظاہرین کے سامنے آیا، جلوس کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ لیکن جلوس آگے چلتا رہا کہ اچانک اندھا دُھند فائرنگ کھول دی گئی اور نہتے معصوم لوگ زمین پر تڑپنے لگیں۔ 

قریبی گھروں میں خواتین نے جب گولیوں کی آوازیں سنی تو پولیس کو روکنے کےلیے سر پر قران شریف رکھ کر میدان کی طرف چل دوڑی، لیکن اُن پر بھی گولیاں برسا دی گئی۔

یہ قتلِ عام تقریباً 45 منٹ تک جاری رہا جس کے نتیجے میں 600 سے لے کر 700 تک لوگ شہید ہوئے جب کہ ایک ہزار سے لے کر بارہ سو تک کے قریب لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ کچھ دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اِسی دن اموات مذکورہ شمار سے بھی ذیادہ تھی اور تقریباً دو سو پچاس لاشوں کو دریا میں پھینکا گیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دن اموات کی صحیح تعداد کا آج تک کسی کو پتہ نہیں چلا، کیوں کہ 12 اگست کے بعد اور بھی وحشیت دکھائی گئی اور کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے اپنے عزیزوں کی موت کی خبر پوشیدہ رکھی۔

قیوم خان کی فرعونیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب اُنہوں نے ستمبر 1948ء میں اسمبلی اجلاس کے دوران کہا کہ” 12 اگست کو میں نے بابڑا پر دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کیا تھا۔ جب لوگ منتشر نہ ہوئے تو اُن پر گولیاں چلائی گئی، اور یہ اُن کی خوش قسمتی تھی کیوں کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا تھا، ورنہ اُس دن وہاں سے کسی کو بھی زندہ نہیں جانے دیا جاتا۔“

منگل، 4 اگست، 2020

باچا خان کی شخصیت، جواہر لعل نہرو کی نظر میں


جنگِ آزادی کے عظیم ہیرو اور لیڈر خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا بیمار تھے، اور دہلی کی ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ جواہر لعل نہرو اپنی چھوٹی بیٹی اندرا گاندھی کے ساتھ روز صبح سویرے باچا خان بابا کے عیادت کےلیے ہسپتال جاتے تھے۔ 

ایک دن اِندرا گاندھی نے اپنے والد جواہر لعل نہرو سے پوچھا کہ آخر یہ بزرگ ہے کون، جس سے ہم روز ملنے آتے ہیں ۔۔۔؟  جواہر لعل نہرو نے اپنی بیٹی اِندرا کو تاریخ ساز جواب دیتے ہوئے کہا کہ: ”بیٹا اگر یہ بزرگ (باچا خان بابا) نہ ہوتے تو شاید آج بھی میں اور آپ غلامی کی زندگی بسر کرتے“۔


یہ تصویر اُس وقت کی ہے جب اِندرا گاندھی بڑی ہوکر بھارت کی وزیراعظم بنی، تو اُنہوں نے باچا خان کو بھارت بُلا کر خود اُن کی استقبال کےلیے ائیر پورٹ پر کھڑی تھی۔