بدھ، 26 اگست، 2020

حیات بلوچ کی بیہمانہ قتل کے خلاف ملک کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم 21 بلوچ طلبہ کا احتجاجاً ڈگریاں چھوڑنے کا اعلان



کوئٹہ (عصرِنو) حیات بلوچ کی بیہمانہ قتل کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم بلوچستان کے 21 طلبہ نے ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے احتجاجاً اپنے ڈگریاں چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ 

بلوچستان کے ایک طالب علم قادر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ " شہید حیات بلوچ کی قتل کے خلاف مجھ سمیت پاکستان کے مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم 21 بلوچ طلبہ نے احتجاجاً اپنے ڈگریاں چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ ہمیں معلوم ہیں کہ یہ فیصلہ غلط ہیں، لیکن جس معاشرے میں تعلیم یافتہ ہونے کا انعام محض آٹھ گولیاں ہو، تو وہاں تعلیم حاصل کرنے کا فائدہ کیا  ہے ۔۔۔؟"۔


واقعے کا مختصر داستان
حیات بلوچ جامعہ کراچی میں فزیالوجی کے فائنل سمسٹر کا طالب علم تھا، اور بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے طلبہ سیاست میں ایک فعال کردار ادا کررہا تھا۔ چھٹیوں کی وجہ سے گھر آیا تھا۔

13 اگست کو تُربت کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر بم حملہ ہوا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر سڑک کے ساتھ کھجور کے باغ میں حیات بلوچ اپنے والدین کے ساتھ ہاتھ بٹانے کی غرض سے موجود تھا۔ ایف سی اہلکاروں نے اُن کو والدین کے سامنے ہاتھ باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سڑک پر گھسیٹ کر اُس کے سینے میں آٹھ گولیاں داغ دیں اور یوں اپنی آنکھوں میں مستقبل کی خواب سجانے والا حیات ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے قتل ہوگیا۔

قتل ہونے کے بعد حیات کی خون میں لت پت لاش کے سامنے اُن کے والدین آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے فریاد کرتے ہوئے بے بس نظر آرہے ہیں 

اس واقعہ کے بعد نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کے اندر طلبہ اور محنت کشوں میں ایک دُکھ اور درد اُبھرتا گیا اور یوں سوشل میڈیا پر حیات بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف بھر پور انداز میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں