اتوار، 22 نومبر، 2020

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی والدہ انتقال کرگئیں



لاہور (عصرنو) مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شمیم اختر کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ نواز اور شہباز کی والدہ شمیم اختر کا انتقال ہوا ہے

تفصیلات کی مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز  شریف اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی والدہ ماجدہ شمیم اختر انگلینڈ میں انتقال کرگئیں۔

ذرائع مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ شمیم اختر کی میت پاکستان لانے یا نہ لانے کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔

بدھ، 18 نومبر، 2020

ڈارک ویب پر بچوں فحش کے ویڈیوز اپلوڈ کرنے والے سہیل آیاز کو تین بار سزائے موت دینے کا حکم


راولپنڈی (عصرنو) ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کی عدالت نے ڈارک ویب کیس میں بڑا فیصلہ سنا دیا، ڈارک ویب سائٹ چلانے والے سہیل ایاز کو 3 بار سزائے موت سنادی گئی۔ مجرم سہیل ایاز کو 3 بار عمر قید اور 55 لاکھ روپے جرمانہ کی بھی سزا سنائی گئی ہے جب کہ عدالت نے شریک مجرم خرم کو 77 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی سزا یافتہ ڈارک ویب چلانے والے سہیل ایاز کیس کا ڈراپ سین، عدالت کا فیصلہ آگیا۔ عدالت نے بچوں سے زیادتی اور وڈیوز بنانے والے مجرم سہیل ایاز کو تین بار  سزائے موت تین بار عمر قید اور پانچ لاکھ جرمانہ کی سزا سنا دی۔ ملزم کے ساتھی خرم کو سات سال قید ایک لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ 

واضح رہے کہ سہیل ایاز نے سینکڑوں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کی اور ان کی تصاویر اور وڈیوز ڈارک ویب پر نشر کی تھی۔ مجرم برطانیہ کے عدالت سے بھی چار سال کی سزا کاٹ چکا ہے۔ مجرم کی خلاف اٹلی میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کا مقدمہ چلایا گیا تھا۔ سہیل ایاز کے متعلق برطانوی اخبار دی گارڈئین میں بھی گیارہ سال پہلے  تحقیقاتی خبر شائع ہوئی۔

یاد رہے کہ روات پولیس نے سہیل ایاز کو نجی ہاؤسنگ سوساٹئی سے گرفتار کیا تھا۔ راولپنڈی میں ملزم پر اغوا زیادتی اور ویڈیو بنانے کے تین  مقدمات درج تھے۔

جمعہ، 13 نومبر، 2020

تحریکِ انصاف کی ننواتے اور اے این پی کا بڑا پن


آج سے چند دن پہلے وفاقی وزیر برائے داخلہ اُمور بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”عوامی نیشنل پارٹی نے طالبان کی مخالفت کی، تو اُنہوں نے بلور کو مار دیا، میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے (میاں راشد حسین) کو مار دیا، اُن کے کارکنان کو مار دیا، یہ طالبان کی جانب سے ایک ری ایکشن تھا، اور اب جو لوگ نون لیگ کے بیانیے کا ساتھ دے رہے ہیں، اُن کو اللہ خیر کرے۔“

موصوف کی وائرل شدہ ویڈیو پر پوری پختون قوم اور بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین اور کارکنان کی طرف سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ صوبائی صدر اور ولی باغ کی سیاسی وارث ایمل ولی خان نے متنازعہ بیان پر اعجاز شاہ سے فوری طور پر مستعفی ہونے اور ریاست سے ایک غیر جانب دار تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ پہلے پہل حکومت یہ بات سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں تھی، لیکن ایمل ولی خان نے جب 10 دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اسلام آباد کی طرف ”سُرخ پوش مارچ“ کا اعلان کیا تو حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا۔ یوں اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سے ختم کرنے کےلیے وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک مذاکراتی ٹیم (جرگہ) تشکیل دی۔ جس میں وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ، صوبائی وزیرِ صحت تیمور جھگڑا اور ارباب شیر علی خان شامل تھے۔ 

جرگہ نے باچا خان مرکز پشاور میں اے این پی کی قائدین حاجی غلام احمد بلور، میاں افتخار حسین، ایمل ولی خان، سردار حسین بابک، ثمر ہارون بلور اور دیگر مرکزی و صوبائی قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی متنازعہ بیان پر وضاحت دینے کے ساتھ ساتھ پوری پختون قوم سے معافی بھی مانگ لی۔ جس کے بعد اے این پی نے وزیر داخلہ کی معافی اور معذرت کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ ”پختون روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم اِن لوگوں کی جرگہ (ننواتے) اور معذرت کو قبول کرتے ہیں۔

اس بیان کے بعد چند سوشل میڈیائی صحافیوں کے ساتھ ساتھ حادثاتی انقلابیوں اور کچھ سیاسی جماعتوں کے نابالغ کارکنوں نے اے این پی اور ایمل ولی خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اُن کو جن الفاظ سے نوازا، وہ ضبطِ تحریر میں لانے کی قابل نہیں۔

قارئین! ”ننواتے“ ایک عظیم قوم (پختون) کی ایک عظیم روایت ہونے کے ساتھ ساتھ پختون ولی کا ایک اہم اور ضروری عنصر ہے۔ بقولِ پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے ”ننواتے (جرگہ) پختون ولی کا اہم جز ہے، اگر کوئی پختون ننواتے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اُسے مسترد کرتا ہے، تو پختون معاشرے میں اس شخص کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔“

اس موقع پر اے این پی کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ ”ننواتے“ کو قبول کرکے موصوف کو معاف کیا جاتا، جس طرح کیا گیا۔ دوسرا راستہ، پختون ولی اور ننواتے سے منھ پھیر کر ”جرگہ“ ماننے سے انکار کیا جاتا۔ اب عوامی نیشنل پارٹی بحیثیتِ پختون قوم کی نمائندہ جماعت اگر پختون ولی (ننواتے) سے انکار کرتی، تو کیا وہ اپنی قوم پرست بیانیے کو برقرار رکھ پاتی ۔۔۔؟ 

قارئین! لہذا ہمیں اپنی سیاسی بغض اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بحیثیتِ پختون قوم اپنی روایات کو زندہ رکھنا ہوگا، کیوں ثقافت اور روایات ہی وہ شے ہیں جس کی بنیاد پر قومیں اپنی ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔

      تحریر: اختر حسین ابدالؔی 

منگل، 10 نومبر، 2020

خیبر میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کی طالب علم عدنان حلیم کورونا سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے


عدنان حلیم کا تعلق ودای سوات کے پُربہار علاقہ فتح پور سے تھا، خیبر میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے، کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارگئے۔ 

پشاور (عصرِنو) خیبر میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کی طالب علم کورونا سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کی ترجمان کے مطابق نوجوان عدنان حلیم کو وبائی مرض کے سبب شدید بخار کی حالت میں اتوار کے روز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، دو دن زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہوئے کورونا سے لڑ رہے تھے کہ آج اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ 

سوات سے تعلق رکھنے والے طالب علم عدنان حلیم ایف ایس سی میں سوات بورڈ کے ٹاپر تھے، جس کی وجہ سے اُنہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا۔ 

یاد رہے کہ عدنان حلیم عوامی نیشنل پارٹی یو سی فتح پور کے جنرل سیکرٹری محمد حلیم خان کے فرزند تھے۔

پیر، 9 نومبر، 2020

پختون روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی جرگہ اور معذرت کو قبول کرتے ہیں، ایمل ولی خان


پشاور (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے تحریک انصاف کی جرگہ اور معذرت قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ پختون روایات کو مدنظر رکھ کر ہم آئے ہوئے وفد کا جرگہ اور معذرت کو قبول کرتے ہیں۔ 

وفاقی وزیر برائے داخلہ امور بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ کی بیان سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تحریک انصاف کی وفد وفاقی وزیردفاع پرویز خٹک کی قیادت میں باچا خان مرکز پشاور آئی، جس نے اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، صوبائی صدر ایمل ولی خان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیر داخلہ نے اپنی بیان پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے بات کو میڈیا نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا۔ 

وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ، صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا اور ارباب شیر علی بھی تحریک انصاف کی وفد میں شامل تھے۔ جب کہ اے این پی کی طرف سے مرکزی سیکرٹری مالیات حاجی ہدایت اللہ خان، حاجی غلام احمد بلور، صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک، صوبائی ترجمان و ایم پی اے ثمر ہارون بلور اور دیگر مرکزی و صوبائی کابینہ کے اراکین بھی موجود تھے۔

سُرخ پوش مارچ، تحریک انصاف کی قائدین اے این پی کو منانے باچا خان مرکز جائیں گے


ملاقات میں وفاقی وزیر اعجاز شاہ، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان بھی شریک ہوں گے، پرویز خٹک 

پشاور (عصرِنو) وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اسلام آباد کی جانب مارچ اور دھرنے کے اعلان کے تناظر میں پی ٹی آئی قائدین اے این پی کو منانے کےلیے باچا خان مرکز پشاور جائیں گے۔

ملاقات میں وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر داخلہ اعجاز شاہ بھی شریک ہوں گے۔

پرویز خٹک نے کہا کہ ملاقات میں اے این پی قیادت کو اسلام آباد میں دھرنا نہ دینے پر قائل کرنے اور گلے شکوے دور کریں گے، جب کہ اعجاز شاہ کے بیان سے متعلق بھی بات چیت کی جائے گی۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات آج متوقع ہے جس میں وفاقی وزیر اعجاز شاہ اے این پی قائدین سے معافی مانگیں گے۔

جمعرات، 5 نومبر، 2020

باچا خان بابا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ملاقات


خدائی خدمت گار اور باچا خان کا نام سنتے ہی عمومیت کے دل اور سوچ میں غدار اور پاکستان دُشمن کے کردار سامنے آجاتے ہیں، جو کہ بالکل تاریخ سے نا آشنائی اور تاریخ سے دُشمنی کا نتیجہ ہے۔

جناب شریف فاروق ایک کہنہ مشق صحافی ہیں، وہ ہیں تو پنجابی لیکن عالمِ شباب سے صوبہ خیبر پختون خوا کے دارلحکومت پشاور میں مقیم ہیں۔ کئی معروف اخبارات کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، جب کہ روزنامہ ”جہاد پشاور اور اسلام آباد“ کے مُدیر و مالک بھی ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات پر کافی گہری نظر اور نشیب و فراز کےلیے جانے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک کتابچے میں لکھا ہے کہ، ”خان عبدالغفار خان پر پاکستان دُشمنی، اسلام دُشمنی، مسلمانوں سے نفرت، نظریۂ پاکستان کی دُشمنی اور مضبوط مرکز (وفاق) کی مخالفت کے الزامات مختلف حیلوں اور بہانوں سے عائد کیے جاتے رہے ہیں، مگر تاریخ نے اپنے حتمی فیصلے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے، دراصل الزامات عائد کرنے والوں کے مجرمانہ ضمیر کی صدائے باز گشت تھی۔“

ہمارے اس وطن میں باچا خان بابا پر یہ الزام بھی مشہور ہے کہ باچا خان کا سیاسی جُھکاؤ شخصیت کے اعتبار سے گاندھی کی طرف تھا، باچا خان قائد اعظم محمد علی جناح سے نفرت اور اُن سے ذاتیات کے بناء پر دور رہتے تھے۔ حالاں کہ باچا خان اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ جب 1929ء میں اُنہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی، تو اُنہوں نے سب سے پہلے دستِ تعاؤن مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی طرف بڑھایا۔ مگر اُن کی غیر سنجیدگی اور انکار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خدائی خدمت گاروں نے کانگرس میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا۔  

قائدِ اعظم محمد علی جناح سے ملاقات باچا خان کی پاکستان اور محمد علی جناح سے رشتے اور تعلق کی نوعیت بالکل صاف اور واضح کر دیتی ہے۔

23 فروری 1948ء کو باچا خان نے پاکستان کی پارلیمینٹ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کی، وہ چاہتے تو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حسبِ سابق رُکن رہ سکتے تھے، لیکن آپ نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بطورِ رکن رہنے کو ترجیح دی اور وفاداری کا حلف اُٹھایا۔ جس پر بانی پاکستان محمد علی جناح بہت خوش ہوئے۔ اُنہوں نے باچا خان کو چائے پر مدعو کیا، دونوں رہنماؤں میں ملکی مفادات کے بارے میں گفتگو ہوئی، ماضی کی شکر رنجیاں اور چشمک کا دور لد گیا، جب کہ قائدِ اعظم اس حد تک مسرور تھے کہ اُنہوں نے باچا خان سے بِلا تکلف کہا کہ ”آج میرا پاکستان کا خواب پورا ہوا۔“

باچا خان کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے، مصافحہ کیا اور خلافِ معمول معانقہ بھی۔ وہ واپسی پر کار چھوڑنے آئے۔ اپنے ہاتھ سے کار کا دروازہ کھولا اور کار کی روانگی تک کھڑے رہے۔ قائدِ اعظم کے حسنِ اخلاق نے باچا خان کو بہت متاثر کیا۔ اس ملاقات کی کامیابی اور اس پر خوشی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم نے مزید گفت و شنید کےلیے اُنہیں اگلے ہی روز کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد قائدِ اعظم باچا خان کو ایک علاحِدہ کمرے میں لے گئے جہاں ایک گھنٹے تک دونوں رہنماؤں کے درمیان پاکستان کے مستقبل بارے بات چیت ہوئی۔

قائد اعظم نے باچا خان سے پوچھا کہ، ”اب آپ کا کیا پروگرام ہے ۔۔۔؟“
جس پر باچا خان نے کہا کہ، ”اب آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ میں خدائی خدمت گار کا پُرانا اصلاحی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہوں۔“
باچا خان نے قائدِ اعظم کو خدائی خدمت گار تحریک کے اغراض و مقاصد بتائے اور واضح کیا کہ انگریزوں نے کس طرح اس سماجی تحریک کا رُخ سیاست کی طرف موڑا تھا۔ باچا خان کی باتیں سُن کر محمد علی جناح اپنی نشست سے بڑے پُر جوش انداز میں اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور خلافِ عادت باچا خان کو گلے سے لگایا اور کہا کہ ” ایسے کام کےلیے میں بھی ہر قسم کی مدد کروں گا۔“
جس پر باچا خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ، ”مجھے صرف آپ کے اعتماد اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔“
قائدِ اعظم نے کہا کہ، ”میں ملک کا آئینی سربراہ ہوں۔ میری نظر میں سب جماعتیں یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔“

اس ملاقات سے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی خوش گوار صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہونے لگے، باچا خان نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی جس کو محمد علی جناح نے قبول کیا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان پر مسلط طبقہ مفاد پرست ٹولہ تھا، اس لیے اُن کا مستقبل تاریک ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے مفادات کو براہِ راست ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ اس لیے سازشی ٹولہ نے سازشوں کے جال بچھانا شروع کر دئیے اور بعد میں یہی جماعت پاکستان مخالف اور غدار جماعت ٹھہرائی گئی، اور مستقبل میں اُن کے ساتھ کون سی رویے اور مظالم ڈھائے گئے، تاریخ ماضی کی اُن تمام کارستانی پر قلم بند ہے۔

تحریر: شاہد خان           

اتوار، 1 نومبر، 2020

یکم نومبر، جب ممتاز قوم پرست سیاست دان اور ”پختون قامی وحدت“ کے علمبردار محمد افضل خان لالا گزر گئے


عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر راہنما، پختون قامی وحدت کے علمبردار، سابق وفاقی و صوبائی وزیر اور وادی سوات میں شدت پسندوں کے خلاف مزاحمت کی آواز خان محمد افضل خان لالا یکم نومبر 2015ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ 

وہ تقریباً ایک برس تک سوات کے طالبان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے شورش زدہ وادی میں اپنے آبائی مکان میں محصور رہے، لیکن اُسے چھوڑا نہیں۔

اُس شورش کے دوران اُنہیں کئی مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کے علاوہ اپنے دو نواسوں، ڈرائیور اور ملازم کے قتل جیسے خونی وار برداشت کرنا پڑے۔ تاہم اُن کا پایۂ استقلال پختہ تھا۔

جی او سی ملاکنڈ میجر جنرل نادر خان، افضل خان لالا کا استقبال کرتے ہوئے

افضل خان لالا نے ساٹھ کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا، ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کی جانب سے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خواہ) کے صوبائی وزیر رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں افضل لالا وفاقی وزیر برائے اُمورِ کشمیر بھی رہے، اُنیس سو ستانوے کے بعد سے اُنہوں نے انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

موصوف کو پیپلز پارٹی کے تیسرے دورِ حکومت میں دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانے پر ”ہلالِ شُجاعت“ سے بھی نوازا گیا تھا۔ آپ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ چھ کتابوں کے مصنف بھی تھے۔