
خدائی خدمت گار اور باچا خان کا نام سنتے ہی عمومیت کے دل اور سوچ میں غدار اور پاکستان دُشمن کے کردار سامنے آجاتے ہیں، جو کہ بالکل تاریخ سے نا آشنائی اور تاریخ سے دُشمنی کا نتیجہ ہے۔
جناب شریف فاروق ایک کہنہ مشق صحافی ہیں، وہ ہیں تو پنجابی لیکن عالمِ شباب سے صوبہ خیبر پختون خوا کے دارلحکومت پشاور میں مقیم ہیں۔ کئی معروف اخبارات کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، جب کہ روزنامہ ”جہاد پشاور اور اسلام آباد“ کے مُدیر و مالک بھی ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات پر کافی گہری نظر اور نشیب و فراز کےلیے جانے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک کتابچے میں لکھا ہے کہ، ”خان عبدالغفار خان پر پاکستان دُشمنی، اسلام دُشمنی، مسلمانوں سے نفرت، نظریۂ پاکستان کی دُشمنی اور مضبوط مرکز (وفاق) کی مخالفت کے الزامات مختلف حیلوں اور بہانوں سے عائد کیے جاتے رہے ہیں، مگر تاریخ نے اپنے حتمی فیصلے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے، دراصل الزامات عائد کرنے والوں کے مجرمانہ ضمیر کی صدائے باز گشت تھی۔“
ہمارے اس وطن میں باچا خان بابا پر یہ الزام بھی مشہور ہے کہ باچا خان کا سیاسی جُھکاؤ شخصیت کے اعتبار سے گاندھی کی طرف تھا، باچا خان قائد اعظم محمد علی جناح سے نفرت اور اُن سے ذاتیات کے بناء پر دور رہتے تھے۔ حالاں کہ باچا خان اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ جب 1929ء میں اُنہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی، تو اُنہوں نے سب سے پہلے دستِ تعاؤن مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی طرف بڑھایا۔ مگر اُن کی غیر سنجیدگی اور انکار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خدائی خدمت گاروں نے کانگرس میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح سے ملاقات باچا خان کی پاکستان اور محمد علی جناح سے رشتے اور تعلق کی نوعیت بالکل صاف اور واضح کر دیتی ہے۔
23 فروری 1948ء کو باچا خان نے پاکستان کی پارلیمینٹ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کی، وہ چاہتے تو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حسبِ سابق رُکن رہ سکتے تھے، لیکن آپ نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بطورِ رکن رہنے کو ترجیح دی اور وفاداری کا حلف اُٹھایا۔ جس پر بانی پاکستان محمد علی جناح بہت خوش ہوئے۔ اُنہوں نے باچا خان کو چائے پر مدعو کیا، دونوں رہنماؤں میں ملکی مفادات کے بارے میں گفتگو ہوئی، ماضی کی شکر رنجیاں اور چشمک کا دور لد گیا، جب کہ قائدِ اعظم اس حد تک مسرور تھے کہ اُنہوں نے باچا خان سے بِلا تکلف کہا کہ ”آج میرا پاکستان کا خواب پورا ہوا۔“
باچا خان کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے، مصافحہ کیا اور خلافِ معمول معانقہ بھی۔ وہ واپسی پر کار چھوڑنے آئے۔ اپنے ہاتھ سے کار کا دروازہ کھولا اور کار کی روانگی تک کھڑے رہے۔ قائدِ اعظم کے حسنِ اخلاق نے باچا خان کو بہت متاثر کیا۔ اس ملاقات کی کامیابی اور اس پر خوشی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم نے مزید گفت و شنید کےلیے اُنہیں اگلے ہی روز کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد قائدِ اعظم باچا خان کو ایک علاحِدہ کمرے میں لے گئے جہاں ایک گھنٹے تک دونوں رہنماؤں کے درمیان پاکستان کے مستقبل بارے بات چیت ہوئی۔
قائد اعظم نے باچا خان سے پوچھا کہ، ”اب آپ کا کیا پروگرام ہے ۔۔۔؟“
جس پر باچا خان نے کہا کہ، ”اب آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ میں خدائی خدمت گار کا پُرانا اصلاحی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہوں۔“
باچا خان نے قائدِ اعظم کو خدائی خدمت گار تحریک کے اغراض و مقاصد بتائے اور واضح کیا کہ انگریزوں نے کس طرح اس سماجی تحریک کا رُخ سیاست کی طرف موڑا تھا۔ باچا خان کی باتیں سُن کر محمد علی جناح اپنی نشست سے بڑے پُر جوش انداز میں اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور خلافِ عادت باچا خان کو گلے سے لگایا اور کہا کہ ” ایسے کام کےلیے میں بھی ہر قسم کی مدد کروں گا۔“
جس پر باچا خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ، ”مجھے صرف آپ کے اعتماد اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔“
قائدِ اعظم نے کہا کہ، ”میں ملک کا آئینی سربراہ ہوں۔ میری نظر میں سب جماعتیں یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔“
اس ملاقات سے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی خوش گوار صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہونے لگے، باچا خان نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی جس کو محمد علی جناح نے قبول کیا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان پر مسلط طبقہ مفاد پرست ٹولہ تھا، اس لیے اُن کا مستقبل تاریک ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے مفادات کو براہِ راست ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ اس لیے سازشی ٹولہ نے سازشوں کے جال بچھانا شروع کر دئیے اور بعد میں یہی جماعت پاکستان مخالف اور غدار جماعت ٹھہرائی گئی، اور مستقبل میں اُن کے ساتھ کون سی رویے اور مظالم ڈھائے گئے، تاریخ ماضی کی اُن تمام کارستانی پر قلم بند ہے۔
تحریر: شاہد خان