اتوار، 26 جولائی، 2020

چھبیس جولائی، جب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) وجود میں آئی


عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 1986ء میں موجود میں آئی، جس کا منشور خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کے نظریات پر مبنی تھا۔ خان عبدالغفار خان، باچا خان کے نام سے مشہور ہوئے، اور آپ ہمیشہ صوبائی خود مختاری کے داعی رہے اور عدم تشدد کا پرچار کیا۔

اے این پی نے دراصل نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے بطن سے جنم لیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے الزام میں نیپ کے سربراہ عبدالولی خان کو گرفتار کرایا اور پارٹی پر پابندی عائد کرادی۔

ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں ولی خان کو رہائی نصیب ہوئی تو اُنہوں نے اے این پی کی بنیاد رکھی اور پارٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی فعال رہے۔

اے این پی ایک قوم پرست جماعت ہے، جس کی ساری جدوجہد پختون قوم کی حقوق پر مرکوز رہی اور نسل، رنگ اور جنس سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی علمبرداری کا نعرہ لگایا۔ پارٹی نے ملک میں ہمیشہ قیامِ امن کےلیے جدوجہد کی۔

سیاسی کارنامہ:
این ڈبلیو ایف پی کو خیبر پختون خوا کا نیا نام دلایا، پختون قوم کو ان کی نام سے شناخت دی، اور اٹھارویں آئینی ترمیم میں صوبے کو اُن کے قانونی حقوق دلوائے۔ 

اہم معاملات پر مؤقف:
وفاق کے زیرِ انتظام علاقے (فاٹا) کا خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد پختون اکثریتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبے کا مطالبہ

انتظامی اُمور میں عسکری مداخلت کی سخت مخالفت اور عسکری بجٹ میں کٹوتی کی خواہ ہے تاکہ بجٹ کو عوام کی مزید فلاح و بہبود کےلیے خرچ کیا جاسکے۔

پارٹی صوبائی خود مختاری اور 18ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد کی مکمل حامی ہے۔ 

اے این پی یقین رکھتی ہے کہ سرکاری افسر کو کسی دوسرے صوبے میں تعینات کرنے سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت طلب کی جائے۔

پارٹی جمہوری نظام کے استحکام پر یقین رکھتی ہے۔

اے این پی کا استدلال ہے کہ پڑوسی ممالک مثلاً بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اور کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔

 2002ء کے عام انتخابات:
پارٹی کی کارکردگی 2002 کے انتخابات میں انتہائی مایوس کن رہی تاہم سیاسی مبصرین نے دعویٰ کیا کہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے حق میں دھاندلی کی گئی جس کے باعث اے این پی کو انتہائی کم ووٹ ملے۔

 2008ء کے عام انتخابات: 
اے این پی نے نہ صرف قومی اسمبلی میں 15 نشستیں حاصل کی تھیں بلکہ خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی اُبھر کر سامنے آئی اور صوبے پر اپنی حکومت قائم کی۔

2013ء کے عام انتخابات: 
2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں 2013ء کے الیکشن میں اے این پی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔

اے این پی نے 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں صرف 2 نشستیں جیتیں۔ غلام احمد بلور اور امیر حیدر خان ہوتی نے عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

تنازعات:
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں مارشل لا نافذ کردیا، پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی اتحاد کے معاملے پر اے این پی کے چیف اجمل خٹک کا اپنے پارٹی رہنماؤں سے اختلاف ہوا اور یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا جس کے بعد اُنہوں نے پارٹی سے خود کو علیحدہ کرلیا۔ کیوں کہ اجمل خٹک سیاسی اتحاد میں شمولیت کے خواہاں تھے۔

بعد ازاں پارٹی کی ذمہ داری ولی خان کے بیٹے اسفندیار ولی خان کے سپرد کردی گئی اور پھر اجمل خٹک نے بھی دوبارہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

دہشت گردی پر موقف:
دہشت گردی کے خلاف واضح موقف رکھنے کی وجہ سے اے این پی کے رہنماؤں پر متعدد حملے ہوچکے ہیں۔ اے این پی کے متعدد ورکرز دہشت گرد حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

پارٹی کے سینئر رہنما بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون بلور 10 جولائی 2018ء کو انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک کارنر میٹنگ میں خود کش حملے میں شہید ہوئے تھے۔ اس حملے میں اُن کے ساتھ پارٹی کارکنان بھی لقمہ اَجل بن گئے تھے۔ 

پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی بشیر احمد بلور 2012ء میں خود کش حملے میں شہید  ہوئے تھے، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بشیر احمد بلور پر قاتلانہ حملے میں اُن کے سیکرٹری، پولیس افسر اور 06 لوگ جان سے گئے تھے۔

2008ء میں پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان خود کش حملے میں بال بال بچ گئے تھے، جب کہ 2010ء میں اُن کی بہن ڈاکٹر گلالئی حملے میں زخمی ہوئی تھی۔

اگرچہ عسکری آپریشن کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن تاحال دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔

پارٹی منشور کے اہم نکات: 
خواتین کے حقوق سے متعلق اے این پی کا منشور وعدہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ مذہب، جنس اور زبان سے بالاتر ہوکر تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے۔

منشور کے مطابق شہداء کے اہل خانہ کےلیے فنڈز قائم کیا جائے گا۔

منشور میں صوبائی خود مختاری کی مکمل حمایت موجود ہے۔

پارٹی منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ خواتین، دہشت گردی سے متاثرہ خاندان اور غریب گھرانوں سمیت دیگر ضرورت مندوں کےلیے فنڈز تشکیل دیے جائیں گے۔

ملازمت کے مواقعوں کے حوالے سے منشور میں گھریلو صنعت اور کاروبار پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں