انصار ۔ عباسی 06 جولائی، 2020
اسلام آباد: معلوم ہوا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے مبینہ طور پر نون لیگ کی سینئر قیادت کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدمِ اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش کی ہے۔
ایک باخبر ذریعے نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وفاقی وزیر نے حال ہی میں نون لیگ کی سینئر رہنما کی فیملی کے ایک رُکن سے اس معاملے پر بات کی ہے کہ اگر عدمِ اعتماد کی تحریک لائی گئی تو تحریکِ انصاف کے کئی ارکانِ قومی اسمبلی بھی اس کی حمایت کریں گے، جب کہ حکمران جماعت کا اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔
یہ پیغام نواز شریف، شہباز شریف اور خواجہ آصف تک پہنچا دیا گیا ہے۔ نون لیگ نے اب تک وفاقی وزیر کے اس ’’خیال‘‘ کا جواب نہیں دیا اور فی الحال کےلیے ’’ انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کو ترجیح دے رہی ہے۔
اس نمائندے نے مذکورہ وزیر سے رابطہ کیا تاہم اُنہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ اُنہوں نے شریف فیملی والوں کو ایسا کوئی پیغام پہنچایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ وزیر نے نون لیگ کی سینئر قیادت کے خاندان کے فرد سے رابطے کےلیے اپنا ذاتی موبائل فون استعمال کیا۔ اُن کی نون لیگ کے مذکورہ شخص کے ساتھ پرانی وابستگی ہے اور بظاہر اسی تعلق کی وجہ سے اُن کو نون لیگ تک یہ پیغام پہنچانے کی ترغیب ملی۔
ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ ایوان میں تبدیلی کےلیے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 12 سے زائد ارکانِ اسمبلی تیار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کے حوالے سے وفاقی وزیر کا پسِ منظر میں نون لیگ والوں کے ساتھ رابطہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کےلیے پریشانی کا باعث بنے کچھ تنازعات کے دوران ہی سامنے آیا ہے۔
ایک طرف اتحادی جماعت بی این پی مینگل نے پہلے ہی حکومت چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے تو دوسری طرف ق لیگ والوں کا سیاسی موڈ بھی پی ٹی آئی حکومت کےلیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔
ایسے میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں اور اس میں بھی کوئی اور نہیں بلکہ وزیرِاعظم عمران خان نے خود قومی اسمبلی میں اپنے حالیہ بیان میں اس بابت بات کی۔ اُنہوں نے ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے ’’مافیاؤں‘‘ اور ’’کارٹل‘‘ کے خلاف کارروائی کی بات کی۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے حالیہ بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں معاملات اچھے نہیں ہیں۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹوایا اور جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہد محمود قریشی کی آپسی لڑائی کی وجہ سے پارٹی کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔
فواد چوہدری نے عمران خان حکومت کی کارکردگی پر بھی عدمِ اطمینان کا اظہار کیا اور وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے بڑی توقعات تھیں۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ عوام نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو نٹ بولٹ کسنے کےلیے نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات لانے کےلیے منتخب کیا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ بڑے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت جس میں اسد عمر، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی شامل ہیں، کے درمیان آپسی لڑائی جاری ہے، لہٰذا اس صورتحال سے سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ جب سیاسی خلا پیدا ہوگا تو اسے نئے لوگ پُر کریں گے جن کا سیاست سے تعلق نہیں ہوگا۔
جب آپ کی بنیادی (کور) ٹیم میں مسائل ہوں گے تو اس میں نئے لوگ آئیں گے جو خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے اور وہ کام کر پائیں گے اور نہ اُن میں صلاحیت ہوگی۔ اُنہوں نے کہا کہ اس آپسی لڑائی نے پارٹی کو اور بالخصوص سیاسی کلاس کو نقصان پہنچایا ہے۔
ہفتے کو وزیر ریلوے شیخ رشید نے بیان دیا تھا جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکمران اتحاد میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ ممکنہ ون کی صورت میں ممکنہ طور پر مائنس تھری کی وارننگ دیتے ہوئے شیخ رشید نے پی ٹی آئی کے وزیروں کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے گندے کپڑے میڈیا کے سامنے نہ دھوئیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ہم آخری چوائس نہیں ہیں، کچھ وزراء وہ کام کر رہے ہیں جو اپوزیشن والے بھی نہیں کر پائے۔
یہ خبر روزنامہ جنگ میں 06 جون 2020 کو شائع ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں