جمعرات، 29 اکتوبر، 2020

سپریم کورٹ بار الیکشن، عبدالطیف آفریدی نے میدان مارلیا


سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے ممتاز قوم پرست سیاست دان اور وکیل عبدالطیف آفریدی اور حامد خان گروپ کے عبدالستار خان کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔

پشاور (عصرِنو) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن
(21- 2020) میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے ممتاز قوم پرست سیاست دان اور وکیل عبدالطیف آفریدی اور حامد خان گروپ کے عبدالستار خان کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔ ابتدائی نتائج کے مطابق مقابلے میں عبدالطیف آفریدی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے مخالف امیدوار عبدالستار کو شکست دے دی ہے۔ 

پولنگ کے دوران کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے نمٹنے کےلیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، اور سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی تھی۔

پیر، 26 اکتوبر، 2020

فرانس میں آزادی اظہارِ رائے کے نام پر گُستاخانہ خاکوں کی اشاعت کسی صورت برداشت نہیں، شاہی دوران خان


سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے کہا ہے کہ فرانسیسی میگزین میں گُستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی شدید مذمت کرتے ہیں، ایسے اقدامات سے عالمی سطح پر مذہبی ہم آہنگی اور اَمن کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ جان بوجھ کر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا آزادی اظہارِ رائے کا مصداق نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ پہلا ایسا اتفاق نہیں کہ فرانسیسی میگزین ”چارلی ہیبڈو“ نے اس قسم کا توہین آمیز اقدام کیا ہے۔ بلکہ اُس نے 2015ء میں سرکارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے۔ جس کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے پیرو کاروں نے غم و غصے کا اظہار اور شدید احتجاج کیا تھا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر مُسلمِ اُمّہ کے جذبات سے نہ کھیلیں ورنہ اُن کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ فوراً او آئی سی کا اجلاس بُلایا جائے، اور زبانی جمع خر چ کرنے کی بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔ کیوں کہ اس طرح کی توہین آمیز خاکے عالمِ اسلام کی تضحیک ہے۔

اتوار، 25 اکتوبر، 2020

جانتے ہیں ”کشتی والی“ مسجد کے بارے میں

 زیرِ نظر آنے والی مسجد ترقی یافتہ کسی باہر کے ملک کی نہیں ہے، بلکہ خوب صورت مسجد کی یہ تصویر پاکستان کے شہر کراچی کے نسبتاً پسماندہ علاقے ”لیاری“ کی ہے، جہاں بلوچ کمیونٹی آباد ہیں۔ 

یہاں کے مکینوں کی اکثریت مکران سے آنے والوں کی ہے۔ اُن کا پیشہ ماہی گیری ہے، جنہوں نے کشتی کی صورت میں یہ خوب صورت مسجد بنا دی ہے۔

کھچی مسجد کا نام دھوبی گھاٹ کے آس پاس رہنے والی برادری کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جب 2012ء میں اِس مسجد کی دوبارہ تعمیر کی گئی، تو اِس کا نام ”کشتی والی مسجد“ رکھا گیا۔

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

میاں افتخار حسین اور حیدر ہوتی کا محسن داوڑ کے رہائی تک احتجاجی دھرنے میں بیٹھنے کا اعلان

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی اور جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کا کوئٹہ ائیر پورٹ میں محسن داوڑ کے داخلے پر پابندی کے خلاف احتجاجی دھرنے میں شرکت، حیدر خان ہوتی نے دھرنے کی شُرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ممبر قومی اسمبلی مُحسن داوڑ کے بلوچستان میں داخلے تک دھرنے میں شریک ہوں گے، کیوں کہ آئینِ پاکستان ہر شہری کو آزاد گھومنے پھرنے کا حق دیتا ہے۔


واضح رہے کہ رُکنِ قومی اسمبلی مُحسن داوڑ کو ایک بار پھر کوئٹہ شہر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی غرض سے کوئٹہ ائیر پورٹ پر پہنچنے کے بعد اُنہیں ضلعی انتظامیہ نے نقصِ اَمن کے خدشے کے باعث باہر نکلنے سے منع کرتے ہوئے ڈی پورٹ کیا ہے۔ جس پر لوگوں نے شدید رد عمل دیتے ہوئے دھرنا دیا ہے۔

اتوار، 18 اکتوبر، 2020

انگریزوں کے کتے نِہلا کر اقتدار حاصل نہیں کیا، عبدالولی خان


ساری عمر کیا یہ باور کرانے میں گزرے گی کہ ہم مسلمان اور اس ملک کے وفادار ہیں، میں کمیونسٹ ہوں اور نہ ہی سوشلسٹ، بلکہ ایک پکّا نیشنلسٹ ہوں

پشاور (عصرِنو) 1983ء کو حیدرآباد سندھ میں رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان نے ایم آر ڈی (مومنٹ فار ریسٹورنگ آف ڈیموکریسی) کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے انگریزوں کے کتے نہلا کر اقتدار حاصل نہیں کیا، بلکہ تحریکِ آزادی تک اُن کا پیچھا کرکے اُن سے آزادی حاصل کی۔
 
ہم نے سکندر مرزا، ایوب خان، یحیٰ خان اور ضیاء الحق پر واضح کیا کہ کسی بھی صورت چور دروازے سے آنے والے  کی ماننے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ تاریخ کسی فردِ واحد کے محور پر گھمانے کا قائل نہیں، ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہماری ساری عمر کیا یہ باور کرانے میں گزرے گی کہ ہم مسلمان اور اس ملک کے وفادار ہیں، میں کمیونسٹ ہوں اور نہ ہی سوشلسٹ، بلکہ ایک پکا نیشنلسٹ ہوں۔

اُنہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحاریک ہمیشہ ناکام ہوئی کیوں یہ تحاریک چھوٹے صوبوں سے شروع ہوئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس دن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پنجاب سے آواز اُٹھنا شروع ہوئی اور عوام و عدلیہ اِن آمروں کے خلاف اکھٹی ہوئی، تو سمجھیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور اِن جرنیلوں کو ملک میں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔

محترم قارئین! یہ چھوٹی سی بلاگ اُس تقریر کا مختصر خلاصہ ہے، جو رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان نے حیدر آباد میں (ایم آر ڈی) کے زیرِ اہتمام جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا

منگل، 13 اکتوبر، 2020

کیا ”پب جی“ گیم کھیلنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔۔۔؟ نئی بحث چھڑ گئی

 ١٣ اکتوبر ٢٠٢٠
 کراچی (عصرِنو) پاکستان کی معروف دینی درس گاہ جامعۂ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ دیا ہے کہ ”پب جی“ گیم کھیلنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

یہ فتویٰ دار الافتاء جامعۂ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی جانب سے ایک شہری کے پوچھے گئے سوال پر جاری کیا گیا ہے، شہری کا سوال اور  فتویٰ جامعۂ کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔

فتوے کی نقول سوشل میڈیا پر بھی بڑی تعداد میں پوسٹ کی گئی ہیں اور اس معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

ایک شہری کی جانب سے سوال کیا گیا تھا کہ” گزشتہ جمعے کو ہماری مسجد کے امام صاحب نے بیان میں فرمایا تھا کہ جو شخص پب جی (pubg) گیم کھیلتا ہے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس کا نکاح باقی نہیں رہتا، یعنی جو احکام اسلام سے نکلنے کی صورت میں لگتے ہیں وہ سب بیان کیے، برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔“

سوال کے جواب میں دار الافتاء کی جانب سےکہا گیا ہے کہ ”معلومات کے مطابق پب جی گیم میں بعض اوقات ”پاور“ حاصل کرنے کےلیے گیم کھیلنے والے کو  بتوں کے سامنے پوجا کرنی پڑتی ہے اور گیم کھیلنے والے شخص کا اپنے کھلاڑی کو پاور حاصل کرنے کےلیے بتوں کے سامنے جھکانا اور بتوں کی پوجا کروانا اس کا اپنا فعل ہے۔“

فتوے میں مزید کہا گیا ہے کہ ” گیم میں نظر آنے والا کھلاڑی اسی گیم کھیلنے والے کا عکاس اور ترجمان ہے اور مسلمان کا توحید کا عقیدہ ہوتے ہوئے بتوں کے سامنے جھکنا شرک ہے۔“

 فتوے میں کہا گیا ہے کہ” گیم میں یہ عمل کرنے سے رفتہ رفتہ بتوں کے سامنے جھکنے کی قباحت بھی دل سے نکل جائے گی، لہٰذا یہ گیم کھیلنا ناجائز ہے اور ”پب جی“ گیم میں بتوں کے سامنے جھک کر پاور حاصل کرنا شرک ہے، اور عمدًا اس کو کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا، ایسے شخص پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہے۔

دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے جاری ہونے والے فتوے کا عکس  

فتوے کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ” اگر کوئی شخص ”پب جی “ گیم میں شرک کا کوئی عمل نہیں کرے تو پھر بھی شرک پر راضی رہنے اور کئی اور مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ”پب جی“ گیم کھیلنا جائز نہیں ہے۔“

خیال رہے کہ پب جی دنیا بھر کی طرح پاکستانی نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے رواں سال یکم جولائی کو ”پب جی“ گیم پر عارضی طور پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 24 جولائی کو پب جی پر پابندی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے آن لائن گیم کو فوری بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مولانا عادل قاتلانہ حملے میں شہید


کراچی (عصرنو) وفاق المدارس کے سابق سربراہ مولانا سلیم اللہ خان مرحوم کے صاحبزادے اور مہتمم جامعہ فاروقیہ مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان اور ان کے ڈرائیور قاتلانہ حملے میں شہید ہوگئے۔

پولیس کے مطابق مولانا ڈاکٹر عادل خان ویگو گاڑی میں شاہ فیصل کالونی نمبر 2 میں موجود تھے، کہ ان کی گاڑی پر مبینہ طور پر موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کی۔

پولیس ذرائع کے مطابق انہیں فوری طور پر ہسپتال روانہ کیا گیا۔ لیاقت نیشنل اسپتال ذرائع کے مطابق مولانا عادل خان ہسپتال لائے جانے کے دوران انتقال کر چکے تھے۔ ہسپتال ترجمان کے مطابق مولانا عادل خان کو دو گولیاں لگیں۔

جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق فائرنگ کے واقعے میں جاں بحق مقصود نامی شخص کی میت جناح اسپتال کی ایمرجنسی پہنچائی گئی ہے۔

ڈاکٹر عادل خان جامعہ فاروقیہ کے مہتمم تھے اور وفاق المدارس العربیہ الباکستان کے سابق سربراہ مولانا سلیم اللہ خان کے صاحبزادے تھے۔

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

پاکستان میں ”ٹِک ٹاک“ پر پابندی لگا دی گئی


اسلام آباد (عصرنو) پاکستان میں چینی سوشل میڈیا ایپ  ”ٹِک ٹاک“ پر پابندی عائد کردی گئی۔

اطلاعات کے مطابق معروف سوشل میڈیا ایپ پر پابندی غیر قانونی و غیر اخلاقی مواد کو روکنے کےلیے مؤثر مکینزم تیار کرنے کی ناکامی پر لگائی گئی۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے ”ٹِک ٹاک“ پر غیر اخلاقی اور غیر مہذب مواد کی موجودگی کی شکایات کی تھیں، جس کے بعد ایپ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔

جمعرات، 8 اکتوبر، 2020

چارسدہ میں ڈھائی سالہ بچی جنسی زیادتی کے بعد قتل


چارسدہ میں ایک اور بنتِ حوا ابنِ آدم کی حوس کا نشانہ بن گئی، ڈیڑھ سالہ بچی سے جنسی زیادتی کرکے قتل کیا گیا، ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے دور، پڑانگ پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفشیش شروع کر دی

چارسدہ (عصرِنو) ڈھائی سالہ بچی زینب کو مبینہ زیادتی کے بعد تشدد کرکے قتل کیا گیا، لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔

ڈی این اے کے نمونے خیبر میڈیکل کالج پشاور کو بھیج دئیے گئے ہیں۔ ہسپتال ذرائع نے بھی معصوم زینب سے زیادتی کی  تصديق کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق چارسدہ کے نواحی علاقہ پڑانگ سے گذشتہ روز زینب نامی ڈھائی سالہ بچی پر اسرار طور ہر غائب ہو گئی تھی جن کی گُمشدگی کی اطلاعات سوشل میڈیا اور اخبارات میں دی گئی تھی۔ بُدھ کے روز والدین کے طرف سے نامعلوم افراد کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، اور شام شیخ کلی علاقہ جبہ کے کھیتوں سے اس کی تشدد زدہ لاش مل گئی۔ پولیس کے مطابق بچی کی پیٹ اور سینے کو چاقو سے کاٹا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے بھی موت سے 18 گھنٹے قبل جنسی زیادتی کی تصدیق کردی ہیں۔ جب کہ بچی کی جسم کے نمونے ڈی این اے ٹسٹ کےلیے خیبر میڈیکل کالج بھجوائے گئے ہے۔ معصوم زینب کے اس بہیمانہ زیادتی اور قتل پر علاقہ مکینوں میں شدید غم و غصے کا لہر پایا جاتا ہے۔

منگل، 6 اکتوبر، 2020

خواجہ سرا اور ہمارا معاشرہ


سرِ دست چند خبریں مُلاحظہ ہوں:
☆ پشاور میں فائرنگ سے ”گل پانڑہ“ نامی خواجہ سرا جاں بحق، جب کہ ساتھی چاہت شدید زخمی
☆ اسلام آباد میں فلیٹ سے خواجہ سرا کا تشدد زدہ لاش برآمد
☆ معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے ایان عرف ڈولفن نے سکالر شپ چھوڑ کر ڈانس سیکھنا شروع کردیا
☆ پشاور سُپر مارکیٹ میں فائرنگ سے ”سپوگمئی“ نامی خواجہ سرا قتل
☆ خواجہ سرا علیشاہ قتل کیس کا مرکزی ملزم فضل تاحال مفرور
☆ خیبر پختون خوا میں خواجہ سرا کا گینگ ریپ، تشدد کی وجہ سے لُقمہ اجل بن گئے۔ 

قارئین! یہ کسی غیر اسلامی ملک کی نہیں اسی وطنِ عزیز کی خبریں ہیں جس کی 90 فی صد آبادی مسلمان ہے، جب کہ حج و عمرے کی سعادتیں حاصل کرنے میں پچاس اسلامی ممالک کی فہرِست میں ہم دوسری نمبر پر ہیں۔ آئے دِن یہ دل خراش خبریں دیکھ یا سُن کر رُوح تڑپ اُٹھتی ہے۔ 
 
مملکتِ خداداد میں تقریباً ہر شخص معاشرتی نا انصافیوں کا رونا روتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن جو صِنف سب سے زیادہ معاشرے اور سماج کے منفی رویوں کا شکار ہے، وہ تیسری جنس یعنی ”خواجہ سرا“ ہے۔ اَمسال رُونما ہونے والے چند واقعات نے عوام کی توجہ خواجہ سراؤں کے مسائل اور اُن کی زندگی کی جانب ضرور مبذول کرائی، جس کا کریڈیٹ سوشل میڈیا کو جاتا ہے۔

قارئین! خواجہ سرا جسے ”مخنث“ بھی کہا جاتا ہے، ایک تیسری صِنف ہیں۔ جن کا جسم مردانہ ہوتا ہے، لیکن اُس کی اَٹھک بیٹھک صنفِ نازک والی ہوتی ہے۔ خواجہ سرا صرف مملکتِ خداداد پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اِن کے مسائل اُن دیگر ممالک میں ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو اُس کے حل کےلیے کیا کچھ کیا گیا ہے ۔۔۔؟

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں سے انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ اُنہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہر کوئی اُنہیں دھتکارتا ہے۔ ہر شعبۀ زندگی میں اُن سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ چاہے وہ شعبہ تعلیم ہو، صحت ہو یا پھر ملازمت، ہر جگہ اُن کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ مرد، عورت یا خواجہ سرا ہونے میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں، بلکہ یہ تو قدرت کا نظام ہے۔ پھر بھی ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ساتھ وہ غیر انسانی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے جو ایک مہذب معاشرے میں حیوانوں سے برتنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

 قارئین! اُن کے ساتھ ظلم اور تکالیف کی ابتداء اُن کے گھر ہی سے ہوتی ہے، جہاں اُن کے والدین یا رشتہ دار اُن سے نفرت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ والدین شروع ہی سے ایسے ”سپیشل“ بچے سے ویسا پیار نہیں کرتے، یا ویسی تعلیم و تربیت نہیں دیتے جو اپنے دوسرے نارمل بچوں کو دیتے ہیں۔ سماج کے ڈر سے خواجہ سرا بچے کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا پھر اُس سے ایسا منفی رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ خود گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے جیسے لوگوں کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اپنی ایک الگ دُنیا بسا لیتا ہے۔ یہاں سے وہ بے رحم لوگوں کی نذر ہو جاتا ہے، جس کا ذکر پاکپتن پنجاب سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا وینا خان نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ بقول اُن کے ”ہمیں پہلا دُکھ اپنے گھر سے ہی ملتا ہے۔ اگر ہمارے خاندان والے ہماری شناخت قبول کر لیں، تو شاید ہمیں ڈھیر سارے ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے، جو عام طور پر ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں۔“

اسی طرح ایک اور خواجہ سرا نے روتے ہوئے اپنی والدین سے گلہ کیا کہ ”معاشرے میں ہمارے لیے عدل و انصاف کی بات ہورہی ہے۔ سب سے زیادہ نا انصافی تو خود ہمارے والدین نے کی ہے، جنہوں نے خود ہمیں قبول نہیں کیا، تو سوسائٹی ہمارے لیے کیا کرے گی ۔۔۔؟“

ایک خواجہ سرا نے لاک ڈاؤن کے دوران میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”کوئی بھی ہمیں قبول نہیں کرتا۔ ہمارے ساتھ اس قدر تعصب ہے کہ نہ ہمارا گھر ہے نہ بہن بھائی، نہ تعلیم ہے نہ نوکری، نہ لوگوں سے مضبوط و محفوظ تعلق ہی ہے۔اوپر سے ہمیں کوئی عذاب کہتا ہے تو کوئی گناہ کا نتیجہ، یا ہمارے لیے وہ غلیظ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کہ توبہ، اگر اتنے مسائل کے ساتھ ہم رہ رہے ہیں تو غربت اور بے روزگاری کیا کم بات ہے ۔۔۔؟ 
جنسی ہراسانی کے مسائل الگ ہیں۔ ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے ایک کورونا ہمارے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ 
جب کہ اس نے معاشرتی ناانصافیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”اس معاشرے میں انصاف ہے نہ عدل، نہ انسانیت ہے اور نہ ہی شعور۔ اتنی چیزوں کے اندر ہم کورونا کو کتنی اہمیت دیں گے ۔۔۔؟
 اگر ہمارے اندر اسلام اور انسانیت آجائے تو ہمارے مسائل خود حل ہوجائیں گے۔“

ایک خواجہ سرا تو دلبرداشتہ ہوکر یہاں تک بول اُٹھا کہ ”ہم تو پہلے ہی سے مرے ہوئے ہیں۔ اب کورونا سے مرنا تو اُنہیں ہے، جو روئے زمین پر خدا بنے پھرتے ہیں۔ جس کو چاہے بند کر دیں، مار دیں، جو چاہیں کریں، لوگوں کو ذلیل کریں اور رسوا بھی۔ جو دنیا میں حاکم و عادل بنے پھرتے ہیں اللہ نے اُن کو دکھانا ہے، اوقات یاد دلانی ہے کہ تم گندے پانی کا قطرہ ہی ہو، ذرا بڑے ہوتے ہوئے سمجھ دار ہوتے ہو، تو اکڑ جاتے ہو، اپنی اوقات بھول کر ظلم و زیادتی پر اتر آتے ہو۔“


قارئین! اصل بات یہ ہے کہ دل کے دُکھی اور سماج کے ستائے ہوئے لوگ ہی سچی اور کھری باتیں کرتے ہیں۔ اُن کے الفاظ میں دُکھ بھرا  ہوا ہوتا ہے۔ افسوس کہ لوگ نہیں سمجھتے کہ آخر ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔۔۔؟

سڑک پر تشدد کا شکار ہونے والا یا کسی مضِر بیماری سے تڑپ کر مرنے والا خواجہ سرا معاشرے کی بے حِسی کی ایک بھیانک تصویر ہے۔ وہ معاشرہ جو بظاہر تو بہت مہذب اور اخلاقیات سے بھر پور نظر آتا ہے، پَر اندر سے اتنا ہی کھوکھلا ہے۔ ہمارے اس گونگے اور بہرے معاشرے میں اکثر خواجہ سراؤں کو فحاشی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس بات سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیٹ پالنے کی خاطر خواجہ سرا اکثر بد اخلاقی کی اس حد تک جاتے ہیں جس کے تصور سے ہی گھن آنے لگتی ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کو اس کام کےلیے مجبور کرنے والے بھی یہی لوگ اور یہی معاشرہ ہے، جو نہ اُنہیں درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی کسی ادارے میں روزگار فراہم کرتے ہیں۔

کچھ دن پہلے بریلوی علماء کی ایک تنظیم نے فتویٰ دیا ہے کہ خواجہ سراؤں سے بھی شادی کی جا سکتی ہے۔ اس تنظیم نے اپنے فتوے میں کہا ہے کہ زنانہ جسمانی خصوصیات والے خواجہ سرا مردانہ جسمانی خصوصیات والے خواجہ سراؤں سے شادی کر سکتے ہیں۔ ”تنظیمِ اتحادِ اُمت پاکستان“ نامی بریلوی تنظیم کے مطابق ایسے خواجہ سرا عام مرد اور عورتوں سے بھی شادی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم وہ خواجہ سرا، جن میں مردانہ و زنانہ دونوں خصوصیات پائی جاتیں ہیں وہ ہرگز نکاح نہیں کر سکتے۔

فتوے میں مزید کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کا بھی نمازِ جنازہ اسی طرح ہی پڑھائی جانی جاہیے، جس طرح عام مسلمان مرد و خواتین کی پڑھائی جاتی ہے۔ فتوے کے مطابق خواجہ سراؤں کا جائیداد میں بھی حصہ ہوتا ہے اور جو والدین اُنہیں جائیداد سے محروم کرکے اُنہیں گھر سے نکال دیتے ہیں، اُن کے خلاف حکومت کو قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ علماء نے کہا ہے کہ خواجہ سراؤں کی تضحیک کرنا، آوازیں کسنا، مذاق اڑانا یا اُنہیں حقیر سمجھنا شرعی طور پر حرام ہے۔

فتوے نے پاکستان کے سماجی حلقوں میں ایک دل چسپ بحث چھیڑ دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس خبر کا خوب چرچا رہا ہے۔ فیس بُک پر کئی افراد نے اس خبر کے ”لنک“ کو اپ لوڈ کیا تو ٹوئٹر پر بھی کئی افراد نے اس پر دل چسپ تبصرے کیے۔ ایک تبصرے میں کہا گیا  ہے کہ ”خواجہ سراؤں کے حوالے سے حال ہی میں افسوس ناک خبریں آتی رہی ہیں لیکن یہ اب کچھ بہتر خبر ہے۔“ اسی ایک اور ٹوئیٹر صارف نے لکھا کہ ”فتویٰ پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ بھی ہے۔“

فتوے پر خواجہ سراؤں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی الماس بوبی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ” اس فتوے سے اُن لوگوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، شادی تو دور کی بات ہے۔ پہلے حکومت ہمارے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار اور گھر تو دے تاکہ ہم لوگوں کو ذلت و خواری نہ اُٹھانا پڑے، سڑکوں پر بھیک نہ مانگنا پڑے۔“

خواجہ سراؤں کی حالت زار کو دیکھ کر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا روشن خیالی یا مذہب کی نظر میں خواجہ سرا کسی حقوق کا مستحق نہیں ہے ۔۔۔؟ 
اگر ہیں، تو پھر اُنہیں اس بے رحمی کے ساتھ نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے، اور اُنہیں ایک اچھوت کی طرح کیوں دیکھا جاتا ہے ۔۔۔؟

خواجہ سراؤں پر ہونے والے ظلم و ستم کی گونج جب سینیٹ پہنچی تو سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ، ’’ہمارے ہاں خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت پُرانا ہے اور یہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ سماجی رویوں کو تبدیل ہونا چاہیے۔ گو کہ لوگوں کو اب اس حوالے سے شعور بھی آرہا ہے۔ خواجہ سراؤں کے مسائل کے حل کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اُن کےلیے تعلیم کے دروازے کھول دی جائیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں شمولیت اختیار کر سکیں۔ جب وہ مختلف شعبوں میں شمولیت اختیار کریں گے، تو اُن کے سماجی مرتبے میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور آئے گا۔“

قارئین! خواجہ سراؤں کے مسائل یہ ہیں کہ اُنہیں اپنی شناخت، روزگار، تعلیم، ہسپتال، سکول، تھانہ، پُرامن ماحول، شیلٹر ہوم، کمیونٹی اور وؤٹ ڈالنے کا حق میسر نہیں۔ 

اگر حکومت چاہے تو خواجہ سراؤں کے حوالے سے سر دست ایک قانون بنا دے جس کے مندرجات یہ ہوسکتے ہیں۔ 
☆ خواجہ سرا کو کسی بھی جگہ پر ہراساں کرنا قانوناً جُرم تصور ہوگا۔ 
☆ تعلیمی اداروں میں داخلے کا کوٹہ مختص کرنا اور کم از کم انٹرمیڈیٹ تک فری تعلیم دینا تاکہ اُنہیں بھی نوکری اور روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ 
☆ فری علاج، رہائش کا مناسب بندوبست، ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لیس سروسز کے ذریعے اُن کی اکثریتی آبادی والی جگہوں پر ٹرانس جنیڈر سینٹرز، شیلٹر ہوم یا کمیونٹی سینٹر ز کا قیام عمل میں لانا، شناختی کارڈز کا اجراء اور ووٹ دینے کا آئینی حق دینا وغیرہ۔

یہ صرف حکومت کا فرض نہیں بلکہ سب سے پہلے خواجہ سراؤں کے والدین، بہن اور بھائیوں کا بھی فرض بنتا ہے کے وہ اُن کی کفالت کریں۔ اُن کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آئیں تاکہ وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ پھر ہم سب کایہ فرض بنتا ہے کہ اُن کے جذبات، احساسات اور حقوق کا خیال رکھیں، اور جتنا ممکن ہو سکے، اُن کی مدد کریں اور اُن کے متعلق مثبت رویہ اپنائیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے معاشرے میں شعور اُجاگر کرنے، آگاہی پھیلانے اور اپنی پسماندہ منفی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
 
خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کیوں کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں خواجہ سراؤں کے ساتھ تیسرے درجے کے انسانوں کا سلوک کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔؟
 ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نبھائیں۔

خدارا! خواجہ سراؤں کی قدر کریں۔ اُنہیں اس اندھیری راہوں کا مسافر بننے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے فوری اقدامات کرے۔ ہمیں خواجہ سراؤں کے مسائل، دُکھ درد اور پریشانیوں کو اپنا سمجھ کر معاشرے کی مثبت تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ 

کہاں ہے ارض و سماں کا مالک
که  چاہتوں  کی  رگیں کریدے
ھوس  کی سرخی  رُخ  بشر کا
حسین   غازہ   بنی   ہوئی   ہے
 کوئی مسیحا اِدھر بھی دیکھے 
کوئی  تو  چارہ   گری  کو اُترے
اُفق  کا  چہرہ  لہو  میں  تر  ہے
زمین   جنازہ   بنی    ہوئی   ہے

                       تحریر: اختر حسین ابدالؔی

اتوار، 4 اکتوبر، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر چھ



قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  
عُنوان: مذہب اور سیاست
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

یہ میرا یقین ہے کہ اسلام امن، مساوات اور اِنسانیت کا درس دیتا ہے۔ سیاست انسان اور انسان کے درمیان تعلق کا نام ہے، جب کہ خدا اور بندہ کے درمیان تعلق کا نام مذہب ہے۔ چند مُفاد پرست سیاست دان دین فروش مُلاؤں کے ذریعے مذہب کو اس کے آفاقی اور روحانی مقام سے گِرا کر دُنیاوی سیاست میں گھسیٹ لائے ہیں۔ میں اُن کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا نہ کریں، کیوں کہ خدا اور مذہب کے نام پر اتنا خون بہے گا کہ ہم سب اس میں ڈوب جائیں گے۔ 

توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے