آج کی نشت میں خاندانی بھکاریوں ، عادی گداگروں اور خانہ بدوشوں سائیلوں کو چھوڑ کر ان فقیروں کا ذکر کیا جاتا ہے جو عام طور پر ملنگ کے نام سے مشہور ہیں ۔
پشتواور فارسی زبان کا مشترک لفظ ” ملنگ“ عربی زبان کے ” فقیر “ کے مترادف ہے جسے سالک ، درویش اور تارک الدنیا بھی کہتے ہیں ۔ سنیاسی ، سادھو ، جوگی اور تیاگی بھی اس کے ہم معنی ہیں ۔ اسی طرح مذید معنوں میں یہ غریب ، مفلس، محتاج بھکاری، گداگر ، پاک باز، نیک اور جنگلوں میں پھرنے والا وغیرہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ جو ایک مجرد آدمی کی طرح آپے سے باہر اپنی ذات میں مست رہتا ہے۔ من موجی ،مدہوشی اور بے پرواہی اس کی خصلت ہے تب ہی تو اسے مست ملنگ کہتے ہیں ۔ پس ملنگ سے مراد وہ گداگر اور بھکاری نہیں ہے جس نے خیرات کے لیے اپنے اپ کو ملنگ کی روپ میں اشکارا کیا ہو بلکہ وہ آذاد سالک ہے جو سلوک کی راہ پر چلا ہو ۔ حضور کے ” الفقر فخری“ جانتا ہو اور وہ کچکول محض ” دست بہ کار دل بہ یار“ استعمال کرتا ہو۔ وہ اپنے اس خودی اور انا کو کچلنے کے لیے خیرات مانگتا ہو۔ جس کو مغلوب کرنے کا مرشد نے حکم دیا ہو۔ یعنی وہ زلالت کے لیے نہیں بلکہ اس خاکساری کے لیے بھیگ مانگتا ہو جس کو مولانا روم ؒ نے فروتنی کہا ہے اور جو عشق حقیقی کے طلب کے لیے تربیت گاہ بنتا ہے ۔ ایسے فقیرجو چاہے کہ سکتے ہیں اسے کوئی نہیں روک سکتا ۔
کیونکہ فقیروں کے لیے فاقہ ، قناعت اور ریاضیت ضروری ہیں ان کے بغیر فقیر نہیں بنتا ۔ کہتے ہیں ”فقیری شیر کا برقع ہے “ یعنی فقیروں سے متعلق خیال کیا جات ہے کہ اصل میں یہ لوگ اولیاء ہوتے ہیں جب کہ ظاہری صورت فقیروں کی سی بنائے رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگ جاہ وجلال کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ان کے لیے تو بس ایسی کملی کافی ہے جس میں یہ مست رہتے ہیں ۔
یہ ملنگ یقینا برحق ہیں لیکن اصل مسئلہ ان کی پہچان کا ہے سند یافتہ سرٹیفیکیٹ تو ان کے پاس ہوتا نہیں اور ظاہر بودوباش میں سب ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ اس لیے اکثر لوگوں کا حقیقی ملنگوں کے بجائے ان جاہل فقیروں سے واسطہ پڑجا تا ہے جو شیطان کے گھوڑے ہوتے ہیں ۔ اور جن پر ہر وقت شیطان غالب آجاتا ہے۔ اللہ ہمیں ایسے فقیروں سے بچائے جن کے بارے میں کہاوت ہے کہ ” ملنگ کا اور بامنی کا ساتھ کیا“ یعنی دو غیر جنسوں میں میل نہیں ہوتا اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو فساد ہوتا ہے ۔
گزشتہ زمانے میں ملنگوں کا معاشرے پر گہرا اثر تھا۔ ملنگ آٹے کی تھیلی ، ایک لاٹھی اور ایک کچکول لے کر گلی کوچوں میں پھرتا تھا وہ دعائے خیر کے کلمات کے ساتھ آواز لگا کر نکل جاتا لیکن کھبی کھبار لینے پر ایسا بضد ہو جاتا جیسے قرض خواہ، بچہ اور بھکاری تینوں ضدی ہوتے ہیں ۔
جو کچھ لے کر ہی جان چھوڑاتے ہیں ۔ گو کہ ملنگی وقتی طور پر روحانی تزکیہ نفس کا مشق ہے ۔ پر اکثر زیارتوں کے مجاوروں اور متوولیوں نے ایسے خاندانی پیشہ بنایا ہوا تھا ۔ ہر اس گاو ¿ں میںیہ لوگ موجود تھے جس میں کسی بڑے ولی کی مرقد زیارت تھی ۔ معاشرے پر ان کا اثر کافی حد تک نمایاں تھا۔ بڑے بوڑھوں میں اکثر کے نام کچکول ، ملنگ فقیر اور مسکین وغیرہ پایا جان اس کی مثال ہے۔
سننے میں آیا ہے چھوٹے یابڑے پیمانے پر مخبری ، جاسوسی یا دشمنی کے لیے ملنگی اختیا ر کی جاتی تھی یا کسی خود غرض ملنگ کی مدد لی جاتی تھی۔ ایسے شخص کا ملک دشمن عناصر کے ہاتھ لگنے کا اندیشہ بھی رہتا تھا اور علاقائی دشمنیوں میں بھی ان کا کردار کسی خطرنا ک آلہ کار سے کم نہ تھا۔ ایک بار ایسا ہی ایک ملنگ اجرتی قاتلوں کے ہاتھ لگا تھا ۔ جس کے ذریعے وہ مطلوبہ شخص کے دروازے تک پہنچے تھے ۔ وہاں ملنگ نے آواز لگائی شخص کی بیوی نے آکر خیرات دی لیکن وہ متواتر شخص کو باہر انے کی دعوت دے رہا تھا ۔ پھر شخص مخصوص نے بیوی کو اندر بلایا اور نشانہ لگا کر ملنگ کو وہی ڈھیر کر دیا۔ ملنگ کی تھیلی سے اٹھنے والی آٹے کی دھول میں مختلف اطراف سے گھر پر گولیوں کی بارش شروع ہوئی ۔ لیکن وہ شخص بال بال بچ گیا ۔
روحانی ملنگوں کا مال ودولت سے کسی قسم کا سروکار نہیں ہوتا وہ تو محض سلوک کے مراحل منازل طے کرنے کی خاطر ابتدائی مشق کرتے ہیں ۔ جب کہ پیشہ ور اور خاندانی ملنگ دور سے کسی گاو ¿ں میں گھروں سے اُٹھنے والا دھواں دیکھتا رہتا ہے۔ تاہم یہ لوگ ہر روز نہیں آتے تھے کسی علاقے کے لیے کوئی خاص دن مقرر کرتے تھے اور کھبی کھبار بھیک مانگنے آتے تھے۔ آج کل ان کی جگہ ان ہٹے کٹے نکموں نے لی ہے جو بھیک مانگنے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں ہر قسم کے حیلے اور حربے جانتے ہیں اور تو اور خواتین بھی اس میدان میں طاق ہیں ۔ یہ بے غیرت لوگوں کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرے پیوند لگائے کپڑوں میں ملبوس وہ ملنگ تھے جو پرانی چادر اور ٹوپی ،گلے میں موٹے دانوں کی تسبیح کا مالا ، انگلیوں میں متعدد انگھوٹیا ں ، ساتھ ایک بندر ، ایک لاٹھی اور کچکول لے کر پھرا کرتے تھے ۔
کچکول خاص ملنگوں کی نشانی تھی۔ گویا کچکول مرتبہ رکھنے والے ملنگ کے نصیب میں آتا تھا۔ ایسے لوگ اچانک نمودار ہوتے تھے ۔ پشتوزبان کی یہ ٹپہ شاید ان کے لیے کسی نے کہا ہے ۔
کہ پہ وخت راغلے خیر بہ یوسے
بے وختہ نشتہ ملنگانو ں لہ خیرونہ
بعض ملنگ یورپ کی چوکوں میں کھڑے ان فن کاروں کی طرح ہوتے ہیں جن کو لوگ اپنی مرضی سے پیسے دیتے ہیں ۔ یہا ں کے ملنگ بھی کچکول لے کر کسی خاص جگہ کھڑے ہوتے ہیں۔ کسی نے کچھ دیا تو ٹھیک ورنہ یہ لوگ مانگتے نہیں ۔ کچھ ان میں ساغر صدیقی کی طرح بھی ہوتے ہیں ۔ جنہیں دولت مل جائے تو اس وقت تک چھین سے نہیں بیٹھتے جب تک وہ ساری رقم غریبوں میں بانٹ کر ختم نہ ہوئی ہو۔
ھر قلندر تا سمندر د مچ وزر خکاری
نادانہ تہ د لیونوں پہ قدر سہ پوھیگے
استغنائی قوت کے بل پر اس کی نظر میں عشقِ حقیقی کا جادو ہوتا ہے جس کے لیے بعض ملنگ بھنگ اور چرس کا سہارا بھی لیتے ہیں ۔ بھنگ کے نشے میں وہ عجیب رنگ برنگے نظارے دیکھنے کا دعو ٰی کرتے ہیں اور پوست پینے میں وہ اپنے اپ کو بادشاہ سمجھتے ہیں ۔ ملنگ تارک الدنیا ہوتے ہیں جو اکثر ویرانوں اور جنگلوں میں بستے ہیں جھبی تو کہتے ہیں
د ملنگانوں سے سرہ مل وئے
پروت پہ جنگل وے چی می نہ لیدے غمونہ
کہتے ہیں انسان سے محبت آخر میں خدا سے محبت میں بدل جاتی ہے ۔ اس لیے یہ پشتو ٹپہ مشہور ہے ۔
د ملنگانوں سرہ مل شوم
د یار تکی تر کعبی ورسیدمہ
غرض یہ کہ ملنگی نے پشتونوں کی روحانیت اور رومانیت پر ان مٹ نشان چھوڑے ہیں ۔ پشتو گیت مالا کا ایک بڑا حصہ اس کے بغیر نامکمل ہے ۔ ” د ملنگئی کچکول پہ غاڑہ گرزومہ یارہ “ اور ” خیر می درلہ درکڑو اے ملنگہ نور سہ غواڑے تہ “ وغیر ہ اس کی مثال ہے ۔ گو کہ کوئی بھی شخص ملنگی اختیار کر سکتا تھا۔ لیکن ہمارے ہا ںملنگوں کی اکثریت مختلف النسل تھی ۔ جب تک زندگی کا گزر بسر خوراک تک محدود تھا۔ یہ لوگ ملنگی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کے بعد جدید تعلیم ، روزگار کے مواقعوں اور جّد ت پسندی کے باعث یہ ملنگ بھی زمانے کے ساتھ چلنے کے عادی ہوگئے ۔ لہذا انہوں نے بھی اپنا پیشہ بدل ڈالا اور مختلف پیشوں سے وابستہ ہوئے ۔
آخر میں ملنگ سے متعلق چند رومانی ٹپے ملاحظہ کیے جاتے ہیں ۔
جانانہ راشہ زان فقیر کڑہ
زہ بہ خیر پہ بہانہ ستا خوالہ درزمہ
سترگی کچکول کڑہ دیدن واخلہ
ملنگہ یارہ پہ بہانہ راغلے یمہ
فقیرہ دوہ گٹے دے وکڑے
یو دی خیرواخست بل دی اوکڑل دیدنونہ
یار زندہ ، صحبت باقی !
تحریر : ساجد ابو تلتان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں