افغانستان میں قیام امن کےلئے بین الاقوامی سطح پر کوششیں تیزی سے جاری ہیں ۔ جس کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی امید کی جا سکتی ہے ۔
افغانستان میں امن کا قیام نہایت نا گزیر ہے امریکہ سمیت دوسرے ممالک اس حقیقت کا برملا اظہار کرتے آرہے ہیں ، کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے مخلصانہ طور پر کردار ادا کرنا ضروری ہے ۔ جب کہ یہ حقیقت بھی تما م ممالک جانتے ہیں کہ قیام امن کا واحد حل باہمی مذاکرات اور مفاہمت کا عمل ہے ۔
افغان جنگ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے اس سے پہلے بھی کئی دفعہ کوششیں کیے جا چکے ہیں جو ناکامی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ البتہ حالیہ دنوں میں مذاکرات کے عمل میں پیش رفت امن کی نوید سناتی ہے کیونکہ اس دفعہ افغان جنگ سے کسی بھی طور پر مربوط ممالک امن کی امید اور مخلصانہ کوششوں کے ساتھ میدان میں کھود پڑے ہیں ۔
جن میں کئی کانفرنسیں ہو چکے ہیں جب کہ طالبان کا سیاسی طور پر ان کانفرنسوں میں شرکت افغان قوم کو تقویت پہنچاتا ہے ۔
البتہ اب تک باوثوق طریقے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مذاکرات کا یہ عمل رنگ لائے گا یا نہیں ؟ کیونکہ بعض ایسے سازشی عناصر موجود ہیں جو مذاکرات کے اس عمل کو سبوتاژ کر نے کے درپے ہیں ۔ پاکستان بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تناؤں کی وجہ سے مذاکرات کے اس عمل میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اس نکتہ کو سمجھنے کے بعد کہ جب تک پاکستان اس مفاہمتی عمل میں اپنا کردار ادا نہیں کرے گا تب تک مذاکرات میں مطلوبہ پیش رفت نہیں ہو سکتی ۔ البتہ امریکی صدر نے پاکستان سے مدد کی اپیل کی جس کا انکشاف وزیر اعظم عمران نے خود کیا اور کہا کے ٹرمپ نے انہیں خط لکھ کر افغان طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے کے لیے تعاؤن مانگا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کے مطابق امریکی صدر نے خط میں لکھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان افغان مفاہمتی عمل میں اپنا کردار ادا کریں ۔ خط کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گا ۔ اس مفاہمتی عمل میں جب تک پاکستان اپنا کردار ادا نہیں کرے گا تب تک کامیابی کے جھنڈے گاڑنا ناممکن دکھائی دے رہے ہیں ۔ کیونکہ پاکستان افغانستان کا نہ صرف ہمسایہ ملک ہے بلکہ دونوں ممالک کے خارجہ پالیسیز کی کامیابی کا دارومدار بھی ایک دوسرے پر ہیں ۔
افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کا اگر سنہرا دور رہا ہے تو وہ افغانستان پر طالبان کے دور حکومت میں رہا ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔ پاکستان کی امن کا دارومدار افغانستان کی امن کے ساتھ جڑا ہے کیونکہ جب افغانستان پر طالبان کے دورِ حکومت میں امن کا قیام عمل میں آیا تھا تو پاکستان بھی امن کا گہوارہ تھا لیکن جیسے ہی افغانستان پر غیر ملکی یلغار کا دور شروع ہو ا تو پاکستان بھی بُری طرح اس کی لپیٹ میں آگیا ۔
اس مختصر تاریخ سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کابل پر قبضہ دراصل اسلام آباد پر قبضے کے لیے راہ ہموار ہونا ہے ۔ اسی بناءپر ہمیں یہ جان لینا ضروری ہے کہ افغانستان میں قیام ِ امن دراصل پاکستان میں امن کا قیام ہے ۔ گویا پاکستان کےلئے افغانستان میں امن اسلئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کابل پر غیر ملکی قبضے کی صورت میں افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا ۔
اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن کے ساتھ جڑا ہے ۔ اسلئے اپنی قریبی ہمسایہ ملک میں امن کے خاطر اور مضبوط پاکستان کی خاطر مفاہمت اور مذاکرات کے اس عمل میں پاکستان کو اپنا مخلصانہ کردار ادا کرنا ہوگا ۔
تحریر : اخترحسین ابدالؔی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں