تحصیل اور سب ڈویژن کا صدر مقام مٹہ کسی زمانے میں غیر آباد اور بنجر علاقہ میرہ کہلاتا تھا ۔ اس شہر کا تاریخی مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے یہاں انسانی تمدن کا کوئی وجود نہ تھا ۔
البتہ اس کے گردونواح میں یعنی مشرق میں بوڈیگرام اور باماخیلہ کے گاﺅں ، مغرب میں خریڑئی ، شمال کی طرف سمبٹ ، سمبٹ چم کا بازار اور جنوب کی جانب پیر کلے کا بازار واقع تھا ۔
فقط گاﺅں توتکے تھا ، جو اس علاقے کے متصل جنوبی پہلوں میں واقع تھا ۔ جس کے اکثریتی لوگوں کا پیشہ زراعت تھا ۔ لیکن بعض لوگ محنت مزدوری کی خاطر کراچی اور خلیجی ممالک میں بھی مقیم تھے ۔ اب یہ گاﺅں مٹہ کی آبادی میں شمار ہوتا ہے ۔ ( یاد رہے کہ مٹہ ہسپتال ، پولیس سٹیشن ، تحصیل اور مٹہ گراؤنڈ کی زمین باشندگان توتکے کی ملکیت ہے جو انہوں نے حکومت کو دیا ہے ) ۔
مٹہ اور اہل مٹہ کی قسمت کی کلیاں اس وقت وا ہوئیں جب 1951ء میں والی سوات میاں گل جہان زیب نے اپنے والد بزرگوار میاں عبدالودود المعروف باچا صیب کا فیصلہ معطل کر کے نل کے بجائے مٹہ کو تحصیل کا درجہ دیا ۔
اس فیصلے سے جہاں ترقی کی ابتداء ہوئی وہاں مٹہ کی آبادی کی راہ کھولی ۔ اگر چہ 1945ء میں گورنمنٹ پرائمری سکول مٹہ کی بنیاد رکھنا باچا صیب کا ترقی کی طرف پہلا قدم تھا ۔ پھر بھی یہاں تعلیم کی مد میں اصل ترقی اس وقت ہوئی ، جب 1949ء میں باچا صیب عنان حکومت سے دست بردار ہوئے اور ان کے بڑے بیٹے میاں گل عبدالحق جہان زیب نے حکومت کی بھاگ دوڑ سنبھالی ۔
انہوں نے تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے 1950ء میں مٹہ پرائمری سکول کو مڈل کا درجہ دیا ۔ بعدازاں 1955ء میں مٹہ کا بالائی سوات کے مرکز ہونے کے ناطے یہاں کی تعلیمی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ادارے کو ہائی سکول بنادیا گیا ۔ جس میں حاجی عبدالرشید آف کانجو بطور صدر معلم( پرنسپل ) تعینات کئے گئے ۔
بارہ سال کا صبر آزما عرصہ گزرنے کے بعد 1967ء میں والی سوات کو مٹہ میں ڈگری کالج بنانے کا خیال آیا اور اس کے لئے سال 68-1967ء کے بجٹ میں رقم مختص کی گئی ۔ کالج کی تعمیر کا کام تو والی سوات کے عہد حکومت میں ہی پوری طرح مکمل ہوگیا تھا ۔ لیکن اس وقت 1969ء میں ریاست سوات کا پاکستان میں ادغام عمل میں آیا ۔ اس لئے 1971ء کو مذکورہ کالج میں باقاعدہ کلاسوں کا آغاز ہوا ۔
باچا صیب کے زمانے میں مٹہ میں حفظان صحت کےلئے ایک معمولی ڈسپنسر ی موجود تھی ، تاہم والی سوات نے 1950ء میں مٹہ ڈسپنسری کی اپ گریڈیشن کی منظوری دے کر اس میں باقاعدہ ڈاکٹر حبیب الرحمان صاحب بطور M.S تعینات کیا ۔ اب یہ ہسپتال بنیادی اہم ضروریات کے ساتھ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ( ذاکر خان شہید ) کے نام سے منسوب ہے ۔
ادغام سوات کے بعد ایڈوکیٹ رحیم شاہ کے والد بزرگوار جناب فقیر شاہ آفریدی مٹہ میں سب سے پہلے وکیل تھے ۔جن کی اولاد اب بھی مٹہ میں مقیم ہے ۔ 1969ء کے بعد جب میڈیا کو آزادی نصیب ہوئی تو مٹہ پریس کلب کا موجودہ صدر حاجی نورالہادی پہلے صحافی بنے جن کا کہنا ہے ۔ ”میں 71 -1970ء کو مٹہ میں شعبہ صحافت سے منسلک ہوا ہوں“۔ نورالہادی صاحب صحافت کے ساتھ ساتھ یہاں پہلے بکسیلر بھی تھے ۔ یاد رہے کہ حبیب ملنگ مرحوم آف تنگی بھی ابتدائی صحافیوں اور بکسیلرز میں شمار ہوتا ہے ۔
1988ء میں وزیر اعلیٰ N.W.F.P (خیبر پختونخواہ) فضل حق صاحب نے تحصیل مٹہ میں پولیس سٹیشن کی منظوری دیدی اور 23 فروری 1988ء کو مشرف خان بطور SHO تھانہ مٹہ تعینات کیا گیا ۔ چھ سال عرصہ گزرجانے کے بعد یعنی 1994ء کو وزیر اعلیٰ آفتاب احمد شیرپاﺅ نے تحصیل مٹہ کو سب ڈویژن کا درجہ دیدیا ۔ جس سے ترقی کی رفتار میں مزید تیزی آگئی ۔ اور یہ علاقہ بہت جلد بام عروج تک پہنچ گیا ۔
جب مٹہ میں تعمیرات شروع ہوئیں تو گاﺅں شیرپلم کے حاجی شاہ پرستان مرحوم نے 1969ء کو یہاں ایک مارکیٹ بنانے کا عزم مصمم کیا اور 1970ء میں 37 دکانوں پر مشتمل یہ مارکیٹ مکمل ہوا ۔ جسے مٹہ میں سب سے پہلے مارکیٹ ہونے کا درجہ حاصل ہے ۔ مرحوم حاجی صاحب کی رحلت کے بعد یہ مارکیٹ اب ایوب فٹبال کلب مٹہ کے سابق مایہ ناز لفٹ آﺅٹ حبیب اللہ خان اور ان کے بھائیوں کی ملکیت ہے ۔
مٹہ بازار میں جب کاروبار شروع ہوا تو سب سے پہلے جنریٹر مرمت کرنے والے مستری محمد خان مرحوم نے اسی نوعیت کی پہلی دکان کھول دی ۔ اس دکان کی جگہ اب کشمیر عباسی بیکری ہے ۔ جبکہ محمد خان مستری کے بیٹے اب بھی اس پیشے سے منسلک ہے ۔ محمد مرحوم کو مٹہ میں سب سے پہلے مستری ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ حاجی فاتح گل پاچا مٹہ بازار میں سب سے پہلے گھڑی ساز ہیں ۔ آج کل وہ مٹہ تحصیل کے سامنے بیٹھے ہیں اور گھڑیاں مرمت کرتے ہیں ۔ مٹہ بازار میں کریانہ سٹور سب سے پہلے حاجی شانباز صاحب نے کھولا تھا ۔ لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے وہ دکان نہ چلا سکے ۔
مٹہ بازار میں میاں قاسم المعروف کاکا آف بیدرہ سب سے پہلے فوٹو گرافر تھے ۔ لیکن اب ان کی دکان موجود نہیں ہے ۔ پھر بھی وہ مٹہ بازار کے چیف آرگنائزرکی حیثیت سے خدمات انجان دے رہے ہیں ۔ رحیم داد صاحب آف بانڈئی مٹہ میں سب سے پہلے ریڈیو ساز تھے ان کی دکان بھی اب ختم ہوچکی ہے ۔
مٹہ بازار میں سب سے پہلے لوہار حاجی محمد رحمان صاحب تھے جو اب بھی ضعیف ہونے کے باوجود دکان چلارہے ہیں ۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے 1978ء کو یہ دکان کھولی تھی“۔ یہ دکان اب بھی تحصیل مٹہ میں سب سے مشہور دکان ہے جو ”دا اشاڑی لوہاران“ کے نام سے منسوب بازار کے وسط مین ذکریا مسجد کے قریب واقع ہے ۔
مرکزی شہر کی حیثیت سے مٹہ کی آبادی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کے منازل طے کررہی ہے ۔ یہاں تک کے ایک گنجان آباد ٹاﺅن اور بڑے بازار کی شکل میں اپنے منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔ مٹہ اس وقت 54 مارکیٹیں اور 9200 کے قریب دکانیں ہیں ۔ مٹہ PK-09 ( سابقہ PK-84 ) حلقے کا مرکز ہے اور ساتھ ہی اسے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے جو بھی MPA منتخب ہوتا ہے اس کو کوئی نہ کوئی صوبائی وزارت ضرور ملتی ہے ۔ اس طرح پختون قام پرست رہنما اور پختونوں کے سیاسی مبارز خان محمد افضل خان لالا مرحوم اور شجاعت علی خان بھی یہاں سے وفاقی وزیر منتخب ہوئے ہیں ۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کے مطابق تحصیل مٹہ 13 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے ۔
مٹہ میں عوام کو میسر سہولیات :
نادرا آفس ، پیسکو آفس ، سی اینڈ ڈبلیو آفس ، سیشن و سول کورٹ ، تحصیل دار آفس ، پولیس سٹیشن ، PTCL ایکسچینج ، پوسٹ گریجویٹ کالج فار بوائز اینڈ گرلز ، ریسکیو1122، فائیر بریگیڈ ، دوعدد گراﺅنڈ ، ڈاکخانہ ، ہوٹلز ، ریسٹورنٹ ، 3G اور 4G انٹرنیٹ سروسز ، دینی مدارس اور پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ، ویٹرنٹی ہسپتال ، کئی پرائیویٹ ہسپتال وغیرہ ۔
مٹہ سے متعلق تاریخی تحقیق کے بعد میں اس نتیجے پر ضرور پہنچا ہوں کہ جورونق اور چہل پہل آج ہم مٹہ میں دیکھتے ہیں یہ کسی زمانے میں ایک ویرانہ تھا۔
Refernce:
"Function of Chief Minister's" Secretarait KP.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں