دانہ دلنے کی دستی چکی ہندی زبان میں دلینتی ، عربی میں مطحن اور پشتو میں میچن کہلاتی ہے ۔ انگریزی لفظ ( machine ) میچن کے بہت ذیادہ قریب ہے ۔ اس بارے آباسین یوسفزئی وثوق سے کہتے ہیں کہ مشین ہمارے میچن سے نکلا ہے ۔
ان کے مطابق سکندر یونانی جب یہاں آئے تو اس عجیب شے کو دیکھ کر میچن کا لفظ اپنے ساتھ یونان لے گئے جہاں سے یہ لہجوی فرق کے ساتھ یورپ میں گھوم پھر کر موجودہ مشین کی صورت انگریزوں تک پہنچا ۔ جس کا ثبوت وہ "ch" کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں ۔ کیوں کہ عام طور پر "ch" (چ یا ک ) کی آواز کےلئے مستعمل ہے ۔ "ش" کےلئے نہیں ۔ آباسین یوسفزئی صاحب کی زبانی سننے والا یہ نظریہ کسی اور مؤرخ سے سنا ہے اور نہ ہی کسی کتاب میں پڑھا ہے ۔
میچن کی ضرورت اور اہمیت کو دیکھ کر یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے ہر زرعی معاشرے میں اس کا استعمال کسی نی کسی شکل موجود تھا ۔ سوات میں شاید اس کا استعمال ذیادہ نہ تھا ۔ کیوں کہ میچن عموما پن چکی اور پون چکی کے متبادل طور پر گھر میں موجود رہتا اور سوات صدیوں سے پن چکیوں کےلئے مشہور ہے ۔ شاید اطراف اور پہاڑی علاقوں میں جہاں سے پن چکیاں دور تھی وہاں اس کا استعمال ہوتا ہو ۔ ہمارے یہاں 90 سال کی عمر والے میچن اور اس کے استعمال سے ناواقف ہیں ۔ شاید یہ سو یا ایک سو بیس سال سے زیادہ پرانا ہو ۔
پن چکی کی طرح اس کے اوپر نیچے دو پل ہوتے ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ پن چکی پانی پر چلتی ہے اور میچن کو ہاتھوں سے چلایا جاتا تھا ۔ اوپر والے پل میں ٹھونس دی گئی لکڑی کو مضبوطی سے پکڑا جاتا تھا پھر آگے زور لگاتے ہوئے گھومایا جاتا تھا ۔ بیچ دانے ڈالنے کےلئے جو سوراخ تھا اس میں تھوڑا تھوڑا کر کے دانے ڈالے جاتے تھے ۔ میچن گھمانا محنت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ صبر آزما کام بھی تھا ۔ یہ کام اکثر صبح کیا جاتا تھا ۔ لیکن دوسرے اوقات میں کرنے کی ممانعت نہ تھی ۔ گھنٹوں غلہ پیسنے کے بعد ایک دو وقت کےلئے آٹا تیار کیا جاتا تھا ۔
جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ کام تقریبا حسب معمول ہوتا تھا ۔ جس سے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے ۔ چوں کہ میچن میں ہوتا اس لئے خواتین دوسرے مصروفیات کے ساتھ ساتھ میچن کا کام بخوبی کیا کرتی تھیں ۔ اکثر خواتین اکھٹے ہوکر میچن چلاتی تھیں ۔ لیکن بیشتر اوقات اکیلی خاتون کیا کرتی تھی ۔
اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کی چکی پیستے پیستے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں ۔ یہی حال ہمارے یہاں کے خواتین کا بھی تھا ۔ یہ محنت طلب کام بعض موقعوں پر اکھٹے کرنا لازمی ہوجاتا تھا ۔ جب خوشی کی تقریب یا نئی فصل آتی اور زیادہ آٹے کی ضرورت پیش آتی۔ اس وقت خواتین غلہ دلنے کےلئے اکھٹے ہو جاتیں اور یہ مشکل کام خوش گپیوں اور ہنسی مذاق میں آسان کرتیں ۔ پہلے وہ گندم یا کوئی اور غلہ کھتے سے نکالتیں ۔ پھر اسے چھان کے ذریعے صاف کرتیں ۔ جس کے بعد میچن چلا کر آٹا تیار کرتیں ۔ چھان اور میچن کی اس مصروفیت کو کسی شاعر نے گیت میں کتنی خوبصورت شکل دی ہے، ملاحظہ ہو ۔
غنم را واخلی پہ چخونو ئی پاکوینہ
بیا پہ میچنو وڑہ کؤونہ
آج غلہ پیسنے کےلئے مشین اور میلیں موجود ہیں ۔ جو وقت اور سہولت کے اعتبار سے میچن اور پن چکی کے مقابلے میں زیادہ مفید اور کار آمد ہیں ۔ جس کی وجہ سے کام آسان ہوا ۔ خواتین کو فراغت ملی اور ساتھ تیار آٹا بھی دستیاب ہوا ۔
لیکن زرعی معاشرے کا وہ سادہ مشین جس سے پشتون ثقافت کا ماضی وابستہ ہے ، نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوا ۔ یقینا ہم میچن کے دور میں واپس نہیں جاسکتے لیکن اس دور سے متعلق بڑوں کے تجربوں ، جذبات اور احساسات سے بننے والی تخلیقی فوک لور ٹپہ میں بہت کچھ بیان کرسکتے ہیں ۔
آخر میں کچھ ٹپے ملاحظہ ہو ۔
ستا آشنائی درنہ میچن دہ
زڑگے مے ستڑے شی دمہ پکے کوینہ
ورک میچن ورک ئی نوم شہ
چی ورتہ کینم نرئی ملا مے ماتہ وینہ
یاد رہے کہ یہ ٹپے شاہ وزیر خان خاکی کی کتاب سے ماخوذ ہے ۔
راقم : ساجد ابو تلتان
اب یہ کھاں سسے مل سکتی ھے
جواب دیںحذف کریں