جمعہ، 31 جنوری، 2020

جمشید وزیر پختون ایس ایف کا صوبائی چیئرمین جبکہ سہیل اختر جنرل سیکریٹری منتخب


پشاور: عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی صدر وسیم خٹک اور صوبائی جنرل سیکرٹری عثمان شاہ کی رکنیت دو سال کےلیے معطل کرتے ہوئے پختون ایس ایف کی صوبائی تنظیم بھی تحلیل کردی گئی ہے۔

27 جنوری کو باچا خان مرکز پشاور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد دونوں عہدیداران کو شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔

شوکاز کے جوابات سے مطمئن نہ ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا۔ باچاخان مرکز پشاور سے جاری بیان میں دونوں عہدیداروں پر پارٹی یا کسی بھی ذیلی تنظیم  کا کارکن بننے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

دریں اثنا اس واقعے کی مکمل تحقیقات کےلیے تین رکنی کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جس میں اے این پی کے صوبائی نائب صدر شاہی خان شیرانی ، صوبائی سیکرٹری مالیات مختیار خان اور صوبائی جائنٹ سیکرٹری شاہ نصیر خان شامل ہے۔ مذکورہ کمیٹی اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرے گی اور رپورٹ صوبائی صدر کو پیش کرے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی صوبائی تنظیم کو تحلیل کردیا گیا ہے اور نئی الیکشن و آرگنائزنگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے مطابق جمشید وزیر کمیٹی کے چیئرمین، سہیل اختر جنرل سیکرٹری جبکہ قاسم (مردان)،جہانزیب اجمل اور عبدالصمد(بنوں) کمیٹی کے اراکین ہوں گے۔

 نئی کمیٹی انتخابات اور آرگنائزنگ کے ساتھ ساتھ تنظیمی امور کی بھی ذمہ دار ہوگی۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کاکہنا تھا کہ آئین، تنظیم اور ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ احترام، عزت اور تکریم ہماری روایت ہے۔ لیکن باچاخان مرکز میں انتشار یا پارٹی کے سینئر ممبران و عہدیداران کے خلاف ہتک آمیز رویے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جائیگی۔ 

منگل، 28 جنوری، 2020

محسن داوڑ، علی وزیر اور افراسیاب خٹک کو گرفتار کر لیا گیا


پشتون تحفظ مومنٹ کے راہنماء اور ممبران قومی اسمبلی محسن داوڑ، علی وزیر اور افراسیاب خٹک کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔

تینوں رہنماؤں کونیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر سے سینکڑوں ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا، محسن داوڑ، افراسیاب خٹک اور علی وزیر کو تھانہ کوہسار منتقل کردیا گیا۔

پی ٹی ایم کے دونوں اراکین اسمبلی منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کےلئے پریس کلب آئے تھے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں حراست میں لے لیا۔

پیر، 27 جنوری، 2020

ستائیس جنوری، ملک سعد خان شہید کا یومِ شہادت


فرزند کوہاٹ سابق ڈی آئی جی پشاور ملک سعد خان 27 جنوری، 2007 کو اس وقت دہشتگردی کا نشانہ بنے جب وہ محرم الحرام کے جلوس کی سیکورٹی کا جائزہ لینے کے بعد قصہ خوانی کی پشت پر ڈھکی دالگراں سے واپس آرہے تھے کہ ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑایا۔

شہر کے تاریخ میں ہونے والے پہلی خودکش حملے میں ملک سعد خان کے علاوہ ناظم نوتھیہ آصف خان باغی، نائب ناظم اندر شہر افتخار خان، ڈی ایس پی خان رازق اور دیگر پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کر قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔  

ملک سعد خان شہید کی برسی ہر سال 27 جنوری کو پشاور میں منائی جاتی ہے، شعبہ پولیس کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر کے لوگ ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔

حکومت نے ان کی قربانی کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور میں ملک سعد شہید میموریل ٹرسٹ کے نام پر ایک فلاحی ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے۔

پشتون تحفظ مومنٹ کے سربراہ منظور پشتین پشاور سے گرفتار


خیبر پختونخوا پولیس نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کو رات گئے پشاور کے علاقے تہکال سے گرفتار کر لیا ہے۔

منظور پشتین کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے تہکال پولیس کے اہلکار غلام نبی نے بتایا کہ منظور پشتین مختلف مقدمات میں ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کو مطلوب تھے جس کی بنیاد پر انھیں گرفتار کیا گیا ہے ۔

پولیس اہلکار نے یہ بھی بتایا ڈیرہ اسماعیل خان پولیس پشاورپہنچ رہی ہے جس کے بعد منظور پشتین کو ڈیرہ اسماعیل خان پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔

پولیس کے مطابق رات ایک بجے کے قریب تہکال کے علاقے شاہین کالونی میں ایک مکان پر چھاپہ مارا گیا جہاں سے منظور پشتین کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کے ہمراہ مزید چار سے پانچ افراد ہیں جنھیں کرایہ داری قانون پر عمل درآمد نہ کرنے کے جرم میں حراست میں لیا گیا ہے۔

پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ منظور پشتین نے 18 جنوری کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آئین کو ماننے سے انکار کیا اور ریاست کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پشاور میں پی ٹی ایم اپنے ایک نیا دفتر کے قیام پر کام کر رہے تھے جہاں سے انھیں گرفتار کیا گیا۔

اس سے قبل انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ منظور پشتین کو حراست میں لینے کی وجہ ان کی تحریک کی جانب سے پر امن اور جمہوری انداز میں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا ہے اور انھیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

منظور پشتین کون ہیں؟
منظور احمد پشتین بد امنی سے متاثرہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
سنہ 2018 میں بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں منظور پشتین نے بتایا تھا کہ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں ہی حاصل کی اور پھر بنوں میں آرمی پبلک سکول اور وہیں کے کالج میں زیر تعلیم رہے۔

اسلام آباد میں فروری 2018 کے کامیاب دس روزہ احتجاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظور نے اپنی تحریک کی سمت نہ صرف تبدیل کی اور اسے پشتون تحفظ تحریک کا بڑا کینوس دے دیا۔

منظور پشتین کے بقول وہ اپنے سکول کے 52 طالب علموں میں واحد نوجوان ہیں، جنھوں نے ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔ انھوں نے گومل یونیورسٹی سے ویٹنری سائنس میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن انھیں کچھ اور ہی کرنا تھا۔

منظور پشتین نے مقامی سطح پر اپنی محسود تحفظ تحریک سنہ 2014 میں شروع کی تھی اور مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے گروہوں میں وہ اپنی سوچ واضح کرتے رہے۔
منظور پشتین کے مطابق وہ اکثر بمباری، بارودی سرنگوں کے دھماکوں اور چیک پوسٹوں پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے واقعات کے خلاف مظاہرے کرتے تھے، لیکن سب سے بڑا مظاہرہ اُنھوں نے ٹانک میں 15 نومبر 2016 کو کیا تھا جس میں سکیورٹی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی تھی۔

اسلام آباد میں فروری 2018 کے کامیاب دس روزہ احتجاج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منظور نے اپنی تحریک کی سمت نہ صرف تبدیل کی اور اسے پشتون تحفظ تحریک کا بڑا کینوس دے دیا بلکہ اس کی تنظیم نو بھی شروع کر دی۔

بعد میں عوامی جلسوں کا سہارا لے کر انھوں نے اس تحریک کا دائرہ قبائلی علاقوں سے بڑھا کر بلوچستان اور کراچی تک پھیلا دیا۔

جمعہ، 24 جنوری، 2020

باچا خان بابا اور ولی خان کی برسی کےلئے عوامی نیشنل پارٹی تحصیل مٹہ کی تیاریاں بالکل مکمل ہے، قاسم خان اشاڑے


عوامی نیشنل پارٹی تحصیل مٹہ کے صدر قاسم خان اشاڑی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ رہبر انسانیت اور فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا کے برسی کےلئے ہماری تیاریاں بالکل مکمل ہے اور ہم پورے جذبے کے ساتھ 26 جنوری بروز اتوار صبح 09 بجے چھوٹا کالام سے لنڈاکی کےلئے روانہ ہوں گے جہاں سے ضلعی صدر محمد ایوب خان اشاڑی کے زیر قیادت ایک بڑے قافلے کی شکل میں جلسہ گاہ کےلئے روانہ ہوں گے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ”عصرِنو“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے تحصیل مٹہ کی تمام یونین کونسلوں میں باقاعدہ ایک کمپئن چلائی ہیں اور تمام صدور کو اس بارے ہدایات بھی جاری کئے ہے کہ وہ اپنی اپنی یونین کونسلوں میں بھر پور کمین چلا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو باچا خان بابا اور ولی خان بابا کی پیغام پہنچائے ۔ 

انہوں نے کہا کہ ہماری تیاریاں بالکل مکمل ہے اور انشاءاللہ 26 جنوری کو صبح 09 بجے تحصیل مٹہ سے سینکڑوں گاڑیوں کا قافلہ چھوٹا کالام سے لنڈاکی کےلئے روانہ ہوگا ، جہاں سے ضلعی صدر محمد ایوب خان اشاڑی کے زیر قیادت صبح دس بجے بٹ خیلہ کے ظفر پارک کےلئے روانہ ہوں گے ۔ 

رہبرِ انسانیت باچا خان بابا کے دس سنہری اقوال


خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا 06 فروری 1890ء کو خیبر پختون خوا کے ضلع چارسدہ میں ہشنغر اُتمانزوں کے سیف اللہ خان کے بیٹے بہرام خان کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں محمد اسماعیل سے حاصل کی ۔ میٹرک امتحان پاس کرنے کے غرض اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صیب کے ہمراہ پشاور سکول چلے گئے ۔ وہاں سے میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کےلئے مشن کالج شفٹ ہوگئے ۔

 باچا خان بچپن ہی سے پختونوں کی ترقی اور خوشحالی کےلیے کوشاں تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی پُرامن جدوجہد کا پرچار کیا ۔ آپ برطانوی سامراج کی ظلم اور نا انصافی کے خلاف مسلسل جدو جہد کرتے رہے اور 1929ء میں برطانوی سامراج کے خلاف ایک پُر امن تحریک (خدائی خدمتگار) کی بنیاد رکھی ۔ آپ نے خواتین کی تعلیم و ترقی پر زور دیا ۔ انہوں نے اپنے سیاسی نظریات اور بنیادی انسانی و جمہوری حقوق کی خاطر کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، لیکن کھبی اُف تک نہ کی ۔
بقولِ حبیب جالب! 
ہوتا   اگر   پہاڑ    تو     لاتا    نہ     تابِ    غم 
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کہ سہہ گیا 

قارئین! رہبر انسانیت ، امن کے داعی اور فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان بابا کے کچھ ایسے اقوال ہیں جن پر اگر آج بھی ہم عمل کریں تو وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی دنیا کے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہوکر ان کا مقابلہ کریں ۔اقوال ذیل میں دی جاتی ہیں:

☆ ہماری جنگ صبر کی جنگ ہے ہم صبر سے کام لیں گے اورخود کو سپردِ خدا کریں گے ، اپنے دلوں سے نفاق دور کریں گے ، خود غرضی کو جڑ سے اکھاڑیں گے کیوں کہ ہماری بربادی کی بنیادی وجوہات یہی ہیں ۔

☆ اے میرے پختون بھائیوں! خوف اور مایوسی کا شکار نہ ہونا ۔ یہ خدا کی طرف سے ہماری آزمائش اور امتحان ہے پس بیداری کی ضرورت ہے ۔ اٹھیے اورمخلوقِ خداکی خدمت پرکمربستہ ہوجائیے ۔

 ☆ آزادی کا پودا نوجوانوں کی قربانیوں سے سینچا جاتا ہے ۔ یہ پودا جو ہم نے لگایا ہے ، ضرور پھلے اور پھولے گا کیوں کہ ہمارے نوجوانوں کی قربانیاں بے نظیر ہیں ۔

☆ اگر آپ نے کسی بھی قوم کے مہذب ہونے کا اندازہ لگانا ہے تو یہ دیکھئے کہ اس قوم کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ اور سلوک کیسا ہے ، جن لوگوں کا اپنی خواتین کے ساتھ رویہ ہتک آمیزہو وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں ۔

☆ ہماری جنگ عدم تشدد کی جنگ ہے اوراس راستے میں آنے والی تمام تکالیف اورمصائب ہمیں صبر سے جھیلنے ہوں گے ۔

☆ جو اقوام باتیں کم اور عمل زیادہ کرتی ہیں وہی اپنی منزل پاتی ہیں ۔

☆ سچا خدائی خدمت گار اسمبلی میں صرف مخلوقِ خدا کی خدمت کے جذبے کے تحت جاتا ہے ۔

☆ اس ملک پر عورتوں اورمردوں کا یکساں حق ہے ۔

☆ ناکام ہونے کا غم انہیں لاحق ہوتا ہے جو اپنے اغراض کےلیے کام کرتے ہیں ۔ جو لوگ خدا کی راہ میں نکلتے ہیں اور خدا کےلیے کام کرتے ہیں انہیں ناکامی کا غم نہیں ہوتا ۔

☆ ہمارا فرض دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلانا ہے ۔ ہم ہر اس قوم اور حکومت کی مخالفت کریں گے جو مخلوقِ خدا پر ظلم ڈھاتی ہو ، چاہے ظالم ہمارا بھائی اور ہمارا ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو ۔

لمحہ فکریہ یہ ہے کہ باچا خان جیسے تاریخی شخصیت جن پر 06 پی ایچ ڈیز اور 200 کے قریب عالمی معیار کے کتب لکھے جا چکے ہیں ، کو ریاستِ پاکستان نے تو کیا ہم پختونوں نے بھی فراموش کر دیا ہے ، اور ہم ان کو وہ مقام نہ دے سکے جس کے وہ مستحق تھے ۔
بقولِ شاعر: 
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا جن کو آسماں نے خاک چھان کے 

اس عظیم لیڈر کا انتقال 20 جنوری 1988ء کو اٹھانوے سال کی عمر میں نظربندی کے دوران ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ آمین

                                       تحریر : اختر حسین ابدالی 

دلہن نے مہر میں سونا چاندی کے بجائے سو کتابیں مانگ لیں


بھارتی ریاست کیرالہ میں دلہن نے مہر میں سونا چاندی ، جائیداد ، قیمتی ساز و سامان اور نقدی کے بجائے اپنے ہونے والے شوہر سے سو کتابیں مانگ لیں ۔

دلہن نے یہ بات اپنی آپ تک محدود رکھی لیکن ان کی کچھ دوستوں نے اسے سوشل میڈیا پر شئیر کی جس کے بعد یہ پوسٹ وائرل ہوگئی ۔

ذرائع کے مطابق اعجاز حکیم اور اجنا نظام کا نکاح اکتوبر میں ہوا تھا جس میں اجنا نے نظام سے سو کتابوں کا مطالبہ کر ڈالا ۔ نظام نے سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود شادی کی رات تک 97 کتابیں ہی اکھٹی کر پائے ۔

خیبر پختون خوا حکومت میں اختلافات شدّت اختیار کرگئے، وزیراعلیٰ پر کرپشن کی الزامات


خیبر پختونخوا حکومت میں اختلافات سامنے آگئے ۔ کابینہ اجلاس میں وزیراعلیٰ محمود خان اور سینئر وزیر عاطف خان میں تلخ کلامی ہوگئی ۔

عاطف خان بولے صوبے میں کرپشن ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کی واپسی پر انکے سامنے معاملہ اٹھاؤں گا ۔

کابینہ اجلاس کے دوران خیبرپختونخوا حکومت کے دو بڑوں میں تلخ کلامی ہوئی ہے ۔ ذرائع کے مطابق سینئر وزیر عاطف خان بولے حکومت عوامی مینڈیٹ کے مطابق نہیں چل رہی ۔ صوبے میں کرپشن ہو رہی ہے ۔

عاطف خان کا کہنا تھا کہ  اس سسٹم کے ساتھ نہیں چل سکتے، عمران خان کی واپسی پر یہ سارے معاملات اُن کے سامنے اُٹھاؤں گا ۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دوریاں کابینہ میں رد و بدل، شہرام ترکئی سے بلدیات کی وزارت کا لینا اور عاطف خان گروپ کے ایم پی ایز کو کابینہ میں  شامل نہ کرنے پر شدت اختیار کرگئے ۔

سینئر وزیر عاطف خان ایم پی ایز کا الگ گروپ بنانے کےلیے کوشاں ہیں ، اور عنقریب وہ کچھ کرنے والا ہے ۔

حکومتی ذرائع خبروں کی تردید کرتے نظر آتے ہیں پر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے ۔

جمعرات، 23 جنوری، 2020

تئیس جنوری، جب باچا خان کو سپردِ خاک کیا گیا


وکی پیڈیا کی مطابق پشتون لیڈر، بانی خدائی خدمت گار تحریک، فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار اور امن کے داعی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کو ان کی وصیت کے مطابق 23 جنوری 1988ء کو جلال آباد افغانستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔

بدھ، 22 جنوری، 2020

مادری اور قومی زبان کی اہمیت


 گواہ ہے جس قوم نے ترقی کی ہے اس قوم کی زبان پر راج کرتی آئی ہے ۔ سومیری ، آریائی ، سامی ، یونانی ، پالی اور فارسی تہذیبیں اور زبانیں دنیا کےلیے مثال ہے ۔

 پھر عرب فتوحات نے شمالی افریقہ کو ، فارسی اسلامی ثقافت کی زبان بنی تو وسط ایشیا اور جنوب ایشیا کو اسی طرح ترکی زبان اور انگریزی زبانوں نے دنیا کو متاثر کیا ۔یہ زبانیں اس لیے ترقی کرتی گیئں کیوں کہ تمام تر سرکاری معمولات ، تجارت اور علم سن زبانوں میں تھے ۔ پھر یہ زبانیں وقتاً فوقتاً اپنی بین الاقوامی حیثیت بحال نہ رکھ سکیں ۔ حتی کہ بعض انتہائی مقامی زبانیں تو بالکل ختم ہوئیں ، کچھ محدود علاقے تک محدود ہوئیں جبکہ بعض زبانوں کی شکل بدل گئی ، جیسے سنسکرت کا انو نال کو ہندی میں اور عبرانی کا عربی میں تلاش کیا جا سکتا ہے ۔

سنسکرت آریاوں کی مقدس زبان تھی مذہبی کتب اور علم کی ترسیل اسی زبان میں ہوتی تھی ۔ یاینی جیسے گرائمر دان بھی ایسی زبان میں ہو گزرے ۔ لیکن جب یہ خواص کی زبان بنی تو صفحہ ہستی سے مٹ گئی ۔ مقابلے میں پالی وہ زبان تھی جس میں بدھ مت تعلیمات عوام و خواص کےلیے یکساں تھے ۔ پس شہرت کے ساتھ ساتھ علمی سعادت بھی پائی ۔بارویں صدی عیسوی جاپانی ادب میں خواتین کےلیے اہم تھی ۔اشرافیہ مرد اس وقت چینی زبان باعث افتخار سمجھتے تھے ۔ لہذا زبان میں نام پیدا کرنا تو کجا جاپانی زبان کی تاریخ سے بھی محروم ہوئے ۔

 حضرت شاہ ولی اللہ کی شہرہ آفتاب کتاب " حجت البالغہ " فارسی زبان میں خواص کےلیے نہ ہوتی تع عوامی پذیرائی ضرور حاصل کرتی ۔ غالب بھی فارسی زبان پر فخر محسوس کرتے تھے لیکن پہچان ان کو اردو نے دی جو کہ مقامی زبان تھی ۔ اسی طرح اقبال بے شک اردو اور فارسی زبانوں میں اعلیٰ مقاموں پر فائز ہوئے لیکن پنجابی زبان ، ادب اور تاریخ میں گمنام ہوگئے ۔ عام پنجابی بھلے شاہ کو جانتے ہیں لیکن اقبال کو نہیں ۔ جبکہ ان کے ہم عصر ٹیگور نے گمنام زبان بنگالی میں اپنے خیالات کا اظہار کرکے پوری دنیا میں بنگالی کا لوہا منوا کر خود کو نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا ۔اگرچہ ظاہر آفریدی اردو ادب کے قدر دان ہیں لیکن شہرت ان کو پشتو افسانوں سے ملی ہے ۔

 یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے پشتون شعراء و ادباء نے اردو زبان و ادب میں نام پیدا کیا ہے لیکن انھیں بچپن میں وہ ماحول ملا ہے جو ایک اردو دان کو نصیب ہونا چاہیے ۔ 

شیکسپیئر اور چیخوف ادب کے افق پر اس لیے چمکے کیوں کہ انہوں نے اپنی اپنی زبانوں میں ادب تخلیق کی ہے ۔ امیر حمزہ خان شنواری اگر کسی اور زبان میں غزل کہتے تو ہرگز بابائے غزل نہ کہلاتے ۔ ذاتی تجربے کی بات ہے کسی علمی مسئلے کہ تہہ تک تب تک نہیں پہنچ پاتا جب تک اس خاص مسئلے سے متعلق پشتو زبان کی کوئی کتاب نہ پڑھی ہو ۔ ہر زبان سیکھنے کےلیے اپنی زبان اکائی ہوتی ہے ۔

 ہر زبان کی کچھ بنیادی آوازیں ہوتی ہیں جس کا استعمال بچپن کے فوک لوری گیت میں کیا جاتا ہے ۔ حتی کہ بندہ خواب بھی اپنی مادری زبان میں دیکھتے ہیں ۔ اس لیے بندہ دن رات محنت کرنے کے باوجود کسی اور زبان پر سو فیصد عبور حاصل نہیں کر سکتا ۔ پس ثابت ہوا کہ مادری زبان میں روزمرہ اور محاورہ کا صحیح استعمال ، املا اور انشاء کی درستگی اور ما فی الضمیر کا موثر اظہار اور زبانوں کے برعکس آسان ہے ۔ 

بد قسمتی سے ہم میں سے اکثر افراد پشتو زبان سے لاعلمی پر فخر محسوس کرتے ہیں حالاں کہ وہ انگریزی بھی نہیں جانتے ۔ جب لکھنے بیٹھ جاتے ہیں تو پشتو الفاظ انگریزی حروف میں لکھتے ہیں ۔ ایک دوست اپنی زبان کا رونا روتے ہوئے فرماتے ہیں کہ " ہماری عبادت عربی میں ، سرکاری معمولات انگریزی میں ، حصول تعلیم اردو میں اور گالیاں پشتو میں دیتے ہیں "۔

قارئین ! کسی قوم کی زبان اس قوم کی ثقافت کا آئینہ دار ہوتی ہے ۔ ثقافت اور زبانیں تب زندہ رہتی ہیں جب وہ قوم متحد اور مضبوط ہوں اور مضبوطی اسی میں ہے کہ ملک کی تمام بڑی بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے ۔ جب یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک میں تین زبانیں قومی ہوسکتی ہیں تو ہمارے ملک میں کیوں نہیں ۔ 

یاد رہے کہ زبانوں کو اہمیت نہ دینے سے قومیں اپنا راستہ بھول جاتی ہیں اور ہم تو اس تجربے سے گزر چکے ہیں کیوں کہ زبان ہی ملک کو دو لخت کرنے کا باعث بنی تھی ۔ 

لفظ مقدس ہے ، اس میں قوم کی ثقافت اور تہذیب محفوظ ہوتی ہے جسے پشتو میں " ننواتے " ، "جرگہ " اور " مرکہ " ، یہ الفاظ خدا ناخواستہ اگر ختم ہوجائے تو تاریخی طور پر پشتون کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ کب تک ہم غیروں کی زبان بولتے رہیں گے ؟ آپ بتائے کتنے صاحب کمال انگریزی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، اور کتنے ہیں جو اس زبان کا ادراک رکھتے ہیں ۔ ہمارے تو تمام تر معمولات اور معاملات زندگی اپنی زبانوں میں ہوتی ہے ۔ 

میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب داد کے مستحق ہیں جنہوں نے 1937ء میں ریاست سوات میں پشتو زبان کو دفتری اور سرکاری زبان بنا دی تھی ۔

لہذا لازم ہے کہ بچے کو مادری زبانوں میں پڑھانے کا بندوبست کیا جائے ۔ لیکن افسوس ! یہاں تو انگریزی بولنا پسند ہے چاہے بندہ میٹرک پاس کیوں نہ ہو اور کچھ ملے یا نہ ملے کم از کم تعلیم کی وزارت تو ان کو مل ہی جاتی ہے ۔
بقول خوشحال خان بابا !
پرہ دئی ژبہ زدہ کول کہ لوئی کمال دے 
خپلہ    ژبہ    ہیرول    بے    کمالی    دہ 

                                                 راقم / ساجد ابو تلتان 

منگل، 21 جنوری، 2020

باچا خان بابا اور ولی خان بابا کی برسی کےلئے عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے تمام تر تیاریاں مکمل ہے، شاہی دوران خان


عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہیں کہ خدائی خدمت گار تحریک کے بانی ، رہبر انسانیت اور فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا کے برسی کےلئے ہماری تیاریاں بالکل مکمل ہے اور ضلع سوات سے سینکڑوں گاڑیوں کا قافلہ ضلعی صدر محمد ایوب خان اشاڑی کے زیر نگرانی 26 جنوری کو صبح دس بجے لنڈاکی سے ظفر پارک بٹ خیلہ کےلئے روانہ ہوگا ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ”عصرِنو“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ضلع سوات کے تمام تحصیلوں میں ورکرز کنونشز کے ساتھ ساتھ دورے بھی کئے ہیں اور اپنے تیاریوں کو حتمی شکل دی ہے ۔ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل یوتھ آرگنائزیشن کے تیاریاں بھی مکمل ہیں اور ان کا مشترکہ ورکرز کنونشن بھی ہوچکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک قافلے کی شکل میں جلسہ گاہ پہنچے گے اور یہ بات ثابت کرینگے کہ باچا خان بابا اور ولی خان بابا جیسے شخصیت کو ہم فراموش نہیں کر سکتے ۔ اس سلسلے کی ایک کڑی عوامی نیشنل پارٹی ہے جو پختونوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور بلا تفریق عوام کی خدمت کر رہی ہے ۔ 


پیر، 20 جنوری، 2020

بیس جنوری، عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کا یومِ وفات


خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا 06 فروری 1890ء کو ہشنغر اُتمانزوں میں بہرام خان کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں محمد اسماعیل سے حاصل کی ۔ میٹرک امتحان پاس کرنے کے غرض اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صیب کے ہمراہ پشاور سکول چلے گئے ۔ وہاں سے میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے مشن کالج شفٹ ہوگئے ۔

خان عبد الغفار خان پختونوں کے سیاسی راہنما کے طور پر مشہور شخصیت ہیں ، جنھوں نے برطانوی دور میں عدم تشدد کے  فلسفے کا پرچار کیا ۔ خان عبد الغفار خان زندگی بھر عدم تشدد کے حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے ۔ آپ کے مداحوں میں آپ کو باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے ۔

آپ پہلے اپنے خاندان کے افراد کے دباؤ پر برطانوی فوج میں شامل ہوئے ، لیکن ایک برطانوی افسر کے پشتونوں کے ساتھ ناروا رویے اور نسل پرستی کی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑ دی ۔ بعد میں انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ اپنی والدہ کے کہنے پر موخر کیا ۔

برطانوی راج کے خلاف کئی بار جب تحاریک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو خان عبد الغفار خان نے عمرانی تحریک چلانے اور پختون قبائل میں اصلاحات کو اپنا مقصد حیات بنا لیا ۔ اس سوچ نے انھیں جنوبی ایشیاء کی ایک نہایت قابل ذکر تحریک خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا ۔ اس تحریک کی کامیابی نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پابند سلاسل کیا گیا ۔ 

1920ء کے اواخر میں بدترین ہوتے حالات میں انھوں نے مہاتما گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس کے  ساتھ الحاق کر دیا ، جو اس وقت عدم تشدد کی سب سے بڑی حامی جماعت تصور کی جاتی تھی ۔ یہ الحاق 1947ء میں آزادی تک قائم رہا ۔

جنوبی ایشیا کی آزادی کے بعد خان عبد الغفار خان کو امن کے نوبل انعام کےلئے بھی نامزد کیا گیا ۔ 1960ء اور 1970ء کا  درمیانی عرصہ خان عبد الغفار خان نے جیلوں اور جلاوطنی میں گزارا ۔ 

1987ء میں آپ پہلے شخص تھے جن کو بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود “بھارت رتنا ایوارڈ“ سے نوازا گیا جو سب سے عظیم بھارتی سول ایوارڈ ہے ۔ 

بدقسمتی سے باچا خان جیسے تاریخی شخصیت کو پاکستان نے فراموش کر دیا ہے ۔ اس عظیم لیڈر کا انتقال 20 جنوری 1988ء کو اٹھانوے سال کی عمر میں نظربندی کے دوران ہوا ، اور آپ کو وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا ۔  

افغانستان میں اس وقت گھمسان کی جنگ جاری تھی لیکن آپ کی تدفین کے موقع پر دونوں اطراف سے جنگ بندی کا فیصلہ آپ کی شخصیت کے علاقائی اثر رسوخ کو ظاہر کرتی ہے ۔

بدھ، 15 جنوری، 2020

بریکنگ نیوز، وزیر اعظم نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا، اگلا وزیر اعظم کون ہوگا ۔۔۔؟


ماسکو: روس کے وزیراعظم اور کابینہ نے اپنے عہدے چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے استعفے صدر کو بھیج دیے، ولادی میر پیوٹن نے وزیراعظم کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے کابینہ کی تشکیل نو تک موجودہ اراکین کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی ۔

روس کی سرکاری نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روسی وزیر اعظم دمتری میدویدیو اور اُن کے ساتھ کابینہ میں موجود تمام لوگوں (حکومت) نے استعفے صدارتی ہاؤس ارسال کردیے ۔

رپورٹ کے مطابق روسی صدر نے استعفے موصول ہونے کے بعد وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ کےلیے تعریفی کلمات بھی ادا کیے ۔

دمتری میدویدیو کو ولادی میر پیوٹن نے صدارتی سیکیورٹی کونسل کے ڈپٹی کے مطور پر نامزد کرتے ہوئے کابینہ کو ہدایت کی ہے کہ جب تک نئی کابینہ تشکیل نہیں دی جاتی تمام وزرا اپنے کام اسی طرح انجام دیتے رہیں ۔

اس سے قبل روسی صدر نے بدھ کے روز اپنے خطاب میں پارلیمنٹ اور کابینہ کو مضبوط کرنے کےلیے آئین میں ترمیم کا عندیہ دیا تھا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ ترمیم کے بعد کابینہ اراکین کی تجاویز پر ہی صدر اور وزیراعظم کو نامزد کیا جائے گا ۔

ولادی میر پیوٹن کا کہنا تھا کہ اس ترمیم سے پارلیمانی جماعتوں اور اراکین کی خود مختاری مزید بڑھ جائے گی، وزیراعظم بھی بااختیار ہوگا اور وہ آزادی کے ساتھ کام کرسکے گا ۔


پیر، 13 جنوری، 2020

تیرہ جنوری، نقیب اللہ محسود کا یوم شہادت



نقیب اللہ محسود یکم جنوری 1990ء کو وزیرستان کے محسود قبیلے میں محمد خان محسود کے گھر میں پیدا ہوئے ۔

وزیرستان کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے ان کا پورا خاندان کراچی منتقل ہوا ۔ نقیب اللہ محسود کا قتل 13 جنوری 2017ء کو کراچی کے رہائشی علاقہ میں راؤ انوار کے پولیس انکاؤنٹر کی وجہ سے ہوا ۔

 محسود پر الزام تھا کہ اس کے لشکر جھنگوی اور داعش سے تعلقات ہیں اور وہ ان تنظیموں کا جنگ پسند ہے ۔ 

محسود کے دہشت گرد ہونے کا  دعویٰ اس کے رشتے داروں نے رد کیا اور بعد میں ایک تفتیشی ٹیم بنی جس نے قتل کی تفتیش کی ۔ تفتیشی ٹیم نے یہ فیصلہ کیا  کہ محسود معصوم تھا اور اسے جعلی پولیس مقابلہ میں قتل کیا گیا ۔ نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا ۔

نقیب اللہ کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔ 24 جنوری 2019ء کو پاکستان کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ اور تین دوسرے افراد کو معصوم قرار دیتے ہوئے کہا کہ نقیب اللہ محسود کا قتل ماورائے عدالت ہے ۔

ستم بالائے ستم یہ کہ تین سال گزرنے کے بعد بھی اس کیس کے مرکزی ملزم راوانوار کو سزا نہ ملی اور نقیب محسود کے والد بزرگوار محمد خان محسود اپنے بیٹے کو انصاف دلانے کےلئے ہر در کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے انصاف کی تمنا دل میں لئے اس دارفانی سے کوچ کرگئے ۔ 


تیرہ جنوری، جب سکھر بیراج کی تعمیر مکمل ہوئی



پاکستان میں نہری پانی کا سب سے بڑا آبپاشی نظام سکھر بیراج کو کہا جاتا ہے، 66 دروازوں والا یہ بیراج اپنی عمر کے 87 برس پورے کر چکا ہے، یعنی بیراج اپنی پلاٹینم جوبلی آج سے 12 برس پہلے منا چکا ہے، یہ بیراج پون صدی سے گذر کر اب ایک صدی کے سفر پر رواں دواں ہے ۔

1923ء میں رائج برطانوی راج کے وقت کنگ جارج پنجم انڈیا یعنی برِصغیر کے بادشاہ تھے، اس دور کے بمبئی کے گورنر جارج لائیڈ نے 24 اکتوبر 1923ء کو اس بیراج کا سنگِ بنیاد رکھا ۔ 66 دورازوں والے اس بیراج کی تعمیر 9 برس کے قلیل عرصے میں اپنی تکمیل کو پہنچی ۔ 13 جنوری 1932ء کو اس وقت کے وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ لائیڈ نے اس زرعی انقلابی منصوبے کا افتتاح کیا ۔


اتوار، 12 جنوری، 2020

کچھ باچا خان بابا کے بارے میں


خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا 06 فروری 1890ء کو ہشنغر اُتمانزوں میں بہرام خان کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں محمد اسماعیل سے حاصل کی ۔ میٹرک امتحان پاس کرنے کے غرض اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صیب کے ہمراہ پشاور سکول چلے گئے ۔ وہاں سے میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے مشن کالج شفٹ ہوگئے ۔

 باچا خان بچپن ہی سے پختونوں کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوشاں تھے ۔ انہوں نے ساری زندگی پُرامن جدوجہد کا پرچار کیا ۔ اپ برطانوی سامراج کی ظلم اور نا انصافی کے خلاف مسلسل جدو جہد کرتے رہے اور 1929ء میں برطانوی سامراج کے خلاف ایک پُر امن تحریک (خدائی خدمتگار) کی بنیاد رکھی ۔ آپ نے خواتین کی تعلیم و ترقی پر زور دیا ۔ انہوں نے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے کئی بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ 

باچا خان پاکستان کو ایک مضبوط اور جمہوری ریا ست دیکھنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے افغان جنگ میں پاکستان کی بطور فریق سخت مخالفت کی اور انتہا پسندوں کے خلاف آواز بلند کی ۔ باچا خان پختونوں کے لحاظ سے ایک حقیقی قوم پرست اور انقلابی رہنما تھے ۔ اس لئے انہوں نے ان کی حق کی بات تو کی لیکن دوسروں کی حق تلفی کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے پختونوں کو اپنی زبان اور کلچر پر فخر کرنا سکھایا لیکن دوسروں کی تحقیر کی اور نہ دوسروں سے نفرت کا درس دیا ۔ وہ پختونوں کے آیئنی اور قانونی حقوق حاصل کرنے کے لیے تو مگن رہے لیکن کبھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی ۔ دوسروں سے لڑوانے کی بجائے انہوں نے پختون جیسی جنگجو قوم کو عدم تشدّد کا درس دیا ۔ ذاتی فائدے کےلئے کسی غیر قوم سے ساز باز نہیں کی لیکن قوم کے فائدے کےلئے ہر کسی سے مکالمہ اور تعاون کیا ۔ خود زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا لیکن اپنی سہولت کےلئے کبھی بھی اپنی قوم کو آزمائش میں نہیں ڈالا۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تو پختونوں کے بچوں کو بھی لکھنے پڑھنے کی نصیحت کرتے رہے ، اور ان کی تعلیم وتربیت کےلئے بساط بھر کوششیں کیں ۔ ان کی زبان سے کھبی کسی نے پنجابی ، سندھی یا بلوچی وغیر کےلئے گالی نہیں سنی لیکن خود کبھی کسی پنجابی یا فوجی حکمران کے حکومتی دسترخوان سے مستفید نہیں ہوئے ۔

 بدقسمتی سے باچا خان جیسے تاریخی شخصیت کو پاکستان نے فراموش کر دیا ہے ۔ اس عظیم لیڈر کا انتقال 20 جنوری 1988ء کو اٹھانوے سال کی عمر میں نظربندی کے دوران ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ آمین

                                                     تحریر : اختر حسین ابدالؔی 


منگل، 7 جنوری، 2020

قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دے دی



اسلام آباد : قومی اسمبلی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل2020 کی منظوری دے دی جبکہ پیپلزپارٹی نے ایکٹ میں ترمیم کیلئے سفارشات واپس لیں لی ۔

تفصیلات کے مطابق سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، وزیردفاع پرویز خٹک نے آرمی چیف اور دیگرسروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ بل پیش کیا ۔

قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دے دی جبکہ پاکستان ایئرفورس ایکٹ ترمیمی بل 2020 اور پاکستان بحریہ ایکٹ ترمیمی بل 2020 بھی قومی اسمبلی سے منظور کرالیا گیا، پیپلزپارٹی کی جانب سے ایکٹ میں ترمیم کےلئے سفارشات واپس لی گئیں ۔

آرمی چیف اور دیگر سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ بل قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ بھیجا جائے گا ۔

گذشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کیا تھا ۔

امجد خان نیازی نے کہا تھا کہ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی پیش کردہ ترامیم سنی گئیں تاہم وہ مسودہ قانون کا حصہ نہیں، ترمیمی قوانین متفقہ طور پر منظور کرنے پر تمام جماعتوں کے شکر گزار ہیں ۔

وزیر دفاع پرویز خٹک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پورا پاکستان فوج کے ساتھ کھڑا ہے، تمام جماعتوں نے غیر مشروط طور پر بل کی حمایت کی ہے ، اپوزیشن نے بعض ترامیم دی تھیں لیکن وہ بل کی حمایت کریں گے ۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی  برائے دفاع میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور

یاد رہے کہ یکم جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیم کی منظوری دی گئی تھی، ترمیمی مسودے میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ۔

بعد ازاں 03 جنوری کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آرمی ایکٹ ترمیمی بل2020 قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا، جس کے بعد بل قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھجوادیا تھا ۔

خیال رہے وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ ایکٹ میں ترمیم کے مسودے کے مطابق حکومت نے آرٹیکل 243 میں ترمیم کے ساتھ آرمی ایکٹ 1952 میں ایک نیا باب شامل کیا ہے، نئے آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت کریں گے، وزیراعظم کی سفارش پر آرمی چیف کوزیادہ سےزیادہ 3 سال کی توسیع دی جاسکے گی ۔

مسودے میں کہا گیا وزیراعظم اس سے کم مدت کی سفارش بھی کرسکتے ہیں آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کو کسی عدالت میں کسی صورت چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، آرمی چیف پر جنرل کی مقرر کردہ ریٹائرمنٹ کی عمر کا اطلاق نہیں ہوگا، مدت تعیناتی کے دوران ریٹائرمنٹ کی عمر آنے پر بھی آرمی چیف رہیں گے ۔

مسودے کے مطابق آرمی ایکٹ کے ساتھ نیول ایکٹ اور ایئر فورس ایکٹ میں ترامیم کی جائیں گی، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف، آرمی، نیوی یافضائیہ کے سربراہوں میں سے کسی کو بھی تعینات کیا جاسکتا ہے، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی مدت تعیناتی تین سال ہوگی، ٹرمز اینڈ کنڈیشنز وزیراعظم کی سفارش پرصدر طے کریں گے، سینئرجنر ل کو بھی چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا جا سکتا ہے ۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ نئےایکٹ میں چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت میں توسیع کااختیاربھی دیا گیا، وزیراعظم کی سفارش پر صدر مملکت تین سال تک توسیع دے سکتےہیں، چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع بھی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی، تمام سروسزچیفس کی مدت میں توسیع اور دوبارہ تقرری کی جا سکے گی، چاروں سروسزچیفس کی مدت کیلئے عمرکی حد 64 سال ہوگی ۔


بریکنگ نیوز : وزیر اعظم کا مستعفی ہونے کا اعلان، 18 جنوری کو استعفی دینگے


اسلام آباد(ویب ڈیسک) مالٹا کے وزیراعظم جوزف مسکیٹ نے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے ۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مالٹا کے وزیراعظم 18جنوری کو عہدہ چھوڑیں گے ۔

 واضح رہے گزشتہ دنوں مالٹا حکومت کی بدعنوانی کا پردہ فاش کرنے کے بعد قتل ہونے والی خاتون صحافی ڈیفنی وانا گیلیزیا کے کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں طلب کیے جانے پر وزیراعظم کے چیف آف سٹاف مستعفی ہو گئے تھے ۔

 یاد رہے خاتون تحقیقاتی صحافی ڈافنی کارئوانا گالیزیا 2017ء میں کار بم دھماکے میں ہلاک ہوگئیں تھیں جس پر ان کے قتل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں وزیر سیاحت کونرڈ میزی نے استعفی دے دیا تھا ۔ خیال رہے دو روز قبل ملک بھر میں جاری پرتشدد واقعات اور سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی المتنفیقی نے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا ۔ اپنے آفس سے جاری ایک بیان میں عبدالمہدی نے کہا کہ وہ اپنا استعفیٰ پارلیمنٹ کو پیش کریں گے اور قانون ساز نئے وزیراعظم کا انتخاب کریں گے ۔

 عبدالمہدی کا عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان شیعہ عالم آیت اللہ علی ال سیستانی کی جانب سے قیادت میں تبدیلی کے جواب میں آیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آیت اللہ علی السیستانی کے مطالبے کے جواب میں میں پارلیمنٹ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ جلد از جلد میرا استعفاء قبول کرلے ۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کب عہدے سے استعفاء دیں گے ۔ 

پیر، 6 جنوری، 2020

ایزی لوڈ اور ایڈوانس بیلنس (لون) بارے شرعی حکم



ایزی لوڈ کا شرعی حکم کیا ہے ۔۔۔۔؟
ایزی لوڈ کا شرعی حکم یہ ہے کہ موبائل کمپنی نقد رقم وصول کرکے صارف کو اس کے بدلے ادھار نہیں دیتی، بلکہ کمپنی کی طرف سے جو رقم صارف کے موبائل میں ظاہر ہوتی ہے وہ در حقیقت گفتگو کا حق اور حاصل کردہ سہولت کی علامت ہوتی ہے ۔ گویا  کارڈ ڈالنے یا ایزی لوڈ کروانے والے شخص نےکمپنی سے نقد رقم نہیں لی، بلکہ رقم کے بدلہ میں ایک متعین خدمت لی ہے، اور ایزی لوڈ اور کارڈ ڈالنے  کی صورت میں کچھ رقم کی کٹوتی کمپنی کے سروس چارجز اور حکومتی ٹیکس  کی مد میں ہوتی ہے۔ 
لہذا دونوں صورتوں  میں جو زائد رقم کمپنی وصول کرتی ہے اس پر سود کا حکم لاگو نہیں ہوتا ۔

 ایڈوانس بیلنس (لون) کا شرعی حکم کیا ہے ۔۔۔۔۔؟
ایڈوانس بیلنس کا حکم یہ ہے کہ موبائل کمپنی اگرزائد رقم خدمت مہیا کرنے کے عوض وصول کرتی ہے (یعنی سروس چارجز کی مد میں زائد رقم لیتی ہے) تو ایڈوانس لینا جائز ہے، بیلنس ختم ہونے کے بعد بعض موبائل کمپنیاں جو مسیج بھیجتی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمپنی ایڈوانس کی سہولت دے کر  اس پر جو کچھ رقم کاٹتی ہے وہ سروس چارجز کی مد میں کاٹتی ہے، لہذا ایسی موبائل کمپنیوں سے ایڈوانس بیلنس کی سہولت حاصل کرنا جائز ہے، تاہم اگر کوئی شخص  احتیاط کے درجہ میں اس سے بچتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے ۔


جمعہ، 3 جنوری، 2020

غفور شیدا کو گولڈ میڈل ملنا خوش آئند ہے، قاسم خان اشاڑے



عوامی نیشنل پارٹی تحصیل مٹہ کے صدر قاسم خان اشاڑی اپنی ایک بیان میں کہا ہے کہ سینئر صحافی غفور خان شیدا کو بہترین صحافت پر ایس زیڈ اکیڈمی کی جانب سے گولڈ میڈل ملنا پورے سوات اور بالخصوص تحصیل مٹہ کےلئے ایک بڑا اعزاز ہے ۔ 

ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے ”عصرِ نو“  سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ آزاد صحافت کےلئے ہر فلور پر آواز اُٹھائی ہیں اور آئندہ بھی اُٹھائنگے ۔

دریں اثنا اُنہوں نے غفور خان شیدا کو مبارکباد دیتے ہوئے  کہا کہ ہم ایس زیڈ اکیڈمی کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے موصوف کے صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں گولڈ میڈل سے نوازا ، جو نہ صرف ضلع سوات کے صحافی برادری کےلئے قابل اعزاز ہے بلکہ پورے سوات کےلئے بھی قابل فخر ہے ۔