سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے پشتون قوم کے عظیم قومی شاعر، دانشوار، سنگ تراش، سیاست دان، مصنف، محقّق، مصوّر اور لیونے فلسفی خان عبد الغنی خان المعروف غنی خان کو اُن کی چوبیسویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ غنی خان بیسویں صدی میں پشتو زبان کے انتہائی معروف شاعر تھے، اور اُن کی شاعرانہ صلاحیتوں کی بناء ہی پر اُنہیں خوشحال خان خٹک اور رحمان بابا جیسے پشتو کے قد آور شاعروں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہترین مصنف، محقّق اور مصوّر بھی تھے۔
ایوب خان اشاڑی نے غنی خان کی شاعری کے حوالے سے اپنے تاثرات کچھ یوں بیان کی، ”جوانی کی چند نظموں کے سوا آپ کی تمام تر شاعری رومانوی ہے۔ اُن کی شاعری کے مجموعات میں فانوس، پلوشے، دہ پنجرے چاغر، کُلیات غنی اور لٹون شامل ہیں۔
اُن کی انگریزی کتاب ”The Pathans“ جو 1947ء میں شائع ہوئی، پشتون قبائل اور تاریخ پر انتہائی مستند سمجھی جاتی ہے۔ اُردو ادب میں اُن کی واحد کتاب، جس کا عنوان ”خان صاحب“ تھا، 1994ء میں شائع ہوئی۔
غنی خان کی شاعری پشتو کے کلاسیکی شُعرا سے نسبتاً جُداگانہ رنگ رکھتی ہے، اس کی وجہ غنی خان کے حصول علم کے ذرائع، آبائی و بیرون ملک ثقافتوں کا مشاہدہ، نفسیات، جذباتیت اور زندگی پر مذہب کے اثرات کی جُدا تشریح ایسے عناصر ہیں، جو غالب نظر آتے ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے غنی خان کو خراج عقیدت کے طور پر اُن کی وفات کے بعد 08 ایکڑ رقبہ پر کُتب خانہ قائم کیا اور اس کو حجرہ غنی یا غنی ڈیرئی سے منسوب کیا۔
یہ بلاشبہ ایک مصنف، محقّق، مصوّر اور شاعر کا حجرہ ہے، جہاں علم کے پیاسوں کےلیے بے شمار ذرائع موجود ہیں۔ یہ کُتب خانہ غنی خان کی آبائی رہائش گاہ، ”دارالامن“ کے قریب گاؤں اتمانزئی میں قائم ہے۔“
اُنہوں نے کہا کہ جب غنی خان بیمار تھے، تو میں اُن کی عیادت کےلئے گیا اور ان سے ایک شعر کی درخواست کی، تو اُنہوں نے کاغذ پر اپنا یہ شعر لکھ کر مجھے دے دیا کہ:
چغي وهي اجل ملا ته، ته يې اوري که يی نه اوري
تشه خاؤره نه ده غنی نو څنګه به شي خاؤري
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں