اتوار، 19 اپریل، 2020

سیاست، عوام اور جھگڑے


آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی سیاسی جماعتوں کے کارکنان انتہائی نیچ اور گھٹیا قسم کے الفاظ ایک دوسرے کےلیے استعمال کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو تعلیم یافتہ اور مہذب قوم سمجھتے ہیں، لیکن اصل میں اُن سے وہ لوگ لاکھ درجہ بہتر ہیں جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، اور اِسی وجہ سے وہ سیاست سے اپنے آپ کو کوسو دور رکھتے ہیں۔

ہر کوئی اپنے لیڈر کے باتوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان (یقین) لاتے ہیں کہ میرا لیڈر صادق اور امین ہے۔ بدقسمتی سے مملکت خداداد میں سیاست ایک کھیل بن چکا ہے، مگر اس کھیل کو کھلاڑی نہیں بلکہ تماشائی کھیلنے لگے ہیں اور کھلاڑی (سیاست دان) گھروں میں تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بقولِ شاعر
نئے کردار آتے جا رہے ہیں 
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے 

یہ لیڈر ہمیشہ اپنے کارکنوں کو ذلیل کرنے کےلیے کوئی سیاسی ڈرامہ رچاتے ہے اور عقل سے خالی کارکن جوکہ اس معاشرے کے عام افراد ہوتے ہیں، معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی انتھک کوشش کرتے ہیں، اور پھر اس کا ازالہ بھی خود کرتے ہیں۔

معروف عرب ادیب مصطفیٰ لطفیٰ منفلوطی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ "جلّاد تو چند افراد کو قتل کرتا ہے، مگر سیاست دان ساری قوم کی جانوں کا سودا کرتا ہے، جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا بڑا سیاست دان"۔ 

قارئین! کون سچا ہے کون جھوٹا، یہ ثابت کرنا تو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، کیوں کہ ہر ایک  نے اپنے لیے راہ نجات کی دلیل ضرور ڈھونڈا ہے۔

میں جب اس معاشرتی ناہمواریوں پر سوچتا ہوں، تو نہ صرف کڑھتا ہوں بلکہ ایک واقعہ بھی یاد آتی ہے کہ کچھ دن پہلے میں اپنے ایک دوست (جو ایک سیاسی پارٹی کا ورکر ہے)، کے موبائل سے کچھ تصاویر اپنے موبائل فون کو بھیج رہا تھا کہ اُن کی ساری گیلری مخالف پارٹیوں کے خامیوں سے بھری پڑی ہوئی تھی، میں مسکرانے لگا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ بہت کام کی چیزیں ہیں، جب بھی سوشل میڈیا پر مخالفین ہمارے لیڈر پر تنقید کرتے ہیں تو میں اپنے جماعت کی دفاع کےلیے یہ تصاویر استعمال کرتا ہوں۔

اِن لوگوں کا کیا یقین، کب آپس میں مل جائیں، یہ لوگ تو صرف اقتدار ہی کےلیے ہمیں استعمال کررہے ہیں۔ حقیقت میں یہ ایک دوسرے کے لیلیٰ و مجنوں ہیں، لیکن ہمیں سمجھ نہیں۔

لہٰذا آج امر اس بات کی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ہمدرد ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کی عزت اور وقار کی پرواہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تنقید کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کی تضحیک کرتے وقت سماجی و معاشرتی اقدار کو سامنے رکھنی چاہیے۔ ہمیں سیاسی نظریات اور اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرنے چاہیے، ورنہ بقولِ شاعر
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں 
ورنہ  اِن بکھرے  ہوئے تاروں  سے کیا کام بنے

                                 تحریر: اُسامہ خان خلیل

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں