پیر، 27 اپریل، 2020

شاعر، ادیب اور محقق احسان یوسف زئی (خاکہ)


گلزارِ ادب کا ایک پھول ضلع سوات کے پُر بہار علاقہ فتح پور میں مہکا، جس نے گلستانِ ادب میں بہت جلد اپنا ایک الگ مقام بنالیا۔ جی ہاں، بات ہورہی ہے استادِ محترم احسان یوسف زئی کی جو بہ یک وقت شاعر، ادیب، افسانہ نگار، نقاد اور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ معلم بھی ہیں، جن سے نوجوان نسل فیضِ یاب ہورہی ہے۔

دراز قد، اکہرا بدن، سانولی رنگت، پشتو کے مشہور فلمی ہیرو بدر منیر کی طرح بڑے بڑے کالے بال جو کانوں کی لو کو چھپاتے ہے، خش خشی کالی داڑھی، مناسب کالے مونچھ، مخروطی اُنگلیاں، مہین مسکراہٹ، کانوں میں رس گھولتی آواز، خوبصورت و ملائم لہجہ، کان بہت چھوٹے نہ بڑے، روشن آنکھیں، اِن تمام کا مجموعہ ہیں احسان یوسف زئی۔
 
آپ کا اصل نام احسان اللہ جبکہ یوسف زئی ایک طرح سے تخلص کرتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں اسی نام (احسان یوسف زئی) سے جانے جاتے ہیں۔ موصوف 1991ء کو ضلع سوات کے حسین علاقہ فتح پور میں فضل ربی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ہائیر سیکنڈری سکول سے حاصل کی۔ وہی سے میٹرک کیا جب کہ ایف اے کا امتحان گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ سے پاس کیا۔ پھر ملاکنڈ یونیورسٹی سے بی اے، یونیورسٹی آف سوات سے پشتو زبان و ادب میں ماسٹر کی ڈگری لی اور پشتو اکیڈمی پشاور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہاں سے پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان سیماب اور ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی پشاور پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ جان وزیر صاحب کے زیرِ نگرانی اب پشتو ادبیات میں پی ایچ ڈی میں مصروف ہیں۔ 

ادب سے کس دور میں جڑے؟ یہ تو راقم کو معلوم نہیں، تاہم دستیاب معلومات کے مطابق پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ بیٹھے، اور اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول فتح پور کے سالانہ مجلہ ”تلاپنڑ“ میں سال 2006ء کو نظم شائع کرنے سے کیا۔

آپ نظم اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں، لیکن اصل میں شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں۔ پشتو اکیڈمی پشاور کی سال 2019ء میں جو ششماہی پراجیکٹ اختتام تک پہنچا، اُس میں سوات، بونیر اور شانگلہ کے لہجوں پر آپ نے تحقیق کی ہے، جو طباعت کےلیے تیار ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد سے منظور شدہ مختلف ریسرچ رسائل میں تحقیقی مقالے بھی لکھے ہیں، جو شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں یونیورسٹی آف پشاور اور بلوچستان یونیورسٹی کے تحقیقی مجلے قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ متعدد افسانے بھی لکھے ہیں، جو مختلف اوقات میں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔  

احسان یوسف زئی نے شاعری میں غزل کو اپنا پسندیدہ صنف ٹھہرایا ہے، اور اسی وجہ سے غزل ہی لکھتے ہیں۔ موصوف اب تک سینکڑوں غزلیں لکھ چکے ہیں، لیکن تاحال کوئی کتاب شائع نہیں کی۔ بے شک ندیم احمد قاسمی اردو زبان و ادب کے نابغہ روزگار اور ہمہ جہت شاعر و ادیب ہیں، اور اسی وجہ سے اُنہوں نے پوری زندگی اُردو کےلیے وقف کیے رکھی۔ احسان صاحب مجھے اُن کے نقش قدم پر چلتا ہوا مسافر معلوم ہوتے ہیں۔ احسان صاحب پشتو زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ غزل کو نئے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ 

موصوف کے بارے میں سوات کے نامی گرامی اور بزرگ شاعر محمد حنیف قیسؔ صاحب یوں فرماتے ہیں کہ ”احسان یوسف زئی کو پہلی ملاقات میں سمجھ بیٹھا تھا کہ یہ صاحب ایک نہ ایک دن پشتو ادب کے اُفق پر دمکتے ستارے کی مانند ضرور چمکے گا۔ موصوف کے ادبی کوشش اور علمی سطح جس قدر بلند ہے، اس سے کئی ذیادہ اُس کی شرافت، سادگی اور ملنساری اعلیٰ درجے کی ہے۔ اپنی ذاتی خوبی اور علمی جُستجو کی وجہ سے آج ایک منجھے ہوئے نقاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ درویش صفت انسان مستقبل میں پشتو زبان و ادب اور پشتون قوم کی خدمت کرے گا“۔

احسان یوسف زئی کی علمی و ادبی وقعت کے بارے میں شعبہ پشتو جہانزیب کالج کے چیئرمین پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔء کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ”احسان یوسف زئی دورِ جدید کے اُبھرتے ہوئے شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور محقق ہیں۔ اُن کی شاعری اپنی مٹی کی سوندھی خوشبو سے معطر اور اپنی قوم کی محبت سے معمور ہے۔ افسانوں میں موضوعاتی تنوع رکھتے ہیں۔ اسی طرح موصوف تنقید و تحقیق میں معیار کے قائل ہیں، جو بھی لکھتے ہیں، کھلے دل سے لکھتے ہیں۔ آپ پورے خیبر پختونخواہ اور بالخصوص سوات میں پشتو زبان و ادب کے فروغ کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ آپ ایک درویش صفت انسان ہیں، اور اپنی محنت کے بدلے نہ صلے کی تمنا رکھتے ہیں، اور نہ ستائش کی پرواہی کرتے ہیں۔“

احسان صاحب میں انتہا کی حد تک عاجزی ہے۔ کہیں بھی اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کہیں بھی اُنہوں نے احساس برتری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ باوجود یہ کہ ایک اعلیٰ نقاد، محقق اور ادب کے ایک کامل استاد ہیں، لیکن آج بھی خود کو زبان و ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم سمجھتے ہیں۔ جس کی مثال گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ شعبہ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار نجیب اللہ نجیب کے تاثرات میں کچھ یوں ملتی ہے: ”میرے لیے احسان صاحب کے بارے میں لکھنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اُن کی شخصیت کےلیے الفاظ کا چناؤ کرنا اور اسے استعمال کرنا جوئےشیر لانے کی مترادف ہے۔ میں پہلی بار احسان صاحب کے ساتھ جہانزیب کالج میں منعقدہ ایک تنقیدی میٹنگ میں ملا، اور وہاں سے ہمارا تعلق ادب اور پشتو زبان کی بناء پر آج تک قائم ہے۔ احسان صاحب کی شخصیت سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ آپ بہت اچھے اور پیارے انسان ہیں۔ ہر شخص اُن کی تعریف کرتا نظر آتا ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اُن سے ملتے وقت کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ احسان صاحب اتنے بڑے شاعر، ادیب، دانشور اور ایک بڑے ادارے میں معلم ہیں۔ مجھے اُن کی شخصیت میں ایک بہت بڑا اُستاد دیکھائی دیتا ہے، کیوں کہ میں نے ہمیشہ اُن کے دل میں یہ تڑپ محسوس کیا ہے کہ میں کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھ لوں، اور میں نے یہ بات بہت ہی کم اساتذہ میں پایا ہے۔ مختصراً یہ کہ احسان صاحب جیسے ذی علم شخصیت بننے کےلیے مجھ سمیت ڈھیر سارے طفل مکتب تمنا ہی کریں گے۔“

گہرے تنقیدی شعور اور عمیق مطالعے کی وجہ سے آپ متعدد مصنفین اور شعراء کے کتب پر علمی مقالے لکھ چکے ہیں، جن میں سفید ریش اور خوش کلام شاعر ابراہیم خان شبنؔم، بابائے قطعہ عبدالرحیم روغاؔنے، پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان سیماؔب اور پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد سعیؔد شامل ہیں۔ جن کے فن، فکر اور شخصیت کو اپنی علمی ترازو سے تول کر ان کا معیار مقرر کرتے ہیں۔ تنقید ہی سے متعلق ان کے بارے میں معروف کالم نگار ساجد علی خان ابو تلتاند کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ ”علمی یا فنی قدر متعین کرنا ایک ماہر نقاد کا کام ہے۔ بحیثیتِ ایک تنقید نگار احسان یوسف زئی صاحب ادبی فن پاروں کی موشگافیوں کے حل کرنے اور اس کی گھتی کو سلجھانے کۣ ماہر ہیں۔ تنقید میں عطاء اللہ جان صاحب کے بعد جس شخص نے مجھے متاثر کیا، وہ احسان یوسف زئی ہی ہیں۔ خود شاعر ہیں، اس لیے شاعری کے رموز و اوقاف خوب جانتے ہیں۔ تحقیق کے شیدائی، عمیق مطالعے کے عادی اور تنقیدی شعور کے مالک احسان یوسف زئی کو پشاور کے سفر میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک مخلص، قدردان، انسان دوست اور وسیع النظر شخص کی خوبیاں ایک ساتھ جس شخص میں پائی جاتی ہو، وہ احسان یوسف زئی ہی ہوسکتے ہیں"۔ 

راقم الحروف (اختر حسین ابدالؔی) کےلیے یہ بات کسی بڑی اعزاز سے کم نہیں کہ میں احسان یوسف زئی صاحب کا براہ راست شاگرد ہوں، مجھے موصوف سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے، اور اللہ کرے کہ یہ سلسلہ تا دمِ آخر جاری و ساری رہے۔ 

قارئین! بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن وقت اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے تصدیق اقبال بابو کے الفاظ مستعار لینا چاہوں گا کہ ”کالم کے مختصر سے دامن میں بندہ کون کون سے فکری اور فنی پہلوؤں کو چھیڑے، اس لیے اسی پہ اکتفا کرتے ہوئے اتنا ہی کہوں گا کہ: 
”ہمیں تم پہ ناز ہے!“ 
                                  
                                  راقم: اختر حسین ابدالؔی 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں