اتوار، 5 اپریل، 2020

چینی اور آٹے بحران کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار نے اُٹھایا، دونوں بحران کا بھی ذمہ دار قرار


اسلام آباد (عصرِنو) وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے آٹا اور چینی بُحران کے حوالے سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ مکمل ہوگئی ہے جس کو وزیر اعظم نے پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

رپورٹ میں بحران کا ذمہ دار وفاق، پنجاب، پختونخوا حکومتوں کو قرار دیا گیا ہے۔ بحران کی وجہ پنجاب کے وزیر اور سیکرٹری، پختونخوا کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر فوڈ کی لاپرواہی بھی شامل ہے، سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شراکت داروں نے اُٹھایا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آٹا بحران باقاعدہ منصوبہ بندی سے پیدا کیا گیا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کاہلی وجہ بنی، افسران، سیاسی شخصیات ملوث، مونس الٰہی، چوہدری منیر نے بھی فائدہ اُٹھایا۔ 

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ ر حیم یار خان گروپ (خسرو بختیار کے بھائی) نے اُٹھایا جو جسے کل چار ارب روپے کی سبسڈی ملی۔ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین ) کو تین ارب روپے، ہنزہ گروپ کو دو ارب 80 کروڑ روپے، فاطمہ گروپ کو دو ارب 30 کروڑ روپے شریف گروپ کو ایک ارب 40 کروڑ روپے اور اومنی گروپ کو 90 کروڑ دس لا کھ روپے کی سبسڈی ملی۔ 

چینی برآ مد کرنے والوں کوتواتر سے سبسڈی کا ملنا شوگر کی صنعت کے تمام حکو متوں پر سیا سی اثر رورسوخ کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیاء نے یہ رپورٹ وزیراعظم کوپیش کی ہے۔ یہ ابتدائی رپور ٹ ہے جبکہ جامع رپورٹ بعد میں پیش کی جا ئے گی۔ 

گندم بحران میں سابق وفاقی وزیر خوراک محبوب سلطان ذمہ دارقرار، جبکہ چینی بحران میں سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی نے اُٹھایا۔ ملک میں گندم بحران کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آگئی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چینی بُحران میں سیاسی خاندانوں نے خوب مال بنایا جبکہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اُٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اُٹھایا۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے کس کے دباؤ میں آکر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی؟ 
دوسری جانب ملک میں گندم بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری بھی گندم بحران کے ذمہ دار ہیں، فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی جانب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو گندم خریداری کی صورتحال سے باخبر رکھا گیا، ملک میں گندم اور آٹے کے بحران میں فلورملز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت ہے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ 13 دسمبر 2019ء کو مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے فلورملز پر ساڑھے 7 کروڑ روپے کا جرمانہ کیا، فلور ملز ایسوسی ایشن نے مسابقتی کمیشن کے جرمانےکو عدالت میں چیلنج کردیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کا تحقیقات کا طریقہ کار بہت سست ہے، 13 سال میں مسابقتی کمیشن نے 27 ارب روپے جرمانے میں سے 3 کروڑ 33 لاکھ وصول کیا۔

رپورٹ کے مطابق سندھ نے گندم نہیں خریدی جبکہ پنجاب کی جانب سے خریداری میں تاخیر کی گئی، ای سی سی کو بے خبر رکھنے پر صاحبزادہ محبوب سلطان معقول جواب نہ دے سکے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ گندم کی ضروریات کے حوالے سے پنجاب انحصار کرتاہے، ڈائریکٹر فوڈ پنجاب گندم خریداری میں پنجاب کی جانب سے تاخیر پر کمیٹی کو مطمئن نہ کرسکے، خیبر پختونخوا کے اس وقت سیکرٹری اور ڈائریکٹر فوڈ ڈیپارٹمنٹ گندم کی خریداری میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں۔ 

چوہدری مونس الٰہی اور چوہدری منیر بارے بھی پیسے کمانے کا انکشاف ہوا ہے۔ مونس الٰہی اورچوہدری منیر رحیم یارخان ملز، اتحاد ملز ٹو اسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں۔ 

مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر کی شوگر ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ ہوا۔ وفاقی وزیرخسرو بختیار کے رشتے دار نے چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی کاہلی آٹا بحران کی اہم وجہ بنی۔ایم ڈی پاسکو کی گندم خریداری کی رپورٹ درست نہیں تھی۔ وزارت فوڈ سکیورٹی نے ای سی سی کو غلط اعدادوشمارپرگندم برآمد کرنے کا مشورہ دیا۔ 

2019ء میں گندم کی پیداوار کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ جبکہ مالی سال 2019-20ء میں ایک لاکھ 63 ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی۔ گندم کی برآمد اور برآمد میں تاخیر کی وجہ سے بے چینی پھیلی۔ بےچینی کی وجہ سے لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ گندم کی برآمد پرپابندی نومبر کی بجائے جون 2019ء میں لگنی چاہیے تھی۔ 

پنجاب حکومت 20 سے 22 دن کی تاخیر سے گندم کی خریداری کی۔ سندھ حکومت کے گندم اسٹاک میں بڑے پیمانے پر چوری ہوئی، گندم خریداری نہ کرنے پر ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گندم کی خریداری کا آڈٹ کیا جائے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن شوگر انڈسٹری کا فرانزک آڈٹ کرائے گا تاکہ تمام ایسی پریکٹس کو بے نقاب کیا جاسکے اور مستقبل کےلئے سزا، ریگولیٹری اقدمات اور زرعی حکمت عملی کی سفارشات دی جاسکیں۔

رپورٹ کے مطا بق چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین نے اٹھایا۔ جہانگیر ترین نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کا فائدہ اٹھایا۔ 22 فیصد سبسڈی کا فائدہ جے ڈی ڈبلیو گروپ (جہانگیر خان ترین) نے اٹھایا جو 56 کروڑ دس لاکھ روپے بنتا ہے۔ فائدہ اٹھا نے والوں میں دوسرے نمبر پر رحیم یار خان گروپ (مخدوم عمر شہر یار خان) ہیں جو وفاقی وزیر بر ائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی مخدوم خسرو بختیار کے بھائی ہیں۔ 

انہوں نے سبسڈی کے18 فیصد کا فائدہ اٹھایا جو 45 کروڑ 20 لاکھ روپے بنتا ہے۔ چوہدری منیر کی رشتہ داری نواز شریف فیملی سے ہے۔ تیسرے نمبر پر جس گروپ نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا وہ شمیم احمد خان (المعیز گروپ) ہے جس نے سبسڈی کے 16 فیصد کا فائدہ اٹھایا جو 40 کروڑ 6 لا کھ روپے بنتا ہے۔ 

رپورٹ پر ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء، ڈپٹی ڈی جی آئی بی احمد کمال اور ڈی جی انٹی کرپشن پنجاب محمد گوہر نفیس کے دستخط ہیں۔ ترجمان حکومت پاکستان نے کہا کہ آٹا اور چینی کے بحران کی تحقیقات کےلئے وزیراعظم نے تحقیقات کیلئے 2 کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔

ترجمان کے مطابق دونوں کمیٹیاں ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھیں۔ کمیٹیوں نے آٹے اورچینی کی قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لیا۔ 

ترجمان حکومت پاکستان کے مطابق دونوں کمیٹیوں کی طرف سے انکوائری رپورٹس پیش کی گئی ہیں۔ مزید وضاحت کےلئے اضافی سوالات دیے گئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق پی ٹی آئی اور وزیراعظم شفافیت اور احتساب کو جمہوریت کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں۔

ترجمان کے مطابق وزیراعظم نے کمیٹیوں کی رپورٹس اور سوالات کے جوابات عوام کیلئے جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔حکومتی ترجمان کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقاتی کمیٹی کے دائرہ کار کو وفاقی کابینہ نے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ترجمان کے مطابق انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ کمیشن فائنڈنگ فرانزک کا تجزیہ کررہا ہے۔ ترجمان حکومت کے مطابق کمیشن 25 اپریل تک اپنا کام مکمل کرلے گا۔ وزیراعظم کی قیادت کے تحت وفاقی حکومت کمیشن کی سفارشات پرعمل درآمد کریگی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں