معروف کالم نگار فائزہ نذیر احمد مقامی روزنامے کےلیے لکھی گئی اپنی ایک پرانی خصوصی تحریر میں لکھتی ہیں، کہ 29 اگست 1956ء کو پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد فوت ہوئے۔ اُن کی وصیت کے مطابق اُنہیں سعودی عرب میں دفنایا جانا تھا، لہٰذا انہیں امانتاً کراچی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق ایک ٹیم اُن کے جسدِ خاکی کو سعودی عرب روانہ کرنے کےلیے قبر سے نکالنے لگے، ٹیم کا ایک ڈاکٹر، فوج کے ایک کیپٹن، پولیس اہلکار، دو گورکن اور غلام محمد کے قریبی رشتہ دار قبر کشائی کےلیے قبرستان پہنچے۔
فائزہ نذیر احمد لکھتی ہیں کہ گورکن نے جیسے ہی قبر کھودی اور تختے ہٹائے تو تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اس سانپ کو مارنے کی کوشش کی، مگر وہ ہر وار سے بچ گیا۔ پولیس کے سب انسپکٹر نے اپنی پستول سے چھ گولیاں داغ دیں، مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگی۔
ڈاکٹر کی ہدایت پر ایک زہریلے اسپرے کا چھڑکاؤ کرکے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی۔ دو گھنٹے کے بعدجب دوبارہ قبر کھولی گئی تو سانپ اسی تیزی سے قبر میں چکر لگا رہا تھا۔
پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد خان کی ایک یادگار تصویر
چنانچہ باہمی صلاح مشورے کے بعد قبر کو بند کر دیا گیا، اور اگلے دن ایک مشہور اخبار میں چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جو کچھ یوں تھی، ”سابق گورنر جنرل غلام محمد کی لاش سعودی عرب نہیں لے جائی جاسکی، وہ اب کراچی ہی میں دفن رہے گی“.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں