منگل، 31 دسمبر، 2019

باچا خان اور ولی خان کی برسی کےلئے عوامی نیشنل پارٹی تحصیل مٹہ کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہے، قاسم خان اشاڑے



عوامی نیشنل پارٹی تحصیل مٹہ کے صدر قاسم خان اشاڑی نے باچا خان اور ولی خان کی برسی سے متعلق اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی تحصیل مٹہ کے تیاریاں زور و شور سے جاری ہے اور اس بارے تمام یونین کونسلوں کے صدور کو بھی ہدایات جاری کئے ہیں کہ وہ اپنے اپنے یونین کونسلوں میں بھی تیاریاں شروع کریں ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ”عصرِنو“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلع سوات سے ایک بڑا قافلہ ضلعی صدر محمد ایوب خان اشاڑی کے زیرِ قیادت 26 جنوری 2020 کو بٹ خیلہ روانہ ہوگا جن میں ایک کثیر تعداد تحصیل مٹہ کی ہوگی ۔

یاد رہے کہ رہبر انسانیت اور فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان کے برسی 26 جنوری 2020 کو بروز اتوار بٹ خیلہ کے ظفر پارک میں منائی جائے گی جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان خود شرکت کرینگے ۔


سوڈان: استاد کی ہلاکت کے جرم میں 27 انٹیلی جینس اہلکاروں کو سزائے موت کا حکم



خرطوم : سوڈان کی ایک عدالت نے احمد الخیر نامی استاد کی زیر حراست موت کے جرم میں نیشنل انٹیلی جنس سروس کے دو درجن سے زائد اہلکاروں کو سزائے موت سنادی ۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق صدر عمر حسن البشیر کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے متعدد افراد کو ہلاک کردیا تھا جب کہ حکومت مخالف تحریک چلانے والے سرکردہ افراد کو حراست میں لیا تھا ۔

ان مظاہروں کے بعد سوڈانی فوج نے صدر عمر حسن کو معزول کر دیا تھا جب کہ زیر حراست افراد پر تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے تھے ۔

عدالت نے استاد احمد الخیر کی زیر حراست تشدد سے ہلاکت کے مقدمے کا ٹرائل مکمل کر کے نامزد انٹیلی جنس اہلکاروں کو قصور وار قرار دے دیا ، عدالت نے 27 اہلکاروں کو قتل کے جرم میں پھانسی دینے کا حکم سنایا ہے ۔

عدالت نے دیگر 13 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی ہے جب کہ 4 افراد کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا ہے ، مجرمان سزا کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔


پیر، 30 دسمبر، 2019

عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات باچا خان اور ولی خان کی برسی پر اپنی بھر پور قوت کا مظاہرہ کریگی، ایوب اشاڑے



 سابق صوبائی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات رہبر انسانیت اور فلسفہ عدم تشدد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان کی برسی یعنی 26 جنوری 2020 پر اپنی بھر پور قوت کا مظاہرہ کریگی ۔

اس عزم کا اعادہ انہوں نے ”عصر نو“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ انہون نے کہا کہ ہم ضلع سوات سے ایک قافلہ کی شکل میں بٹ خیلہ جائیں گے کیون کہ ہم اپنے اکابرین کو کھبی نہیں بھول سکتے جنہوں نے اپنی قوم کے خاطر جیلیں جھیلیں اور صعوبتیں برداشت کئے.

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم یہ بات ثابت کرکے دکھائیں گے کہ عوامی نیشنل پارٹی اب بھی لوگوں کے دلوں کی آواز اور ان کی حقیقی ترجمان ہے ۔ 

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات باچا خان اور ولی کی برسی میں بھر پور شرکت کریں گی، سیّد طارق باغی



پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے سیکرٹری جنرل سید طارق باغی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن رہبر انسانیت خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان کی برسی میں بھر پور شرکت کریں گے ۔

اس عزم کا اظہار انہوں نے تحصیل مٹہ میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی ایک شمولیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ 

اس پُروقار تقریب میں طلبہ مختلف فیڈریشن سے مستعفی ہوکر پختون ایس ایف میں شامل ہوئے ۔ 

اس موقع پر ان کے ساتھ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے صدر شہاب باغی ، پختون ایس ایف اے کے ایل کالج مٹہ کے صدر اختر حسین ابدالی اور ضلعی سرپرست اعلیٰ سہیل اختر بھی موجود تھے ۔ 


جمعہ، 27 دسمبر، 2019

صوابی میں سڑک کی پختگی کےلئے خواتین نے اپنے زیورات بیچ ڈالے



گدون گٹ گرام دو کلومیٹر روڈ کی پختگی کےلئے جاری چندہ مہم زور پکڑنے لگی ، خواتین نے اپنے زیورات جبکہ زمینداروں نے اپنی بھیڑ بکریاں بیچ کر چندہ میں حصہ لیا ۔ 

 09 کلو میٹر روڈ میں ایک کلو میٹر روڈ کنکریٹی بن چکا ہے جبکہ تبدیلی سرکار باقی ماندہ سڑک کی تعمیر پر خاموش ہے ۔ 

بار بار کہنے کے باوجود حکومت ٹھس سے مس نہ ہوئی تو لوگوں نے اپنے مدد آپ کے تحت روڈ تعمیر کرنے کی ٹھان لی۔ 

اس چندہ مہم میں جہاں بساط رکھنے والوں نے چندہ دیا تو وہاں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں اور اپنے زیورات بیچ کر چندہ میں حصہ لیا ۔ 


ستائس دسمبر، پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بےنظیر بھٹو کا یوم وفات



پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں حملہ ہوا اور وہ اپنے 23 جانثاروں کے ہمراہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئیں ۔

خیال یہ تھا کہ دو بار منتخب ہونے والی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے قتل کے پیچھے چھپے کرداربے نقاب ہوکر انجام تک پہنچیں گے مگر ایسا کچھ نہ ہوا ۔

کیس کی تحقیقات پہلے پنجاب پولیس اور پھر ایف آئی اے کے سپرد ہوئیں جس میں بطور ملزم سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو نامزد کیا گیا ۔

نظیر بھٹو پر حملہ بین الاقوامی طور پر دہشت گردی قرار دی گئی، اس کیس کی تحقیقات میں عالمی تنظیم القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا نام بھی سامنے آیا مگرانہیں چالان میں نامزد نہ کیا گیا۔ 

تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود اس کیس میں اشتہاری قرار ہوئے اور اسی دوران ڈرون حملے میں مارے گئے۔

 اسی کیس میں کالعدم تحریک طالبان اور دہشتگردی کی اس کارروائی سے مبینہ طور پر جڑے ملزمان اعتزاز شاہ، شیرزمان، حسنین گُل، محمد رفاقت اور رشید احمد بھی 9 سال تک گرفتار رہے۔

علاوہ ازیں دو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو جائے وقوعہ دھونے کے الزام میں کیس میں نامزد کیا گیا۔

سینئر پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو 17 سال کی سزا سنائی گئی، ان دونوں پولیس افسران نے اعلیٰ عدالتوں میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔

سعود عزیز اپنی نوکری سے رئٹائرڈ ہوچکے ہی٘ں اور خرم شہزاد پنجاب حکومت میں زمہ داریاں ادا کر رہے ہیں جب کہ مقدمے کے ایک ملزم سابق صدر پرویز مشرف ابھی تک مفروراشتہاری ہیں اور وطن وآپس آکر مقدمے کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔

 بے نظیر بھٹو قتل کیس سے جڑی سب کہانیاں اپنی جگہ مگر آج تک پاکستانی عوام یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ بے نظیر کا اصل قاتل کون تھا ۔۔۔۔؟



پیر، 23 دسمبر، 2019

پختون ایس ایف ضلع سوات کے زیر نگرانی ”کلچر نائٹ“ کا انعقاد



اکیس دسمبر بروز ہفتہ رائل پیلس ہوٹل بائی پاس پر پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے زیر نگرانی کلچر نائٹ کا انعقاد کیا گیا ۔

عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے سیکرٹری جنرل شاہی دوران خان پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن مٹہ کالج کے صدر اختر حسین ابدالی کو شیلڈ دیتے ہوئے ۔

تقریب کے مہمان خصوصی پشتو زبان و ادب کے درخشاں ستارے پروفیسر بخت زادہ دانش اور پروفیسر احسان یوسفزے صاھب تھے ۔

ان کے علاوہ تقریب میں لیکچرار امجد علی سحاب ، سنگر راشد خان ، عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے قائدین خواجہ محمد خان ، شاہی دوران خان ، عبدالصبور خان ، عبدالمالک خان ، گوہر علی خان ، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی چئیرمین جمشید وزیر ، صوبائی سیکرٹری اطلاعات متین بونیری اور پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے تمام عہدیداروں اور کارکنوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔

پروفیسر بخت زادہ دانش، خواجہ محمد خان اور عبدالمالک خان

تقریب میں نومنتخب اراکین کابینہ ضلع سوات ، یونیورسٹی آف سوات ، تمام کالجز کے عہدیداروں کی حلف برداری ہوئی ۔ جس کے بعد پروگرام کے منتظمین میں بہترین کارکردگی پر شیلڈ تقسیم کی گئی ۔

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے سیکرٹری جنرل طارق حسین باغی۔

حلف برداری کے بعد کلچر نائٹ کا اہتمام کیا گیا جس میں سنگر راشد خان نے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کا لہو گرمایا ۔

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے تنظیمی کمیٹی کے سیکرٹری جنرل سہیل اختر ۔



جمعرات، 19 دسمبر، 2019

مشرف کی لاش کو تین دن تک ڈی چوک پر لٹکایا جائے ، فیصلہ



اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس  کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے ۔ دو ایک کی اکثریت سے سنایا گیا فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے ۔

نوٹ: عصر نو اپنے قارئین کے لیے اس فیصلے کے اہم نکات اردو میں اسی خبر میں مسلسل شامل کر رہا ہے۔

فیصلے کے اہم نکات :

دو ججز کا فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے ۔ جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد فضل نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا ۔

دونوں ججز نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین توڑنے ، وکلاء کو نظربند کرنے اور ایمرجنسی کے نفاذ کا جرم ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت دی جائے اور انہیں اس وقت تک لٹکایا جائے جب تک ان کی جان نا نکل جائے ۔

جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلاف نوٹ میں لکھا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزامات ثابت نہیں ہوتے ۔

جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف نے 2007 میں ایمرجنسی نافذ کی ایمرجنسی کی لفاظی مختلف کرنے سے مارشل لاء لگانے کے اثرات کم نہیں ہوتے ۔

دو ججز نے پرویز مشرف کو پھانسی جب کہ ایک جج نے انہیں بری کیا ہے ۔

دو ججز نے فیصلے میں لکھا کہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا ، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں ۔

جسٹس سیٹھ وقار نے فیصلے میں لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو لاش ڈی چوک لائی جائے جب کہ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس نقطے سے اختلاف کیا ۔

پرویز مشرف کو سزا کی حمایت کرنے والے ججز نے لکھا کہ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا ۔

اعلٰی عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ، فیصلہ

نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری جرم کاارتکاب کیا ، تفصیلی فیصلہ

اس نتیجے پرپہنچے ہیں جس جرم کاارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کےجرم میں آتاہے ، فیصلہ

آرٹیکل 6 آئین کاوہ محافظ ہےجو ریاست ، شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنیوالےکامقابلہ کرتاہے ، فیصلہ

ہماری رائے ہے سنگین غداری کیس میں  ملزم کو فیئرٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا ، فیصلہ

آئین کے تحفظ کا مقدمہ 6 سال پہلے 2013 میں شروع ہوکر 2019 میں اختتام پذیر ہوا ، فیصلہ

قانون نافذ کرنے والےادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرکے لائیں تاکہ سزا پر عملدرآمد کرایا جاسکے ، فیصلہ

میں نے ادب سے اپنےبھائی وقار احمد سیٹھ صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھاہے ، جسٹس نذر اکبرکااختلافی نوٹ

خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی اور کیس کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا ۔

اکثریتی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس شاہد فضل کریم نے کیا جب کہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ۔

رجسٹرار خصوصی عدالت راؤ عبدالجبار کا کہنا ہے کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ کچھ ہی دیر میں جاری کر دیا جائے گا اور فیصلے کی کاپی مقدمے کی پارٹیوں کو دی جائے گی ۔

راؤ عبدالجبار کا کہنا ہے کہ فیصلے کے قانونی تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں ۔ 

سنگین غداری کیس کا پس منظر :

سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا ۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا ۔

خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس نے 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی اور 19 جون ، 2016 کو انہیں کو مفرور قرار دیا ۔

2013 کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے ۔ یہ مقدمہ جسٹس فیصل عرب ، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے سنا ۔

سنگین غداری کیس کی 6 سال میں 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور پرویز مشرف پر 5 فریم چارج کیے گئے ۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے ، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے ، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کا چارج فریم کیا گیا ۔

عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی ۔

بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ
( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے ۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی جس کے دوران استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام شامل کرنے کی درخواست عدالت نے مسترد کردی ۔

استغاثہ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر ، سابق وزیر قانون زاہد حامد کو شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی تھی ۔


منگل، 17 دسمبر، 2019

سنگین غداری کیس ، مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم



خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں آئین سے غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی ، خصوصی عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا گیا ، بینچ کے 2 ججز نے سزائے موت جبکہ ایک نے اس پر اعتراض کیا ۔

 تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں موجود خصوصی عدالت میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی ۔

اگرچہ خصوصی عدالت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ کیس کا فیصلہ آج سنادیں گے تاہم حکومتی پراسیکیوٹر ایڈووکیٹ علی ضیا باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے آج تین درخواستیں دائر کی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست دی گئی اور کہا گیا کہ حکومت شوکت عزیز ، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانا چاہتی ہے ۔

استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ پرویز مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں کیونکہ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے ۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دئے کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست آنے کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ، آج مقدمہ حتمی دلائل کیلئے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آگئیں ۔ ساتھ ہی جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ گزر چکا ہے ۔ جنہیں ملزم بنانا چاہتے ہیں انکے خلاف کیا شواہد ہیں ، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟

 جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحیقیقات ہوسکتی ہے ، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا تھا ۔ اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ مشرف کی درخواست کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر فیصلہ بھی ہو چکا ، ساتھ ہی جسٹس شاہد کریم نے یہ ریمارکس دیے کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے ۔

دوران سماعت جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کےلئے 2 ہفتے کی مہلت دی گئی تھی ، اس پر استغاثہ نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی ۔

اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں ، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟، 3 افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کورکمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی ، لہذا عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہوسکتی ۔

جسٹس نذر علی اکبر نے ریمارکس دئے کہ چارج شیٹ میں ترمیم کےلئے کوئی باضابطہ درخواست ہی نہیں ملی ، عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آسکتی ، اسی کے ساتھ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے ۔

علاوہ ازیں جسٹس نذر نے یہ کہا کہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے ، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں ، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا ۔ دوران سماعت عدالت کے جج جسٹس شاہد کریم نے پوچھا کہ سیکریٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ میں ترمیم کرسکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے ؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے ، حکومت کارروائی میں تاخیر نہیں چاہتی تو شریک ملزمان کے خلاف نئی درخواست دے سکتی ہے ۔

اس موقع پر وکیل استغاثہ منیر بھٹی کا کہنا تھا کہ سابق پراسیکیوٹرز نے عدالت سے حقائق کو چھپایا ، جس پر جسٹس نذر نے پوچھا کہ سابق پراسیکیوٹرز کے خلاف حکومت نے کیا کارروائی کی؟ ، ساتھ ہی جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے پاس 15 دن کا وقت تھا کہ درخواستیں دائر کرے ، وفاقی حکومت سے متعلق سپریم کورٹ مصطفی ایمپیکس کیس میں ہدایات جاری کر چکی ہے ، سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سیکریٹری داخلہ نہیں وفاقی کابینہ فیصلے کر سکتی ہے ۔ عدالت میں وکیل استغاثہ نے بتایا کہ ایک درخواست چارج شیٹ میں ترمیم کی ہے ، ملزم نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کیا ، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ دفاع کی درخواست ہے ، اس درخواست پر فیصلہ آچکا ہے ۔

اسی دوران جسٹس شاہد نے پوچھا کہ آپ اس چارج شیٹ میں کیوں ترمیم کرنا چاہتے ہیں ، آپ ان لوگوں جن پر مددگار ہونے کا الزام ہے ان کے خلاف نئی شکایت کیوں نہیں دائر کرتے ، آپ کیس میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں ۔ جس پر جواب دیتے ہوئے وکیل استغاثہ نے کہا کہ نئی شکایت دائر کرنے سے ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے جبکہ چارج شیٹ میں ترمیم سے ٹرائل میں تاخیر نہیں ہوگی ، اگر پہلے مرکزی ملزم کا ٹرائل مکمل ہو جاتا ہے تو جو مددگار تھے ان کا کیا ہوگا ، اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ جرم میں سہولت کاروں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے ، اس معاملے میں تمام چیزوں کو سامنے رکھنا ہوگا ۔

عدالت میں دوران سماعت جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دئے کہ آپ کو علم ہے کہ شہادت ہوچکی ہے ، ان سہولت کاروں کے خلاف کیا ثبوت ہیں ، جس پر جواب دیا گیا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ کسی وقت بھی شکایت میں ترمیم کی جاسکتی ہے ۔ اس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے ، جن کو آپ شامل کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا تحقیقات ہوئیں ۔ 

اس موقع پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ استغاثہ اپنے حتمی دلائل شروع کرے ، جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پرویز مشرف کے خلاف تحقیقاتی ٹیم کے 2 ارکان کے بیان ریکارڈ نہیں ہوئے ، عدالت میں ایک درخواست تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کی طلبی کی بھی ہے ۔ پراسیکیوٹر علی ضیا باجوہ کا کہنا تھا کہ ایسے ٹرائل پر دلائل کیسے دوں جو آگے چل کر ختم ہوجائے ، عدالت حکومت کو درخواستیں دائر کرنے کا وقت دے ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملزم کا دفعہ 342 کا بیان بھی ریکارڈ نہیں ہو سکا ، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ وہ بات کر رہے ہیں جو ملزم کے دلائل ہونے چاہئیں ۔

اسی دوران جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ کیا آپ مرکزی کیس پر دلائل دینا چاہتے ہیں یا نہیں ، اگر آپ حتمی دلائل نہیں دے سکتے تو روسٹم سے ہٹ جائیں ، جس پر علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میں دلائل نہیں دینا چاہتا میری تیاری نہیں ، اس پر جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دئے کہ پھر آپ بیٹھ جائیں اور وکیل صفائی کو بولنے کا موقع دیں ۔

تاہم علی ضیا باجوہ نے کہا کہ میری اور بھی درخواستیں ہیں وہ تو سنیں ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق بھی درخواست ہے ، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پابند نہیں ہیں ، ہمارے سامنے صرف سپریم کورٹ کا حکم ہے اس کے تحت کارروائی چلانی ہے ۔

اس موقع پر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر اور رضا بشیر پیش ہوئے ، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سلمان صدر صرف رضا بشیر کی معاونت کرسکتے ہیں ۔ اسی دوران سلمان صفدر روسٹرم پر آئے تو جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں آپ کی ضرورت نہیں جس پر وکیل نے کہا کہ آپ نہ استغاثہ کو سن رہے ہیں اورنہ دفاع کو ، پھر کیسے کیس کو چلائیں گے ۔

وکیل کی بات پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالتی مفرور شخص کے وکیل کو عدالت میں بولنے کی اجازت نہیں دے سکتے ، ساتھ ہی جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں ضد نہ کریں ۔

بعد ازاں رضا بشیر نے عدالت کو بتایا کہ 342 کا بیان ریکارڈ کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی ہے ، پرویز مشرف کو منصفانہ ٹرائل کا حق ملنا ضروری ہے ، اس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ 342 کے بیان کا حق ختم کر چکی ہے ، پرویز مشرف 6 مرتبہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا موقع ضائع کر چکے ہیں ۔

اس پر رضا بشیر نے کہا کہ پرویز مشرف کو دفاع کا حق ملنا چاہیے ، جس پر جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ اور آپ دونوں ہی مشرف کا دفاع کررہے ہیں ۔ ساتھ ہی جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا کہ عدالت نے کہا تھا مشرف کو جب چاہیں پیش کردیں ، جس پر رضا بشیر نے کہا کہ پرویز مشرف کی صحت اس قابل نہیں کہ وہ پیش ہوسکیں ، لہذا دفعہ 342 کے بیان کے بغیر مشرف کا دفاع کیسے کروں؟

اس پر جسٹس وقار نے کہا کہ آپ دفاع نہیں کرسکتے اس کا مطلب ہے آپ کے دلائل مکمل ہوگئے ، جس پر رضا بشیر نے کہا کہ عدالت 15 سے 20 دن کا وقت دے پرویز مشرف بیان ریکارڈ کرائیں گے ۔ بعد ازاں جسٹس وقار نے ریمارکس دئے کہ 342 کے بیان کےلئے کمیشن بنانے کی درخواست کا جائزہ لیں گے ، جس کے بعد ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبرز میں چلے گئے ۔

بعدازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنادیا ۔ خصوصی عدالت کی جانب سے یہ فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا گیا ، جس میں بینچ کے 2 ججز نے سزائے موت جبکہ ایک نے اس پر اعتراض کیا ۔ عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف سنگین غداری کے مرتکب قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا ۔

یاد رہے سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا ۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007 کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا ۔

مقدمے میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور اس دوران 4 جج تبدیل ہوئے جب کہ گزشتہ تین ماہ سے اس کی مسلسل سماعت کی گئی۔عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی ۔

بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ
( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے ۔


منگل، 10 دسمبر، 2019

شہریت کا نیا متنازعہ بل ، بھارت میں مسلمانوں پر زمین تنگ



بھارتی حکومت نے سٹیزن شپ (شہریت) بل کی منظوری کے بعد اعلان کیا ہے کہ 2024ء تک ایک بھی غیر ملکی مسلمان تاریک وطن کو بھارت میں رہنے نہیں دیا جائے گا ۔

سٹیزن شپ بل کیا ہے ۔۔۔۔۔؟ 
اس بل کے تحت 1947ء کے بعد انڈیا آکر رہنے والے تارکین وطن میں سے ہندؤں ، سکھوں ، بدھ مت ، جیٹھ ، عیسائیوں اور پارسیوں کو تو انڈیا کی شہریت دی جائےگی لیکن مسلمانوں کو کسی صورت بھارت کی شہریت نہیں ملے گی ۔

انڈین حکومت کے مطابق پاکستان ، بنگلادیش اور افغانستان سے انڈیا آنے والے تمام "مسلمان تاریک وطن" جو کسی بھی وجہ سے بھارت آکر رہنے لگے تھے چاہے بھارت میں کئی نسلوں تک رہ چکے ہوں ، ان سب کو باہر نکالا جائے گا تاکہ انڈیا کو صرف ہندو ریاست بنایا جاسکے ۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھارت میں رہنے والے 80 ہزار مسلمان تاریک وطن کی شہریت منسوخ ہوچکی ہے اور اب انہیں ڈرا دھمکا کے مشورے دئے جاریے ہیں کہ یا تو بھارت ماتا سے وفاداری کا ثبوت دو یا پھر انڈیا سے دفع ہوجاؤ ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو پاکستانی ہندو پچھلے چند سالوں کے دوران ہندؤں کے ساتھ ناروا سلوک کے بہانے بناکر بھارت گئے اور وہاں سے واپس نہیں آئے ، انڈیا نے انہیں بھی شہریت دینے سے انکار کردیا ہے ۔ ان کےلئے شرط رکھی گئی ہےکہ پہلے ثابت کرو کہ پاکستان میں تمہاری جان و مال کو شدید خطرہ لاحق ہے جب ہی شہریت ملے گی ۔


اتوار، 8 دسمبر، 2019

پچپن فیصد عوام تحریک انصاف کے رہنماوں اور وزراء کو نااہل سمجھتے ہیں ، گیلپ سروے



55 فیصد پاکستانی عوام حکومتی جماعت تحریک انصاف کے رہنماوں اور وزراء کو نااہل سمجھتے ہیں ، گیلپ سروے 

وفاقی حکومت کی کارکردگی پر 53 فیصد عوام ناراض جبکہ 45 فیصد خوش ہیں ، سروے 

گیلپ سروے کے مطابق آدھے سے زیادہ پاکستانی عوام تبدیلی سرکار سے مایوس ہیں ، اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماؤں اور وزراء کو نااہل سمجھتے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق گیلپ پاکستان نے ایک سروے کیا ہے جس میں عوام سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا تحریک انصاف کے وزراء نااہل ہے یا نہیں ۔۔۔۔؟ 

جس پر 55 فیصد عوام نے ان کو نااہل قرار دیا ہے جبکہ 41 فیصد نے نا میں جواب دیا ہیں ۔ 

 

سردار اختر مینگل کا حکومت سے علیحدگی اور اپنے نشستوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ ، حتمی اعلان جلد متوقع



جلد سینٹرل پارٹی میٹنگ میں حتمی فیصلہ کریں گے ، پارٹی فیصلہ کرے تو نشستوں سے استعفی بھی دے سکتے ہیں، سردار اختر مینگل ۔

حکومت سے لو اور دو نہیں کر رہے ، 6 نکات پر عملدرآمد چاہتے ہیں ، اگر حکومت عمل نہیں کر سکتی تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کیوں بنے ، کسی کو خوش کرنے کےلئے ترمیم ہو سکتی ہے تو ہمارے نکات پر کیوں عمل نہیں ہو سکتا ، ایسے حالات نا بنائیں کہ مشرف والا مور پھر ناچنا شروع کر دے ، سردار اختر مینگل 

 بلوچستان عوامی پارٹی (بی این پی) مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنی ہی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے حالات نا بنائیں کہ مشرف والا مور پھر ناچنا شروع کر دے ، بات لاپتہ افراد سے لا پتہ خواتین تک پہنچ گئی ہے ، حکومت سے لو اور دو نہیں کر رہے ، 6 نکات پر عملدرآمد چاہتے ہیں ، اگر حکومت عمل نہیں کر سکتی تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کیوں بنے ، کسی کو خوش کرنے کےلئے ترمیم ہو سکتی ہے تو ہمارے نکات پر کیوں عمل نہیں ہو سکتا ، پارٹی فیصلہ کرے تو نشستوں سے استعفی بھی دے سکتے ہیں ۔ 

اتوار کو نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا پہلے لاپتہ افراد تھے ، اب بات لاپتہ خواتین تک پہنچ گئی ہے ، کسی گھر میں مجرم ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین بھی ملوث ہیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والا عدالت کے طلب کرنے پر بھی نہیں آتا ، سیاسی لوگ پیش نا ہوں تو وارنٹ جاری ہو جاتے ہیں ۔ 

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پارلیمنٹ میں قانون سازی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بی این پی مینگل کے سربراہ کا کہنا تھا حکومت نے ترمیم کےلئے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا ، حکومت پہلے ترمیم پر حمایت لینے کےلئے ہمیں قائل کرے ۔ حکومت سے علیحدگی کے حوالے سے سردار اختر مینگل نے کہا کہ پارٹی فیصلہ کرے تو نشستوں سے استعفی بھی دے سکتے ہیں ، جلد سینٹرل پارٹی میٹنگ میں حتمی فیصلہ کریں گے ۔ 

سردار اختر مینگل نے کہا کہ جب حکومت کو ضرورت ہوتی ہے تو خود دوڑے چلے آتے ہیں ، اپوزیشن سنجیدہ نہیں ورنہ حکومت ایسے بے لگام نا ہوتی ۔ اپوزیشن کی جانب سے عام انتخابات اور ان ہاس تبدیلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بی این پی سربراہ کا کہنا تھا عام انتخابات اور ان ہاس تبدیلی کے حالات نظر نہیں آ رہے لیکن اپوزیشن چاہے تو ان ہاس تبدیلی کی کوشش کر سکتی ہے ۔


وفاقی وزراء مراد سعید اور عمر ایوب کا اپوزیشن کو منانے کےلئے علی محمد خان کے ساتھ جانے سے انکار



 وفاقی وزراء مراد سعید اور عمر ایوب نے اپوزیشن کو منانے کے لئے وزیر مملکت علی محمد خان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا ۔

جمعہ کو اپوزیشن کے احتجاج کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری نے وزیر مملکت علی محمد خان سے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان ایوان سے واک آؤٹ پر ہیں ان کو منانے کے لئے اپنے ساتھ بعض سینئر وزراء کو ساتھ لے جائیں تاکہ ایوان کی کارروائی احسن انداز میں ہم آگے بڑھا سکیں ۔

 جس پر وزیر مملکت علی محمد خان نے ڈپٹی سپیکر کی ہدایت پر وفاقی وزراء مراد سعید اور عمر ایوب سے کہا کہ وہ اپوزیشن کو منانے کے لئے ان کے ساتھ چلیں تو دونوں وفاقی وزراء نے علی محمد خان کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ 

اس کے بعد علی محمد خان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر کو ساتھ لے کر اپوزیشن کے پاس گئے ۔

ہفتہ، 7 دسمبر، 2019

سات دسمبر ، معروف مبلغ و نعت خواں جنید جمشید کا یومِ وفات



معروف نعت خواں جنید جمشید کو دنیا سے رخصت ہوئے 3 سال ہوچکے ،7 دسمبر 2016ء کو جنید جمشید پی آئی اے کے طیارے میں سوار تھے جو چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا ، حادثے میں طیارے کے عملے سمیت 48 افراد شہید ہوئے تھے ۔

حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کی تصویر 

موسیقی سے سفر شروع کرنے والے جنید جمشید کی زندگی کا اختتام ایک مذہبی اسکالر اور نعت خواں کی پہچان کے ساتھ ہوا ۔

1987 میں دل دل پاکستان نغمے نے جنید جمشید کو بےانتہا شہرت سے نوازا ، ان کے کئی گیت مداحوں میں آج بھی بےحد مقبول ہیں ۔

شہید جنیدجمشید کے مرقد کی فائل فوٹو 

بعدازاں اسلام اور مذہبی تعلیمات کی طرف رجحان نے جنید جمشید کو بالکل ہی بدل ڈالا اور ان کی پہچان سنگر سے بدل کر نعت خواں کی ہوگئی ۔


نامور نعت خواں 3 ستمبر 1964 میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور یہیں ان کی تدفین ہوئی ۔ ان کی نماز جنازہ مولانا طارق جمیل نے پڑھائی تھی ۔




امریکا میں نامِ محمد کی گونج



واشنگٹن : امریکا میں نامِ ’محمد‘ کی دھوم مچ گئی ۔ امریکا میں ’محمد‘ پسندیدہ ترین ناموں میں شامل ہے ۔ بچیوں کےلئے 10 پسندیدہ ناموں میں عالیہ بھی شامل ہے ۔ امریکی ادارے بے بی سینٹر کے اعداد وشمار کے مطابق امریکا میں نومولو بچوں کے جو 10 نام سب سے زیادہ رکھے گئے ان میں ’محمد‘ بھی شامل ہے ۔ اسی طرح بچیوں کےلئے رکھے گئے 10 پسندیدہ ناموں میں عالیہ شامل ہے ۔ امریکی ادارے کا کہنا ہے کہ 640 بچوں کے نام محمد رکھے گئے ، اگر امریکا میں لفظ محمد کےلئے رائج مختلف اسپیلنگ کو ایک کردیا جائے تو یہ تعداد اور بڑھ جائے گی ۔

متذکرہ اعداد وشمار میں صرف ایک اسپیلنگ (Muhammad) والے شامل ہے ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بھی اسلام ہو گیا ہے اور امریکا میں مقیم مسلمانوں میں اپنے مذہب سے وابستگی مزید پختہ ہوتی جارہی ہے ، اسلام مخالف منفی پروپیگنڈے اور مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی تمام تر کوششیں دم توڑتی جارہی ہیں ۔ اسلام کو نقصان پہچانے کےلئے دنیا میں بہت سی کوششیں کی جاتی رہی ہیں کچھ دن قبل اسپین میں اسلام مخاف مظاہرہ کیا گیا ۔ اس میں قرآن پاک کو جلانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن اس کوشش کو اس وقت ناکام بنا دیا گیا جب ایک نوجوان نے اس مظاہرہ میں گھس کر قرآن پاک جلانے والے شخص کو ایک لات رسید کی اور قرآن پاک کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا ۔ 

اس نوجوان کے اس عمل پر اس کو پوری دنیا میں بہت زیادہ سراہا گیا ۔ اس کے بعد پوری دنیا کے مسمانوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نوجوان کو خراج تحسین پیش کیا اور اسپین سے اس مظاہرے کے خلاف شدید قسم کا احتجاج کیا گیا ۔ پاکستان نے بھی اس ضمن میں اسپین کے سفیر کو بلوا کر احتجاج ریکارڈ کرایا ۔ اب امریکا کی ایک ادارے نے یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ امریکا کا سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہےاور خواتین میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام عالیہ ہے ۔



جمعہ، 6 دسمبر، 2019

کپتانی جانے کا ڈر نہیں ، اپنا پلان لاگو کروں گا ، اظہر علی



قذافی اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اظہر علی نے کہا کہ آسٹریلیا سے شکست پر مایوسی ہوئی  ہے ، ہم اپنی پوری تیاری کے ساتھ گئے تھے ، نوجوان باؤلنگ اٹیک کو موقع دیا لیکن وہ  پرفارم نہیں کرسکے ، ہمارے بیٹنگ آرڈر نے بھی اچھا پرفارم نہیں کیا ، نئے بولنگ اٹیک کا انتخاب کیا لیکن اچھا کھیل پیش نا کر سکے ، آسٹریلیا میں برا کھیل کر واپسی ناممکن ہو تی ہے ، بابر اعظم اور  رضوان کی بیٹنگ ہمارے لئے مثبت  چیزیں رہیں ، کرکٹ نیشن کےلئے ایسی شکست کسی صورت قبول نہیں ۔

اظہر علی نے کہا کہ گھٹنے کی انجری ہر ٹیم میں ہر کھلاڑی کو ہوتی ہے ، فٹنس ٹیسٹ پاس کیا اس لئے ٹیم می  شامل کیا گیا ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فارم اور قسمت کی بات ہے دورہ آسزیلیا میں دونوں نے ساتھ نہیں دیا ، کپتان بننے کے بعد نئی سوچ کے ساتھ میدان میں اترا ، پرفارم نہ کرنے پر کوئی ٹیم میں نہیں رہتا ، چاہے وہ کپتان ہو یا کھلاڑی ، ٹیم کی بہترین پرفارمنس کےلئے خوف کے عنصر سے نکلنا ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ خوشی کی بات ہے کہ دس سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان ہے ٹیسٹ کرکٹ بحال ہورہی ہے ، دورہ سری لنکا کے لیے سیلکشن کے حوالے سے مشاورت ہو چکی ہے ، سری لنکا کے خلاف کل ٹیم کا اعلان چیف سیلکٹر کریں گے ۔

اظہر علی نے کہا کہ انگلینڈ میں رہائش اختیار کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ، تین سال سے بیٹا برطانیہ میں تھا اس کو بھی واپس بلا لیا ، میرا سب کچھ پاکستان ہی ہے ۔


بدھ، 4 دسمبر، 2019

پشتون قبیلہ یوسف زئی کے سردار ملک احمد خان بابا



پختونخوا کے ایک طاقتور بزرگ اور حکمران ، احمد خان یوسف زئی کو ماہرین تاریخ ایک اہم شخصیت مانتے ہیں ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے پختونوں کےلئے ایک الگ ملک اور حیثیت حاصل کرنے کی خاطر کوششیں کیں ۔

 موصوف کے اختیار کے وقت الگ الگ قوموں میں زمین کی تقسیم (ویش) بہت اچھے طریقے سے ہونے کے ساتھ ساتھ خونی جنگوں کا راستہ بھی روکا گیا تھا ۔ موصوف کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں لیکن محققین کہتے ہیں کہ انہوں نے اندازاً 1470ء کو قندھار میں آنکھ کھولی تھی ۔

دنیا کے کم عمر قومی سربراہ جرنیل ملک احمد خان ، یوسف زئی قبیلہ کے سربراہ ملک شیر زمان شاہ کے بھتیجے تھے ۔ اللہ بخش یوسفی کہتے ہیں کہ ملک احمد خان 1530ء کے آس پاس وفات پاگئے ہیں ، لیکن فہیم سرحدی جنہوں نے بڑی تعداد میں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور اپنی بصیرت سے بھی کام لیا ہے ، اپنے غیر مطبوعہ کتاب ’’روسیوں کے سفیر‘‘ میں لکھا ہے کہ ملک احمد خان 147ء کو پیدا ہوئے تھے اور 1515ء میں ان کی حکمرانی میں یوسف زئی قبیلہ سوات میں آباد ہوگیا تھا ۔

1498ء کو یوسف زئی اور گگیانڑو (قبیلہ) کے درمیان ایک خاتون کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہوا ، جس میں مرزا الغ بیگ نے گگیانڑو کا ساتھ دیا ۔ اس لڑائی میں یوسف زئی قبیلہ کے سات سو افراد شہید اور ملک احمد خان قید ہوئے ۔ اس کے بعد ملک احمد خان کے چچا ملک سلیمان نے الغ بیگ سے ان کو رہا کرنے کی درخواست کی ۔ بدلے میں ملک سلیمان نے اپنے آپ کو ان کے حوالہ کردیا ، جن کو بعد میں شہید کر دیا گیا ۔

خیبر پختونخوا کے ولی خان یونیورسٹی کے استاد اور تاریخ کے لکھاری فرہاد علی خاور لکھتے ہیں کہ ملک احمد خان ، مغلوں کے الغ بیگ کی حکمرانی کے وقت اولاً قندھار اور ثانیاً کابل سے ہجرت پر مجبور ہوئے تھے ۔ فرہاد علی خاور کے بقول جب مغلوں نے ایک سازش کے پیش نظر یوسف زئی قبیلہ کے بعض افراد کو کابل میں قتل کر ڈالا اور دیگر بعض کو اپنے علاقوں سے نکال دیا ، تو پختون قوم ملک احمد کی سربراہی میں آج کے دور کے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئی ۔ 

خاور اس حوالے سے کہتے ہیں کہ" اس وقت ملک احمد خان ، جلال آباد میں تھے ۔ وہ جلال آباد سے سوات کی طرف اس عزم کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پختونوں کےلئے ایک الگ ملک کی بنیاد رکھیں گے ۔ جب وہ یہاں آئے ، تو دلہ زاک (قبیلہ) نے انہیں دوآبہ کے مقام پر رہنے کےلئے جگہ دی ۔ ملک احمد خان نے یہاں وقتاً فوقتاً اپنا قبیلہ متحد کرنے کا عمل شروع کیا ۔ اس کے ساتھ ہشت نگر کا علاقہ تھا ، جو سواتی سلطان اویس کا جاگیر تھا ۔ وہ مغل حکمرانوں کو ٹیکس دیا کرتا تھا ۔ ملک احمد خان نے ہشت نگر پر حملہ کیا ۔ 1510ء کو ملاکنڈ تک کے علاقے فتح کرلئے اور سوات کی طرف روانہ ہوئے ۔

 اس کے بعد 1515ء کو ملاکنڈ کے علاقہ تھانہ میں یوسف زئی قبیلہ اور سواتیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی ، جس میں سلطان اویس سواتی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوسف زئی قبیلہ نے سوات بھی قبضہ کرلیا ۔‘‘

ملک احمد خان اپنی دور اندیشی کی وجہ سے مشہور تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے لوگوں کو مختلف جگہوں میں تعینات کیا ۔ لکھاری اور محقق ، نورالامین یوسف زئی اس حوالہ سے کہتے ہیں :
 ’’ ملک احمد خان کے بارے میں اس زمانے کے تمام تذکرہ کرنے والوں چاہے وہ اپنے ہوں یا غیر ، لکھا ہے کہ اس کی پیشانی پر سربراہی کے آثار نمایاں تھے ۔ اس کے ساتھ وہ فصیح و بلیغ مقرر تھے ۔ قابل انسان تھے اور آپ وہ پختون ہستی تھے ، جنہوں نے تسبیح کے دانوں کی طرح پختونوں کے منتشر قبیلوں کو ایک لڑی میں پرویا ۔ انہیں ایک مٹھی کی شکل دی اور پھر بسنے کی خاطر ان کےلئے ایسی زرخیز مٹی تلاشی کہ اب پانچ سو سال گزرنے کے بعد بھی وہاں مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں اور اپنی ثقافت اور روایات کے امین ہیں ۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اکثر و بیشتر پشتون قبائل نے تہذیبی اور تمدنی زندگی کی طرف بحیثیت قوم ملک احمد خان کے دور سے اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ ایسا تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ سب کچھ انہوں نے اپنے دور میں مکمل کیا ہے ، لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتدا انہوں نے ہی کی تھی ۔ تاریخ کے صفحات میں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جب گگیانڑی اور محمد زئی (قبیلے) کو الغ بیگ نے تنگ کیا اور وہ یہاں آئے ، تو ملک احمد خان نے اپنے یوسف زئی قبیلہ سے کہا کہ آپ مردان اور صوابی کی طرف ہجرت کر جائیں یعنی اباسین کے کنارے کی طرف جائیں اور آباد زمینیں محمد زئی اور گگیانڑوں کےلئے چھوڑ دیں ۔ 

ملک احمد خان نے نہ صرف پختونوں کے منتشر قبیلوں کو یکجا کیا بلکہ ان کی ایک الگ شناخت کےلئے بھی کام کیا ۔ تاریخ لکھنے والے فرہاد علی خاور کہتے ہیں کہ سب سے بڑا کام جو ملک احمد خان یوسف زئی نے کیا ہے ، وہ پختونخوا ریاست کا اعلان کرنا تھا : ’’ 1520ء کو ملک احمد خان نے پختونخوا ریاست کا اعلان کردیا ۔ ملک احمد خان اس کے رہبر تھے اور شیخ ملی بابا وزیر اعظم اور قاضی القضات تھے ۔ پختونخوا کی اس وقت کی ریاست میں صوابی ، مردان ، ہشت نگر ، ملاکنڈ ، سوات ، بونیر ، اور باجوڑ کے علاقے شامل تھے ۔ اس وقت ملک احمد خان نے ایک بڑی تدبیر سے کام لیا اور وہ یہ کہ ریاست کو یوسف زئی نام نہیں دیا، بلکہ اسے پختونخوا نام دیا ۔ افغانستان میں جتنے قبیلے تھے ، وہاں سے تھوڑے تھوڑے لوگوں کو بلواتے ، انہیں یہاں مختلف علاقوں میں جگہیں دیتے ۔ جہاں یوسف زئی قبیلہ کے پانچ ہزار افراد بستے ، تو افغانستان سے جن پختونوں کو بلواتے ، دو دو سو افراد ان کے ساتھ جمع کرتے ۔ اس سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پختونخوا کا انحصار افغانستان پر ہو ۔‘‘

پانچ سو سال پہلے ہر قبیلہ اس کوشش میں تھا کہ ایک پورے علاقہ پر قبضہ کرلیا جائے ، جس میں زرعی اراضی کے ساتھ رہائشی زمین بھی ہو ۔ ملک احمد خان یوسف زئی کے دور میں بھی پختونخوا میں زمینوں پر جھگڑے جاری تھے ، لیکن اُن کے ساتھی ، مشیر اور وزیر شیخ ملی بابا ، موصوف کے ساتھ تمام مسائل کے حل کے سلسلے میں مکمل تعاون کرتے تھے ۔

 نورالامین یوسف زئی اس حوالے سے کہتے ہیں : ’’ ملک احمد خود بھی بہت زیرک اور ہوشیار آدمی تھے ، لیکن جو کام ان کی ریاست میں شیخ ملی نے کیا ہے ، وہ اس کے حوالے سے کم جانتے تھے اور وہ کام تھا زمینوں کی تقسیم (یعنی ویش) ، قبیلوں کے نام بھی انہوں (شیخ ملی بابا) نے رکھے ہیں ۔ ملک احمد بھی زمینوں کی تقسیم کے حوالہ سے شد بد رکھتے تھے مگر شیخ ملی جتنی پرکھ ان کی نہیں تھی ۔ یہ جو اَب ہمارے ساتھ پٹوار سسٹم ہے ، مغلوں کے بعد فرنگیوں نے بھی اسے جاری رکھا ۔ اس لئے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ شیخ ملی کافی ہوشیار آدمی تھے ۔ خدا نے انہیں عمرِ دراز عطا کی تھی ۔ وہ گجو خان دور تک مشورے دیا کرتے تھے ۔ ظاہری بات ہے کہ مشیر ہونے کی اپنی ایک اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے ۔ مَیں بذات خود پختونوں کی تاریخ میں شیخ ملی کے مصالحت آمیز کردار کا بڑی حد تک قائل ہوں ۔‘‘

ملک احمد خان نے ایک اور کمال یہ کیا ہے کہ اپنے بیٹے یا قریبی رشتہ دار کے بجائے مندنڑ ملک گجو خان کو سرداری کے لئے چن لیا ۔ انہوں نے شیخ ملی کے ساتھ اس حوالہ سے مشورہ کیا کہ یہ شخص (گجو خان) بہادر بھی ہے اور ہوشیار بھی ۔ جب گجو خان سے اس حوالہ سے بات کی گئی ، تو انہوں (گجو خان) نے کہا کہ آپ کے جیتے جی میں زمامِ اقتدار نہیں سنبھال سکتا ۔ لیکن جب ملک احمد خان انتقال کرگئے ، تو پھر جرگہ بلوایا گیا اور جمہوری طریقہ سے گجو خان پختونوں کے سردار بن گئے ۔

نورالامین یوسف زئی آگے کہتے ہیں کہ ملک احمد خان اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ بادشاہوں کی طرح اختیار ایک ہی خاندان کے پاس رہے ۔ موصوف نورالامین یوسف زئی کے کہنے کے مطابق اس سے پہلے کہ وہ (ملک احمد خان) دارِ فانی سے کوچ کرجاتے ، گجو خان کو قوم کی رہبری کےلئے خود چن لیا ۔ گجو خان پختونوں کی تاریخ میں ایک روشن دماغ ، تعلیم یافتہ اور اچھے حکمران گزرے ہیں 
ملک احمد خان کی شخصیت کے کئی رُخ ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ ملک گجو خان کی سرداری میں پختونخوا ریاست اور بھی پھیل گئی ۔‘‘

مؤرخین کی قیاس آرائی کے پیش نظر ملک احمد خان یوسف زیٔ سنہ 1530ء کو وفات پاگئے ہیں ۔

نوٹ : یہ تحریر مشال ریڈیو کی شائع کردہ کتاب ’’اتلان‘‘ (پختو) کے مضمون ’’ملک احمد خان یوسف زئی‘‘ کا ترجمہ ہے ، جس میں جہانزیب کالج کے پشتو کے پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ نے مترجم کی معاونت کی ہے ۔

          ریسرچ حاجی علی نواز باچا مدے خیل کراچی


منگل، 3 دسمبر، 2019

سندھ حکومت کا طلبہ یونینز پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان



وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے طلبہ یونینز پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی سطح پر جلد قانون سازی کی جائی گی جو پہلے مرحلے میں کابینہ اور پھر صوبائی اسمبلی سے پاس کیا جائے گا ۔ 

انہوں نے اس موقع پر طلبہ تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی ۔ جس کے بعد سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سندھ اسمبلی میں طلبہ یونینز پر عائد پابندی ختم کرنے کی قرارداد منظور ہوچکی ہے ۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے طلبہ تنظیموں کی ہمیشہ حمایت کی ہے ، طلبہ تنظیموں سے مشاورت ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں آج میٹنگ کی گئی جبکہ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں قانون پیش کیا جائے گا ۔


پیر، 2 دسمبر، 2019

نقیب اللہ محسود کے والد انصاف کی تمنا دل میں لےکر دنیا سے چلے گئے



مقتول نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان کینسر کے باعث انتقال کر گئے ۔

خاندانی ذرائع کے مطابق نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان کو کینسر تھا اور وہ کچھ عرصہ سے راولپنڈی کے ہسپتال میں زیر علاج تھے ۔

ذرائع کے مطابق ان کی تدفین جنوبی وزیرستان کے آبائی علاقے مکین میں کی جائے گی ۔ وہ اپنے شہید بیٹے کے قاتل راو انوار کو سزا ہوتے نہ دیکھ سکے اور یہ ارمان دل میں لےکر دنیا سے رحلت اختیار کر گئے ۔

محمد خان کے بیٹے نقیب اللہ محسود  کو کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا تھا ۔

نقیب اللہ محسود کا قتل : نقیب اللہ محسود کا قتل 13 جنوری 2017ء کو کراچی کے رہائشی علاقہ میں راؤ انوار کے پولیس انکاؤنٹر کی وجہ سے ہوا ۔

نقیب اللہ محسود پر دہشت گرد ہونے کا الزام تھا جو اس  کے رشتے داروں نے رد کیا اور بعد میں ایک تفتیشی ٹیم بنی جس نے قتل کی تفتیش کی ۔

تفتیشی ٹیم نے یہ فیصلہ کیا کہ محسود معصوم تھا اور اسے جعلی پولیس مقابلہ میں قتل کیا گیا۔

نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا گیا تھا ۔


ٹِک ٹاک پر پابندی لگانے کا حکم ، لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ



لاہور ہائی کورٹ نے ایک درخواست گزار کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے سے متعلق حکومت اور پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) سے جواب طلب کرلیا ۔ 

لاہور ہائی کورٹ میں دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل ندیم سرور نے موقف اپنایا کہ ٹک ٹاک ایک فحش ایپلی کیشن ہے جو وقت اور پیسے کے ضیاع کے ساتھ ساتھ فحاشی و عریانی پھیلانے کا اہم عنصر ہے ۔ لہذا حکومت اور پی ٹی اے اس فحش ایپلی کیشن پر پابندی لگائے ۔ 

عدالت نے سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے دونوں فریقین سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرلیا ہے ۔ 

یاد رہے کہ ٹک ٹاک 2016 میں لانچ ہوا اور دنیا بھر میں اس کے کروڑوں یوزرز ہیں ۔ ٹک ٹاک اس وقت فحاشی پھیلانے والا سب سے مقبول ترین ایپلی کیشن ہے ۔



جمعہ، 29 نومبر، 2019

گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ میں پاکستان سٹڈیز سوسائٹی کا از سر نو قیام عمل میں لایا گیا



گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ میں پاکستان سٹڈیز سوسائٹی کی از سر نو قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ 

اس سوسائٹی کے تقریب حلف برداری 23 نومبر بروز ہفتہ کو اے کے ایل پی جی کالج کے امتحانی ہال میں منعقد ہوئی ۔ جس میں نومنتخب اراکین کابینہ نے حلف اٹھایا ۔ نئی کابینہ میں پروفیسر رشید احمد ، پروفیسر احسان یوسفزئی ، پروفیسر سید علی خان ، محمد عمران ، اختر حسین ابدالی ، سمیع اللہ ، ملک طارق اور سمیع حسن شامل ہیں ۔ 

سوسائٹی کے نو منتخب اراکین کابینہ حلف لیتے ہوئے 

مذکورہ سوسائٹی کے سرپرست اعلیٰ اور ڈیپارٹمنٹ آف بی ایس پاکستان سٹڈیز کے چئیرمین پروفیسر رشید احمد کا کہنا تھا کہ اس سوسائٹی کا بنیادی مقصد غریب اور نادار طلبہ و طالبات کو کتابیں ، یونیفارم اور مالی معاونت فراہم کرنا ہے ۔ 

سوسائٹی کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر رشید احمد کی فائل تصویر

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس سوسائٹی کو مزید وسعت دینگے اور تمام ان بچوں کو کالج میں داخل کرائنگے جو غربت کی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کر پا رہے ۔


سی پیک کے تحت ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن سے پاکستان ریلوے کوجدید خطوط پر استوارکیا جا سکے گا ، حکام سی پیک اتھارٹی



اسلام آباد ۔ 29 نومبر (اے پی پی) چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت 9.2 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے 1872 کلومیٹر پر محیط مین لائن 01 ریلوے پراجیکٹ کراچی تا پشاور ریلوے ٹریک کی بحالی اور اپ گریڈیشن سے سفر کا دورانیہ کم ہوگا اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا ۔ 

سی پیک اتھارٹی کے حکام نے اے پی پی کو بتایا کہ سی پیک کے تحت ریلوے کی مین لائن ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن سے اس اسٹریٹیجک منصوبے پرجلدکام مکمل کرکے پاکستان ریلوے کوجدید خطوط پر استوارکیا جاسکے گا ۔

وفاقی حکومت ریلویز کے شعبے کو رواں مالی سال کے بجٹ میں خصوصی اہمیت دے رہی ہے تاکہ اس کی تکمیل سے ملک کی اقتصادی اور معاشی ترقی اور خوشحالی کے اہداف میں مدد حاصل کی جاسکے ، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت ریلویز صوبہ پنجاب میں 30 فی صد ، سندھ میں 18 فی صد ، بلوچستان میں 36 فی صد ، خیبر بختونخوا میں 10 فی صد اورگلگت بلتستان میں 6 فی صد نئے ریلوے ٹریکس بچھائیں جائیں گے ، جن پر 3 ارب 69 کروڑ دالر لاگت آئے گی ۔

پلاننگ کمیشن کی دستاویزات کے مطابق سی پیک منصوبوں کے تحت ایک ہزار 59 کلومیٹر حویلیاں کاشی نیو ریلوے ٹریک ، پشاور سے طورخم تک نئی ریلوے لائن کی تعمیر ، حویلیاں ڈرائی پورٹ ، کراچی سے کوٹری ڈبل لائن کی تعمیر ، 16 سو کلومیٹر کراچی سے پشاور تیز رفتار ریلوے لائن منصوبہ ، کوئٹہ 560 کلومیٹر ژوب ، کوٹلہ جام نئی ریلوے لائن کی تعمیر ، 633 کلومیٹر کوئٹہ تفتان لائن کی اپ گریڈیشن ، 1328 کلومیٹر گوادر جیکب آباد تک نئی ریلوے لائن سمیت شامل ہیں ۔


جیل یا رہائی ، عدالت نے رانا ثناء اللہ کی قسمت کا فیصلہ سُنا دیا



سپیشل جج اینٹی نارکوٹکس نے منشیات کیس میں سابق وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی درخواست ضمانت خارج کر دی ، جبکہ دیگر پانچ ملزمان کی عبوری ضمانتیں منظور کرلی گئیں۔

سپیشل جج اینٹی نارکوٹکس کی عدالت میں (ن) لیگی رہنما رانا ثنا اللہ اور دیگر پانچ ملزمان نے ہیروئن کیس میں درخواست ضمانت دائر کی ، عدالت میں دیگر ملزمان کی طرف سے فرہاد علی شاہ ایڈووکیٹ نے جبکہ رانا ثناء اللہ کے وکیل زاہد حسین بخاری اور اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے ۔

عدالت نے وکلاء کے دلائل کے بعد رانا ثناءاللہ کی درخواست ضمانت خارج کر دی جبکہ دیگر پانچ ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں دو دو لاکھ کے ضمانت نامے داخل کرانے کا حکم دیا ، فیصلے کے بعد رانا ثناء اللہ کے وکلاء کا کہنا تھاکہ عدالت نے رانا ثناءاللہ کی ضمانت کیس گراؤنڈ پر خارج کی ہے ۔

درخواست ضمانتوں کی سماعت کے موقع پر رانا ثناءاللہ کی اہلیہ بھی عدالت میں موجود تھیں ، رانا ثناءاللہ کی ضمانت خارج ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ وہ ہائیکورٹ جائیں گی ، خوشی ہوئی کہ دیگر افراد کی تو ضمانت ہوئی ۔



جمعرات، 28 نومبر، 2019

وزیراعظم سے وزیراعلیٰ پنجاب کی ملاقات ، انتظامی تبدیلیوں پر غور



وزیراعظم سے وزیراعلیٰ پنجاب نے ملاقات کی ، عثمان بزدار نے انتظامی تبدیلیوں پر عمران خان کو اعتماد میں لیا ۔ ادھر وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ، وفاقی وزیر خسرو بختیار ، مشیر تجارت ، معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان ، ندیم افضل گوندل ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبائی وزرا نے شرکت کی ۔

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا زرعی شعبے کا فروغ خصوصاً چھوٹے کسانوں کو ریلیف فراہم کرنا اولین ترجیح ہے ، زرعی اور صنعتی شعبے کی یکساں ترقی کو یقینی بنایا جائے گا ، گنے کی سرکاری قیمت کے تعین میں کسانوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔


سپریم کورٹ نے آرمی چیف کو چھ ماہ کی ایکسٹینشن دے دی



سپریم کورٹ آف پاکستان نے آج آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے انہیں چھ ماہ کی توسیع دی ۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس اہم کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو 06 ماہ کے اند اندر قانون سازی کرنے اور اسے پارلیمنٹ ہاؤس سے پاس کرنے کا حکم دیا ہے ۔


سب کی نظریں سپریم کورٹ پر ، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا فیصلہ کچھ ہی دیر میں



سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کیا جو کچھ ہی دیر میں سنائی گی ۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس اہم کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے بتایا کہ فیصلہ آج ہی سنائیں گے ۔ جس کے بعد تینوں ججز کانفرنس روم چلے گئے ۔

اس وقت تمام فریقین عدالت عظمیٰ میں موجود ہیں اور کورٹ نمبر ایک میں ججز کا انتظار کررہے ہیں ۔


بدھ، 27 نومبر، 2019

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم عمران خان سے ہنگامی ملاقات کےلئے وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے



جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم ، اٹارنی جنرل ، فروغ نسیم ، سیکرٹری قانون اور کابینہ کے سینئیر اراکین کے اجلاس میں شرکت کریں گے ۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کابینہ کے سینئیر اراکین کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں موجودہ بحران کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا ۔

اجلاس میں لیگل ٹیم بھی شرکت کرے گی ۔ وزیراعظم آفس میں بلائے گئے اجلاس میں سپریم کورٹ کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات پر مشاورت کی جاے گی ۔ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں بابر اعوان کو بھی خصوصی طور پر بلایا ہے ۔ اجلاس میں آج سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت پر بھی مشاورت کی جائے گی ۔

خیال رہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔

دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میرے پاس معاملہ چیف آف آرمی سٹاف سے متعلق ہے ۔ آرمی چیف جو صدر و وزیراعظم کی سفارش پر تعینات کرتا ہے ۔ مجھے ان کے جنرل ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ۔ چاہے وہ ساری ز ندگی ہی جنرل رہیں ۔

معاملہ یہ ہے کیا انہیں بطور آرمی چیف توسیع مل سکتی ہے۔۔۔؟ اٹارنی جرنل نے کہا آرمی چیف کو وفاقی حکومت تعیینات نہیں کر سکتی ۔

جسٹس منصور شاہ نے پوچھا کہ کیا مدت ختم ہو جائے تو آرمی چیف ریٹائرڈ ہو جائے گا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہوتی ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی ریٹائڑد جنرل کو آرمی چیف لگا سکتے ہیں ۔ اس میں تو یہ بھی نہیں لکھا کہ آرمی چیف ، آرمی سے ہو گا ۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کب ریٹائڑد ہوں گے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کل رات ریٹائر ہو جائیں گے ۔

چیف جسٹس نے کہا پر تو اس پر فوری فیصلہ ہونا چاہئے۔ دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آرمی چیف کل ریٹائر ہو جائیں گے ۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت 28 نومبر کو ختم ہو رہی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب آرمی چیف کی مدت 28 اور 29 کی درمیانی شب ختم ہو رہی ہے ، وقت کم ہے فیصلہ کرنا ہو گا ۔



چین نے تین وفاقی وزراء خسروبختیار ، وزیرمواصلات مراد سعید اور وزیر ریلوے شیخ رشید کی تبدیلی کا مطالبہ کردیا



جاپانی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے تین وزراء کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے ، ان وزراء میں وفاقی وزیر خسرو بختیار ، وزیرمواصلات مراد سعید اور وزیرریلوے شیخ رشید شامل ہیں ، چین نے سی پیک منصوبوں کے نئے وزیر کےلئے پسندیدگی کا اظہار کیا ۔

جاپان کے مالیاتی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سی پیک میں سعودی عرب ، ایران اور دوسرے ممالک کو بھی شامل کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔

پاکستان نے سی پیک منصوبوں کے نگراں وزیر کو تبدیل کردیا ہے ۔ جبکہ ان کی جگہ ایک ایسا وزیرمقرر کیا ہے جس کو چین بھی پسند کرتا ہے ۔ اخبارکا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے نزدیک سی پیک منصوبے کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ پاکستان اپنے کچھ پڑوسی ممالک کو بھی منصوبے میں شامل کرے ۔

مستقبل میں سی پیک پلس منصوبے میں ہے ۔ اخبار کے مطابق دو ہفتے قبل سی پیک کے مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس میں چین سے مزید مالیاتی وعدے نہیں لئے جاسکے تھے ۔ 

جاپانی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے منصوبہ بندی اور ترقیات کے وزیر خسروبختیار ، وزیرمواصلات مراد سعید اور وزیرریلوے شیخ رشید کی تبدیلی کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔

 واضح رہے وفاقی حکومت میں کابینہ میں گزشتہ دنوں ردوبدل بھی کیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر خسرو بختیار کی جگہ اسد عمر کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی لگا دیا ہے ۔ جس پر اسد عمر نے سی پیک سے متعلق گزشتہ روز پریس کانفرنس میں امریکی پروپیگنڈے کا بھی بھرپور جواب دیا ۔

اسد عمر نے کہا کہ امریکی نائب وزیر خارجہ کا سی پیک سے متعلق تجزیہ درست نہیں ہے ، دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات کسی کے کہنے پر خراب نہیں کرسکتے ، سی پیک کے اصل ثمرات خطے میں قیام امن کے بعد ملیں گے ۔ اسد عمر نے کہا کہ اخبارات میں امریکی فارن اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز کی جانب سے سی پیک منصوبے پر خدشات ظاہر کیے ، ایلس ویلز کا سی پیک سے متعلق تجزیہ درست نہیں ہے ، پاکستان پہلے ہی اپنا مقف دے چکا ہے کہ سی پیک امداد نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے ، امریکی حکومت شامل تھی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ سی پیک کے خلاف مہم چلائی گئی ۔



پیر، 25 نومبر، 2019

پاک فوج میں اعلیٰ سطح پر تقرریاں و تبادلے ، ڈی جی آئی ایس پی آر



ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج میں اہم تقرریاں وتبادلے ہوئے ہیں ، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کیا گیا ہے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج کو ڈی جی ایس پی ڈی تعینات کیا گیا ہے ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہرکو کورکمانڈر منگلا تعینات کیا گیا ہے جبکہ ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود کو کورکمانڈرپشاورتعینات کردیاگیا ہے ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق 2 میجرجنرلز کی لیفٹیننٹ جنرل کےعہدے پر بھی ترقی ہوئی ہے ، ترقی پانے والوں میں میجرجنرل علی عامر اعوان اورمیجر جنرل محمد سعید شامل ہیں ۔

ترقی پانے والے افسران لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید کوصدر این ڈی یو (نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی) تعینات کردیاگیا ، لیفٹیننٹ جنرل علی عامر اعوان کو آئی جی سی اینڈ آئی ٹی تعینات کر دیا گیا ۔


اتوار، 24 نومبر، 2019

چوبیس نومبر ، پروین شاکر کی یوم پیدائش



خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر 24 نومبر ، 1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ آپ  کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا ۔

پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے  کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے ۔

 ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا ۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے ۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے ۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے ۔ انہوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا ۔

خوشبو کی شاعرہ کے یوم ولادت پر گوگل نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنا ڈوڈل تبدیل کیا ۔

 پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں ۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں ۔ انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے  ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی ۔

پروین شاکر کی قبر کے کتبہ کی تصویر 

پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں ، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں ۔