بدھ، 29 اپریل، 2020

وزیراعظم کی ہدایت پر بڑا اقدام، قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی منظوری دے دی گئی


پشاور (عصرِنو) وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی ہدایت پر ملکی تاریخ کا بڑا اقدام، وفاقی کابینہ نے قادیانیوں کو بطورِ غیر مسلم اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔

دستاویز کے مطابق کمیشن کے آفیشل ارکان کی تعداد 07، جب کہ نان آفیشل ارکان کی تعداد 08 ہوگی۔ اس سلسلے میں وزارتِ مذہبی اُمور کو اقلیتی کمیشن کی تشکیلِ نو کےلیے ہدایات بھی جاری کردی گئی ہے۔ 

منگل، 28 اپریل، 2020

پشاور: شور مچانے پر سفاک چچا نے 07 سالہ ننھی بتھیجی ایشال کو فائرنگ کرکے قتل کردیا


پشاور میں فضل حیات نامی ایک شخص نے شور مچانے پر بھتیجی کو قتل کردیا، بھتیجی گھر میں بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ ملزم فضل حیات نے07 سالہ بچی پر فائرنگ کردی، ملزم فائرنگ کرکے موقع سے فرار، پولیس نے کاروائی شروع کردی، واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی

پشاور(عصرنو تازہ ترین، 27 اپریل، 2020) پشاور میں ایک شخص نے شور مچانے پر اپنی بھتیجی کو قتل کردیا، بھتیجی بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ ملزم فضل حیات نے فائرنگ کرکے 07 سالہ بچی کو قتل کردیا، ملزم فائرنگ کرکے موقع سے فرار ہوگیا، پولیس نے کاروائی شروع کردی۔ 

تفصیلات کے مطابق پشاور کے علاقے ارباب روڈ پر ایک گھر میں چچا نے اپنی معصوم سات سالہ بھتیجی کو شور مچانے پر قتل کردیا۔ پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سات سالہ معصوم ایشال اپنے گھر کے صحن میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، جس سے شور ہورہا تھا۔ اسی گھر کی اوپر والی منزل پر اس بچی کا چچا فضل حیات رہائش پذیر تھا۔ اس نے بچوں کے شور سے تنگ آکر بچی پر فائرنگ کردی، جس سے بچی دم توڑ گئی۔ واقعہ کے فوری بعد ملزم موقع سے فرار ہوگیا۔

پولیس نے بچی کے والد کی درخواست پر ان کے بھائی ملزم فضل حیات کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جبکہ ملزم کی تلاش کے لیے کاروائی شروع کردی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ننھی سات سالہ بچی کے قتل کا واقعہ دوروز قبل ہوا لیکن تاحال پولیس ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔ سات سالہ بچی کے قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ واضح رہے اسی طرح کا ایک واقعہ مارچ میں ہوا، جب مارچ میں عدالت نے ایک شخص کو اپنی نابالغ بھتیجی کے ساتھ زیادتی کے الزام میں10لاکھ جرمانے اور عمر قید کی سزا سنائی تھی، جبکہ عدالت نے مقتولہ کے بھائی اور والدہ کو بھی جرم میں ملوث ہونے پر سزا سنائی تھی۔

پیر، 27 اپریل، 2020

شاعر، ادیب اور محقق احسان یوسف زئی (خاکہ)


گلزارِ ادب کا ایک پھول ضلع سوات کے پُر بہار علاقہ فتح پور میں مہکا، جس نے گلستانِ ادب میں بہت جلد اپنا ایک الگ مقام بنالیا۔ جی ہاں، بات ہورہی ہے استادِ محترم احسان یوسف زئی کی جو بہ یک وقت شاعر، ادیب، افسانہ نگار، نقاد اور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ معلم بھی ہیں، جن سے نوجوان نسل فیضِ یاب ہورہی ہے۔

دراز قد، اکہرا بدن، سانولی رنگت، پشتو کے مشہور فلمی ہیرو بدر منیر کی طرح بڑے بڑے کالے بال جو کانوں کی لو کو چھپاتے ہے، خش خشی کالی داڑھی، مناسب کالے مونچھ، مخروطی اُنگلیاں، مہین مسکراہٹ، کانوں میں رس گھولتی آواز، خوبصورت و ملائم لہجہ، کان بہت چھوٹے نہ بڑے، روشن آنکھیں، اِن تمام کا مجموعہ ہیں احسان یوسف زئی۔
 
آپ کا اصل نام احسان اللہ جبکہ یوسف زئی ایک طرح سے تخلص کرتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں اسی نام (احسان یوسف زئی) سے جانے جاتے ہیں۔ موصوف 1991ء کو ضلع سوات کے حسین علاقہ فتح پور میں فضل ربی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ہائیر سیکنڈری سکول سے حاصل کی۔ وہی سے میٹرک کیا جب کہ ایف اے کا امتحان گورنمنٹ افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ سے پاس کیا۔ پھر ملاکنڈ یونیورسٹی سے بی اے، یونیورسٹی آف سوات سے پشتو زبان و ادب میں ماسٹر کی ڈگری لی اور پشتو اکیڈمی پشاور سے ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہاں سے پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان سیماب اور ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی پشاور پروفیسر ڈاکٹر نصراللہ جان وزیر صاحب کے زیرِ نگرانی اب پشتو ادبیات میں پی ایچ ڈی میں مصروف ہیں۔ 

ادب سے کس دور میں جڑے؟ یہ تو راقم کو معلوم نہیں، تاہم دستیاب معلومات کے مطابق پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے کہ شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ بیٹھے، اور اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول فتح پور کے سالانہ مجلہ ”تلاپنڑ“ میں سال 2006ء کو نظم شائع کرنے سے کیا۔

آپ نظم اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں، لیکن اصل میں شعبہ تحقیق سے وابستہ ہیں۔ پشتو اکیڈمی پشاور کی سال 2019ء میں جو ششماہی پراجیکٹ اختتام تک پہنچا، اُس میں سوات، بونیر اور شانگلہ کے لہجوں پر آپ نے تحقیق کی ہے، جو طباعت کےلیے تیار ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد سے منظور شدہ مختلف ریسرچ رسائل میں تحقیقی مقالے بھی لکھے ہیں، جو شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں یونیورسٹی آف پشاور اور بلوچستان یونیورسٹی کے تحقیقی مجلے قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ متعدد افسانے بھی لکھے ہیں، جو مختلف اوقات میں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔  

احسان یوسف زئی نے شاعری میں غزل کو اپنا پسندیدہ صنف ٹھہرایا ہے، اور اسی وجہ سے غزل ہی لکھتے ہیں۔ موصوف اب تک سینکڑوں غزلیں لکھ چکے ہیں، لیکن تاحال کوئی کتاب شائع نہیں کی۔ بے شک ندیم احمد قاسمی اردو زبان و ادب کے نابغہ روزگار اور ہمہ جہت شاعر و ادیب ہیں، اور اسی وجہ سے اُنہوں نے پوری زندگی اُردو کےلیے وقف کیے رکھی۔ احسان صاحب مجھے اُن کے نقش قدم پر چلتا ہوا مسافر معلوم ہوتے ہیں۔ احسان صاحب پشتو زبان و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ غزل کو نئے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ 

موصوف کے بارے میں سوات کے نامی گرامی اور بزرگ شاعر محمد حنیف قیسؔ صاحب یوں فرماتے ہیں کہ ”احسان یوسف زئی کو پہلی ملاقات میں سمجھ بیٹھا تھا کہ یہ صاحب ایک نہ ایک دن پشتو ادب کے اُفق پر دمکتے ستارے کی مانند ضرور چمکے گا۔ موصوف کے ادبی کوشش اور علمی سطح جس قدر بلند ہے، اس سے کئی ذیادہ اُس کی شرافت، سادگی اور ملنساری اعلیٰ درجے کی ہے۔ اپنی ذاتی خوبی اور علمی جُستجو کی وجہ سے آج ایک منجھے ہوئے نقاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ درویش صفت انسان مستقبل میں پشتو زبان و ادب اور پشتون قوم کی خدمت کرے گا“۔

احسان یوسف زئی کی علمی و ادبی وقعت کے بارے میں شعبہ پشتو جہانزیب کالج کے چیئرمین پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔء کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ”احسان یوسف زئی دورِ جدید کے اُبھرتے ہوئے شاعر، افسانہ نگار، نقاد اور محقق ہیں۔ اُن کی شاعری اپنی مٹی کی سوندھی خوشبو سے معطر اور اپنی قوم کی محبت سے معمور ہے۔ افسانوں میں موضوعاتی تنوع رکھتے ہیں۔ اسی طرح موصوف تنقید و تحقیق میں معیار کے قائل ہیں، جو بھی لکھتے ہیں، کھلے دل سے لکھتے ہیں۔ آپ پورے خیبر پختونخواہ اور بالخصوص سوات میں پشتو زبان و ادب کے فروغ کےلیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ آپ ایک درویش صفت انسان ہیں، اور اپنی محنت کے بدلے نہ صلے کی تمنا رکھتے ہیں، اور نہ ستائش کی پرواہی کرتے ہیں۔“

احسان صاحب میں انتہا کی حد تک عاجزی ہے۔ کہیں بھی اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کہیں بھی اُنہوں نے احساس برتری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ باوجود یہ کہ ایک اعلیٰ نقاد، محقق اور ادب کے ایک کامل استاد ہیں، لیکن آج بھی خود کو زبان و ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم سمجھتے ہیں۔ جس کی مثال گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ شعبہ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار نجیب اللہ نجیب کے تاثرات میں کچھ یوں ملتی ہے: ”میرے لیے احسان صاحب کے بارے میں لکھنا بہت مشکل ہے، کیوں کہ اُن کی شخصیت کےلیے الفاظ کا چناؤ کرنا اور اسے استعمال کرنا جوئےشیر لانے کی مترادف ہے۔ میں پہلی بار احسان صاحب کے ساتھ جہانزیب کالج میں منعقدہ ایک تنقیدی میٹنگ میں ملا، اور وہاں سے ہمارا تعلق ادب اور پشتو زبان کی بناء پر آج تک قائم ہے۔ احسان صاحب کی شخصیت سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ آپ بہت اچھے اور پیارے انسان ہیں۔ ہر شخص اُن کی تعریف کرتا نظر آتا ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اُن سے ملتے وقت کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ احسان صاحب اتنے بڑے شاعر، ادیب، دانشور اور ایک بڑے ادارے میں معلم ہیں۔ مجھے اُن کی شخصیت میں ایک بہت بڑا اُستاد دیکھائی دیتا ہے، کیوں کہ میں نے ہمیشہ اُن کے دل میں یہ تڑپ محسوس کیا ہے کہ میں کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھ لوں، اور میں نے یہ بات بہت ہی کم اساتذہ میں پایا ہے۔ مختصراً یہ کہ احسان صاحب جیسے ذی علم شخصیت بننے کےلیے مجھ سمیت ڈھیر سارے طفل مکتب تمنا ہی کریں گے۔“

گہرے تنقیدی شعور اور عمیق مطالعے کی وجہ سے آپ متعدد مصنفین اور شعراء کے کتب پر علمی مقالے لکھ چکے ہیں، جن میں سفید ریش اور خوش کلام شاعر ابراہیم خان شبنؔم، بابائے قطعہ عبدالرحیم روغاؔنے، پروفیسر ڈاکٹر شیر زمان سیماؔب اور پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد سعیؔد شامل ہیں۔ جن کے فن، فکر اور شخصیت کو اپنی علمی ترازو سے تول کر ان کا معیار مقرر کرتے ہیں۔ تنقید ہی سے متعلق ان کے بارے میں معروف کالم نگار ساجد علی خان ابو تلتاند کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ ”علمی یا فنی قدر متعین کرنا ایک ماہر نقاد کا کام ہے۔ بحیثیتِ ایک تنقید نگار احسان یوسف زئی صاحب ادبی فن پاروں کی موشگافیوں کے حل کرنے اور اس کی گھتی کو سلجھانے کۣ ماہر ہیں۔ تنقید میں عطاء اللہ جان صاحب کے بعد جس شخص نے مجھے متاثر کیا، وہ احسان یوسف زئی ہی ہیں۔ خود شاعر ہیں، اس لیے شاعری کے رموز و اوقاف خوب جانتے ہیں۔ تحقیق کے شیدائی، عمیق مطالعے کے عادی اور تنقیدی شعور کے مالک احسان یوسف زئی کو پشاور کے سفر میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جس سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ایک مخلص، قدردان، انسان دوست اور وسیع النظر شخص کی خوبیاں ایک ساتھ جس شخص میں پائی جاتی ہو، وہ احسان یوسف زئی ہی ہوسکتے ہیں"۔ 

راقم الحروف (اختر حسین ابدالؔی) کےلیے یہ بات کسی بڑی اعزاز سے کم نہیں کہ میں احسان یوسف زئی صاحب کا براہ راست شاگرد ہوں، مجھے موصوف سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے، اور اللہ کرے کہ یہ سلسلہ تا دمِ آخر جاری و ساری رہے۔ 

قارئین! بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن وقت اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے تصدیق اقبال بابو کے الفاظ مستعار لینا چاہوں گا کہ ”کالم کے مختصر سے دامن میں بندہ کون کون سے فکری اور فنی پہلوؤں کو چھیڑے، اس لیے اسی پہ اکتفا کرتے ہوئے اتنا ہی کہوں گا کہ: 
”ہمیں تم پہ ناز ہے!“ 
                                  
                                  راقم: اختر حسین ابدالؔی 

جمعرات، 23 اپریل، 2020

پاکستان کا وہ سربراہ جن کو دفنانے کےلیے کئی بار قبر کھودی گئی، مگر اندر ایک کالا سانپ نکلتا


معروف کالم نگار فائزہ نذیر احمد مقامی روزنامے کےلیے لکھی گئی اپنی ایک پرانی خصوصی تحریر میں لکھتی ہیں، کہ 29 اگست 1956ء کو پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد فوت ہوئے۔ اُن کی وصیت کے مطابق اُنہیں سعودی عرب میں دفنایا جانا تھا، لہٰذا انہیں امانتاً کراچی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق ایک ٹیم اُن کے جسدِ خاکی کو سعودی عرب روانہ کرنے کےلیے قبر سے نکالنے لگے، ٹیم کا ایک ڈاکٹر، فوج کے ایک کیپٹن، پولیس اہلکار، دو گورکن اور غلام محمد کے قریبی رشتہ دار قبر کشائی کےلیے قبرستان پہنچے۔

فائزہ نذیر احمد  لکھتی ہیں کہ گورکن نے جیسے ہی قبر کھودی اور تختے ہٹائے تو تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اس سانپ کو مارنے کی کوشش کی، مگر وہ ہر وار سے بچ گیا۔ پولیس کے سب انسپکٹر نے اپنی پستول سے چھ گولیاں داغ دیں، مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگی۔

ڈاکٹر کی ہدایت پر ایک زہریلے اسپرے کا چھڑکاؤ کرکے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی۔ دو گھنٹے کے بعدجب دوبارہ قبر کھولی گئی تو سانپ اسی تیزی سے قبر میں چکر لگا رہا تھا۔
پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد خان کی ایک یادگار تصویر 

چنانچہ باہمی صلاح مشورے کے بعد قبر کو بند کر دیا گیا، اور اگلے دن ایک مشہور اخبار میں چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جو کچھ یوں تھی، ”سابق گورنر جنرل غلام محمد کی لاش سعودی عرب نہیں لے جائی جاسکی، وہ اب کراچی ہی میں دفن رہے گی“.

منگل، 21 اپریل، 2020

نوجوان ایمل ولی خان باچا خان کا حقیقی وارث


ایمل ولی خان کو عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر منتخب ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔ روایت کے مطابق پارٹی کارکردگی کا سالانہ رپورٹ کا جائزہ اور مستقبل کےلیے لائحہ عمل پر غور معمول کی بات ہے۔ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی ہمشیہ اپنی سالانہ کارکردگی رپورٹ منتخب عہدیداران، متعلقہ کمیٹیوں اور عوام کے سامنے پیش کرتی ہے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

کوئی شک نہیں کہ اب سیاسی جماعتیں ملک کے مختلف حصوں کے لوگوں کو جوڑ کر قومی ریاست کو برقرار رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ پاکستان بھی اس عمل سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ایک وفاقی جمہوریت ہونے کے ناطے چھوٹے صوبوں کے حقوق کی حمایت سیاسی جماعتوں کا کردار اہم بنا دیتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی 1910ء سے شروع ہونے والے تاریخی عمل سے لے کر آج تک تسلسل کے ساتھ پختونوں کی شناخت، اُن کی خواہشات، ایک بہتر مستقبل اور قومی حقوق کے خوابوں کا اظہار ہے۔

باچا خان کی زندگی، جدوجہد اور تعلیمات سے رہنمائی لینے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی دعویدار عوامی نیشنل پارٹی ہر آزادی اور عدل وانصاف کے حصول کےلیے، امن، عدم تشدد، لامتناہی اورسخت جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، جو ہر طرح کی ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف ہے۔ اِن ہی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی ہمیشہ آئین کی بالادستی، سویلین بالادستی اور وفاق کےلیے کھڑی رہی۔ تاہم آج آزادی، وفاقیت اور قومی حقوق کےلیے نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں۔ 

اس پسِ منظر میں افغانستان میں امن کے چیلنجوں کے باوجود 40 سالہ طویل ترین تنازعہ جس نے موت، تباہی، بے گھر ہونے، قبائلی علاقوں میں انضمام، 18 ویں آئینی ترمیم اور وفاق کو نقصان پہنچایا اور پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلی میں معمولی موجودگی کو جنم دیا، جس نے صوبائی صدر کا کام انتہائی اہم اور مظبوط بنا دیا ہے۔ 

بات دراصل یہ ہے کہ2018ء کے عام انتخابات میں پارٹی کی مایوس کُن کارکردگی کے بعد مایوسی، سُستی، اور منشتر ہونا واضح طور پر غالب رہا۔ مذکورہ وجوہات کی بناء پر کھوئے ہوئے جذبے کو بحال کرنا ایک مشکل امر رہا ہے۔ ایمل ولی خان کے انتخاب پر یہ سوال اٹھائے جارہے تھے کہ کیا وہ پارٹی کے جہاز کو شورش زدہ پانیوں سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ 

قائد کی صلاحیتوں اور خصوصیات کا ہمیشہ بحران میں آزمایا جاتا ہے۔ اِن خصوصیات کا مظاہرہ اُن کو لوگوں میں پسند یدہ بناتا ہے۔ قائدین ہمیشہ تاریخ کا احساس رکھتے ہیں اور بعض اوقات پارٹی کے وسیع تر مفاد میں غیر مقبول فیصلے کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ متحرک، پختہ یقین، ہمت اور عزم کے ساتھ جہاز کو بہ حفاظت ساحل پر لے جاتے ہیں۔ 

ایمل ولی خان خاموش رہے اور اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ عمل الفاظ سے زیادہ بااثر ہوتا ہے، نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور کارکردگی کی بناء پر اپنے ناقدین کو غلط ثابت کردیا۔ وہ اپنے منصوبوں کو سامنے رکھتے ہوئے باچا خان کے فلسفہ عدم تشدد، امن، اتحاد، قومی جمہوریت اور یکسانیت کے پیغام کے ساتھ عظیم تاریخی اور سیاسی میراث کے پیغامات کو نہ صر ف خیبر پختونخوا بلکہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کونے کونے میں لے کر گیا۔ منظم حکمت عملی اور ہر عہدیدار کو مخصوص وقت کے ساتھ ذمہ داریاں سونپنے سے اُنہوں نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔

اُنہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ معمول کی سرگرمیوں سے کام نہیں چلے گا بلکہ نتائج کی بنیاد پر ہر کسی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے ساتھ اُنہوں نے نظم وضبط کے متعلق یہ واضح کیا کہ کوئی بھی پارٹی کے دستور سے بالاتر نہیں ہے۔ منظم اور مضبوط حکمت عملی کے تحت اُنہوں نے پارٹی کے کمزور علاقوں اور غیر فعال کارکنوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اُن اضلاع کا دورہ کرکے وہاں پر بڑے جلسے کیے اور غیر فعال کارکنوں کو بھی متحرک بنایا۔ 

سابق وزیر فرید طوفان، سابق ایم این اے اشتیاق اقبال خان اور دیگر کو پارٹی میں واپس لایا گیا۔ اسی طرح سابق ایم پی اے یاسین خلیل، صاحب گل، ڈاکٹر عمر دراز اور دیگر جیسے سیاسی قدآوروں کی شمولیت پارٹی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف کی ثبوت ہے۔ دورِ حاضر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے اُنہوں نے نہ صرف ایک میڈیا سیل کا اہتمام کیا، بلکہ 1996ء سے بند روزنامہ شہباز کی اشاعت بھی دوبارہ شروع کر دی۔ مختصر وقت میں باچا خان ٹرسٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اُنہوں نے 36 کتب کی اشاعت کی۔ باچاخان اور ولی خان کی برسی کے موقع پر صوبے کے چار زونوں میں 10 دن کے جلسوں، ثقافتی شوز، سیمینارز، پینٹنگز اور کتب کی نمائشوں کو موزوں انداز میں پیش کرنا پارٹی کی خصوصیت تھی۔

اس کے علاوہ اُنہوں نے باقاعدگی سے صوبے میں مطالعاتی سرکلرز کے انعقاد کی حوصلہ افزائی کی ہے، جس نے نوجوانوں کی دانشوری کو تقویت بخشی ہے۔ پختون خطے کو درپیش مسائل کے پُرامن حل کےلیے ایک اہم جماعت کے طور پر تمام پختون آوازوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے ارادے سے اُنہوں نے نہ صرف ایک قومی جرگہ منعقد کیا، بلکہ ضم قبائلی علاقوں کے معاملات پرتمام جماعتوں کو بھی اکٹھا کیا۔ آزادی صحافت، جمہوریت، قومی حقوق اور مہنگائی جیسے معاملات پر بھی اُنہوں نے جلسوں جلوسوں اور سیمیناروں کا انعقاد کیا۔ 

نظم و ضبط کے بغیر ہم آہنگی حاصل کرنا اور کارکنان کا متعدد مقاصد پر کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جتنا بھی بڑا ہدف ہو اس کےلیے اتنے ہی ذیادہ سخت نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے۔ قائد وہ ہے جو اپنی صفوں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور عوامی مقبولیت کی قیمت پر بھی سخت فیصلے کرنے کے اہل ہو۔ جماعتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کےلیے ہمت اور یقین کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے کارکنوں کے ساتھ بڑے بڑے ناموں کو بھی پارٹی سے نکالا۔ جس کی ایک مثال پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں نظم و ضبط کے معاملے پر صدر اور جنرل سکریٹری کو ہٹانا بھی ہے۔ صوبائی صدر کی حیثیت سے اپنے پہلے سال کے دوران اُن کی سرگرمیوں سے ثابت ہوا ہے کہ اُنہیں تاریخی تسلسل اور عوامی توقعات کا بھرپور احساس ہے، اور وفاقی طرز جمہوریت پر یقین ہے۔

 اپنی سخت محنت، جوش اور ولولہ سے آج پارٹی ایک بار پھر متحرک اور عوام بالخصوص نوجوانوں کی امنگوں کا اظہار کررہی ہے۔ درحقیقت، وہ باچا خان کی میراث کے لباس کو پہننے کے لئے صحیح وارث ہیں۔
     
                          تحریر: سید اختر علی شاہ

اتوار، 19 اپریل، 2020

اُنیس اپریل، جب پختونوں کی سرزمین کو خیبر پختونخوا کے نام سے شناخت مل گئی


19 اپریل 2010ء کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے آئینِ پاکستان کے اٹھارویں ترمیم پر دستخط کرتے ہوئے پختونوں کی سرزمین کو خیبر پختونخوا کے نام سے شناخت دے دی گئی، جس کی وجہ سے پختون قوم کو پختون سرزمین پر موجود وسائل اور اُن کی ملکیت کا اختیار مل گیا۔ 

 پشاور (عصرِنو) پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کی انتھک محنت کے بعد 08 اپریل 2010ء کو پاکستان کے قومی اسمبلی نے پاس کی، اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے اس ترمیمی مسودہ پر 19 اپریل 2010ء کو دستخط کرتے ہوئے اُسے باقاعدہ آئینِ پاکستان کا حصہ بنادیا گیا۔ 

اٹھارویں ترمیم کی رو سے صدر مملکت کے پاس موجود تمام ایگزیکٹیو اختیارات پارلیمان کو دے دیے گئے، چونکہ وزیرِاعظم قائدِ ایوان (Leader of the House) ہوتا ہے، لہٰذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس آئے۔

 اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی مغربی سرحدی صوبے (صوبہ سرحد) کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا، اور وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔

سیاست، عوام اور جھگڑے


آج کل سوشل میڈیا پر بہت سی سیاسی جماعتوں کے کارکنان انتہائی نیچ اور گھٹیا قسم کے الفاظ ایک دوسرے کےلیے استعمال کررہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو تعلیم یافتہ اور مہذب قوم سمجھتے ہیں، لیکن اصل میں اُن سے وہ لوگ لاکھ درجہ بہتر ہیں جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، اور اِسی وجہ سے وہ سیاست سے اپنے آپ کو کوسو دور رکھتے ہیں۔

ہر کوئی اپنے لیڈر کے باتوں پر آنکھیں بند کر کے ایمان (یقین) لاتے ہیں کہ میرا لیڈر صادق اور امین ہے۔ بدقسمتی سے مملکت خداداد میں سیاست ایک کھیل بن چکا ہے، مگر اس کھیل کو کھلاڑی نہیں بلکہ تماشائی کھیلنے لگے ہیں اور کھلاڑی (سیاست دان) گھروں میں تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بقولِ شاعر
نئے کردار آتے جا رہے ہیں 
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے 

یہ لیڈر ہمیشہ اپنے کارکنوں کو ذلیل کرنے کےلیے کوئی سیاسی ڈرامہ رچاتے ہے اور عقل سے خالی کارکن جوکہ اس معاشرے کے عام افراد ہوتے ہیں، معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے کی انتھک کوشش کرتے ہیں، اور پھر اس کا ازالہ بھی خود کرتے ہیں۔

معروف عرب ادیب مصطفیٰ لطفیٰ منفلوطی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ "جلّاد تو چند افراد کو قتل کرتا ہے، مگر سیاست دان ساری قوم کی جانوں کا سودا کرتا ہے، جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا بڑا سیاست دان"۔ 

قارئین! کون سچا ہے کون جھوٹا، یہ ثابت کرنا تو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، کیوں کہ ہر ایک  نے اپنے لیے راہ نجات کی دلیل ضرور ڈھونڈا ہے۔

میں جب اس معاشرتی ناہمواریوں پر سوچتا ہوں، تو نہ صرف کڑھتا ہوں بلکہ ایک واقعہ بھی یاد آتی ہے کہ کچھ دن پہلے میں اپنے ایک دوست (جو ایک سیاسی پارٹی کا ورکر ہے)، کے موبائل سے کچھ تصاویر اپنے موبائل فون کو بھیج رہا تھا کہ اُن کی ساری گیلری مخالف پارٹیوں کے خامیوں سے بھری پڑی ہوئی تھی، میں مسکرانے لگا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ بہت کام کی چیزیں ہیں، جب بھی سوشل میڈیا پر مخالفین ہمارے لیڈر پر تنقید کرتے ہیں تو میں اپنے جماعت کی دفاع کےلیے یہ تصاویر استعمال کرتا ہوں۔

اِن لوگوں کا کیا یقین، کب آپس میں مل جائیں، یہ لوگ تو صرف اقتدار ہی کےلیے ہمیں استعمال کررہے ہیں۔ حقیقت میں یہ ایک دوسرے کے لیلیٰ و مجنوں ہیں، لیکن ہمیں سمجھ نہیں۔

لہٰذا آج امر اس بات کی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے ہمدرد ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کی عزت اور وقار کی پرواہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تنقید کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کی تضحیک کرتے وقت سماجی و معاشرتی اقدار کو سامنے رکھنی چاہیے۔ ہمیں سیاسی نظریات اور اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرنے چاہیے، ورنہ بقولِ شاعر
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں 
ورنہ  اِن بکھرے  ہوئے تاروں  سے کیا کام بنے

                                 تحریر: اُسامہ خان خلیل

پیر، 13 اپریل، 2020

میاں افتخار حسین پر سائبر حملے کی مذمت کرتے ہیں، ایوب خان


سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے میاں افتخار حسین پر سائبر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غازی میاں افتخار دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑ چکے ہیں، اور اِسی پاداش میں وہ اپنے اکلوتے بیٹے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 

ایوب خان اشاڑی نے کہا کہ کوئی بھی اقدام میاں افتخار حسین کو باچا خان بابا کے راستے سے نہ ہٹا سکا،  کیوں کہ ‏میاں افتخار  دہشتگردی اور انتہا پسندی کےخلاف ایک طویل جنگ لڑ چکے ہیں۔ اُن کے فیس بُک صفحات کو ہیک کرنے سے اُن کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ 

اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ یہ اتنے بُزدل لوگ ہے کہ میاں صاحب کی سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے  بھی ڈرتے ہیں، پوری قوم میاں صاحب کے ساتھ کھڑی ہیں۔

ایوب خان اشاڑی نے فیڈرل اِنوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے اس معاملے کی تحقیقات کا پُرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی اس عمل میں ملوث ہے، اُسے جلد از جلد گرفتار کیا جائے، اور قانون کے کٹہرے میں لاکر سخت سے سخت سزا دی جائے۔

اتوار، 12 اپریل، 2020

سوات: تحصیل مٹہ میں غریبوں کا راشن تحریکِ انصاف کے سرکردہ رہنماؤں میں تقسیم، جبکہ عوام ٹھوکریں کھانے پر مجبور


وزیراعلیٰ کی حلقہ نیابت میں غریب عوام سے انوکھا مذاق، غریبوں کا راشن وزیراعلیٰ کے بھائی اور تحریک انصاف کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنی ہی ہمنواؤں میں تقسیم کردی۔

سوات (عصرِنو) تحصیل مٹہ میں غریب عوام کا راشن تحریکِ انصاف کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنی ہی لوگوں پر تقسیم کرتے ہوئے ایک ہی گھرانے کو چار، چار راشن دے دیئے، جبکہ دوسری جانب عوام راشن کی حصول کےلئے ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

وزیراعلیٰ کے بڑے بھائی نے تحصیل مٹہ کے تمام یونین کونسلوں کے سرکردہ رہنماؤں کو اپنی حجرہ بُلا کر اُن میں راشن تقسیم کی، اور یہ ہدایت کی گئی کہ آپ کے یونین کونسل میں جتنی بھی پارٹی ورکرز ہیں، سب کو راشن فراہم کی جائیں۔ 

اس بارے بہت سے غُرباء نے شکایت بھی کی، لیکن تاحال حکام کی جانب سے ایکشن نہیں لیا گیا، جن پر ایک مزدور دلبرداشتہ ہو کر اپنے بچوں کے ہمراہ خود سوزی کی دھمکی دے دی۔ 

حکومت کورونا کی اس وباء میں بجلی بِل اور ٹیکس معاف کرے، ڈاکٹر امجد علی


حکومت بجلی بِل اور ٹیکس، مالکان کرایہ داروں کو کرایہ اور پرائیویٹ سکول مالکان بچوں کو فیس معاف کریں، حکومت مسافروں کے مسائل حل کرنے کےلئے اقدامات اُٹھائیں، ڈاکٹر امجد علی کا اہم پریس کانفرنس

سوات (عصرِنو) جمعیت علماء اسلام ضلع سوات کے رہنماء اور حلقہ پی کے 09 کے سابقہ امیدوار ڈاکٹر امجد علی نے سابق صوبائی وزیر قاری محمود کے ہمراہ مٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بجلی بِل اور ٹیکس، مالکان کرایہ داروں کو کرایہ اور پرائیویٹ سکول مالکان بچوں کو فیس معاف کریں۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت کورونا کی اس وباء سے متاثرہ غریب عوام کو بجلی بِل کو معاف کرنے کی شکل میں ریلیف دیں، اور ساتھ ہی غریب عوام کو راشن فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ کسی غریب کے گھر میں فاقہ نہ ہو۔ 

اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے پریس کانفرنس کے بعد عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ حکومت مسافروں کے مسائل حل کرنے کےلئے فی الفور اقدامات اُٹھائیں اور اُن کو وطن واپس لانے کےلئے عملی اقدامات کریں۔

میٹرک اور انٹر امتحانات جون میں شروع کرنے کا فیصلہ


میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے یکساں امتحانات کے انعقاد کی بھی تجویز، امتحانات کےلئے تمام تعلیمی بورڈز کا مشترکہ اجلاس بھی طلب

پشاور (عصرِنو) خیبر پختونخوا حکومت نے جماعت نہم، دہم، گیارویں، اور بارویں کے امتحانا ت جون کے پہلے ہفتے سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس ضمن میں پشاور سمیت صوبے کے تمام تعلیمی بورڈز کو مراسلہ ارسال کرکے ان آگاہ کر دیا گیا ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس کے باعث مارچ میں میٹرک اور اپریل میں ہونے والے انٹر میڈیٹ کے امتحانات ملتوی کر دیئے تھے، جس کو ایک بار پھر ری شیڈول کیا گیا ہے۔

 میٹرک امتحانات کے تحت نہم کا پہلا پرچہ بھی لیا گیا تھا، محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے صوبائی وزیر نے اعلیٰ حکام سے مشاورت کے بعد صوبے کے تمام تعلیمی بورڈز کو انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کر دی ہے، اور جون کے پہلے ہفتے میں امتحانات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کئے ہیں۔

جمعہ، 10 اپریل، 2020

ایمل ولی خان کی صدارت کا پہلا سال مکمل، کئی اہم شخصیات اے این پی میں شامل جبکہ کچھ فارغ/ خصوصی رپورٹ


فرید طوفان کی دوبارہ شمولیت کا راستہ ہموار کیا، استقبال خان، یاسین خلیل، گل صاحب خٹک اور عمر دراز خٹک بھی پارٹی میں شامل ہوئے، جبکہ سینئر قانون عبد الطیف افریدی اور سینیٹر ستارہ ایاز فارغ ہوئے، باچا خان مرکز پشاور سے 35 کتابیں شائع کرائی گئیں۔

پشاور (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی صدارت کو ایک سال پورا ہوگیا ہے، اس عرصہ میں پارٹی کی سینئر رہنماؤں کو پارٹی ڈسپلن کی پاداش میں جماعت سے نکالا گیا، جبکہ ناراض رہنماؤں سمیت مختلف جماعتوں کی کئی اہم شخصیات کو پارٹی میں شامل کیا گیا۔

ایمل ولی خان دس اپریل 2019ء کو عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر منتخب ہوئے، اُنہوں نے پہلی بار صوبہ کے مختلف اضلاع کے تفصیلی دورے کیے، اور وہاں پر ناراض کارکنوں کو دوبارہ پارٹی میں شامل کیا، جن میں سوات، بونیر، صوابی، کرک اور بنوں شامل ہیں۔ 

اِن دوروں کے دوران اُنہوں نے فرید طوفان سمیت کئی دوسرے ناراض اور پُرانے کارکنوں کو دوبارہ اے این پی میں شامل کیا۔ اس طرح جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق ممبر قومی اسمبلی استقبال خان، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق ایم پی اے یاسین خلیل، تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے گل صاحب خان خٹک اور سابق ضلع ناظم کرک عمر دراز خان سمیت کئی لوگوں کو اے این پی میں شامل کیا۔ 

پختونوں کے اتحاد و اتفاق کی خاطر باچا خان مرکز پشاور میں ایک سال کے دوران نہ صرف پختون قومی جرگہ کا انعقاد کیا بلکہ ضم اضلاع کے مسائل کے حوالے سے بھی تمام پختون قائدین اور سیاسی پارٹیوں کو اکھٹے کیا۔ 

بحیثیتِ صوبائی صدر اے این پی اور ڈائریکٹر باچا خان ٹرسٹ ایمل ولی خان نے اب تک 35 سے زائد کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ تنظیمی ڈسپلن کو یقینی بنانے کےلئے پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں سمیت اراکین پارلیمنٹ کو بھی پارٹی سے نکالا، جن میں عبد الطیف افریدی اور سینیٹر ستارہ ایاز شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ آئین کو بالادست رکھتے ہوئے درجنوں سینئر و جونیئر اراکین کو شوکاز نوٹسز جاری کیے، طلباء تنظیم میں بھی ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صوبائی صدر اور جنرل سیکرٹری پر دو سال کی پابندی لگائی۔ 

                             رپورٹ: اختر حسین ابدالؔی 

اتوار، 5 اپریل، 2020

چینی اور آٹے بحران کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار نے اُٹھایا، دونوں بحران کا بھی ذمہ دار قرار


اسلام آباد (عصرِنو) وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے آٹا اور چینی بُحران کے حوالے سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ مکمل ہوگئی ہے جس کو وزیر اعظم نے پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

رپورٹ میں بحران کا ذمہ دار وفاق، پنجاب، پختونخوا حکومتوں کو قرار دیا گیا ہے۔ بحران کی وجہ پنجاب کے وزیر اور سیکرٹری، پختونخوا کے سیکرٹری اور ڈائریکٹر فوڈ کی لاپرواہی بھی شامل ہے، سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی، شراکت داروں نے اُٹھایا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آٹا بحران باقاعدہ منصوبہ بندی سے پیدا کیا گیا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کاہلی وجہ بنی، افسران، سیاسی شخصیات ملوث، مونس الٰہی، چوہدری منیر نے بھی فائدہ اُٹھایا۔ 

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ ر حیم یار خان گروپ (خسرو بختیار کے بھائی) نے اُٹھایا جو جسے کل چار ارب روپے کی سبسڈی ملی۔ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین ) کو تین ارب روپے، ہنزہ گروپ کو دو ارب 80 کروڑ روپے، فاطمہ گروپ کو دو ارب 30 کروڑ روپے شریف گروپ کو ایک ارب 40 کروڑ روپے اور اومنی گروپ کو 90 کروڑ دس لا کھ روپے کی سبسڈی ملی۔ 

چینی برآ مد کرنے والوں کوتواتر سے سبسڈی کا ملنا شوگر کی صنعت کے تمام حکو متوں پر سیا سی اثر رورسوخ کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیاء نے یہ رپورٹ وزیراعظم کوپیش کی ہے۔ یہ ابتدائی رپور ٹ ہے جبکہ جامع رپورٹ بعد میں پیش کی جا ئے گی۔ 

گندم بحران میں سابق وفاقی وزیر خوراک محبوب سلطان ذمہ دارقرار، جبکہ چینی بحران میں سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین، خسرو بختیار کے بھائی نے اُٹھایا۔ ملک میں گندم بحران کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آگئی ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چینی بُحران میں سیاسی خاندانوں نے خوب مال بنایا جبکہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اُٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اُٹھایا۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے کس کے دباؤ میں آکر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی؟ 
دوسری جانب ملک میں گندم بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ چوہدری بھی گندم بحران کے ذمہ دار ہیں، فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی جانب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو گندم خریداری کی صورتحال سے باخبر رکھا گیا، ملک میں گندم اور آٹے کے بحران میں فلورملز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت ہے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ 13 دسمبر 2019ء کو مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے فلورملز پر ساڑھے 7 کروڑ روپے کا جرمانہ کیا، فلور ملز ایسوسی ایشن نے مسابقتی کمیشن کے جرمانےکو عدالت میں چیلنج کردیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کا تحقیقات کا طریقہ کار بہت سست ہے، 13 سال میں مسابقتی کمیشن نے 27 ارب روپے جرمانے میں سے 3 کروڑ 33 لاکھ وصول کیا۔

رپورٹ کے مطابق سندھ نے گندم نہیں خریدی جبکہ پنجاب کی جانب سے خریداری میں تاخیر کی گئی، ای سی سی کو بے خبر رکھنے پر صاحبزادہ محبوب سلطان معقول جواب نہ دے سکے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ گندم کی ضروریات کے حوالے سے پنجاب انحصار کرتاہے، ڈائریکٹر فوڈ پنجاب گندم خریداری میں پنجاب کی جانب سے تاخیر پر کمیٹی کو مطمئن نہ کرسکے، خیبر پختونخوا کے اس وقت سیکرٹری اور ڈائریکٹر فوڈ ڈیپارٹمنٹ گندم کی خریداری میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں۔ 

چوہدری مونس الٰہی اور چوہدری منیر بارے بھی پیسے کمانے کا انکشاف ہوا ہے۔ مونس الٰہی اورچوہدری منیر رحیم یارخان ملز، اتحاد ملز ٹو اسٹار انڈسٹری گروپ میں حصہ دار ہیں۔ 

مسلم لیگ (ن) کے سابق ایم پی اے غلام دستگیر کی شوگر ملز کو 14 کروڑ کا فائدہ ہوا۔ وفاقی وزیرخسرو بختیار کے رشتے دار نے چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی کاہلی آٹا بحران کی اہم وجہ بنی۔ایم ڈی پاسکو کی گندم خریداری کی رپورٹ درست نہیں تھی۔ وزارت فوڈ سکیورٹی نے ای سی سی کو غلط اعدادوشمارپرگندم برآمد کرنے کا مشورہ دیا۔ 

2019ء میں گندم کی پیداوار کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ جبکہ مالی سال 2019-20ء میں ایک لاکھ 63 ہزار ٹن گندم برآمد کی گئی۔ گندم کی برآمد اور برآمد میں تاخیر کی وجہ سے بے چینی پھیلی۔ بےچینی کی وجہ سے لوگوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی۔ گندم کی برآمد پرپابندی نومبر کی بجائے جون 2019ء میں لگنی چاہیے تھی۔ 

پنجاب حکومت 20 سے 22 دن کی تاخیر سے گندم کی خریداری کی۔ سندھ حکومت کے گندم اسٹاک میں بڑے پیمانے پر چوری ہوئی، گندم خریداری نہ کرنے پر ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گندم کی خریداری کا آڈٹ کیا جائے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن شوگر انڈسٹری کا فرانزک آڈٹ کرائے گا تاکہ تمام ایسی پریکٹس کو بے نقاب کیا جاسکے اور مستقبل کےلئے سزا، ریگولیٹری اقدمات اور زرعی حکمت عملی کی سفارشات دی جاسکیں۔

رپورٹ کے مطا بق چینی کے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین نے اٹھایا۔ جہانگیر ترین نے سبسڈی کی مدد میں 56 کروڑ روپے کا فائدہ اٹھایا۔ 22 فیصد سبسڈی کا فائدہ جے ڈی ڈبلیو گروپ (جہانگیر خان ترین) نے اٹھایا جو 56 کروڑ دس لاکھ روپے بنتا ہے۔ فائدہ اٹھا نے والوں میں دوسرے نمبر پر رحیم یار خان گروپ (مخدوم عمر شہر یار خان) ہیں جو وفاقی وزیر بر ائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی مخدوم خسرو بختیار کے بھائی ہیں۔ 

انہوں نے سبسڈی کے18 فیصد کا فائدہ اٹھایا جو 45 کروڑ 20 لاکھ روپے بنتا ہے۔ چوہدری منیر کی رشتہ داری نواز شریف فیملی سے ہے۔ تیسرے نمبر پر جس گروپ نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا وہ شمیم احمد خان (المعیز گروپ) ہے جس نے سبسڈی کے 16 فیصد کا فائدہ اٹھایا جو 40 کروڑ 6 لا کھ روپے بنتا ہے۔ 

رپورٹ پر ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء، ڈپٹی ڈی جی آئی بی احمد کمال اور ڈی جی انٹی کرپشن پنجاب محمد گوہر نفیس کے دستخط ہیں۔ ترجمان حکومت پاکستان نے کہا کہ آٹا اور چینی کے بحران کی تحقیقات کےلئے وزیراعظم نے تحقیقات کیلئے 2 کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔

ترجمان کے مطابق دونوں کمیٹیاں ڈی جی ایف آئی اے کی سربراہی میں تشکیل دی گئی تھیں۔ کمیٹیوں نے آٹے اورچینی کی قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لیا۔ 

ترجمان حکومت پاکستان کے مطابق دونوں کمیٹیوں کی طرف سے انکوائری رپورٹس پیش کی گئی ہیں۔ مزید وضاحت کےلئے اضافی سوالات دیے گئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق پی ٹی آئی اور وزیراعظم شفافیت اور احتساب کو جمہوریت کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں۔

ترجمان کے مطابق وزیراعظم نے کمیٹیوں کی رپورٹس اور سوالات کے جوابات عوام کیلئے جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔حکومتی ترجمان کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقاتی کمیٹی کے دائرہ کار کو وفاقی کابینہ نے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ترجمان کے مطابق انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ کمیشن فائنڈنگ فرانزک کا تجزیہ کررہا ہے۔ ترجمان حکومت کے مطابق کمیشن 25 اپریل تک اپنا کام مکمل کرلے گا۔ وزیراعظم کی قیادت کے تحت وفاقی حکومت کمیشن کی سفارشات پرعمل درآمد کریگی۔

جمعہ، 3 اپریل، 2020

ٹارگٹ کلنگ میں عبدالولی خان کا قتل باعثِ تشویش ہے، حکومت ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے، ایوب خان اشاڑی


عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے اے این پی تحصیل مٹہ کے مقامی رہنماء عبدالولی خان کی ٹارگٹ کلنگ پر شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر ایوب خان اشاڑی نے ٹارگٹ کلنگ میں اے این پی تحصیل مٹہ کے مقامی رہنماء کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے قیادت کے بعد اب کارکنان بھی ٹارگٹ پر ہیں، عبدالولی خان کے قتل کا مطلب بالکل واضح ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کو پختون قوم کی خدمت کی سزا دی جارہی ہے۔

ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف اگر دیکھا جائے تو ملک ایک وبائی مرض کا شکار ہے اور لوگ بِلا تفریق کورونا وائرس کی خلاف لڑ رہے ہیں، لیکن دوسری طرف نامعلوم افراد کی ہاتھوں پختون سیاسی رہنماؤں کا ٹارگٹ کلنگ بھی عروج پر ہے.

اُنہوں نے پُرزور مطالبہ کیا کہ حکومت جلد از جلد عبدالولی خان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے اُنہیں قرار واقعی سزا دے، تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات کا سدّباب ہوسکے۔

وزیراعظم ہاؤس کے سامنے شہری نے خود کو آگ لگا کر خودکشی کرلی


ذرائع کے مطابق شہری کے پاس سے وزیراعظم ہاؤس کو لکھا گیا خط بھی ملا جس میں تحریر تھا کہ میرا اتنا قصور ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور لوگوں سے بھی مانگا۔

پشاور (عصرِنو) وزیراعظم ہاؤس کے سامنے خود سوزی کرنے والا شہری پمز ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔

خط کے متن میں خود سوزی کرنے والے شہری نے حکومتی پارٹی کے ایک عہدیدار کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا کہ حکمران جماعت کےعہدیدار کے خلاف وزیراعظم سیکرٹریٹ درخواست بھی دی تھی۔

اس نے خط میں مزید بتایا تھا کہ میری درخواست سی پی او راولپنڈی کو مارک بھی کی گئی تھی، میں پیر ودھائی تھانہ گیا لیکن کارروائی نہیں کی گئی۔ خط کے متن شہری نے مزید تحریر کیا کہ میرے اوپر 20 لیٹر شراب کا جھوٹا پرچہ بھی کرایا گیا۔ 

دوسری جانب راولپنڈی پولیس کا کہنا ہے کہ خود سوزی کرنے والے پیر ودھائی کے رہائشی فیصل کے خلاف مری میں مقدمہ درج تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فیصل عباسی مری کا رہائشی تھا، اس کے خلاف 09 سالہ بچی سے زیادتی کی کوشش کا مقدمہ گزشتہ برس 19 ستمبر کو درج ہوا تھا، جبکہ شراب کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تھا۔

جمعرات، 2 اپریل، 2020

سوات کے تحصیل مٹہ میں ایک ہی خاندان کے سات افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق


19 مارچ کو کورونا سے متاثرہ مریض پروفیسر فضل غفور نے بہا شنگرتان میں ایک جنازہ میں شرکت کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم کی میڈیا بریفنگ 

سوات (عصرِنو) ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم کے مطابق تحصیل مٹہ کے گاؤں بِہا شَنگرتان میں ایک ہی گھرانے کے سات افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتہ یعنی 19 مارچ کو اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے کورونا سے متاثرہ مریض پروفیسر فضل غفور نے ایک جنازے میں شرکت کی تھی، جس پر انتظامیہ نے بروقت ایکشن لیتے ہوئے پورے گھرانے سے ٹیسٹ سامپل اسلام آباد بھیجے تھے۔ جن کے رپورٹ آج ضلع انتظامیہ کو موصول ہوئی، رپورٹ کے مطابق چار خواتین سمیت سات افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔

کیسز رپورٹ ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم نے پورے علاقے کو قرنطینہ قرار دے کر سیل کردیا گیا ہے، اور مزید سامپلنگ کےلئے ٹیمیں روانہ کی گئی ہے۔

بدھ، 1 اپریل، 2020

معروف شاعر اور محقّق شیر افضل خان بریکوٹی انتقال کرگئے


آپ ایک طویل، بامقصد، متحرک اور فعال ‏زندگی گزارنے کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

سوات (عصرِنو) پشتو زبان کے معروف شاعر، ادیب، محقّق اور دانشور شیر افضل خان بریکوٹی انتقال کر گئے۔ 

آپ نے 1925ء میں سوات کے مشہور اور تاریخی گاؤں بریکوٹ میں مہابت خان کے ‏ہاں آنکھ کھولی، لیکن والئی سوات سے ناراضگی کی خاطر اپنی جنم بھومی سوات کو خیر ‏باد‎ ‎کہہ کر روشنیوں کے شہر کراچی چلے گئے۔ 

کراچی میں مقیم اہلِ سوات کی تنظیم ‏‏’’مجلس پختون‘‘ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اُنہوں نے وہاں مقیم پختونوں کی حقوق ‏کےلئے ایک توانا آواز بُلند کی۔ 

بعد ازاں کراچی سے انگلینڈ منتقل ہوگئے، اور وہی کے ‏ہوکر رہ گئے۔ مگر انگلینڈ میں بھی اُنہیں پختون قوم کی محرومیوں نے ایک پَل چھین سے ‏بیٹھنے نہیں دیا، اور ہر فورم پر پختونوں کی حقوق کےلئے آواز بلند کرتے رہے۔ ‏

موصوف کو لندن جیسے مصروف ترین شہر میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ‏خان عبدالقیوم خان اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان وغیرہ جیسے نامی گرامی شخصیات کی ‏میزبانی کا شرف حاصل رہا۔

بریکوٹی صاحب اردو اور پشتو میں شائع ہونے والی دس کتابوں کے مصنف تھے، اور ‏گزشتہ 60 سالوں سے برطانیہ میں مقیم تھے۔ اس دوران اُنہوں نے وہاں ایک متحرک ‏زندگی گزاری۔ مطالعہ اور تصنیف و تالیف تو اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا ہی، لیکن اُنہوں نے ‏وہاں ایک بھرپور سماجی زندگی بھی گزاری۔ 

برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور بالخصوص ‏پختونوں کےلئے اُن کی بڑی خدمات ہیں۔ علم و ادب کے حوالے سے اُن کی تصنیفی ‏خدمات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس حوالے سے اُن کا نام تا دیر ‏زندہ رہے گا۔ ‏

اللہ تعالیٰ اُن کی لغزشوں کو معاف فرمائے، اُن کی روح کو اَبَدی سُکون سے نوازے اور ‏اُن کے پس ماندگان کو صبر جمیل دے، آمین!