منگل، 28 جولائی، 2020

سوات تعلیمی بورڈ نے ایف اے، ایف ایس سی نتائج کا اعلان کردیا

Add caption

سوات تعلیمی بورڈ نے ایف اے ایف ایس سی کے سالانہ نتائج کا اعلان کردیا، نتائج میں طالبات نے میدان مارلیا، سوات پبلک سکول اینڈ کالج کی طالبہ مروہ اور سعیدہ مناہل احمد نے مشترکہ طور پر 1041نمبرز لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی، سوات پبلک سکول اینڈ کالج سوات کے ہانیہ خان نے1039نمبر لے کر دوسری اور گورنمنٹ ڈگری کالج مینگور کے طالب علم شہباز خان نے1035نمبرز لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔

تقریب کا انعقاد سوت بورڈ میں ہوا جس میں ڈیڈک چیئرمین سوات فضل حکیم خان اور ایم پی اے عزیز اللہ گران نے بھی شرکت کی۔ پوزیشن ہولڈر طلبہ وطالبات میں سرٹیفیکیٹس اور انعامات بھی تقسیم کئے گئے۔

 سوات بورڈ کے پریس ریلیز کے مطابق انٹرمیڈیٹ 2020 کے سالانہ امتحان میں پارٹ سیکنڈ کے میڈیکل گروپ میں کل 12535طلباء و طالبات نے حصہ لیا، جس میں 12535 کامیاب ہوئے اور نتیجہ 100% رہا۔ پارٹ سیکنڈ کے انجینئرنگ گروپ میں 1843 طلبا ء و طالبات امتحان میں شامل ہوئے جس میں 1843 اُمیدوار کامیاب ہوئے اور نتیجہ 100% رہا۔ کمپیوٹر سائنس گروپ میں 695  طلباء وطالبات نے حصہ لیا جس میں 695کامیاب ہوئے اور نتیجہ 100%  رہا۔ جب کہ پارٹ سیکنڈ کے آرٹس گروپ میں 7365طلباء و طالبات  امتحان میں  شریک ہوئے جس میں 7365 کامیاب ہوئے اور نتیجہ 100% رہا۔ میڈیکل ٹیکنالوجی گروپ میں 2 طلباء  و طالبات نے حصہ لیا جس میں 2 کامیاب ہوئے اور نتیجہ% 100فیصد رہا۔  

 اس طرح پارٹ سیکنڈ میں مجموعی طور پر 22440 طلباء و طالبات نے امتحان میں حصہ لیا جس میں 22440طلباء و طالبات کامیاب ہوئے اور نتیجہ 100%  رہا،مجموعی طور پر 2020  کے اس سالانہ  رزلٹ کے مطابق ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ سیدو شریف سوات سے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں شامل ہونے والے طلباء  و  طالبات میں سوات  پبلک سکول اینڈکالج سوات  کے طالبات مروہ  رول نمبر46631   اور سیدہ مناہل احمد  رولنمبر 46584  نے1041   نمبر لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی۔  جبکہ  سوات  پبلک سکول اینڈکالج سوات  کے ہانیہ خان  رول نمبر46521نے  1039نمبر لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی،  اور  گورنمنٹ  ڈگری کالج  مینگورہ  کے طالبعلم  شہباز خان  رول نمبر 47491 نے 1035 نمبر لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ پری انجینئرنگ گروپ میں کیڈٹ کالج سوات کے طالب علم  ایمل خان  رول نمبر 54928 نے 970 نمبرلے پہلی، جب کہ گورنمنٹ  ڈگری کالج  مینگورہ کے طالبلعلم  سلمان خان رول نمبر 54301 نے  952 نمبر لے کر دوسری اور سوات  پبلک سکول اینڈ کالج سوات کے طالبلعلم معاذ خان  رول نمبر 54736 نے 950 نمبر لے کرتیسری پوزیشن حاصل کی۔

کمپیوٹر سائنس گروپ میں گورنمنٹ افضل خان  لا لا کالج مٹہ سوات کی طالبلعلم   حسن فہد رول نمبر 57314 نے 924 نمبر لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی۔ جبکہ گورنمنٹ  ڈگری کالج  مینگورہ  کے طالبلعلم اعظم سیف  رول نمبر 57065 اور گورنمنٹ  ہائیر سیکنڈری  سکول بلوگرام  سوات کے حسنین خان رول نمبر 57182  اور گورنمنٹ  ڈگری کالج  مینگورہ کے طالبلعلم   فیضان علی  رولنمبر 57068 نے بالترتیب881 نمبر لیکر دوسری جب کہ  گورنمنٹ  ہائیر سیکنڈری سکول بلوگرام  سوات کے  طالبلعلم  حبیب اللہ رول نمبر 57184 نے 879 نمبر لیکر تیسری  پوزیشن حاصل کی۔ 

آرٹس گروپ میں گورنمنٹ گرلز ہایئرسیکنڈری  سکول لیلونی کی  طالبہ عالیہ نور رول نمبر 43710 نے 928 نمبر لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی۔ جب کہ گورنمنٹ  ڈگر ی  کالج  ڈگر بو نیر کے طالبلعلم  معاظم علی  رول نمبر 59915  گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول No.2  سیدو شریف سوات کی طالبہ بی بی احرام   رول نمبر43681 نے  بالترتیب 899 نمبر لیکر دوسری جبکہ گورنمنٹ گرلز ڈگری  کالج ڈگر بونیر کی طالبہ تجلہ رول نمبر 43825 اور گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول No.2  سیدو شریف سوات کی لائبہ رشید نے بالترتیب 891 نمبر لیکر تیسری  پوزیشن حاصل کی۔

اتوار، 26 جولائی، 2020

چھبیس جولائی، جب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) وجود میں آئی


عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) 1986ء میں موجود میں آئی، جس کا منشور خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کے نظریات پر مبنی تھا۔ خان عبدالغفار خان، باچا خان کے نام سے مشہور ہوئے، اور آپ ہمیشہ صوبائی خود مختاری کے داعی رہے اور عدم تشدد کا پرچار کیا۔

اے این پی نے دراصل نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے بطن سے جنم لیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے الزام میں نیپ کے سربراہ عبدالولی خان کو گرفتار کرایا اور پارٹی پر پابندی عائد کرادی۔

ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں ولی خان کو رہائی نصیب ہوئی تو اُنہوں نے اے این پی کی بنیاد رکھی اور پارٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی فعال رہے۔

اے این پی ایک قوم پرست جماعت ہے، جس کی ساری جدوجہد پختون قوم کی حقوق پر مرکوز رہی اور نسل، رنگ اور جنس سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے مساوی حقوق کی علمبرداری کا نعرہ لگایا۔ پارٹی نے ملک میں ہمیشہ قیامِ امن کےلیے جدوجہد کی۔

سیاسی کارنامہ:
این ڈبلیو ایف پی کو خیبر پختون خوا کا نیا نام دلایا، پختون قوم کو ان کی نام سے شناخت دی، اور اٹھارویں آئینی ترمیم میں صوبے کو اُن کے قانونی حقوق دلوائے۔ 

اہم معاملات پر مؤقف:
وفاق کے زیرِ انتظام علاقے (فاٹا) کا خیبر پختون خوا میں ضم ہونے کے بعد پختون اکثریتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل علیحدہ صوبے کا مطالبہ

انتظامی اُمور میں عسکری مداخلت کی سخت مخالفت اور عسکری بجٹ میں کٹوتی کی خواہ ہے تاکہ بجٹ کو عوام کی مزید فلاح و بہبود کےلیے خرچ کیا جاسکے۔

پارٹی صوبائی خود مختاری اور 18ویں آئینی ترمیم پر عمل درآمد کی مکمل حامی ہے۔ 

اے این پی یقین رکھتی ہے کہ سرکاری افسر کو کسی دوسرے صوبے میں تعینات کرنے سے پہلے صوبائی حکومت سے اجازت طلب کی جائے۔

پارٹی جمہوری نظام کے استحکام پر یقین رکھتی ہے۔

اے این پی کا استدلال ہے کہ پڑوسی ممالک مثلاً بھارت اور افغانستان سمیت دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اور کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کیا جائے۔

 2002ء کے عام انتخابات:
پارٹی کی کارکردگی 2002 کے انتخابات میں انتہائی مایوس کن رہی تاہم سیاسی مبصرین نے دعویٰ کیا کہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے حق میں دھاندلی کی گئی جس کے باعث اے این پی کو انتہائی کم ووٹ ملے۔

 2008ء کے عام انتخابات: 
اے این پی نے نہ صرف قومی اسمبلی میں 15 نشستیں حاصل کی تھیں بلکہ خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی اُبھر کر سامنے آئی اور صوبے پر اپنی حکومت قائم کی۔

2013ء کے عام انتخابات: 
2008ء کے انتخابات کے مقابلے میں 2013ء کے الیکشن میں اے این پی کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔

اے این پی نے 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں صرف 2 نشستیں جیتیں۔ غلام احمد بلور اور امیر حیدر خان ہوتی نے عام نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

تنازعات:
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں مارشل لا نافذ کردیا، پرویز مشرف کے ساتھ سیاسی اتحاد کے معاملے پر اے این پی کے چیف اجمل خٹک کا اپنے پارٹی رہنماؤں سے اختلاف ہوا اور یہ اختلاف شدت اختیار کر گیا جس کے بعد اُنہوں نے پارٹی سے خود کو علیحدہ کرلیا۔ کیوں کہ اجمل خٹک سیاسی اتحاد میں شمولیت کے خواہاں تھے۔

بعد ازاں پارٹی کی ذمہ داری ولی خان کے بیٹے اسفندیار ولی خان کے سپرد کردی گئی اور پھر اجمل خٹک نے بھی دوبارہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

دہشت گردی پر موقف:
دہشت گردی کے خلاف واضح موقف رکھنے کی وجہ سے اے این پی کے رہنماؤں پر متعدد حملے ہوچکے ہیں۔ اے این پی کے متعدد ورکرز دہشت گرد حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

پارٹی کے سینئر رہنما بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون بلور 10 جولائی 2018ء کو انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک کارنر میٹنگ میں خود کش حملے میں شہید ہوئے تھے۔ اس حملے میں اُن کے ساتھ پارٹی کارکنان بھی لقمہ اَجل بن گئے تھے۔ 

پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق رکن صوبائی اسمبلی بشیر احمد بلور 2012ء میں خود کش حملے میں شہید  ہوئے تھے، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بشیر احمد بلور پر قاتلانہ حملے میں اُن کے سیکرٹری، پولیس افسر اور 06 لوگ جان سے گئے تھے۔

2008ء میں پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان خود کش حملے میں بال بال بچ گئے تھے، جب کہ 2010ء میں اُن کی بہن ڈاکٹر گلالئی حملے میں زخمی ہوئی تھی۔

اگرچہ عسکری آپریشن کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن تاحال دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جان کا خطرہ رہتا ہے۔

پارٹی منشور کے اہم نکات: 
خواتین کے حقوق سے متعلق اے این پی کا منشور وعدہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ مذہب، جنس اور زبان سے بالاتر ہوکر تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے جائیں گے۔

منشور کے مطابق شہداء کے اہل خانہ کےلیے فنڈز قائم کیا جائے گا۔

منشور میں صوبائی خود مختاری کی مکمل حمایت موجود ہے۔

پارٹی منشور میں وعدہ کرتی ہے کہ خواتین، دہشت گردی سے متاثرہ خاندان اور غریب گھرانوں سمیت دیگر ضرورت مندوں کےلیے فنڈز تشکیل دیے جائیں گے۔

ملازمت کے مواقعوں کے حوالے سے منشور میں گھریلو صنعت اور کاروبار پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔

جمعہ، 24 جولائی، 2020

خیبر پختون خواہ کے فن کاروں کو ”ملگری ہنر مندان“ تنظیم کے زیرِ اہتمام فن کے مواقع فراہم کریں گے، ضیاء ناصر یوسف زئی


صوبائی حکومت فن و ثقافت کو توجہ نہیں دے رہا، جو فن کار برادری کو حقارت کی نِگاہ سے دیکھنے کی مترادف ہے۔ حکومت نے فن کاروں کےلیے ماہانہ وظیفہ مقرر کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا وہ محض کاغذات تک محدود رہا اور عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ اے این پی ”ملگری ہنرمندان“ کے پلیٹ فارم سے فن کاروں، گلو کاروں اور تخلیق کاروں کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ 

سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے کلچر سیکرٹری ضیاء ناصر یوسف زئی نے کہا ہے کہ اے این پی تمام ہنر مندوں اور فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، کیوں کہ فن اور فن کار ہی قوم کا آثاثہ ہیں۔ خیبر پختون خواہ کے تمام ہنر مندوں کو ”ملگری ہنرمندان“ تنظیم کے پلیٹ فارم کے نیچے اکھٹے کرنے کا مقصد اُن کو فن کی بہتر مواقع فراہم کرنا اور اُن کی مدد کرنا ہیں۔ ”ملگری ہنر مندان“ تنظیم کو صوبے کے کونے کونے تک وسعت دیں گے تاکہ فن کاروں کو گھر کے دہلیز پر فن کے مواقع میسر آسکے۔ 

اُنہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے ہر محاذ پر پختون ثقافت کا دفاع کیا ہے، اور  کرتی رہے گی کیوں کہ ایک قوم ثقافت ہی کے ذریعے نئی نسل کو اپنی تجربات منتقل کرتی ہیں۔ ضیاء ناصر یوسفزئی نے کہا کہ باچا خان مرکز پختون قوم کا مشترکہ گھر ہے اور ہر ہنر مند، فنکار، اداکار اور فن سے وابستہ افراد کےلیے اُسے 24 گھنٹے کھلا رکھیں گے۔ 

اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے عصر نو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ صوبہ بھر کے گلوکاروں اور فن کاروں کے اعزاز میں جلد تقاریب کا اہتمام کیا جائے گا، جس میں اُن کو حکومتی معاوضوں سے زیادہ معاوضے دیں گے۔ 

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت جلد باچا خان مرکز پشاور میں ”لوئی بنڈار“ کے نام سے پورے صوبے کے فن کاروں، اداکاروں اور تخلیق کاروں کے اعزاز میں ایک گرینڈ تقریب کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں فن سے وابستہ تمام افراد اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔

ضیاء ناصر یوسف زئی نے کہا کہ ”ملگری ہنر مندان“ تنظیم کے زیرِ اہتمام تھیٹر اور ڈرامے بھی کروائے جائیں گے کیوں کہ موجودہ حکومت فن کی قدر سے بے خبر ہے اور اِن سے کسی بھی قسم کی توقع رکھنا خامِ خیالی ہے۔ 
اُنہوں نے کہا کہ اے این پی ہر تخلیق کار، فنکار اور فنون لطیفہ سے وابستہ ہر فرد کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سرکاری ٹی وی سے پشتو زبان کے پروگرام اور ڈرامے نکالنا دراصل فن کاروں کو فن سے بدظن کرنے اور اپنی ثقافت سے دور کرنے کی ساز ش ہے، جو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ 

اُنہوں نے کہا کہ باچاخان ٹرسٹ کے زیرِ انتظام جلد ایک پروڈکشن ہاؤس کا افتتاح ہوگا جو باچاخان ٹرسٹ یا عوامی نیشنل پارٹی کا نہیں بلکہ ہر فنکار اور تخلیق کار کا ہاؤس ہوگا۔

انہوں نے فن کاروں، گلوکاروں اور تخلیق کاروں سے مطالبہ کیا کہ ”ملگری ہنر مندان“ تنظیم کے پلیٹ فارم پر آکر فن اور ثقافت کی فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔ 

جمعرات، 23 جولائی، 2020

باچا خان کا جناح پارک میں جلسہ سے خطاب، جو پتھر پر لکیر ثابت ہوئی


فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے یہ تقریر 24 دسمبر 1972ء کو جناح پارک میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ مذکورہ جلسہ عام کی صدارت قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سردار شوکت حیات نے کی تھی۔ اِس جلسہ میں مولانا مفتی محمودؒ بھی موجود تھے۔ 

باچاخان نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور قوم کی فلاح و بہبود کےلیے ہر قسم کے تعاون کی پیشکش کی اور کہا کہ ’’اگر بھٹو صاحب اِس ملک کو واقعتاً آباد کرنا چاہتے ہیں، تو کوئی اور اُن کا ساتھ دے یا نہ دے، میں اُن کا ساتھ ضرور دوں گا۔ بلکہ ملک کی ترقی، خوشحالی کے کام میں اُن سے بھی دو قدم آگے رہوں گا۔‘‘

 خان عبدالغفارخان نے کہا کہ وہ صلح، اَمن، اتحاد، محبت اور اخلاص و بھائی چارے کے علمبردار ہیں، اور وہ یہ چاہتے ہے کہ پاکستان، بھارت، افغانستان اور ایران جیسے ممالک ایک دوسرے سے قریب تر ہوجائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’تشدد نفرت کو جنم دیتا ہے جب کہ عدمِ تشدد بھائی چارہ پیدا کرتا ہے۔ تشدد کا اسلحہ بندوق اور عدمِ تشدد کا اسلحہ محبت ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم تشدد کی راہ کو کسی قیمت پر نہ اپنائیں اور محبت و اخلاص کے ذریعے ایک متحد و مضبوط قوم بننے کی جدوجہد شروع کریں، اگر ہم واقعی ملک کی آبادی اور ترقی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اجتماعی زندگی گزارنے کےلیے اسلام کے زریں اُصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ اسلام نے اجتماعی زندگی کا درس دیا ہے اور اس زندگی میں ہمیں پورے معاشرے اور قوم کے حقوق کا خیال رکھنے کا احساس دلایا ہے۔ انفرادی زندگی جو ذاتی مفاد کا دوسرا نام ہے، جانور کی زندگی ہوتی ہے۔ ہمیں اشرف المخلوقات کی حیثیت سے اجتماعی زندگی بسر کرنے کے اُصول پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ 

بیش بہا قربانیوں کے بعد یہ ملک آزاد ہوا اور اب نوجوانوں کا فرض ہے کہ اب وہ اِسے ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کریں۔ اگر ہم ملک و قوم کو ترقی سے ہمکنار کریں گے تو اس میں سب کا ہی بھلا ہے۔ پختون نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ عیش و آرام کو خیرباد کہیں، ایک نئے جذبے، جوش اور ولولے سے میدان میں آئیں، قوم پرستی کے تقاضے پورے کریں اور تعمیری جذبے کے ساتھ تعمیرِ قوم اور تعمیرِ وطن کریں۔ میں ایک بار پھر اپنی قوم کو اس لیے آگیا ہوں کہ مجھ سے کہا گیا تھا کہ قوم کو میری خدمات کی ضرورت ہے۔ میں خدمت کےلیے حاضر ہوں لیکن یہ خدمت میں اکیلے نہیں کرسکتا، آپ سب کو کمرِ ہمت باندھنی ہوگی۔ اگر آپ ہمت و قربانی کے جذبے کے تحت ساتھ دینے کےلیے تیار ہیں تو پھر آئیے کہ ہم کارخیر کی ابتدا کریں۔ لیکن اگر آپ خود غرضی، مفاد پرستی اور ذاتی لالچ کو خیرباد کہنے کےلیے تیار نہیں تو پھر میرا یہاں رہنا بے کار ہوگا اور میں واپس چلا جاؤں گا۔ ہم پر طرح طرح کی بہتان تراشیاں ہوتی رہی ہیں، کبھی ہمیں ہندوؤں کا آلہ کار اور کبھی پاکستان کا مخالف قرار دیا جاتا رہا ہے جب کہ اصلی حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خدائی خدمت گار کی حیثیت سے اصلاح قوم کی جو تحریک شروع کی تھی، اُسے انگریز وں نے سیاسی تحریک قرار دے کر ہم پر مظالم کیے اور ہمیں قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔ 

اس وقت ہم نے مسلم لیگ کی طرف دستِ تعاون دراز کیا لیکن مسلم لیگ نے تعاون سے انکار کیا اور خود کو انگریزوں کی دوست جماعت قرار دیا۔ ایسے حالات میں کانگریس آگے بڑھی اور اِس نے اس بنیاد پر کہ ہمارا مشترکہ دشمن انگریز ہے ہم سے بھر پور تعاون کیا اور ہم نے مل کر انگریزوں کو ملک سے نکال دیا۔ 

ہندوؤں سے ہمارا تعلق صرف کانگریس کی حد تک تھا اور ہم میں دشمنی، قوم پرستی اور آزادی وطن کےلیے یکساں جذبہ جیسی قدریں مشترک تھیں، جہاں تک پاکستان کی مخالفت کا تعلق ہے، ہم پاکستان کے نہیں بلکہ اُن لوگوں کے مخالف تھے جو پاکستان اور اسلام کے نام پر مسلمانوں کو فریب دے رہے تھے۔ یہ لوگ نفرت کے بیج بو رہے تھے اور قوم کو اپنے مفاد اور اغراض کی خاطر تباہی کی طرف لے جارہے تھے۔ بعد میں میری یہ بات درست ثابت ہوئی، اُن لوگوں نے اپنے اعمال سے ظاہر کردیا کہ اُنہیں ملک قوم اور مذہب سے کوئی محبت نہیں حتیٰ کہ جب اُنہیں اپنا عیش و آرام اور اقتدار خطرے میں نظرآیا تو اُنہوں نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ 

اُنہوں نے ذاتی اغراض کےلیے تشدد کی راہ اپنائی جس نے نفرت کو جنم دیا۔ میں نے اس وقت بھی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ بنگال میں گولی نہ چلائیں، مجیب پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتا، مجھے پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں کا ایک جرگہ لے جانے دو، حالات ٹھیک ہوجائیں گے اور پاکستان ایک رہے گا، لیکن میری بات نہیں مانی گئی۔ 

پاکستان کے قیام کے فوراً بعد لارڈ کنگھم کے ذریعے اور پھر ملک غلام محمد اور دوسرے متعدد اصحاب نے مجھے اقتدار کی پیشکش کی جو میں نے قبول نہ کی، کیوں کہ مجھے کبھی بھی حکومت کرنے سے دلچسپی نہیں رہی ہے۔ اگر ہم کرسیاں قبول کرلیتے تو ہمیں نہ جیل جانا پڑتا اور نہ غدار قرار دیے جاتے لیکن ہم نے قوم کی خاطر ایسی راہ چنی جو مصائب اور قربانیوں سے پر ہے مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ قوم ابھی تک اس بات کونہیں سمجھ سکی کہ اُن کا بہی خواہ کون ہے، اور دشمن کون ہے؟

 آپ جنت نظیر ملک میں رہتے ہیں، بہترین قوم کے فرزند ہیں لیکن پھر بھی دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی اور آپ کو  روٹی کی خاطر  ٹوکریں کھانی پڑتی ہیں، آخر کیوں ۔۔۔ اس کی وجہ کیا ہے ۔۔۔؟  
وجہ یہ ہے کہ ہم میں ابھی تک اچھے اور بُرے لوگوں اور اچھی اور خراب پارٹیوں میں تمیز کرنے کا شعور پیدا نہیں ہوا، یہاں تک کہ خدمت کرنے والوں کو بُری نگاہ سے اور لٹیروں کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جہاں خدمت کو جرم سمجھا جائے وہاں خدمت کرنے والے پیدا نہیں ہوتے اور پھر ایسی قوم و ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔ پختون قوم کی شایان شان نہیں ہے کہ وہ ڈنڈے کے سامنے ناچنے لگیں اور خدمت کرنے والوں کو گالیاں دیں۔ میں 63 سال سے پختونوں کی خدمت میں مصروف ہوں لیکن ابھی تک پختونوں کو یہ تک پتہ نہیں چل سکا کہ باچا خان ہندو ہے یا مسلمان ۔۔۔؟

اس قوم کا سب سے بڑا مرض زر اور زن ہے اور میں اس مرض کا علاج کرنا چاہتا ہوں۔ جب تک آپ پیسے اور زمین کی محبت نہیں چھوڑیں گے، آپ کبھی متحد نہیں ہوں گے اور جب تک آپ متحد نہیں ہوں گے، آپ ترقی نہیں کرسکیں گے، آؤ کہ ہم مشکل اور کٹھن سفر کا آغاز کریں اور اس قوم کو دُکھ، مصیبت، پسماندگی اور افلاس سے نکال کر ایک عظیم قوم بنادیں۔‘‘ 

قارئین! آپ نے اپنی قوم کے سب سے بڑے ہمدرد، مجاہد، عظیم راہنماء اور لیڈر کی تقریر پڑھ لی ہے۔ اب آپ خود غور کریں کہ اگر ماضی میں اِن کی بات مانی جاتی، اِن کی آواز پر کان دھرے جاتے اور اُنہیں طرح طرح کی اذیتوں اور مصائب سے دوچار کرنے کی بجائے اُن کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا، تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ آج مملکتِ خداداد اور یہ قوم کہاں کھڑی ہوتی ۔۔۔؟ 
بقولِ شاعر! 
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے 
ڈھونڈا تھا جن کو آسماں نے خاک چھان کے 

اب ذرا موجودہ منظر نامے پر بھی غور کریں، کیا ایسا نہیں ہے کہ وہی مخصوص ٹولہ، جس نے بقولِ باچا خان ”اپنے مفادات کےلیے ملک کا دولخت ہونا بھی گوارا کر لیا۔“ آج بھی اپنے مفادات کی خاطر  ہر حد تک جانے  کےلیے تیار ہیں۔ 

دوسری جانب اگر موازنہ کرکے دیکھا جائے، تو قوم خصوصاً پشتونوں کی حالت بھی وہی ہے، آج بھی یہ اپنے بہی خواہوں کو پہچانتی ہے اور نہ ہی اچھے بُرے لوگوں کی تمیز کر سکتی ہے۔ بلکہ آج بھی یہی قوم سب سے زیادہ ناچ رہی ہے۔ 

فرق صرف اتنا ہے کہ آج ڈنڈا نہیں بلکہ ایک بلا ہے جس کے سامنے پشتون خصوصاً پشتون نوجوانوں کی اکثریت دنیا و مافیہا سے بے خبر ناچے چلی جا رہی ہے۔
قارئین! جاتے جاتے بس یہی دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین 

                        تحریر: اختر حسین ابدالؔی

یہ کالم روزنامہ آزادی سوات، اسلام آباد میں 21 جولائی بروز منگل شائع ہوئی۔

پیر، 20 جولائی، 2020

خواجہ برادران کے خلاف کیس انسانیت کی تذلیل کی بدترین مثال ہے، سپریم کورٹ


پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں خواجہ برادران کی ضمانت سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے نیب کی مداخلت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ واضح نہیں کہ نیب نے اس کیس میں کارروائی کیوں شروع کی۔

پیر کو 87 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس کو جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نیب کے حوالے سے تاثر ہے کہ اسے پولیٹیکل انجینئرنگ کےلیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور طاقتور کی جانب سیاسی حریفوں کو نیب کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نیب پر عوام کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ آئین کی حکمرانی کی ہر کوشش کو بھرپور انداز میں دبایا گیا۔ ماضی میں بدقسمتی سے بار بار غیر آئینی مداخلت کی گئی۔ اقتدار کی حوس اور ہر چیز پر قبضے کی خواہش نے اداروں کی حدود کی توہین کی۔

کیس کا پس منظر
رواں برس 17 مارچ کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت منظور کی تھی۔

پیراگون ہاؤسنگ کیس میں نیب نے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو دسمبر 2018ء میں گرفتار کیا تھا۔ خواجہ برادران نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا جس کے بعد اُنہوں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

دوران سماعت بھی جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس میں کہا تھا: ”خواجہ برادران نے ٹرائل کے دوران بیان ریکارڈ کرانے میں نیب کے ساتھ تعاون کیا، کیس میں کوئی التوا نہیں مانگا گیا تاہم نیب کوئی ایسی چیز بتائے جس سے ثابت ہو کہ خواجہ برادران کو ضمانت نہ دی جائے۔“

سترہ مارچ کو لاہور ہائی کورٹ کا ضمانت منسوخی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے تیس تیس لاکھ روپےکے ضمانتی مچلکوں کے عوض خواجہ برادران کی ضمانت منظور کی تھی۔

گابا سیریز کی کتاب پر پابندی عائد کیا جائے، ضیاء ناصر یوسفزئی


عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے کلچر سیکرٹری نے نصاب میں شامل ”گابا سیریز“ کی کتب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جو رواں برس شائع ہوئی اور ملک میں مسلسل بچوں کےلیے دستیاب رہی۔

عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے کلچر سیکرٹری ضیاء ناصر یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ”گابا سیریز“ نے اپنی کتاب میں بونیر کے غیور عوام کو احمق قرار دیا ہے۔ ایسی کتاب ہمارے بچوں کے ذہن پر بُری اثرات مرتب کرتی ہے اور اُن میں نفرت کے بیچ ہوئے جارہے ہیں۔ اس لیے یہ کتاب کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔

اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اے این پی شعبہ کلچر کے مطابق اس کتاب میں پختون قوم کے خلاف تضحیک آمیز مواد موجود ہیں جس میں ادب کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔

ضیاء ناصر یوسف زئی نے کہا کہ بونیر اُن غیور لوگوں کی سرزمین ہے جنہوں نے استعماری طاقت کے خلاف لڑنے والے مجاہدین بالاکوٹ کا اُس وقت میں ساتھ دیا، جب پورے برصغیر کی سرزمین اُن پر تنگ کردی گئی تھی۔ 

اِس پاک سرزمین نے نہ صرف نامور مجاہد پیدا کیے بلکہ آزادی پسند قوتوں کے ساتھ مل کر استعمار کو وہ شکست دی جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ اُن صوفیاء کرام کی سرزمین ہے جنہوں نے پیغام محبت سے تمام انسانوں کے درمیان نفرتوں اور فرقہ واریتوں کو ختم کردیا اور اُن کو سامراجی قوتوں کے خلاف یکجا کیا۔ 

امن پسند اور مہمان دوست غیرت مند پختونوں کے اس سرزمین کے خلاف کسی بھی نفرت انگیز  مواد کی اشاعت کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اس سیریز پر پابندی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔ 

اُنہوں نے مزید کہا کہ اس کتاب سے نہ صرف ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں، بلکہ یہ ہمارے غیرت اور قربانیوں پر کاری ضرب ہے۔ لہذا حکومت اور سیکرٹری تعلیم اس معاملے کا نوٹس لیں اور ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچائے اور ساتھ ہی اس سیریز پر پابندی عائد کیا جائے تاکہ معصوم بچوں کے ذہن کو نفرت آمیز مواد سے بچایا جاسکے۔

ہفتہ، 18 جولائی، 2020

اُردو ٹی وی ڈراموں میں پختونوں کی ریشل پروفائلنگ ناقابلِ برداشت عمل ہے، شاہی دوران خان



سوات (عصرِنو) اُردو ٹی وی ڈراموں میں پختون قوم کا مذاق اُڑانا ناقابلِ برداشت ہے۔ ایک نجی ٹی وی ہمیشہ پختون قوم کی تذلیل پر تلا ہوا ہے۔ لیکن اربابِ اقتدار کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ پیمرا بھی مکمل خاموش ہے جس سے پختون قوم کے جذبات مجروح ہورہے ہیں، شاہی دوران خان 

عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے اے آر وائی کی جانب سے ٹی وی ڈرامہ میں پختون کی تذلیل پر مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردو ٹی وی ڈراموں میں پختون قوم کا مذاق اُڑانا کسی بھی صورت قبول نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اے آر وائی پختونوں کی پروفائلنگ کا موقع کسی بھی صورت ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جو قابلِ مذمت ہے۔ 

اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ کہ حکومت جلد از جلد اس معاملے میں ملوث نجی ٹی وی چینل کے سربراہ کو طلب کریں اور اُن سے پوچھا جائے کہ آخر پختون قوم کی تذلیل کیوں ہورہی ہے۔ اُنہوں نے پیمرا سے بھی مطالبہ کیا کہ پیمرا اِس معاملے کا نوٹس لیں تاکہ آئندہ صوبائیت کی بناء پر اس طرح کے مواد کا روک تھام ہوسکے۔ 

جمعہ، 17 جولائی، 2020

پاکستان پوسٹ میں 118 ارب روپے کا میگا کرپشن سکینڈل سامنے آگیا


ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان پوسٹ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کی نشان دہی کردی

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے خط میں پاکستان پوسٹ پر نجی بینک کو بغیر ٹینڈر 118 ارب روپے کی سرمایہ کاری کا کانٹریکٹ دینے کا الزام، خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ پاکستان پوسٹ نے قواعد کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی بینک کو کنٹریکٹ ایوارڈ کیا۔ 

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا ڈی جی پاکستان پوسٹ، چیئرمین نیب کو خط میں معاہدہ منسوخ کرکے اوپن ٹینڈر کرنے اور شفافیت کےلیے شفاف انکوائری کرنے کا کہا گیا ہے۔

اپنے خط میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے لکھا ہے کہ پاکستان پوسٹ نے مالیاتی سرگرمیوں کو ڈیجٹلائز کرنے کےلیے نجی بینک کو 20 سال کا کانٹریکٹ دیا ہے۔ پاکستان پوسٹ نے کنٹریکٹ دینے کےلیے پبلک ٹینڈر کا اجرا نہیں کیا۔ خط میں مزید لکھا کہ پاکستان پوسٹ کانٹریکٹ ایوارڈ کرنے کے بجائے پبلک ٹینڈر کا اجرا کرے۔

بدھ، 15 جولائی، 2020

باچا خان کی شخصیت، مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی نظر میں


ممتاز پاکستانی سکالر اور مصنف جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ ایک دن میں بانی جماعتِ اسلامی سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے ہاں موجود تھا۔ مولانا اس وقت شدید بیمار تھے۔ باچا خان  تیمار داری کی غرض سے تشریف لے آئے۔ اس وقت جو حالت میں نے دیکھی، اس کا لَب و لُباب کچھ یوں ہے۔

”باچاخان سے میری پہلی ملاقات کا واقعہ اس لحاط سے بڑا اہم ہے کہ میں نے باچا خان کو ہمارے عہد کے جلیلُ القدر عالم سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی عیادت کےلیے آتے دیکھا. اس زمانے میں مولانا مودودیؒ شدید بیمار تھے۔ ان کےلیے اُٹھنا اور چلنا انتہائی مشکل تھا۔ لوگ آتے تھے، وہی اُن سے ملتے اور وہی سے رخصت ہوتے تھے۔ عام طور پر لوگ بھی اُن کی بزرگی کا لحاظ کرتے تھے۔ صورتِ حال ایسی تھی کہ ملنے والے توقع بھی نہیں کرتے تھے کہ وہ اُٹھ کر باہر آئیں گے یا کرسی چھوڑیں گے کیوں کہ آپ کو گھٹنوں کا مسئلہ تھا۔ 

باچا خان مولانا مودودی کے تیمار داری کےلیے آئے۔ میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ وہی موجود تھا۔ مولانا نے باچا خان کو دیکھتے ہی شدید تکلیف ہونے کی باوجود کھڑے ہوگئے ۔ جب ملاقات ختم ہوئی تو باچا خان رخصت ہونے لگے۔ ہم سب نے پہلی بار دیکھا کہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے دوستوں کا سہارا لے کر اپنے نشست سے اُٹھ گئے اور باچا خان کے ہمراہ باہر جانے لگے۔ برآمدے کی سیڑھیوں تک ساتھ گئے اور باچا خان کو وہاں سے رخصت کیا۔ عام حالات میں تو یہ اَنہونی بات نہیں، لیکن جب آدمی بیمار ہو، اُٹھنا تک انتہائی مشکل ہو، یہاں تک کہ وہ بادشاہوں اور بڑی شخصیات سے بھی اپنے کمرے میں ملتے ہو، لیکن باچا خان کا اُنہوں نے جس طرح احترام کیا، تو یہ عام نہیں خاص بات ہوجاتی ہے۔ 

نمازِ عصر کے بعد ایک دوست نے سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ سے اس غیر معمولی واقعے کا سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ شخص ہماری تاریخ کا ایک غیر معمولی شخصیت ہے۔“ 

غامدی صاحب کا کہنا تھا کہ باچا خان نے اپنی قوم کی اصلاح کےلیے حیران کُن مشقتیں اُٹھائیں، قیامِ پاکستان اور بعد میں برسوں جیلوں میں رہیں۔ نظریاتی لوگ قابلِ قدر ہوتےہیں۔ اخلاقی رویے نظریات کی بدولت ہی استوار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی قوم کے وجود کا خلاصہ ہوتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتے تو اُن کی پوری شخصیت کو کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں۔

پیر، 13 جولائی، 2020

پختون ایس ایف سوات کے زیرِ اہتمام احتجاجی مظاہرہ



پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر حق نواز خٹک کے ہدایات کے مطابق صوبہ بھر میں پختون ایس ایف کے زیرِ اہتمام طلبہ کے حقوق کےلیے پُرامن احتجاجی مظاہرے ہوئیں۔ 

مرکزی صدر حق نواز خٹک کے ہدایات کے مطابق پختون ایس ایف ضلع سوات کی زیرِ اہتمام حکومت کے تعلیم دشمن پالیسی کے خلاف نشاط چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان، نیشنل یوتھ آرگنائزیشن ضلع سوات کے صدر حیدر علی شاہ، پختون ایس ایف صوبائی آرگنائزینگ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری سہیل اختر، پختون ایس ایف سوات کے صدر شہاب باغی، جنرل سیکرٹری طارق حسین باغی، سوات یونیورسٹی کے صدر و جنرل سیکرٹری، تمام فیکلٹیز کے صدور و جنرل سیکرٹریز، تمام کالجز کے صدور و جنرل سیکرٹریز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ 

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے کہا کہ حکومت ہوش کے ناخن لیں۔ طلبہ کی مستقبل سے نہ کھیلیں اور اُن کو ہر ممکن سہولیات فراہم کریں۔ اُنہوں نےکہا کہ پختون ایس ایف کے یہ مظاہرے صرف ایک جھلک ہیں اور حکومت اِس جھلک سے سبق سیکھیں ورنہ یہ جھلک ایک حقیقی فلم میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اگر اِس جھلک نے حقیقت کی روپ دھاری تو پھر حکمرانوں کو چھپنی کی جگہ نہیں ملیں گی۔ کیوں کہ اِن نوجوانوں کے شانہ بشانہ اِن کے قائدین کھڑے ہیں۔ 

این وائی او کے ضلعی صدر حیدر علی شاہ نے تعلیمی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی بیانیے کے مطابق قومیں میٹرو اور موٹر ویز سے نہیں بلکہ تعلیم سے ترقی کرتی ہیں۔ لیکن حکومت نے بجٹ میں 21.5 فی صد کمی کرکے بے حِسی کا ایک نیا ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سوات یونیورسٹی کے صدر خواجہ اعزاز عالم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے تعلیم دشمن پالیسی پر نظرِثانی کریں۔ کیوں کہ پختون نوجوان اپنے حقوق حاصل کرنے کےلیے جاگ چکے ہیں۔ 

ڈاکٹر خان شہید کالج کبل کے صدر بلال خٹک نے اپنے خطاب میں کہا کہ کبل کالج سے بی ایس سسٹم کا خاتمہ ہوچکا ہے، جو کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ حکومت جلد از جلد کبل کالج میں اساتذہ کے خالی آسامیوں پر تعیناتی کریں اور دوبارہ بی ایس سسٹم کا آغاز کریں۔ 

اسی طرح افضل خان لالا پوسٹ گریجویٹ کالج مٹہ کے صدر اختر حسین ابدالی نے اپنے خطاب میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمیں یورپ اور جاپان کے تعلیمی سسٹم کی مثال دے رہی ہے لیکن جب 1945ء میں شمالی کوریا نے جاپان سے آزادی حاصل کی تو اُنہوں نے آئین بنانے سے پہلے 20 سالہ تعلیمی منصوبہ بندی کا آغاز کیا، اس کا نتیجہ ساری دنیا نے دیکھا کہ شمالی کوریا کہا سے کہا پہنچ گیا۔ اور ایک طرف ہم ہے کہ جب 1965ء میں ایوب خان وفاقی کابینہ تشکیل دے رہے تھے تو اجلاس ختم ہونے کے بعد پتہ چلا کہ تعلیم کی وزارت تو ہم بھول گئے ہے، جو بعد میں خانہ پوری کے طور پر مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے ضعیف العمر شخص قاضی انور الحق کو تفویض کیا گیا۔ 

گورنمنٹ جہانزیب کالج کے صدر خواجہ خان نے کہا کہ حکومت کالج کے تعمیراتی کام میں ٹول مٹول سے کام لے رہی ہے جو ناقابلِ برداشت ہے۔ لہذا حکومت طلبہ کے مستقبل سے نہ کھیلیں اور تعمیراتی کام کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تاکہ طلبہ کی مستقبل محفوظ ہو۔ 

پختون ایس ایف سوات کے جنرل سیکرٹری طارق حسین باغی نے کہا حکومت ایک طرف تعلیمی ایمرجنسی کے بلند و بالا دعوے کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی گھناؤنے سازش میں مصروف ہے۔ 

مظاہرے کے آخر میں پختون ایس ایف سوات کے صدر شہاب باغی نے خطاب کرتے ہوئے حکومت اور اُن کے تعلیم دشمن پالیسی پر خوب تیر برسائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت جان لیں کہ ہم جاگ چکے ہیں، اور اپنا حق چھیننا خوب جانتے ہیں۔ حکومت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم اُن کے تعلیم دشمن پالیسی پر خاموش تماشائی کی طرح بیٹھے گے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے تو پھر دمادم مست قلندر ہوگا۔ اُنہوں نے جع مطالبات کیے وہ کچھ یوں ہے۔

حکومت اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرکے طلبہ کو (Previous Base GPA) پر پروموٹ کریں۔ 

☆ حکومت سوات یونیورسٹی کے تعمیراتی کام میں کرپشن اور لاپرواہی برتنے والوں کا جوڈیشل انکوائری کریں اور تمام ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دیں۔

☆ سوات یونیورسٹی کے بلڈنگ کو جلد از جلد مکمل کرکے اس میں کلاسسز کا آغاز کیا جائے۔

☆ تمام یونیورسٹیز کو ایس او پیز کے تحت کھول دی جائے۔

☆ طلبہ کےلیے تمام سکالرشپس پروگرام بحال کیا جائے۔

☆ پرائم منسٹر لیپ ٹاپ سکیم کو فی الفور بحال کیا جائے۔

☆ غریب طلبہ کےلیے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے۔ 

☆ حکومت تمام طلبہ یونین کو بحال کریں اور طلبہ سے متعلق جو بھی فیصلہ ہوتی ہے، اس میں طلبہ یونین کو اعتماد میں لیا جائے۔ 

☆ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں مالی بحران کا سامنا ہے، لہذا سمسٹر فیسوں کو پچاس فی صد تک معاف کیا جائے اور تمام لیٹ فیسوں کو ختم کیا جائے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ہمارے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ہم آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

بدھ، 8 جولائی، 2020

طاہرہ حبیب جالب کی اعزاز میں اے این پی ضلع سوات کے شعبہ ثقافت اور ”نوے جوند تنظیم“ کی جانب سے ظہرانے کا اہتمام



معروف انقلابی شاعر اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا کے قریبی ساتھی حبیب جالب کی بیٹی طاہرہ حبیب جالب کی دورہ سوات کے موقع پر عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کی شعبہ ثقافت اور ”نوے جوند تنظیم“ کی جانب سے ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔

ظہرانے میں عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان، ضلعی کلچر سیکرٹری ضیاء ناصر یوسفزئی، پختون ایس ایف سوات کے جنرل سیکرٹری طارق حسین باغی، اے این پی کے دیرینہ کارکن حاجی ظاہر خان، نوے جوند تنظیم کی عہدیداروں، وکلاء برادری، صحافی برادری، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ 

ظہرانے کے بعد اراکین نے حبیب جالب کی زندگی، جدوجہد، سوچ، افکار اور جمہوریت کے بحالی کےلیے قربانیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اِس موقع پر اے این پی کی ضلعی کلچر سیکرٹری ضیاء ناصر یوسفزئی نے طاہرہ حبیب جالب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ طاہرہ حبیب جالب کی ضلع سوات آمد سے نہ صرف حبیب جالب کی وادی سوات سے محبت عیاں ہوتی ہے بلکہ نوجوانوں کو اُن کے زندگی سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ 

طاہرہ حبیب جالب نے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلی دفعہ سوات آکر بہت خوشی ہوئی، اور یہاں سے جو عزت اور احترام ملا، اُسے تادمِ حیات نہیں بھولوں گی کیوں کہ اے این پی کے کارکنوں اور سوات کے نوجوانوں میں حبیب جالب کی افکار و نظریات اب تک زندہ ہے جو میرے لیے باعثِ فخر ہے۔

اس کے علاوہ اے این پی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وادی سوات کے لوگ اور بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے ورکرز حبیب جالب کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اُن خدمات کی بناء پر حبیب جالب کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ 

واضح رہے کہ حبیب جالب کا شمار نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ اِسی پاداش میں آپ کو کئی بار جیل کی ہوا کھانی پڑی، اور مختلف صعوبتیں جھیلیں، لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ 

ملک بھر کے تعلیمی ادارے کب کُھلیں گے، فیصلہ ہوگیا


اسلام آباد: وزیرِ تعلیم شفقت محمود کی زیرصدارت بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں تعلیمی اداروں کو کھولنے پر اتفاق ہوگیا، تاہم حتمی منظوری کل این سی او سی سے لی جائے گی۔

تفصیلات کے مطابق وزیرِ تعلیم شفقت محمود کی زیرِ صدارت ويڈيو لِنک پر بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس ہوئی، اجلاس میں تجويز دی گئی کہ يکم ستمبر سے پہلے سکول نہ کھولے جائيں اور اگست کے آخری ہفتے حتمی فيصلے کےلیے اجلاس بلايا جائے۔

اجلاس میں وزيرِ تعليم سندھ سعید غنی نے مطالبہ کیا کہ نجی سکولز شديد مالی بُحران کا شکار ہیں، سکولوں کو بِلا سود قرضے ديئے جائيں، جس پر وفاقی وزيرِ تعليم شفقت محمود نے سعيد غنی کو يقين دہانی کرائی کے اس حوالے سے ضرور وزيرِ اعظم سے بات کروں گا۔

اجلاس میں تعلیمی اداروں کو ستمبر کے پہلے ہفتے میں سخت ایس او پیز کے ساتھ کھولنے پر اتفاق ہوگیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام صوبائی وزرائے تعلیم نے تجویز پر اتفاق کیا، تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے ساتھ امتحانات لینے کی بھی اجازت ہوگی، تاہم تعلیمی ادارے کھولنے سے قبل کورونا صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق تعلیمی اداروں سےمتعلق حتمی منظوری کل این سی او سی سے لی جائے گی جب کہ ستمبر سے قبل 02 بار بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پیر، 6 جولائی، 2020

پی ٹی آئی وزیر کا وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد لانے کےلیے ن لیگ سے رابطہ


انصار ۔ عباسی  06 جولائی، 2020    
اسلام آباد: معلوم ہوا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر نے مبینہ طور پر نون لیگ کی سینئر قیادت کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدمِ اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش کی ہے۔

ایک باخبر ذریعے نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وفاقی وزیر نے حال ہی میں نون لیگ کی سینئر رہنما کی فیملی کے ایک رُکن سے اس معاملے پر بات کی ہے کہ اگر عدمِ اعتماد کی تحریک لائی گئی تو تحریکِ انصاف کے کئی ارکانِ قومی اسمبلی بھی اس کی حمایت کریں گے، جب کہ حکمران جماعت کا اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔

یہ پیغام نواز شریف، شہباز شریف اور خواجہ آصف تک پہنچا دیا گیا ہے۔ نون لیگ نے اب تک وفاقی وزیر کے اس ’’خیال‘‘ کا جواب نہیں دیا اور فی الحال کےلیے ’’ انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کو ترجیح دے رہی ہے۔

اس نمائندے نے مذکورہ وزیر سے رابطہ کیا تاہم اُنہوں نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ اُنہوں نے شریف فیملی والوں کو ایسا کوئی پیغام پہنچایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ وزیر نے نون لیگ کی سینئر قیادت کے خاندان کے فرد سے رابطے کےلیے اپنا ذاتی موبائل فون استعمال کیا۔ اُن کی نون لیگ کے مذکورہ شخص کے ساتھ پرانی وابستگی ہے اور بظاہر اسی تعلق کی وجہ سے اُن کو نون لیگ تک یہ پیغام پہنچانے کی ترغیب ملی۔

ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ ایوان میں تبدیلی کےلیے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 12 سے زائد ارکانِ اسمبلی تیار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کے حوالے سے وفاقی وزیر کا پسِ منظر میں نون لیگ والوں کے ساتھ رابطہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کےلیے پریشانی کا باعث بنے کچھ تنازعات کے دوران ہی سامنے آیا ہے۔

ایک طرف اتحادی جماعت بی این پی مینگل نے پہلے ہی حکومت چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے تو دوسری طرف ق لیگ والوں کا سیاسی موڈ بھی پی ٹی آئی حکومت کےلیے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔

ایسے میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں اور اس میں بھی کوئی اور نہیں بلکہ وزیرِاعظم عمران خان نے خود قومی اسمبلی میں اپنے حالیہ بیان میں اس بابت بات کی۔ اُنہوں نے ’’مائنس ون‘‘ فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے ’’مافیاؤں‘‘ اور ’’کارٹل‘‘ کے خلاف کارروائی کی بات کی۔

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے حالیہ بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں معاملات اچھے نہیں ہیں۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹوایا اور جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہد محمود قریشی کی آپسی لڑائی کی وجہ سے پارٹی کو زیادہ نقصان ہوا ہے۔

فواد چوہدری نے عمران خان حکومت کی کارکردگی پر بھی عدمِ اطمینان کا اظہار کیا اور وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پی ٹی آئی اور عمران خان سے بڑی توقعات تھیں۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ عوام نے پی ٹی آئی اور عمران خان کو نٹ بولٹ کسنے کےلیے نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات لانے کےلیے منتخب کیا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ بڑے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت جس میں اسد عمر، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی شامل ہیں، کے درمیان آپسی لڑائی جاری ہے، لہٰذا اس صورتحال سے سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ جب سیاسی خلا پیدا ہوگا تو اسے نئے لوگ پُر کریں گے جن کا سیاست سے تعلق نہیں ہوگا۔

جب آپ کی بنیادی (کور) ٹیم میں مسائل ہوں گے تو اس میں نئے لوگ آئیں گے جو خیالات سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے اور وہ کام کر پائیں گے اور نہ اُن میں صلاحیت ہوگی۔ اُنہوں نے کہا کہ اس آپسی لڑائی نے پارٹی کو اور بالخصوص سیاسی کلاس کو نقصان پہنچایا ہے۔

ہفتے کو وزیر ریلوے شیخ رشید نے بیان دیا تھا جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ حکمران اتحاد میں معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ ممکنہ ون کی صورت میں ممکنہ طور پر مائنس تھری کی وارننگ دیتے ہوئے شیخ رشید نے پی ٹی آئی کے وزیروں کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے گندے کپڑے میڈیا کے سامنے نہ دھوئیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ ہم آخری چوائس نہیں ہیں، کچھ وزراء وہ کام کر رہے ہیں جو اپوزیشن والے بھی نہیں کر پائے۔

یہ خبر روزنامہ جنگ میں 06 جون 2020 کو شائع ہوئی۔

اتوار، 5 جولائی، 2020

تحریکِ انصاف حکومت کا کارنامہ، ایک سال کے دوران خیبر پختون خوا پر غیر ملکی قرضوں میں 75 ارب روپے کا اضافہ


پشاور: خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے قرضے لینے کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے 2013 سے اب تک 2 کھرب 70 ارب 38 کروڑ کے قرضے لے لیے۔ گزشتہ مالی سال کے آغاز پر صوبہ 94 ارب روپے کا مقروض تھا۔ ابتدائی 06 ماہ میں 31 ارب جب کہ دوسری دو سہ ماہیوں میں 44 ارب روپے لیے گئے۔ 

خیبرپختونخوا حکومت کے قرضوں سے متعلق سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت نے صرف تین منصوبوں کے لیے 99 ارب 47 کروڑ 50 لاکھ روپے قرض لیا ہے جو بس ریپڈ ٹرانزٹ، توانائی اور آب پاشی منصوبوں کے لیے لیا گیا، جب کہ بس منصوبے کے لیے 41 ارب 88 کروڑ سے زائد کا قرض لیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق قرض 90 فی صد امریکی ڈالر، جاپانی ین میں لیا گیا، رواں مالی سال 28.2 ارب واپسی، 16.5 ارب منافع اور 11.7 اصل زر واپس کیا جائے گا۔ 

دستاویزات کے مطابق یہ قرضے ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، سعودی اور فرانسیسی اداروں سے لیے گئے ہیں۔ جن کی ادائیگی 20 سے 38 سال کے دوران کی جائے گی جب کہ قرضوں پر مارک اپ اعشاریہ 6 سے 2 فیصد ہے۔

مالیاتی اداروں نے دیگر 10 منصوبوں کےلیے بھی ایک کھرب 83 ارب روپے کے قرضے دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے، یہ قرضے سڑکوں کی مرمت، زراعت، سیاحت، توانائی اور پینے کے صاف پانی کےلیے ہیں۔

صوبے میں گزشتہ دور حکومت میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے 2007 سے 2013 تک دو منصوبوں کے لیے 20 ارب 79 کروڑ روپے قرض لیا تھا جب کہ تحریک انصاف کی حکومت نے5 گنا زیادہ قرض لیا ہے۔

صوبےمیں تحریک انصاف کی حکومت 2013 سے اب تک 2 کھرب 70 ارب 38 کروڑ کا قرضہ لے چکی ہے۔

ہفتہ، 4 جولائی، 2020

اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا اقدام، اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا کام روک دیا گیا، سی ڈی اے سے جواب طلب


 پشاور (عصرنو) 04 جولائی، 2020. اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد میں ہندو مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) سے جواب طلب کرلیا جب کہ حتمی فیصلہ آنے تک تعمیر کا کام بھی روک دیا گیا۔

ترجمان سی ڈی اے  کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سی ڈی اے نے عدالت کے حکم پر مندر پر تعمیری کام رکوا دیا ہے کیوں کہ مندر بغیر نقشے کے بنایا جا رہا تھا۔

ترجمان سی ڈی اے کے مطابق اسلام  آباد کے ماسٹر  پلان کے مطابق نقشےکی منظوری کے بغیر عمارت نہیں بنائی جاسکتی۔ ترجمان کے مطابق متعلقہ افراد کو مندر کے نقشے کی منظوری کا کہا ہے۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ مندر کی تعمیر کےلیے سرکاری زمین اور فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔

اس کے علاوہ وزارت مذہبی امور یہ بات واضح کرچکی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کی پہلے سے موجود عبادت گاہوں کی مرمت و تزئین و آرائش میں معاونت کرتی ہے، نئی عبادت گاہیں تعمیر نہیں کرتی۔

معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی اور حکومت کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان بھی سرکاری خرچ پر مندر کی تعمیر کی  مخالفت کرچکے ہیں

جمعہ، 3 جولائی، 2020

ویڈیو سکینڈل: لاہور ہائیکورٹ نے نوازشریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک ملازمت سے برطرف کردیا


لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے ویڈیو سکینڈل میں ملوث احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں انتظامی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں 07 سینئر جج صاحبان نے شرکت کی۔ ان میں جسٹس محمد امیر بھٹی، جسٹس شہزاد احمد خان،  جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔


پسِ منظر
واضح رہے کہ اس وقت کے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو  العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کو  7 سال قید کی سزا سنائی تھی اور فلیگ  شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

عدالتی فیصلے کے بعد 6 جولائی 2019 کو مریم نواز ایک ویڈیو سامنے لائی تھیں جس میں الزام لگایا گیا کہ  جج ارشد ملک نے دباؤ میں آکر یہ سزا سنائی جس کی جج نے تردید بھی کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لیا تھا اور ارشد ملک کو احتساب عدالت کےجج کے عہدے سے ہٹاکر او ایس ڈی بنایا گیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر تفصیلی فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف کا محمد نوازشریف کی سزا ختم کرنے کا مطالبہ 

لاہورہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو برطرف کرنے سے نوازشریف کی سزا بھی برطرف ہوگئی ہے 

دباو کے تحت فیصلہ دینے والے جج کی برطرفی ثبوت ہے کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ بھی انصاف پر مبنی نہیں تھا 

ناانصافی کے تحت کئے گئے فیصلے بھی ختم ہونے چاہئیں تب ہی انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں 

اعلی عدلیہ نے جج ارشد ملک کو برطرف کرکے جو انصاف کیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ نوازشریف کو بھی انصاف دیاجائے

جمعرات، 2 جولائی، 2020

جائز نہیں کہ حکومت قومی خزانے سے مندر تعمیر کریں، مفتی تقی عثمانی


معروف عالم دین اور مفتی اعظم پاکستان جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ حکومت کےلیے یہ بات بالکل جائز نہیں کہ وہ اپنے خرچ پر مندر تعمیر کرے، خاص طور پر ایسی جگہ جہاں ہندو برادری بہت کم ہو۔

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حوالے سے اپنے بیان میں مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جو صلح سے بنا ہے وہاں ضرورت کے مطابق نئی عبادت گاہ بنا سکتے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو حق ہے کہ جہاں ان کی آبادی کے لیے ضروری ہو، اپنی عبادت گاہ برقرار رکھیں۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اس نازک وقت میں نہ جانے ایسے شاخسانے کیوں کھڑے کیے جاتے ہیں جن سے انتشار کے سوا کوئی فائدہ نہیں ۔

پی ٹی اے نے ”پب جی“ گیم پر پابندی عائد کردی



پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)  نے  متعدد شکایات موصول ہونے کے بعد ایکشن لیتے ہوئے ویڈیو گیم ”پب جی“ پر عارضی طور پر پابندی عائد کردی ہے، گیم کے مستقبل بارے کسی بھی وقت اہم فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

پی ٹی اے کے مطابق معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے آن لائن گیم پلیئرز ان نون بیٹل گراؤنڈز (پب جی) کے خلاف متعدد شکایات کو مد نظر رکھتے ہوئے گیم پر عارضی طور پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے کو ”پب جی“ کے حوالے سے متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ جن کے مطابق یہ گیم وقت کے ضیاع اور عادی بنانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی اس کھیل کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ”پب جی“ گیم سے منسوب خودکشی کے معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔

پی ٹی اے کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کا عکس 

اِس ضمن میں لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی اے کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور شکایت کرنے والوں کی سماعت کے بعد اس معاملے کا فیصلہ کریں لہٰذا اس معاملے پر  9 جولائی 2020 کو سماعت کی جارہی ہے۔

اتھارٹی نے مذکورہ آن لائن گیم کے حوالے سے عوام کی جانب سے آراء کی طلبی کا بھی فیصلہ کیا۔ 

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور میں پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر 18 سالہ نوجوان نے پھندا ڈال کر خود کشی کر لی تھی۔

اس کے علاوہ بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں متعدد افراد پب جی کے باعث خودکشی کرچکے ہیں۔

بدھ، 1 جولائی، 2020

ملک بھر کے تعلیمی ادارے کب کُھلیں جائیں گے؟ بڑی خبر آ گئی


پشاور (عصرنو) 07 جولائی کو بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں ملک بھر کے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ متوقع ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی سربراہی میں ہونے والی بین الصوبائی وزرائے کانفرنس 2 جولائی کو طلب کی گئی تھی، جس میں یونیورسٹیز سمیت تعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق فیصلہ کیا جانا تھا۔ تاہم یہ کانفرنس وفاقی وزیر شفقت محمود کی والدہ کی وفات کے باعث موخر کردی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس اب 07 جولائی کو ہو گی۔ جس میں ملک بھر کے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ متوقع ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم نے چاروں صوبوں اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے تجاویز طلب کر رکھی ہیں۔ واضح رہے کہ کورونا وباء کے باعث ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند ہونے سے لاکھوں طلباء زیور تعلیم سے محروم ہیں۔