ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو زرا غور سے دیکھیں ، یہ بارہ سالہ بادل مسیح ہے ۔ اس کا جرم یہ ہے کہ ایک ایسے غریب گھرانے میں پیدا ہوا جس کی ماں لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھ کر دو وقت کی دال روٹی بمشکل کماتی ہے ۔
جون جولائی میں سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں ، تو ماں نے اپنے لخت جگر بادل مسیح کو ایک کباڑ خانے پر ملازم رکھوا دیا اس امید کے ساتھ کہ شاید دو کی جگہ تین وقت کی روٹی کھا سکیں ۔ لیکن اس بدقسمت ماں کو کیا معلوم تھا کہ اسے اپنے بچے کی لاش اٹھانی پڑے گی ۔
کباڑ خانے کے مالک نے بادل مسیح کو اپنی حوس کا نشانہ بنا ڈالا ، گلا گھونٹا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا ۔ جس کی وجہ سے بادل مسیح اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔
اس تشدد زدہ لاش کو غور سے دیکھیں ، یہ لاش نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے اور اربابِ اقتدار کے منہ پر طمانچہ ہے ۔
اس آئینے میں آپ کو معاشرے کا اصل چہرہ صاف نظر آئے گا کہ ،
یہ بارہ سالہ بچہ کس جہنم میں پیدا ہوا ، اس کا قصور کیا تھا ؟
اس نے کتنی محرومیوں کا بچپن گزارا ؟
اس نے کتنی محرومیوں کا بچپن گزارا ؟
کتنی چھوٹی سی عمر میں کتنی اذیت ناک موت کا حقدار ہوا ؟
اس آئینے کو غور سے دیکھیں ، سب کچھ صاف نظر آئے گا ،
یہ آئینہ بتائے گا کہ مظلوم ماں کے احتجاج کے بعد ایف آئی آر تو درج ہو گئی ، لیکن مجرم کبھی گرفتار نہیں ہوں گے ۔ یہ آئینہ بتائے گا کہ اگر کوئی گرفتار ہو بھی گیا تو اسے سزا نہیں ملے گی ۔
یہ آئینہ بتاتا ہے کہ پچھلے پانچ سال میں اٹھارہ ہزار بچوں سے زیادتی ہوئی ، لیکن صرف پچیس مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی اور عملدرآمد صرف ایک پر ہوا ۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ اسی فیصد ریپسٹ تو گرفتار بھی نہیں ہوئے اور اج تک ازاد گھومتے پھرتے ہیں ـ
یہ آئینہ غور سے دیکھیں اور شرم سے سر جھکائیں ، پھر اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں ، اور پھر خود ہی فیصلہ کریں اور اپنے آپ سے یہ ان سوالات کے جوابات خود پوچھیں کہ ،
کیا ہم انسان ہیں ؟
کیا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے؟
کیا مملکت خداداد میں ایک غریب کو جینے کا حق نہیں ہے ؟
کیا ارباب اختیار اسملبلیوں میں محض ایک دوسروں پر الزام تراشیوں کےلئے گئیں ہیں ؟
ایسے ڈھیر سارے واقعات ہوئے ، کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ، کیا اربابِ اختیار کے پاس قانون سازی کا حق نہیں ؟
قارئین ! جنگل میں بھی ایک قانون ہوتا ہے ، جانور بھی کسی دوسرے جانور کے بچے کو اس طرح نہیں بھنبھوڑتے ۔ جس طرح ہم انسان بے حِس ہوکر دوسرے انسان کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ۔ پھر گلہ دبا کر ان کا قصہ تمام کردیتے ہیں ۔
جنگل کا قانون ہی سہی لیکن کوئی تو نافذ کریں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں