پیر، 22 جولائی، 2019

روشن چولہا ، گرم تنور اور آگ کی بھٹی



   گھریلوں ثقافتی سامان میں چولہا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ یہ کھانا پکانے ، آگ تاپنے اور توا چڑھانے کے کام آتا ہے ۔ قفلی ، تغاری اور دیگر برتن اس کے اس پاس پائے جاتے ہیں ۔سامان کی عدم موجودگی میں کہا جاتا ہے ۔ " 

توانہ تغاری ، کا ہے کی بٹھیاری " ۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں چولہے کے پاس ایک سگھڑ خاتون تغاری میں آٹے کے ساتھ خمیر ملا کر اسے گوندھتی ہے ۔ گوندھتی ہوئی آٹا قفلی میں رکھتی ہے ۔ چند گھنٹی بعد گوندھے ہوئے آٹے کی بوئی بناتی ہے جس سے ہتھیلی کے ذریعے چپاتی یا روٹی بناتی ہے اور اسے توے پر ڈالتی ہے ۔ 

  توے کو پشتو زبان میں تبئی یا تبخے کہتے ہیں ۔ میری والدہ صاحبہ فرماتی ہے کہ " تبئی مٹی سے بنتی تھی اور تبخے لوہے سے ۔ روٹی پکانے سے پہلے اس کے پیندے کے نیچے مٹی تھوپی جاتی تھی ۔ مٹی کی تہہ اس لئے جمائی جاتی تھی تاکہ تیز آگ کی تپش سے روٹی جل جانے سے بچ جائے ۔ یہی تبئی یا تبخے روٹیاں پک جانے کے بعد شرارے نکال کر آگ کے پھول جڑھتے تھے ۔ توے کے نیچے کی کالونچ کا روشن ہوکر پھول جڑھنے کے عمل کو توے کا ہسنا کہا جاتا تھا ۔ توے کا یہ عمل نیک پال بھی سمجھا جاتا تھا ۔ چنگاری چھوٹنا یا چنگاری جڑھنا جیسے محاورے ایسی سے نکلے ہیں ۔ توے سے کسی گنہگار کا منہ بھی کالا کیا جاتا تھا ۔
 پشتو زبان کا یہ ٹپہ ایک حد تک اس روایت کی غمازی کرتا ہے ۔ 

تبئی راواخلی مخ می تور کڑی 
چی پہ بی نیاز وپسی تلم ستومانہ شومہ 

  " تبئی تور " کالی رنگت ہی ہے جیسے " فرحت پہ تبئی تور د باجوڑ گلونہ " ہے ۔ لیکن کالی رنگت اتنی بری بھی نہیں ہے۔ جبھی تو کہتے ہے ۔
 پہ تورو بد مہ وایئی خلکہ 
تورہ تبئی وی ڈوڈئی سپینہ پخوینہ 

کہتے ہیں آگ اور بیری کو کم نہ سمجھے کیونکہ اس کی لپٹیں کسی بھی وقت اٹھ سکتی ہیں ۔ ماضی میں یہی آگ راکھ میں چھپائی جاتی تھی ۔ لوگ گوبر کے اپلے میں آگ رکھتے تھے ۔ پڑوسی ایک دوسرے سے آگ مانگتے تھے۔  کہاوت ہے ، آگ لینے آئی ، گھر والی بن بیٹھی ۔ 

  کہا جاتا ہے ، آگ بن دھواں کہا یعنی جہاں آگ ہوتی ہے وہاں دھواں ضرور ہوتا ہے ۔ یہ منظر دھوبیوں ، لوہاروں ، زرگروں اور گھروں کے چولہوں ، شراب یا اینٹ کے بھٹیوں اور کھبی کھبار کھیتوں اور جنگ میں اچانک بھڑک جانی والی آگ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ بھٹی میں آگ جلانے والے بھٹیارے اور بھٹیارن کہلاتے ہیں ۔ لیکن ایک قسم بھٹی وہ ہے جس میں آگ جلانے والے کو بھڑبھونجا کہتے ہے ۔ 

یہ چولہا دراصل بھاڑ ہوتا ہے جس میں بھڑبھونجے چنے یا مکئی کے دانے بھونتے ہیں ۔ مقامی طور پر اسے بھٹیار کہتے ہیں ۔ جو بھٹی پر ایک بڑا برتن مضبوطی سے رکھتا ہے ۔ اس میں بالو یعنی ریت ڈالتا ہے ۔ ریٹ گرم ہوتی ہے تو بھٹیار مکئی کے دانے اس میں بھوننے کےلئے ڈالتا ہے اور متواتر نیچے بھٹی میں سوکھی جھاڑیوں کا ایندھن جھونکتا ہے ۔

 بھٹیار دانے بھوننے کا فرد لیتا ہے ۔ لیکن اب تو یہ کام دوربین لگا کر دیکھنے دے نظر نہیں آئے گا ۔ بھٹ اور بھٹیارا کب کے تاریخ کا حصہ بن طکے ہیں ۔ ہمارے گاؤں کے مجات خان اور خاپیرے کی طرح ہر گاوں میں بھٹیار ہوا کرتا تھا ۔ بعض گاوں میں بھٹیارن ہوتی تھی ۔ جن کے بھاڑ گرم کرنے کے اوقات مقرر تھے ۔ ہر وقت کسی کا غلہ نہیں بھونتے تھے ۔ 

رجب علی رجب کہتے ہیں " بچپن کے زمانے میں مکئی کے دانے لے کر صبح سویرے ایک بھٹیارے کے گھر گیا اور ان سے مکئی بھوننے کےلئے کہا ، وہ بولا بیٹا ! دوپہر کے بعد آجائے ۔ لیکن میں بہ ضد تھا کہ سب اور اسی وقت میرا کام کیجئے ۔ بھٹیارا مجھے دلاسہ دے رہا تھا لیکن بھٹیارن حصہ ہوئی ، ترنت میری جھولی پکڑ کر جھاڑ دی اور کہنے لگی جاو ۔ اپنے بھوننے ہوئے دانے لے جاو ۔ اس وقت میں بہت رویا ۔ 

گاؤں کی انہائی غریب بندہ بھڑبھونجے کا کام کرتا تھا ۔ اس لئے جب کوئی غریب امیروں کی نقالی کرتا ہے تو طنز کے طور پر کہا جاتا ہے " بھڑبھونجے کی بیٹی ، کیسر کا تلک ۔ یعنی غریب ہوکر امیروں کی نقل کرتا ہے ۔ 

   اسی طرح روٹی سینکنے کا گہرا زمین روز الاو جو اب زیادہ تر کنڈے کے بجائے زمین کی سطح پر ہی لگائے یا بنائے جاتے ہیں ، تنور کہلاتا ہے ۔ جسے لکڑیوں کا گیس کے ذریعے سے گرم کیا جاتا ہے ۔ تنور پر روٹیاں پکانے والا نانبائی ، بھٹیارا یا تنورچی گندھے ہوئے آٹے کے پیڑے چکلے پر رکھ کر ہتھیلی یا بلن سے بڑا کرتا ہے ۔ پھر ہاتھ سے تھپ تھپ کی آواز نکلتا ہے ۔ بڑی ہوئی روٹی تھیا ( گول گدی ) پر رکھ کر تنور کی دیوار پر جماتا ہے ۔ گرم تنور میں روٹی پکنے کے بعد اسے تنور سے دو سیخوں کی مدد سے باہر نکالتا ہے ۔ ایسا عمل بازار میں روز دیکھا جاتا ہے ۔ خاص کر سردیوں میں ہر کوئی تنور کی سوجھتا ہے ۔ وہ نانبائی کے پاس جا کر گرم روٹی کی فرمائش ضرور کرتا ہے ۔

 لیکن اصل تنور تو وہی تھا جس میں کئی گھروں کی روٹیاں پکتی تھی ۔ خواتین آٹے کے ساتھ ایندھن لے کر تنور والے گھر پہنچتی تھی ۔ جس سے ایک طرح کا میلہ سجتا تھا ۔ یہ لوگ باری لے کر اپنی روٹیاں پکاتی تھی ۔ 

بقول اکبر علی آبشار ، " ہمارے مردان میں کھبی کھبار نمبر پر جھگڑا بھی ہوتا تھا ۔ سب سے زیادہ ایندھن تنور والے گھر کا جلتا تھا "۔ گندم کی روٹیاں پک جانے کے بعد مکئی کی روٹیاں بھی پکائے جاتے تھے جو ہر کسی کی بس کا بات نہیں تھا ۔ بعض خواتین ہر قسم کے روٹیاں پکانے میں طاق تھیں ۔وہ چھوٹوں کو پکانے کا گر سکھاتی تھیں ۔جس سے تنور روٹیاں پکانے کی کساوا ( ایک زنانہ رومال ) لپیٹتی اور پھرتی سے روٹیاں پکاتی ۔ ایسے کسی لڑکی سے متعلق کسی نے کیا خوب ٹپہ کہا ہے ۔ 

پہ تنارہ مہ را غوڑیگہ 
د اوربل سوکے بہ دی اور اوسوزہ وینہ 

   جب دوپہر کو تنور گرم ہوجاتا تھا تو پڑوس کی لڑکیاں روٹیاں پکانے کےلئے جمع ہوتی تھیں ۔ جس طرح گودر میں جمع ہوا کرتی تھیں ۔ گرم دھوپ کی تپش چہرہ سرخ ہوکر اناردانہ بن جاتا تھا ۔ اس موقع کا نقشہ کچھ یوں کھینچا گیا ہے ۔ 

  پہ سرہ غرمہ دی تنور تود کڑو
شینکی خالونہ دی خولو کے غوپہ خورینہ

  قارئین ! روٹیاں تو اب بھی پکتی ہے اور طرح سے پکتی ہے۔ اعلی قسم کے پاپ کارن بھی بازار میں دستیاب ہیں ۔ لیکن ہمارے ثقافت کے بھاڑ اور تنور نہیں رہے ۔ ہم اپنی کھوئی ہوئی ثقافت زندہ نہیں رکھ سکتے ۔ ہماری ثقافت ان دونوں کہاوتوں کے مصداق ہے کہ ہم نے سب کچھ تنور سے بچنے کےلئے بھاڑ میں گرے اور ہم نے اسے بھاڑ سے نکالا اور بھٹی میں جھونکا ۔ یعنی ہم نے اپنا شاندار ماضی بھلا دیا ہے ۔ 
جاتے جاتے کچھ ٹپے ملاحظہ ہو ۔ 

زڑہ می د یار پہ غم کے سوزی
سرپوخ تنور دے غرغرے وہی مینہ 
د مامونئی د مرگ آواز شو 
جینکو پریخودے قلفئی پہ تنورونو 


                                                تحریر : ساجد ابو تلتان 
  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں