پیر، 29 جولائی، 2019

خیرالحکیم وکیل حکیم زے کی شخصیت پر اِک نظر



  صوبہ خیبر پختونخواہ قدرتی حسن کے علاوہ نہایت مردم خیز خطہ ہے ۔ یہاں کے بعض شخصیات نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں میں نام پیدا کیا ہے ۔ اس طرح بعض نابغہ روزگار ادب و سیاست کے میدان میں اپنی انفرادیت کا لوہا بھی منوا چکے ہیں ۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک معتبر حوالہ وادی سوات سے تعلق رکھنے والے خیر الحکیم المعروف وکیل حکیم زے بھی ہے ۔ جن کی علمی وسیاسی دنیا سے چھوٹے موٹے تو کیا بڑے بڑے کَجکلاہ بھی منور ہوئے ہیں ۔

(ع) ”مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغ چمن “۔

قائداعظم محمد علی جناح جیسی شکل و صورت ، مما ثلت میں اگر کوئی کمی ہو ، تو وہ جنا کیپ ہی پورا کر سکتی ہیں ۔ سفید بال ، دبلا پتلا بدن ، درازقد ، نسبتاً لال و سفید چہرہ ، متوسط مگر روشن انکھیں ، داڑھی چٹ ، مخروطی انگلیاں ، چال ڈھال میں سلاست
روی ، آواز میں دھیما پن و پُر تاثیر لہجہ اور مہین مسکراہٹ جس سے متانت اور سنجیدگی ٹپکتی ہے ۔ 

وکیل حکیم زے صاحب مئی 1960ء کو تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درشخیلہ میں عبدالحکیم عرف سور حکیم کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے 1974ء میں ہائی سکول برہ درشخیلہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ مزید تعلیم کی حصول کےلئے گورنمنٹ کالج مٹہ آئے ، اور یہاں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی کیرئیر کا بھی باقاعدہ آغاز کیا ۔ 1976ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) مٹہ کالج کے صدر منتخب ہوئے ۔ یہا ں سے بی۔اے کی ڈگری لینے کے بعد ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی کی ڈگری بالترتیب 1984ء اور 1986ء میں یونیورسٹی آف کراچی سے حاصل کی ۔ پھر 90 -1989 میں یونیورسٹی آف پشاور سے پشتو زبان و ادب میں ایم۔اے کیا ۔ 

قارئین ! جیسا کہ ہم نے پہلے ہی ذکر کیا کہ وکیل حکیم زے نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز 1974ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پلیٹ فارم سے کیا ۔ انہوں نے حصول تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی سیاست جاری رکھی ۔ 1981ء میں پاکستان پیپلز پارٹی سے اپنی سنگت توڑ کر مزدور کسان پارٹی میں چلے گئے ، اور مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے اس کے مرکزی سیکرٹری جنرل بن گئے ۔ وکیل حکیم زے 1996ء میں آزاد حیثیت سے صوبائی اسمبلی کی الیکشن بھی لڑا ، لیکن کامیاب نہ ہوئے ۔

 ایک حقیقی قوم پرست سیاسی رہنما ہونے کے ناطے وکیل حکیم زے نے مزدور کسان پارٹی سے اپنا اٹھارہ سالہ رفاقت ختم کرتے ہوئے 1999ء کو "افغان نیشنل پارٹی" تشکیل دے دی ۔ 

بحیثیت ایک قوم پرست سیاسی رہنما اُنہوں نے افغان نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے پختون قوم کو اکھٹی کرنے اور ان کی بقاء و سلامتی کے لیے اَن تھک کوشش کی ۔ انہوں نے پختون قوم کی خدمت اپنا فرض سمجھ کر ان میں ووٹ اور سیاست سے متعلق آگاہی اور شعور اُجاگر کرنے کی غرض سے وقتاً فو قتاً پمفلٹس شائع کئے ۔ جن میں " ووٹ خہ دے کو خہ نہ دے " ( پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ) 
” ووٹ سہ شے دے ۔۔؟ " اور ” ووٹ بہ چالہ ورکوو ۔۔؟ " 
( مزدور کسان پارٹی کی جانب سے ) اور ” خپل پردے " وغیرہ شامل ہیں ۔

 انہوں نے اردو زبان میں بھی کئی پمفلٹس شائع کیے ہیں ، جن میں ”افغانیہ کی تاریخی حقیقت ، متحدہ قوموں کے مابین معاہدہ
( سیاسی ) (United National Alliance ) اور ” سندھی ، بلوچ ، پختون فرنٹ SBPF (سیاسی) “ شامل ہیں ۔ انہوں نے اکتوبر 2008ء تک اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ، لیکن 2008 کے آخر میں سوات کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے ایبٹ آباد شفٹ ہوئے اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی ۔

ایبٹ آباد شفٹ ہونے کے ایک سال بعد ( Abbott Law College ) میں بطورِ لیکچرار تعینات ہوئے ۔ تقریباً ڈھائی سال اسی پوسٹ پر فائز رہے اور ساتھ ساتھ کرمنل کیسز میں وکالت بھی کرتے رہے ۔ آخر مئی 2016ء کو واپس اپنے آبائی گاؤں برہ درشخیلہ منتقل ہوئے اور ادبی و سماجی زندگی سے منسلک ہوئے ۔ 

وکیل حکیم زے قوم پرست سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور ادیب بھی ہے ۔ جن کی علمی بصیرت سے کئی نامور شخصیات فیض یاب ہوچکی ہیں ۔ ادب سے خصوصی دلی لگاؤں رکھنے کے سبب ڈھیر سارے شاگرد رکھتے ہیں ۔ جن میں مجھ جیسا ایک بندۂ ناچیز بھی شامل ہے ۔ انہوں نے اپنی مصروف ترین زندگی میں کئی کتب شائع کی ہیں ۔ ان کی تحقیقی کتابوں میں ” پختو محاورے “ ، 
 " د برسوات تاریخ“ اور ” دغہ زمونگ کلے دے "(وجہ تسمیہ )  شامل ہیں ـ جب کہ تخلیقی کتابوں میں ” د سیند پہ غاڑہ تگے “ ، " د میگو کوٹگئی " اور یونائیٹڈ نیشنل الائنس ( کتابچہ ) شامل ہیں ۔ موصوف کی دو کتابیں ” آدم ذاد “ اور  " کفن کش “ زیر طباعت ہیں ۔ 

قارئین ! وکیل حکیم زے کےلئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے پشتو نصاب میں شامل کتاب
” د پختونخواہ لنڈہ مطالعہ “ میں باچا خان ، عبدالولی خان ، غنی  خان ، عبد الصمد خان شہید اور دیگر پختون رہنماؤں کے ساتھ موصوف (وکیل حکیم زے) کا نام بھی شامل ہے ۔ اسی وجہ سے باچا خان یونیو رسٹی کے سال 2018ء کے امتحانات میں وکیل حکیم زے کی شخصیت پر ایک سوال پرچہ کا حصہ تھا ۔ وکیل حکیم زے کی تحقیقی کتاب ” پختو محاورے “ مقابلوں کی امتحان میں بھی شامل ہے ۔

قارئین ! ان تمام تر تحریر کا خلاصہ نامور ادیب اتل افغاؔن  کے تاثرات میں کچھ یوں ملتا ہے ، " وکیل حکیم زے صاحب ایک قابل وکیل اور منجھے ہوئے قلم کار ہیں ۔ پشتون قوم پرست اور غیر طبقاتی سیاست کے حامی و پیامبر رہے ہیں ۔ میں ان کو 2007ء سے جانتا ہوں ، اس دراز عرصے میں ، میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا ، اور پایا کہ آپ انتہائی مہمان نواز ، نفیس ، قول و فعل کا پکا ، کم خوراک ، شکل و صورت میں جناح کے ثانی ، انتہائی صابر و شاکر ، بردبار ، شفیق اور نماز و روزہ کے پابند شخصیت کے مالک ہیں ۔ ناول ، تاریخ اور تحقیق کے میدانوں میں پشتو زبان و ادب کےلئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ، جس کی بناء پر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک پشتو زبان رہے گی ، تب تک ان کا نام کسی نہ کسی حوالے سے زندہ رہے گا ۔ سال بھر سفید کپڑوں اور کالے کوٹ میں ملبوس اس شخصیت کے ہاتھ میں سرخ تسبیح اور جیب میں سرخ پین ضرور نظر آتا ہے ۔ ان تیرہ سالوں میں ، میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ، ان سے متاثر رہا اور ان کو اپنا استاد کہنے پر فخر محسوس کرتا ہوں ۔ 

غرض یہ کہ موصوف سیاسی ، ادبی اور سماجی حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہے ۔ زندگی میں ایسا مقام بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے انسان ہمہ وقت شہرت اور عزت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتاہے ۔ لیکن معاشرتی مقام اور عزت ان لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو اَن تھک محنت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر سماجی منصب حاصل کرتا ہے ۔ جیسا کہ موصوف نےاپنا سب کچھ داؤں پر لگا دیا مگر پشتو اور پشتونولی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
 جاتے جاتے بس یہی دعا ہے اللہ تعالیٰ ایسے مخلص انسانوں کو لمبی زندگی دیں ۔ آمین 
  
                                                    تحریر : اخترحسین ابدالؔی 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں