کثیرالمعنی عربی زبان کا لفظ " خط " مژدہ ، تحریر ، مراسلہ ، رقم ، سندیسہ ، مکتوب اور ملفوظہ کی معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جس کے لکھنے والے کو مکتوب نگار ، کاتب ، محرر ، منشی ، اور راقم کہتے ہیں ۔ مزید براں جس کی کتابت کی جائے مکتوبی اور جس کے نام خط لکھا جائے مکتوب الیہ کہلاتا ہے جبکہ دونوں کے درمیان خبر پہنچانے والا ڈاکیہ ، ہرکارہ ، سندیسو ، ایلچی یا پیامبر کہلاتا ہے ۔
خط کا سابقہ تاریخ کافی طویل ہے ۔ قدیم میخی رسم الخط میں مکتوب نگاری ہوتی تھی ۔ پیغمبر مبعوث اور فلسطین کے عالی شان بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شہر سبا کی ملکہ بلقیس ( جو بعد میں ایمان لاکر سلیمان علیہ السلام کی زوجہ بنی ) کو خط بھیجا ۔ اس طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو تبلیغی خطوط بھیجے ۔ اولیائے کرام کے ملفوظات اور مکتوبات اگر چہ مراسلے نہیں تھے لیکن ان کی تحاریر چیلوں اور مریدوں کے کام ضرور آتی تھی ۔ خط محضر میں فرمان شاہی بھیجا جاتا تھا ۔ جبکہ خفیہ نویسی جس میں پوشیدہ طور پر تحریر کے ذریعے مخبری اور جاسوسی کی جاتی تھی اور خفیہ اطلاع بھی دی جاتی تھی ۔ کاروباری خطوط کا رواج بھی عام تھا ۔
اس طرح دوست ، احباب اور رشتہ داروں کے خطوط بھی پرانے زمانے سے لکھے جاتے ہیں ۔یوں مسلسل پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رکھنے کےلئے پرانے زمانے میں لمبی مسافت کے درمیان گھوڑوں اور گھڑسواروں کے بدلنے کےلئے چوکیاں قائم کئے جاتے تھے ۔ شیر شاہ سوری کے دور میں چار ہزار گھوڑے اس کام پر مامور تھے ۔ یہ کام کسی زمانے میں کبوتروں سے بھی لیا جاتا تھا ۔ خط نے باقی دنیا کی طرح برصغیر کے طول و عرض پر بھی اثر ڈالا تھا ۔ خط یہاں پردیسیوں کا مژدہ ، دوستوں کی خبرگیری اور محبت کی اظہار کا وسیلہ بن گیا تھا ۔گوکہ بعد میں تار اور فکس خط کی ترقی یافتہ شکل ثابت ہوئی لیکن خط کی اہمیت پھر بھی اپنی جگہ مسلّم تھی۔
خطوط نویسی کی بدولت ایک عام لکھاری کی وقعت کسی طرح کم نہ تھی ۔ اسے خط پڑھوانے کےلئے بڑے اہتمام سے گھر بلایا جاتا تھا ۔ خوب خاطر تواضع کی جاتی تھی ۔ جس کے بعد وہ مکتوبی کی ہر بات بشمول ضمیمہ سطح قرطاس پر لے آتا تھا ۔ لکھنے کے دوران ہر سطر بار بار اس سے پڑھوایا جاتا تھا ۔ جس سے مکتوب نگار کےلئے مشکل بھی پیدا ہوجاتی تھی ۔ خاص کر اس وقت جب مکتوبی کوئی خاتون ہوتی ۔ ایسی خاتون اکثر مکتوب الیہ سے جھگڑا کرتی ہوتی پاتی ہوجاتی تھی ۔ کھبی کھبار تو مکتوب نگار یہ سمجھتا کہ مکتوبی ان سے لڑ رہی ہے ۔ تاہم وہ لکھنے کےلئے مجبور ہوتا تھا ۔ کیونکہ خطوط لکھوانا رازداری کا کام تھا ۔ جبھی تو بااعتماد لوگوں سے لکھوایا جاتا تھا ۔
ایسے مکتوب نگاری میں کم فہم کاتب کی شامت آجاتی تھی خاص کر جب ان سے گھریلوں مصروفیات کی باتیں لکھوائی جاتی تھیں یا پشتو زبان میں خط لکھوایا جاتا تھا ۔
خط میں لفافے کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ خط مکتوب الیہ کو مل جائے ۔ خدانخواستہ اگر لفافہ بیچ میں کہیں کھل جاتا تو چھٹی کے مضمون کا بھید فاش ہوجاتا تھا ۔ اس طرح اس پر پتہ لکھنے کا خاص اہتمام ہوتا تھا ۔اگر کہیں غلطی ہوجاتی تو خط کثرت کے ڈبے سے برآمد ہوتا ۔ اس قسم کے خطوط پر فقط " دادا جان کو ملے " لکھا ہوتا تھا ۔ اس طرح نام کی یکسانیت سے اکثر ادیب کا خط گوالا کے گھر جاتا اور گولے کا ادیب کے گھر ۔
بعض لوگ جب بیجھنے میں عجلت سے کام لیتے تھے ۔ اس لیے وہ رجسٹری کرکے خط بھیجتے یا اگر زیادہ جلدی ہوتی تو بغیر ٹکٹ کے بھیجتے اور اس سے زیادہ جلد باز لوگ تو خط پہنچنے سے پہلے خود پہنچ جاتے تھے ۔ جس طرح مشتاق احمد یوسفی کے مضمون میں حاجی اورنگزیب خان نے کیا تھا ۔
اس نے پشاور پوسٹ آفس میں بشارت کے خلاف قانونی نوٹس رجسٹرڈ کرائی ۔ پھر سامان باندھا اور نوٹس موصول ہونے سے تین دن پہلے کراچی پہنچے ۔ جب خط اس کی موجودگی میں موصول ہوا تو اس نے ڈاکیے کے ہاتھ سے چھینا ، نوٹس نکال کر پھاڑ دیا اور لفافہ بشارت کو تھمادیا ۔
ایک عمر رسیدہ خاتون ڈاکخانہ میں خط ڈال رہی تھی ۔ اپنے گاوں کی مرزا صاحب نے ان سے پوچھا " ابئی " آواز دیے بغیر خط ڈالا ، اس طرح خط تھوڑا یہ پہنچتا ہے ۔ جس کے بعد بوڑھی عورت نے " خط درغلو " کی آواز لگائی ۔ مرزا صاحب بولا آواز مدھم ہے میں نے یہاں نہیں سنی ، پردیس میں تیرا بیٹا خاک سنے گا ۔ جس کے بعد خاتون بے چاری کی چیخیں دور تک سنائی دی ۔
1970ء کے بعد جب تعلیم عام ہونا شروع ہوئی تو خط نے رومان کی راہ اپنالی ۔ شعراء اور فلم انڈسٹری نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ایسے میں جب صنم کی یاد آتی تو یہ گیت گائی جاتی " ہم نے صنم کو خط لکھا " یا " خط میں نے تیرے نام لکھا " وطن کی یاد " چھٹی آئی ہے وطن سے چھٹی آیی ہے " سے وابستہ ہوگئی تھی ۔ جدائی کی شدت میں " چھٹی میرے سیاں جی کے نام لکھ دے حال میرے دل کا تمام لکھ دے " یا " اے منشی زما لالی تہ ولیکہ چیٹئی " جیسی گیت نوک قلم پر لائی جاتے تھے ۔ خط پر خوشی کا اظہار کیا جاتا تو " خط مے راغلے د جانان دے سہ یہ پکے لیکلی دی " کی گیت منظر عام پر آتی ۔ سن دو ہزار تک شوبز اور ادب میں خط ایک عام سی بات تھی ۔ مثلاً وصی شاہ کا یہ شعر ادب میں خط کا غماز ہے۔
اسی انداز میں ہوتے تھے مخاطب مجھ سے
خط کسی اور کو لکھوں گے تو یاد آؤں گا
بعد میں خط کی معنی بدل گئی جیسے وطن اور زبان سے والہانہ محبت کی خاطر ایسی گیت سامنے آئی " ماتہ خطونہ پہ پختو کے لیکہ " ۔
خط کے طویل تاریخی سفر میں ادبی خطوط نے بھی خود کو منوایا ہے ۔ خطوط غالب نے مراسلے کو مکالمہ بنا کر آدھی ملاقات کے تصور کو یکسر بدل ڈالا ہے ۔ مکتوب نگاری دلچسپی کی چیز ثابت ہوئی ہے جو نہ صرف قلمی دوستی کے موجب بنی ہے بلکہ سماجی رابطوں کے اظہار کا وسیلہ بھی ۔ خط حقیقی زندگی کے تمام تر معاملات اور معمولات پر اثر انداز تھا ۔ ساتھ ہی اس میں راز و نیاز کی باتیں ، عشق انگیز کیفیت کا ابھار ، معشوقیت اور عشاق کے گلے شکوے بھی ہوتے تھے ۔ اس طرح خط ارسال کرنے کی خواہش میں ڈاکیے کو یوں مخاطب کیا جاتا تھا " اے ڈاکی خطونہ می جانان لہ یوسہ " لیکن ایسے خطوط کی ترسیل میں بعض دفعہ رجز و توبیخ اور بدنامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا ۔ تبھی تو اکثر لوگ لڑکیوں کو سکول بھیجنے کے حق میں نہیں تھے ۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ سکول میں لڑکیاں مکتوب نگاری سیکھ کر کہیں انتہائی قدم نہ اٹھائے ۔ حلانکہ خطوط نویسی ادیب کا نقطہ آغاز ہوتا ہے ۔
راقم الحرف جیسے نا چیز لکھاری خط سے ہی میدان میں کود پڑا ہے ۔ پس خط ادب کی راہ ہموار کرتا ہے ۔ جس کا رواج آج کل جدت پسندی کے وجہ سے کم ہورہا ہے ۔ بلکہ ناپید ہوچکا ہے ۔ کیونکہ تیز ترین مواصلاتی نظام نے مراسلوں کا طریقہ بدل ڈالا ہے ۔ جس سے خبر رسانی بہت تیز اور آسان ہوچکی ہے ۔ تا ہم خط کی اہمیت پھر بھی مسلّم ہے ۔
قارئین ! جاتے جاتے چند ٹپے ملاحظہ ہو ۔
پہ انتظار کی بہ دی اوسم
ستا د شیرینی خلے بہ سہ جواب رازینہ
گوتی قلم تہ پہ جڑا شوی
زہ بہ دلی یم تہ بہ وکڑی دیدنونہ
تحریر : ساجد ابو تلتان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں