منگل، 23 جولائی، 2019

کھودا پہاڑ ، نکلا چوہا



ہر گزرتے دن کیساتھ روپے کی قدر میں کمی ، بجلی ، گیس سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے سبب ہونے والی کمرتوڑ مہنگائی نے غریب اور متوسط طبقے کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔

 روز بروز بڑھتی غربت و مہنگائی کی وجہ سے لوگ افسردہ نظر آرہے ہیں اور حالات سے تنگ آ کر خودکشی تک کرنے پر مجبور ہیں ۔

 اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ روز یعنی 16 جولائی کو مرکزی بینک نے بھی ائندہ دو ماہ کےلئے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے مہنگائی کی صورتحال کے پیش نظر شرح سود میں ایک فیصد مزید اضافہ کردیا ہے ۔ جس کی وجہ سے شرح سود 25 . 13 کی بلند سطح پر جا پہنچی ۔ 

گورنر سٹیٹ بینک کی مطابق ملک میں 9. 36  فیصد غذائی قلت کے شکار گھرانوں میں سے 3. 18 فیصد کو سنگین غذائی قلت کا سامنا ہے ۔ 

 دوسری طرف روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے اور انٹر بینک میں ڈالر کی قدر 164 روپے کی نئی بلند ترین سطح تک جا پہنچی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 165 روپے کا ہو گیا ہے ۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج بھی کریش کر گیا ہے ۔

قارئین!  کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی وجہ سے روپے کی قدر میں مزید کمی کرنا ہوگی ، اور حکومت نے روپے کی قدر یکدم کم کرنے کی بجائے ڈالر آہستہ آہستہ مزید مہنگا کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جبکہ یکم اگست سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا مزید اضافہ بھی ملک میں گرانی کے نئے طوفان کا باعث بنے گا ۔

پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے لیے مہنگائی اور گرانی کی موجودہ صورتحال باعث تشویش ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت اور پرانے سیاسی چہرے بھیس بدل کر نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں ، تو عوام پاکستان نئی قیادت سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے انتخابات سے قبل بڑے بڑے دعوے کئے گئے ، آئی ایم ایف کے پاس جانے والوں کو فقیر کہا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آتے ہی دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی ۔ لیکن ، ہم نماز بخشوانے گئیں تھیں ، روزے گلے پڑھ گیئں والی صورتحال نے جنم لے لیا ۔ 

قرضوں میں ڈوبی قوم کو جب عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار ختم کرنے کے خواب دکھائے تو قوم کو ان کے روپ میں ایک مسیحا نظر آیا ۔ پاکستانی قوم نئے پاکستان میں سنہرے دور کے خواب دیکھنے لگی اور عمران خان سے خوشحالی کی نہ جانے کتنی توقعات وابستہ کرلیں ، غربت و مہنگائی کے خاتمے کے لئے نہ جانے کتنی امیدیں باندھ لیں ۔

اب تبدیلی سرکار کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے اس میں کردار سے زیادہ گفتار سے کام لیا جا رہا ہے اور بر سر اقتدار آنے کے بعد سے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے اور اپوزیشن جماعتوں پر کڑی تنقید کی حکمت عملی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ 

جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج مہنگائی و بے روز گاری اور ملکی قرضوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باوجود موجودہ حکمران بھی پرانے حکومتوں کی طرح کشکول تھامے آئی ایم ایف کے در پے ہیں۔ 

جبکہ ڈالرکی مسلسل اڑان کی وجہ سے عام عوام کی زندگی روزِ روشن کی طرح اجیرن بن گئی اور ان کے مشکلات مزیدبڑھ گئیں ہیں ۔ اب چین نے بھی 2 ارب 10 کروڑ ڈالر پاکستان کو بھیج دئیے ہیں ، اس سے پہلے سعودی عرب ، قطر اور ورلڈ بنک سے بھی امدا د مل چکی ہے ۔ اگر دیکھاجائے تو پاکستان کو لگ بھگ دس ارب ڈالر مل چکے ہیں ۔ جبکہ پاکستان سے جمع ہونے والا ریونیو بھی کھربوں روپے ہوتا ہے ۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک اتنی رقم اکٹھا ہونے کے باوجود پورا ملک نحوست کے بادلوں میں گھرا ہوا ہے ۔ اورحکومت نے نئے ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کو مخبوط الحواس بنا دیا ہے ، مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب ہر شخص پریشان اور مضطرب ہے جبکہ ملک میں ترقیاتی کام بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ 

اگر مملکت خداداد میں اقتصادی بحران ہے تو وزراء ماہانہ لاکھوں تنخواہ کیوں لیتے ہیں ، وفاقی و صوبائی وزراء کروڑوں روپے مالیت کی نئی لگژری گاڑیاں کیوں خرید رہے ہیں ، ایوان صدر میں 19 لاکھ روپے ایک طوطے کی پنجرے کےلئے کیوں مختص کئے گئے ، وزیراعظم ڈیوٹی پر جانے کےلئے گاڑی کے بجائے ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کر رہے ہیں ، خیبر پختون خوا میں صوبائی وزراء کو سرکاری ہیلی کاپٹر  کی استعمال کی اجازت کیوں دی گئی ۔ اسی طرح بے شمار سوالات کے جوابات عوام مانگ رہے ہیں ۔ 

ان حالات میں قوم سوال کررہی ہے کہ آخر پیسہ کہاں جارہا ہے ، حکومت کیوں اب تک ڈالر کی قیمت کنٹرول نہ کرپائی جو کہ مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے ۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عوام پاکستان سے معاشی و اقتصادی ترقی کے جو بلند و بالا وعدے اور دعوے کرتے رہے ہیں ، اب برسراقتدار آنے کے بعد ان کے برعکس اقدامات اٹھا تے دکھائی دیتے ہیں ، جو ان کے قول و فعل میں تضاد کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ گزشتہ حکمران جماعتوں نے بھی ایسا قتل عام نہیں کیا جیسا کہ اس حکومت میں کیا جارہا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تبدیلی سرکار اپنے وعدوں کو پوراکرتی اورعوام کوریلیف فراہم کیا جاتا مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ریلیف کی بجائے عوام کو تکلیف دی جارہی ہے ۔

موجودہ حکومتی اقدامات سے غریب عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں ۔ جس سے لوگوں میں مایوسی پھیل چکی ہے ، آج عوام کو کسی بھی قسم کاکوئی ریلیف میسر نہیں ۔ بلند و بانگ دعوؤں کے برعکس ڈالر ، گیس ، بجلی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا ، اس صورتحال پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اس نوع کے فیصلے کرنے میں اسحاق ڈار تو کہیں بہت پیچھے رہ گئے ، اسد عمر رفتار اور قد میں ان سے بہت آگے نکل گئے ہیں ، اور اب مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ ان دونوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنے مرضی کے فیصلے کرتے ہیں جو غریب عوام کےلئے کسی سونامی سے کم نہیں ۔ اگر موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی تو اس کوعوامی مسائل میں اضافہ کرنے کابھی کوئی حق حاصل نہیں ۔

 اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے کہیں بہتر تھی ۔

ملک کے سیاسی حالات بھی کچھ اچھے نہیں ، پاکستان کو آگے بڑھانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا ہی فرض ہے ـ لیکن کلیدی کردار ہمیشہ برسراقتدارسیاسی طبقے کا ہی ہوتا ہے ۔ حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپوزیشن کو گلے سے لگانا اور یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کو بلندی کی طرف لے جانے کےلئے حکومت کو اپوزیشن کے متحرک کردار کی ضرورت ہے ۔ لیکن حکومت آئے روز نئی نئی ٹویٹ کر کے اپوزیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ 

بلاشبہ معاشی استحکام براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے ، وزیراعظم عمران خان کو علم ہونا چاہئے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ۔

آج پاکستان معاشی طورپر ایک نازک موڑ پر آن کھڑا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کےلئے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے ۔ عام آدمی کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کی تدابیر وضع کیا جائے اور اسے من و عن اختیار کیا جائے ۔ غریب عوام کی بجائے اشرافیہ کو براہِ راست ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ 

اسمبلی کا ایک اجلاس جو عوام کو لاکھوں میں پڑھ رہا ہے ہمیشہ وفاقی وزراء کی زبان درازی کی وجہ سے مچھلی بازار بن جاتا ہے اور بغیر کسی کاروائی ملتوی کیا جاتا ہے ۔ لہذا عوام کی ٹیکس سے چلنے والے ایوان کےلئے سخت قوانین بنایا جائے ، تاکہ عوام کا پیسہ بجا خرچ ہوں ۔ تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز کے تنخواہوں اور مراعات کو کم سے کم کیا جائے ۔ بیرونی ممالک کی غیر ضروری دوروں پر پابندی لگایا جائے ۔ اور سب سے اہم بات کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت غریب عوام کے حالات زندگی بہتر بناناچاہتی ہے تو اسے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل کر ملکی وسائل پر انحصار کرنا ہوگا ، کیونکہ قرضے حاصل کرنے والے ممالک نہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑے تھے ، نہ کھڑے ہیں اور نہ کھبی ہونگے ۔ 
              
                                  
                                                 تحریر : اختر حسین ابدالؔی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں