جمعرات، 31 اکتوبر، 2019

نوبل پرائز کیسے شروع ہوا ۔۔۔۔؟



نوبل انعام کا بانی الفریڈ نوبل تھا ۔ الفرڈ نوبل 21 اکتوبر ، 1833ء کو سویڈن میں انجنیئر کے خاندان میں پیدا ہوئے ، لیکن انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ روس میں گزارا ۔ ڈائنامائٹ الفریڈ نوبل ہی نے ایجاد کیا ۔ اس کے علاوہ متعدد دوسری ایجادات کا سہرا بھی ان کے سر ہے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں  زمینوں ، ڈائنامائٹ اور دوسرے ایجادات سے بہت دولت کمائی ، اور مرنے سے دو سال قبل اس نے ایک آئرن اور اسٹیل مل خریدی ، جسے آپ نے ایک عظیم فیکٹری میں تبدیل کردیا اس نے اپنی زندگی میں تقریباً 355 ایجادات کیں جن میں سے سب سے اہم ایجاد ڈائنامائٹ ہے ۔

مرنے سے آٹھ سال قبل اس نے فرانس کے ایک اخبار میں اپنے مرنے کے بارے میں ایک آرٹیکل پڑھا جوکہ غلط تھا ، حقیقت میں اس کا بھائی وفات پا گیا تھا ، مگر اخبار نے اس کا نام لکھ دیا ، اس آرٹیکل نے نوبل کی زندگی کو یکسر بدل دیا کہ وہ مرنے کے بعد کیسے یاد رکھا جانا چاہتا ہے ۔ 

اس آرٹیکل کی وجہ سے اس نے ایک وصیت لکھ دیا تھا کہ اس کی تمام دولت تقریباً 150 ملین ڈالر ، اس کے مرنے کے بعد ان لوگوں کو دی جائے جو انسانیت کی خدمت کرنے میں کردار ادا کریں ، اور بالخصوص یہ دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے جنہوں نے گزشتہ سال کے دوران میں طبیعیات ، کیمیا ، طب ، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو ۔

آج اس کی دولت کا اندازہ تقریباً پچیس کروڑ ڈالر سے زائد ہے اس کی دولت میں سے ہر سال 90 لاکھ ڈالر نوبل پرائز جیتنے والوں کو اور دیگر اخراجات پر خرچ کیے جاتے ہیں اس کی دولت سو سال سے زائد گزرنے کے باوجود محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ نوبل کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10 دسمبر 1901ء کو منعقد ہوئی تھی ، تب سے یہ تقریب ہر سال اسی تاریخ کو ہوتی ہے ۔

بدھ، 30 اکتوبر، 2019

اپوزیشن کا احتجاج رنگ لے آیا ، وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑگیا



 اپوزیشن کا کئی دنوں سے جاری احتجاج رنگ لے آیا ، وزیر اعظم کو استعفی دینا پڑگیا ۔ 

کئی دنوں سے حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کا ملک گیر احتجاج جاری تھا ، جو بالآخر رنگ لے آیا ، اپوزیشن کے پور زور مطالبہ کی وجہ سے لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری نے استعفی دے دیا ۔

 

منگل، 29 اکتوبر، 2019

مولانا فضل الرحمن کی آزادی مارچ کا قافلہ چالیس کلومیٹر طویل



پنجاب کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ پیر اور منگل کی درمیانی شب جب پنجاب کی حدود سے گزر رہا تھا تو گاڑیوں کی قطاریں چالیس سے پچاس کلو میٹر طویل تھیں ، اور شرکا کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی ۔ 

سپیشل برانچ کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ لاہور پہنچے تک آزادی مارچ کے شرکا کی تعداد تین لاکھ تک پہنچ جائے گی کیونکہ ہر شہر سے ہزاروں نئے لوگ مارچ میں شامل ہو رہے ہیں ۔

رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اسلام آباد پہنچنے تک آزادی مارچ کے شرکا کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے ۔


العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل



اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دائر کی گئی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی سزا دو ماہ کےلئے معطل کردی ۔ 

درخواست ضمانت پر فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے نواز شریف کو طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں دو ماہ کی ضمانت دی گئی ۔

دوران ریمارکس عدالت کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف اپنے ضمانت میں توسیع کرنا چاہتے ہیں تو وہ دفعہ 401 کے تحت 08 ہفتوں کے اندر پنجاب حکومت سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ 


اتوار، 27 اکتوبر، 2019

فہرست عثمانی سلاطین



سلطنتِ عثمانیہ ایک عظیم مسلم سلطنت تھی جو 1299ء تا 1922ء تک تقریباً 623 سال تک قائم رہی ۔ یہ سب سے طویل عرصے تک قائم رہنے والی سب سے مضبوط اسلامی سلطنت تھی ۔ جو جنگِ عظیم اول کے بعد ختم ہو گئی ۔ اس سلطنت میں مجموعی طور 37 حکمران آئے ۔ آپ کچھ جگہ ان کی تعداد 34 اور کچھ جگہ 36 بھی پڑھیں گے . اس کی وجہ یہ ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی تحلیل 1909ء یعنی سلطان عبدالحمید دوم ( 34 ویں سلطان ) کے دور کے بعد سے شروع ہو گئی اور بہت سے ملک آزاد ہوئے ۔ اس طرح کچھ 34 لکھتے ہیں ، لیکن اس کے بعد مزید دو سلطان محمد پنجم اور محمد ششم آئے ، اور اس کے بعد سلطنت مکمل طور پر ختم ہو گئی ۔ بس ترکی میں خلافت کو باقی رکھا گیا ۔ اس طرح کچھ 36 لکھتے ہیں اور سلطان محمد ششم کو آخری سلطان کہتے ہیں ۔ لیکن آخری خلیفہ عبدالمجید دوم باقی تھے ۔ مگر دو سال بعد 1924 میں خلافت کو بھی ختم کر کے عبدالمجید دوم اور تمام آلِ عثمان کو جلاوطن کر دیا گیا ۔ یوں انکو 37واں حکمران کہا جاتا ہے ۔ عبدالمجید آفندی اسلام کے آخری خلیفہ ثابت ہوئے ۔ آپ صرف خلیفہ تھے کیوں کہ سلطنت تو ختم ہو چکی تھی ۔ عثمانیوں میں 29 خلیفہ تھے کیوں کہ ان کے پاس خلافت سلطان سلیم اول کے دور میں آئی ۔
تمام عثمانی سلاطین کی فہرست درج ذیل ہے :


1 : سلطان عثمان غازی ( Sultan Osman Ghazi )  
دور حکومت : 1299ء تا 1323ء
والد :  ارطغرل غازی ، والدہ : حلیمہ خاتون
پیدائش : نہیں پتا ، وفات : 1323ء


2 : سلطان اورخان غازی ( Sultan Orhan Ghazi )         
دور حکومت : 1323ء تا 1369ء
والد: سلطان عثمان غازی ، والدہ : مال خاتون
پیدائش : 1281ء ، وفات : مارچ 1369ء


3 : سلطان مراد اول ( Sultan Murat I )     
دور حکومت : مارچ 1369ء تا 14 جون 1389ء
والد : سلطان اورخان اول ، والدہ : نیلوفر خاتون
پیدائش : 29 جون 1326ء ، وفات: 15 جون 1389


4 : سلطان بایزید اول ( یلدرم ) ، ( Sultan Bayezid I )
دور حکومت: 15 جون 1389 تا 20 جولائی 1402
والد : سلطان مراد اول ، والدہ : گلچیچک خاتون
پیدائش : 1360ء ، وفات : 8 مارچ 1403ء

 1402ء میں جنگِ انقرہ ہوئی جو امیر تیمور اور بایزید یلدرم کے درمیان لڑی گئی ۔ سلطان بایزید کو شکست ہوئی ، اور وہ گرفتار ہو کر قید ہوئے ۔ بعد میں قید کے دوران ہی فوت ہوئے یوں سلطنت ایک بار ختم ہو گئی ، اور کئی سال 1413 تک بایزید کے بیٹوں میں خانہ جنگی چلتی رہی ۔ پھر سب سے چھوٹے بیٹے محمد چلپی نے سلطنت پر مکمل قبضہ کیا ۔ یوں یہ دوبارہ شروع ہوئی ۔


5 : سلطان محمد اول ( Sultan Mehmet I )        
دور حکومت : 5 جولائی 1413ء تا 26 مئی 1421ء  
والد : سلطان بایزید اول ، والدہ : دولت خاتون
پیدائش : 1381ء ، وفات : 26 مئی 1421ء


6 : سلطان مراد دوم ( Sultan Murat II )   
پہلا دورِ حکومت : 26 مئی 1421ء تا اگست 1444ء
دوسرا دورِ حکومت : ستمبر 1446ء تا 3 فروری 1451ء
والد : سلطان محمد اول ، والدہ : آمنہ خاتون
پیدائش : جون 1404ء ، وفات : 3 فروری 1451ء


7 : سلطان محمد فاتح ( Sultan Mehmet Fetih )
پہلا دورِ حکومت : اگست 1444ء تا ستمبر 1446ء
دوسرا دورِ حکومت : 3 فروری 1451ء تا 3 مئی 1481ء
وا د : سلطان مراد دوم ، والدہ : ہما خاتون
پیدائش : 30 مارچ 1432ء ، وفات : 3 مئی 1481ء


8 : سلطان بایزید دوم ( Sultan Bayezid II )
دورِ حکومت : 22 مئی 1481ء تا 24 اپریل 1512ء
والد : سلطان محمد دوم ، والدہ : امینہ گل بہار خاتون
پیدائش : 3 دسمبر 1447ء ، وفات : 26 مئی 1512ء


9 : سلطان سلیم اول  ( Sultan Selim I )
دورِ حکومت: 25 اپریل 1512ء تا 21 ستمبر 1520ء
والد : سلطان بایزید دوم ، والدہ : گل بہارخاتون
پیدائش : 1470ء ، وفات : ستمبر 1520ء


10 : سلطان سلیمان اول (القانونی) (Sultan Suleman I)
دورِ حکومت : 30 اپریل 1520ء تا 6 ستمبر 1566ء
والد : سلطان سلیم اول ، والدہ : عائشہ حفصہ سلطان
پیدائش : 6 نومبر 1494ء ، وفات : 6 ستمبر 1566ء


11 : سلطان سلیم دوم  (Sultan Selim II)
دورِ حکومت : 29 ستمبر 1566ء تا دسمبر 1574ء
والد : سلطان سلیمان ، والدہ : خرم سلطان (Hurrem Sultan)
پیدائش : 28 مئی 1524ء ، وفات : دسمبر 1574ء
ہ_______________________________________________
12 : سلطان مراد سوم  (Sultan Murat III)
دورِ حکومت : 22 دسمبر 1574ء تا 16 جنوری 1595ء
والد : سلطان سلیم دوم ، والدہ : نور بانو سلطان
پیدائش : 4 جولائی 1546ء ، وفات : 16 جنوری 1595ء
ہ_______________________________________________
13- سلطان محمد سوم       (Sultan Mehmet III)
دورِ حکومت: 27 جنوری 1595ء تا 20 دسمبر 1603ء
والد: سلطان مراد سوم         والدہ: صفیہ سلطان
پیدائش: 26 مئی 1566ء     وفات: 20 دسمبر 1603ء
ہ_______________________________________________
14- سلطان احمد اول        (Sultan Ahmet I)
دورِ حکومت: 21 دسمبر 1603ء تا 22 نومبر 1617ء
والد: سلطان محمد سوم:       والدہ: خاندان سلطان
پیدائش: 18 اپریل 1590ء    وفات: 22 نومبر 1617ء
ہ_______________________________________________
15- سلطان مصطفی اول     (Sultan Mustafa I)
پہلا دورِ حکومت: 22 نومبر 1617ء تا 26 فروری 1618ء
دوسرا دورِ حکومت: 20 مئی 1622ء تا 10 ستمبر 1623ء
والد: سلطان محمد سوم          والدہ: حلیمہ سلطان
پیدائش: 24 جون 1591ء       وفات: جنوری 1639ء
ہ_______________________________________________
16- سلطان عثمان دوم         (Sultan Osman II)
دورِ حکومت: 26 فروری 1618ء تا 19 مئی 1622ء
والد: سلطان احمد اول     والدہ: ماہ فیرزہ خدیجہ سلطان
پیدائش: 3 نومبر 1604ء        وفات: 20 مئی 1622ء
(ینی چری فوج کے ہاتھ قتل ہوئے)
ہ_______________________________________________
17- سلطان مراد چہارم       (Sultan Murat IV)
دورِ حکومت: 10 ستمبر 1623ء تا 8 یا 9 فروری 1640ء
والد: سلطان احمد اول             والدہ: کوسم سلطان
پیدائش: 26 جولائی 1612ء     وفات: 8 فروری 1640ء
ہ_______________________________________________
18- سلطان ابراہیم اول      (Sultan Ibrahim I)
دورِ حکومت: 9 فروری 1640ء تا 8 اگست 1648ء
والد: سلطان احمد اول        والدہ: کوسم سلطان
پیدائش: 5 نومبر 1615ء    وفات: 18 اگست 1648ء
(یہ بھی ینی چری فوج کے ہاتھ قتل ہوئے)
ہ_______________________________________________
19- سلطان محمد رابع      (Sultan Mehmet IV)
دورِ حکومت: 8 اگست 1648ء تا 8 نومبر 1687ء
والد: سلطان ابراہیم اول        والدہ: تورخان خدیجہ سلطان
پیدائش: 2 جنوری 1642ء    وفات: 6 جنوری 1693ء
ہ_______________________________________________
20- سلطان سلیمان دوم       (Sultan Suleman II)
دورِ حکومت: 8 نومبر 1687ء تا 22 جون 1691ء
والد: سلطان ابراہیم اول         والدہ: صالحہ دل آشوب سلطان
پیدائش: 15 اپریل 1642ء     وفات: 22 یا 23 جون 1691ء
ہ_______________________________________________
21- سلطان احمد دوم          (Sultan Ahmet II)
دورِ حکومت: 22 جون 1691ء تا 6 فروری 1695ء
والد: سلطان ابراہیم اول          والدہ: خدیجہ معزز سلطان
پیدائش: 25 فروری 1643ء    وفات: 6 فروری 1695ء
ہ_______________________________________________
22- سلطان مصطفی دوم      (Sultan Mustafa II)
دورِ حکومت: 6 فروری 1695ء تا 22 اگست 1703ء
والد: سلطان محمد چہارم       والدہ: رابعہ گلنوش سلطان
پیدائش: 6 فروری 1664ء    وفات: 29 یا 30 دسمبر 1703ء
ہ_______________________________________________
23- سلطان احمد سوم           (Sultan Ahmet III)
دورِ حکومت: 22 اگست 1703ء تا 1 اکتوبر 1730ء
والد: سلطان محمد چہارم        والدہ: رابعہ گلنوش سلطان
پیدائش: دسمبر 1673ء         وفات: 1 جولائی 1736ء
ہ_______________________________________________
24- سلطان محمود اول         (Sultan Mahmut I)
دورِ حکومت: 20 ستمبر 1730ء تا 13 دسمبر 1754ء
والد: سلطان مصطفی دوم       والدہ: صالحہ سلطان
پیدائش: 2 اگست 1996ء       وفات: 13 دسمبر 1754ء
ہ_______________________________________________
25- سلطان عثمان سوم         (Sultan Osman III)
دورِ حکومت: 13 دسمبر 1754ء تا 30 اکتوبر 1757ء
والد: سلطان مصطفی دوم       والدہ: شاہ سوار سلطان
پیدائش: جنوری 1699ء         وفات: 30 اکتوبر 1757ء
ہ_______________________________________________
26- سلطان مصطفی سوم      (Sultan Mustafa III)
دورِ حکومت: 30 اکتوبر 1757ء تا 21 جنوری 1774ء
والد: سلطان احمد سوم           والدہ: امینہ مہرِ شاہ سلطان
پیدائش: جنوری 1717ء         وفات: 21 جنوری 1774ء
ہ_______________________________________________
27- سلطان عبدالحمید اول      (Sultan Abdülhamit 1)
دورِ حکومت: 21 جنوری 1774ء تا 7 اپریل 1789ء
والد: سلطان احمد سوم           والدہ: رابعہ شرمی سلطان
پیدائش: 20 مارچ 1725ء       وفات: 7 اپریل 1789ء
ہ_______________________________________________
28- سلطان سلیم سوم          (Sultan Selim III) 
دورِ حکومت: 7 اپریل 1789ء تا 29 مئی 1807ء
والد:سلطان مصطفی سوم       والدہ: مہرِ شاہ سلطان
پیدائش: 24 دسمبر 1761ء    وفات: 28 جولائی 1808ء
_____________________________________________
29- سلطان مصطفی چہارم     (Sultan Mustafa IV)
دورِ حکومت: 29 مئی 1807ء تا 28 جولائی 1808ء
والد: سلطان عبدالحمید اول      والدہ: عائشہ سینہ پرور سلطان
پیدائش: 8 ستمبر 1779ء       وفات: 16 نومبر 1808ء
_____________________________________________
30- سلطان محمود دوم          (Sultan Mahmüt II)
دورِ حکومت: 28 جولائی 1808ء تا 1 جولائی 1839ء
والد: سلطان عبدالحمید اول       والدہ: نقشِ دل سلطان
پیدائش: 20 جولائی 1784ء     وفات: 1 جولائی 1739ء
_____________________________________________
31- سلطان عبدالمجید اول       (Sultan Abdülmecid I)
دورِ حکومت: 2 جولائی 1839ء تا 2 جون 1861ء
والد: سلطان محمود دوم       والدہ: بزمِ عالم سلطان
پیدائش: 25 اپریل 1823ء    وفات: 25 جون 1861ء
______________________________________________
32- سلطان عبدالعزیز             (Sultan Abdülaziz)
دورِ حکومت: 2 جون 1861ء تا 30 مئی 1876ء
والد: سلطان محمود دوم       والدہ: پریتو نیال سلطان
پیدائش: 9 فروری 1830ء    وفات: 4 جون 1876ء
_____________________________________________
33- سلطان مراد پنجم                 (Sultan Murad V)
دورِ حکومت: 30 مئی 1876ء تا 31 اگست 1876ء  (93 دن)
والد: سلطان عبدالمجید اول       والدہ: شوق افزا سلطان
پیدائش: 21 ستمبر 1740ء      وفات: 29 اگست 1904ء
_____________________________________________
34- سلطان عبدالحمید دوم         (Sultan Abdülhamit II)
دورِ حکومت: 31 اگست 1876ء تا 27 اپریل 1909ء
والد: سلطان عبدالمجید اول      والدہ: تیر مجگان سلطان
پیدائش: 21 ستمبر 1842ء     وفات: 10 فروری 1918ء
______________________________________________
35- سلطان محمد پنجم             (Sultan Mehmet V)
دورِ حکومت: 27 اپریل 1909ء تا 3 جولائی 1918ء
والد: سلطان عبدالمجید اول       والدہ: گل جمال کادین آفندی
پیدائش: 2 نومبر 1844ء         وفات: 3 جولائی 1918ء
_____________________________________________
36- سلطان محمد ششم            (Sultan Mehmet VI)
(ان کا مکمل نام "محمد وحید الدین" ہے)
دورِ حکومت: 3 جولائی تا 1 نومبر 1922ء
والد: سلطان عبدالمجید اول       والدہ: گلستان کادین آفندی
پیدائش: 14 جنوری 1862ء     وفات: 16 مئی 1926ء
_____________________________________________
یہاں عثمانی سلطنت ختم ہو گئی اور ترکی ایک علیحدہ ملک بنا اور مصطفی کمال کی حکومت شروع ہوئی. لیکن عبدالمجید دوم کو اسلام کے خلیفہ کے طور پر رکھا گیا. دو سال بعد اس خلافت کو بھی ختم کر دیا گیا.
______________________________________________

37- سلطان عبدالمجید دوم      (Sultan Abdülmecid II)
دورِ حکومت: 19 نومبر 1922ء تا 3 مارچ 1924ء
والد: سلطان عبدالعزیز           والدہ: خیران دل کادین آفندی
پیدائش: 30 مئی 1868ء      وفات: 23 اگست 1944ء ۔

ستائیس اکتوبر،کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب



ستائیس اکتوبر مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کشمیری عوام یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں ، کیونکہ یہ وہ سیاہ دن ہے جب ستائیس اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج نے سرینگر پر اترتے ہی کشمیریوں پر مظالم ، قتل عام اور جبری قبضے کا آغاز کیا تھا ۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ ویسے تو کشمیر میں راتوں کی تاریکی اور ظلمتوں کے اندھیرے دن کے اجالوں میں بھی جاری و ساری ہیں ۔

ماورائے عدالت قتل ، خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی ، بے گناہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم کرنا ، پُرامن لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جانا ، سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں و نظربندیاں اور معصوم بچوں کا پبلک سیفٹی ایکٹ اور دیگر کالے قوانین کا اطلاق بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ گزشتہ دو دہائیوں سے لاکھوں معصوم کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ہیں ۔

جمعہ، 25 اکتوبر، 2019

لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کرلی



لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرلی ۔ سابق وزیراعظم چار دن پہلے شدید بیمار ہوئے تھے ، پلیٹ لیٹس کی مقدار دو ہزار ہونے کی وجہ سے ان کو سروسز ہسپتال لاہور منتقل کیا گیا تھا ۔ 

کل ان کے بھائی میاں شہباز شریف نے لاہور ہائیکورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت کےلئے رجوع کی تھی ، عدالت نے کیس فوری سماعت کےلئے منظور کرتے ہوئے نیب اور ہسپتال انتظامیہ سے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا ۔

تمام فریقین آج عدالت میں پیش ہوئے ، تمام دلائل سننے کے بعد عدالت کے دو رکنی بنچ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرلی ۔ 


جمعرات، 24 اکتوبر، 2019

چاٹی ، متھانی اور لسی



 میں پیر آباد کراچی کے چاٹی ہوٹل کی بات ہرگز نہیں کررہا ، بلکہ اس چاٹی کو نوک قلم سے سطح قرطاس پر اتار رہا ہوں جس میں ہماری خواتین دودھ یا دہی کے خاص مقدار انڈھیلتی ، پھر اس دودھ اور دہی کو متھانی ( منڈاڑوں ) کے ذریعے بلو کر مکھن اور لسی بناتیں ۔ نکالی ہوئی چکنائی یعنی مکھن کو جلتی آگ پر جوش دیتیں اور گھی نکالتیں ۔ دودھ دہی اور پانی متھ کرنے کے بعد جو مفرح مشروب ( لسی ) رہ جاتا اسے روایتی خوراک کے طور پر گھر ، اڑوس پڑوس اور رشتے داروں کےلئے رکھتیں ۔ 

مٹی کے بنے ہوئے بڑے برتن چاٹی کو ایک ستون کے پاس رکھا جاتا ۔ چاٹی لڑھک نہ جائے ، اس مقصد کےلئے پیندے کے نیچے اینڈوا یا گردی رکھی جاتی ۔ اسی طرح نظر بد سے بچنے کےلئے چاٹی کے گلے میں وہ رسی باندھی جاتی جس میں سفید سیپی ، نیلا دانہ اور گھنگروں پروئے جاتے ۔ متھانی کا سرا ستون کے ساتھ ساتھ باندھا جاتا ۔ جس سے متھانی کا بیلنس برقرار رہتا ۔ چاٹی کے اوپر ایک سوراخ دار چپو رکھا جاتا ۔ جس میں متھانی 90 زاویہ میں رہتی ۔ چپو سے اوپر ایک اور رسی ہوتی جسے عموما "روگ " کہتے ہیں ۔ گھریلوں خاتون چاٹی کے سامنے ایک کھٹولے پر بیٹھ کر روگ ایک ہاتھ سے کھینچتی ، اور دوسرا ہاتھ آگے کی طرف ڈھیلا کرتی ۔ یہی لسی بلونے کا عمل تھا ، جسے ہم آج بجلی کے مدھانی یا ہاتھ کی متھانی سے کرتے ہیں ۔

قارئین ! دودھ ، دہی ، گھی اور لسی ہماری ثقافت کے اہم اجزا ہیں ۔ غریب سے غریب شخص بھی اپنے خستہ گھر میں بھینس پالتا ہے ۔ حسین احمد صادق کے جاناں کا خستہ گھر ، جو کچھ مٹی سے بنا ہے اور جسے جگہ جگہ دھوئیں نے کالا کیا ہے ۔ حسین احمد کی اس مشہور گیت کا ایک شعر ملاحظہ ہو :
میخہ لنگہ شوملی ڈیرے د یچکوڑے دہ کوچو ڈک دے 
نن بہ حلق زما غوڑ شی دا دہ ڈیرے مودے سپور دے 

دیہی معاشرے کی عورت ہر روز دودھ ، دہی ، لسی اور گھی سنبھالنے کا بندوبست کرتی ہے ۔ وہ دودھ کا برتن چولہے پر رکھ کر اسے جوش دیتی ہے ۔ جمانے کےلئے دودھ ہانڈی میں رکھتی ہیں ۔ جب ماستہ ( دہی ) تیار ہوتا ہے تو کچھ کھانے کےلئے الگ رکھتی ہے ۔ جب کہ زیادہ تر مکھن نکالنے کی خاطر چاٹی میں ڈالتی ہے ۔ بلونے کے بعد مکھن نکال کر دوسرے برتن میں رکھتی ہے ، جب کہ لسی چاٹی میں رہ جاتی ہے ۔ ڈاکٹر محمد نواز طائر نے ایک نظم " د ماشوم سحر " میں کیا خوب کہا ہے کہ ، 
پئی غوڑی شوملے د ابئی لاسونہ خواگہ کڑی دی 
پئی د نن سحر یہ بیا دوختہ پاخہ کڑی دی 

گھی اور چاٹی روایت کی رو سے نیک شگون ہے اس کا اندازہ فوک لور سے خوب لگایا جا سکتا ہے ۔ ہم احتراما غوڑ خان اور غوڑہ بی بی نام بھی رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ اس ٹپہ میں ہیں :
خپلہ     ابئی     ساڑہ     غوڑی     دی 
پردئی کی غوڑہ شی لڑمون بہ دی سیزینہ

یا ہم شیر خوار بچے کو جب پیروں پر اچالتے تھے تو کہتے تھے ۔ 
بامبلئی  غوڑ  چاٹی 
مور دی دہ مستو چاٹی 
پلار دی دہ شوملو چاٹی 

بچوں کو فوک لوری صوتوں میں دودھ لسی کا ذکر جگہ جگہ پایا جاتا ہے ۔ مثلاً 
نرئی  شوملے  شوم 
پہ دیوال توے شوم
یا    بہ    کہ    ابئی 
نشتہ کونڈئی  پئی 
چہ پکی ڈوبہ کڑم سینپئی 

پشتو زبان کی ایک کہاوت ہے " دا دل دی او دہ شوملو دہ غاڑی دی " ۔ اکبر علی آبشاؔر کہتے ہیں کہ ہمارے مردان میں لسی بال دھونے کےلئے بھی استعمال ہوتی تھی ۔ ہم نے ہندو مذہب میں دودھ سے دھونے اور نہلانے  کی بات سنی تھی ۔ شاید ہندوستان سے ذیادہ نزدیک ہونے کی وجہ سے پشتون بھی دودھ دہی بطور شگون استعمال کرتے تھے ۔ جبھی تو ہم بارش تھم جانے کی خاطر " سپین مخے تور مخے " میں آٹا گھروں سے مانگتے ہوئے یہ صوت کہتے :
پہ شوملو یہ لامبہ وی 
پہ غوڑو یہ  غوڑہ  وی 
یا   بہ   کہ   گوگوشتو 
دومرہ    غوڑی    نشتہ 
چہ پری ڈونگہ غوڑہ کڑو 

لسی گرمیوں کی تپتی دھوپ میں پیاز کی گھٹا اور چاول میں اوگرہ  بنا کر بہترین خوراک تھی ، اور غنودگی لانے میں بھی معاون تھی ۔ لسی متھنے کے دوران ماں کا بچوں کی روٹی پر مکھن رکھنا ، جوانوں کا لسی پیتے وقت مونچھوں میں مکھن کے چھوٹے چھوٹے قتلوں کا پھنس جانا اور جسے تاو دے کر جوان شان بے نیازی میں چکنائی سے مونچھ کو چمکاتے ۔ کیا عجیب منظر تھا ۔ دیسی گھی مقامی تجارت کا اہم جز تھا ۔ ملاکنڈ کے پولیٹیکل ایجنٹ مہک موہن 1900 میں برآمد شدہ گھی کی قیمت ساڑھے اٹھارہ لاکھ بتاتے ہیں ۔ دیسی گھی مقامی طور پر بننے والے ڈبوں میں برآمد کیا جاتا تھا ۔ گویا ڈبے بنانے والے ڈبگروں کا کام بھی خوب چلتا تھا ۔ لسی ، مکھن اور دیسی گھی کے پیڑے سے مہمانوں کی ضیافت کی جاتی تھیں ۔ لیکن جہاں انگریز بہادر مقامی صنعتوں کی تباہی پر تلا ہوا تھا وہاں اس نے دیسی گھی کی خلاف ایک خطرناک مہم چلائی ۔ وہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ڈرامے منعقد کرتے اور سیگریٹ ، لیپٹن چائے اور ڈالڈا کی تشہیر کرتے ۔ 

صحافت اور تعلقات عامہ کے طلبہ کو خوب معلوم ہوگا کہ لسی پینے والوں کو کھانستے ہوئے تھیڑ میں سکھایا جاتا ۔ اور جب وہ ایک گھونٹ چائے کا چسکا لگاتا تو فورا تازہ دم ہوجاتا ۔ اس طرح اداکار ایک لطیفہ کہتا کہ " لسی پینے والے شخص کے گھر چور نہیں جاتا کیونکہ لسی پینے والا ساری رات کھانستا رہتا ہے ۔ چور یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ گھر والا جاگ رہا ہے ۔ اس لئے کھانسنے سے لسی پینے والا چوروں سے بچ جاتا ہے "۔

بے شک انگریز چائے اور ڈالڈا متعارف کرانے میں کامیاب ہوا ۔ لیکن برسوں سے رائج لسی کی روایت ختم نہ کرسکے ۔ آج بھی پنجاب کے نواحات میں لسی مرغوب غذا ہے ۔ یہ مشروب بازاروں میں بھی عام ہے گویا یہ مشروب دیہاتوں سے زیادہ شہروں کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ وہ وقت دور نہیں جب بہت جلد یہ ہمارے قومی مشروب گنے کی رس کی جگہ لے لے گی ۔ کیوں کہ پہلے تو مکھن کی وجہ سے ہمیں لسی فری میں مل جاتی لیکن اب لسی فرمائش پر تیار کی جاتی ہے ۔ لسی کی اہمیت جب بڑھ رہی تھی تو بعض لوگ گھروں میں بھی لسی کا بھرا لوٹا فروخت کرنے لگے ۔ غرض یہ کہ چاٹی ، متھانی ، مکھن ، دودھ ، دہی ، گھی اور لسی ثقافت کے اہم اجزا ہیں ۔ 
آخرمیں موضوع سے متعلق چند ٹپے ملاحظہ ہو :

وڑہ کوچیانو لہ مے ورکڑئی 
چکئی چکئی ماستہ بہ خورم لویہ بہ شمہ 

جینئی دہ برہ بانڈے راغلہ 
پہ تور سالو یہ شوملو لاری کڑی دینہ 

مور یہ پہ چم کے شوملے غواڑی 
لور یہ پہ چم کے میلمانہ راگرزہ وینہ
 

                                     تحریر : ساجد ابو تلتان 



چوبیس اکتوبر ، پولیو سے حفاظت کا عالمی دن



پولیو سے حفاظت کا عالمی دن ہر سال 24 اکتوبر کومنایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر عالمی ادارہ صحت ، محکمہ صحت ، اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور صحت کے شعبہ میں خدمات سر انجام دینے والی این جی اوز کے زیر اہتمام مختلف شہروں میں کانفرنسز ، ورکشاپس ، مذاکروں اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔

اس وقت دنیا میں صرف 4 ممالک میں پولیو کا مرض باقی رہ گیا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ لہٰذا معاشرے کے تمام طبقات کو مل کر اس عزم کا اعادہ کرنا ہو گا کہ پاکستان کوپولیو فری بنانے کےلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں ۔


بدھ، 23 اکتوبر، 2019

پی سی بی نے ٹی ٹین لیگ میں شامل کھلاڑیوں کے این او سی منسوخ کردیے



پاکستان کرکٹ بورڈ کا بڑا فیصلہ ، ٹی ٹین کے متنازعہ لیگ سے بچنے کےلئے تمام پاکستانی پلیئرز کی این او سی منسوخ کردیے گئے ۔ 

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے ٹی ٹین لیگ میں شامل 16 پاکستانی کھلاڑیوں کے این او سی منسوخ کردیے گئے ۔ 

ذرائع کے مطابق ٹی ٹین لیگ میں شامل تمام کھلاڑی اب اس لیگ میں حصہ نہیں لینگے ، کیونکہ ٹی ٹین لیگ میچ فکسنگ کی وجہ سے شدید متنازعہ ہے ۔ 

ٹی ٹین لیگ کے زیادہ تر شئیر بھارتی مالکان کے ہیں جن کے خلاف آئی سی سی نے بھی تحقیقات کا آغاز کیا ہے ۔ اسی وجہ سے بورڈ نے اس متنازعہ لیگ سے بچنے کےلئے یہ قدم اٹھائی ، اور تمام کھلاڑیوں کے این او سی منسوخ کرتے ہوئے ان کو اس متنازعہ لیگ سے دور رہنے کی ہدایت کی ۔

حکومت کا جے یو آئی کو آزادی مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ



وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو آزادی مارچ منعقد کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرلیا ۔

اس بات کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کے بعد کیا ۔ واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں بنائی گئی مذاکراتی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی اور اپوزیشن کے آزادی مارچ پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔

اس اہم ملاقات کے بعد حکومت کی طرف سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ جمہوری نظریات کو برقرار رکھنے کے اپنے پختہ یقین کے ساتھ حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں میں تشریح کیے گئے آئین و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے مجوزہ آزادی مارچ کیا جاتا ہے تو اس کی اجازت دی جائے گی ۔

ادھر ڈان نیوز ٹی وی کو ترجمان وزیراعظم ہاؤس نے بتایا کہ وزیراعظم احتجاج کے جمہوری حق پر یقین رکھتے ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مظاہرین کو اس وقت تک احتجاج کی اجازت ہوگی جب تک وہ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماضی کے فیصلوں کی روشنی میں شہریوں کی روز مرہ زندگی متاثر نہ ہو ، تاہم جہاں ایک طرف اپوزیشن کو آزادی مارچ کی اجازت دی گئی ہے تو وہی اسلام آباد پولیس نے مظاہرین کو ریڈ زون میں پہنچنے سے روکنے کےلئے حساس علاقوں کو کنٹینرز منگوالیے ہیں ۔

بڑا سیاسی دھماکہ ، کپتان استعفیٰ دینے کو تیار۔۔۔



جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کےلئے آزادی مارچ ٹائپ دھرنے کا اعلان کر دیا گیا ، اس بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھونے کےلئے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی مشروط اور غیر مشروط طور پر تقریباً مولانا کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکے ہیں ، اس حوالے سے جمعیت کے اہم رہنماء بھی میدان میں آگئے ہیں اور ایسا دعویٰ کر دیا ہے کہ پاکستانی ورطہ حیرت میں ڈوب گئے ۔

 تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنماء شاہ اویس نوارانی نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومت مولانا کو نہیں پکڑ سکتے ، ان میں اتنا دم ہی نہیں ہے ، یہ نواز شریف سے ڈیل کےلئے پس پردہ منتیں کر رہے ہیں ، عمران خان نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اپنی جگہ شاہ محمود قریشی کو لانا چاہتے ہیں لیکن اس سب میں جہانگیر ترین نہیں مان رہے اور وہ اڑے ہوئے ہیں ۔ 





پیر، 21 اکتوبر، 2019

مچھلی اور دودھ ایک ساتھ کھانے سے کیا ہوتا ہے ۔۔۔؟



ماہرین غذائیت کے مطابق مچھلی اور دودھ کےایک ساتھ استعمال سے کسی قسم کے نقصان کی سائنسی یا طبی طور پر کوئی دلیل نہیں ملتی ، یہ صرف ایک کہانی ہے ، ان دو کھانے کی اشیاء کا بیک وقت استعمال سے نقصان صرف ایک صورت ہو سکتا ہے کہ مچھلی یا دودھ میں سے کسی ایک سے الرجی ہو ۔

ماہرین کے مطابق اگر دونوں کی غذائیت اور افادیت کو دیکھا جائے تومچھلی اور دودھ دونوں ہی ہائی پروٹین اور مکمل غذائیں ہیں ، کسی بھی بیماری کے بعد کمزوری سے نجات پانے کےلئے ان کا ایک ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں غذاؤں کو صحیح طریقے سے پکا کر کھایا جائے ، اگر مچھلی کچی رہ گئی یا دودھ مناسب طریقے سے ابال کر نہ استعمال کیا جائے تو انفیکشن کا خطرہ بڑ ھ جاتا ہے ، جس میں خارش یا غذا کا ہضم نہ ہونا شامل ہے ۔

مچھلی کھانے کے بعد دودھ کا استعمال قطعاً خطرناک نہیں ، مگر ان دونوں غذاؤں کا استعمال صحت کےلئے کچھ خاص نہیں جانا جاتا ، خاص طور پر اُن کے لیے جن کا معدہ یا قوتِ مدافعت کمزور ہو ۔

بدھ، 16 اکتوبر، 2019

16 اکتوبر ، پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب



سولہ اکتوبر1951 کا دن تھا ۔ وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسۂ عام سے خطاب کرنا تھا ۔ اوائل سرما کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے ۔ ان کےاستقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا ۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا ۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی ۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا ۔

مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے ۔ وزیراعظم نے ابھی "برادران ملت" کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے ۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیراعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں ۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی ۔ وزیرِاعظم گر پڑے ۔ فضا میں مائیکرو فون کی گونج لحظہ بھر کو معلق رہی ۔ 

پھر تحکمانہ لہجے میں پشتو جملہ سنائی دیا " دا چا ڈزے او کڑے؟ اولہ "۔
 یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی جس نے پشتو میں حکم دیا تھا کہ گولی کس نے چلائی ۔۔۔؟ مارو اسے ۔۔۔ 

نو سیکنڈ بعد نائن ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ویورلے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے ۔ اگلے پندرہ سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے ۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا ۔ اسکا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا ۔ 

وزیراعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے ۔ وزیر برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی ۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا ۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے ۔

لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پُراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے ۔ لیاقت علی خان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس سیاست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی ۔ قتل کے محرکات ، سازشیوں کے نام اور واقعات کا تانا بانا شکوک و شبہات کی گہری دھند میں لپٹے ہوئے ہیں ۔

غرض یہ کہ لیاقت علی خان کو " شہید ملت " اور " حسن ملت " کے القابات سے تو نوازا گیا ، لیکن اتنے بڑے واقعے کا آج تک کوئی تحقیقات نہ ہوئی اور یہ مسلئہ آج تک ایک معمہ ہیں ۔ 

16 اکتوبر ، خوراک کا عالمی دن



عالمی خوراک کے مسئلے سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنے ، بھوک ، ناقص غذا اور غربت کے خلاف جدوجہد میں اتحاد کو مستحکم کرنے کےلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 16 اکتوبر کو خوراک کا عالمی دن منایا جا تا ہے ۔ جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے ۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں مختلف تقریبات و سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے ۔

 دنیا بھر میں 117 ممالک ایسے ہیں جو خوراک کی کمی کا شکار ہے ۔ 

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 80 کروڑ سے زیادہ افراد بھوکا پیٹ رہنے پر مجبور ہیں اور ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہیں جو خوراک پیدا کرنے اور زرعی صنعت سے وابستہ ہیں ۔ 

   گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان میں بھی 28.5 فیصد لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہے ۔ مذکورہ انڈیکس کے فہرست میں 117 ممالک شامل ہیں ، جن میں پاکستان 94 ویں نمبر پر ہے ۔  

منگل، 15 اکتوبر، 2019

ایک کروڑ نوکریاں دینے والے نوکریاں دینے سے ہی مکر گئے



وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ لوگ نوکریوں کےلئے حکومت کی طرف نہ دیکھیں ۔ حکومت تو چار سو اداروں کو ختم کررہی ہیں ۔ 

اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نوکری دینا حکومت کا نہیں ، نجی سیکٹر کا کام ہے ۔ لیکن لوگ اب بھی حکومت سے نوکریاں مانگ رہے ہیں ۔  

70 کی دہائی میں حکومت نوکریاں دیتے تھے ۔ اب ایسا نہیں ، کیوں کہ حکومت صرف ماحول پیدا کرتا ہے اور نوکری دینا نجی شعبے کا کام ہے ۔

اتوار، 13 اکتوبر، 2019

ڈینگی بخار اور اس کی علامات



ملک میں اس سال ڈینگی وائرس کے ہزاروں کیس رپورٹ ہوئے اور کئی لوگ اپنی جان سے گئے ۔ یہ مرض کیسے پھیلتا ہے اور اس کی علامات کیا ہیں ؟

 آیئے جانتے ہیں :
ڈینگی ایک مخصوص مادہ مچھرکے کاٹنے سےہوتا ہے ۔ متاثرہ شخص تیزبخار میں مبتلا ہوسکتا ہے ، اس کے جسم میں درد ہوتا ہے اورسرخ دھبے بھی پڑسکتے ہیں ۔

ماہرین صحت کے مطابق ڈینگی کے مرض میں مبتلا 80 فیصد افراد کو ہسپتال میں علاج کی ضرورت نہیں ہوتی اور ان کا علاج گھر پر ممکن ہے ۔

ڈاکٹر احمد زیب " فوکل پرسن ڈینگی خیبر پختونخوا " کے مطابق ڈینگی مچھر صبح روشنی ہونے سے پہلے اور شام میں اندھیرا ہونے سے 2 گھنٹے قبل زیادہ متحرک ہوتا ہے ۔

اس کی افزائش اگست سے اکتوبر کے مہینے کے دوران میں ہوتی ہے ۔ سردموسم میں ڈینگی کی افزائش نسل رک جاتی ہے ۔

ڈاکٹر الیاس خان ، ماہر امراض میڈسن کا کہنا ہے کہ ڈینگی کا مرض مچھر کے ذریعے مریض سے کسی بھی دوسرے شخص کو منتقل ہوسکتا ہے ۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ مرض میں مبتلا مریضوں کے خون میں پلیٹیٹس کی تعداد 50 ہزار سے کم ہونے لگے تو وہ علاج کےلئے فوری ہسپتال جائیں ۔


باغبانی ذہنی تناؤ اور بےچینی دور کرنے کےلئے موثر



گھر سے باہر باغیچے اور لان میں وقت گزارنے سے دماغی اور نفسیاتی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اسی تناظر میں سوئزرلینڈ سمیت کئی ممالک میں ڈاکٹر بھی مریضوں کو پرفضا اور سرسبز مقام پر وقت گزارنے کا مشورہ نسخے کے طور پر لکھ کر دے رہے ہیں ۔ اسے اب سبز نسخہ کا نام دیا گیا ہے ۔ 

اس سے قبل ماہرین ایک تحقیق میں کہہ چکے ہیں کہ اگر ہفتے میں دو گھنٹے سبزے میں گزارے جائیں تو اس کے مجموعی صحت اور بدن پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اسی طرح خود برطانیہ اور یورپ میں بھی ڈاکٹر لوگوں کو گھر سے باہر وقت گزارنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔

باغبانی کے فوائد :
دوسری جانب گھر کے باغ میں چھوٹی موٹی سبزیاں اگا کر انہیں تازہ استعمال کرنا بھی صحت کے لیے مفید ہے ۔ باغبانی اور انسانی صحت کے متعلق ہل یونیورسٹی آف سسٹم اسٹڈیز نے باغبانی کرنے والے افراد یا اس سے دور رہنے والے لوگوں کا ایک سال تک مطالعہ کیا ہے ۔ باغبانی سے ایک جانب اگر بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے ، تو دوسری جانب صرف سبزے کو دیکھتے رہنے سے بھی دل و دماغ پر مثبت اثر ہوتا ہے ۔ اس تحقیق کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ باغبانی کی جسمانی مشقت ایک جانب تو جسم کےلئے ورزش کا کام کرتی ہے ۔ دوسری جانب یہ لوگوں میں سکون کی وجہ بنتی ہے ۔

غرض یہ کہ باغبانی بے چینی اور ذہنی تناؤ کو کم کرتی ہے اور کئی طرح سے دماغی صحت کےلئے بہت اچھا عمل ہے ۔

جمعہ، 11 اکتوبر، 2019

اڑو کے طبی فوائد



 آڑو کو عربی میں خوخ ، فارسی اور سندھی میں شفتالو جبکہ انگریزی میں Peach کہا جاتا ہے ۔ 

آڑو کی دو اقسام ہوتی ہیں ۔ ایک چپٹا اور دوسرا لمبا گول مخروطی شکل کا ۔ اس کا رنگ سبز قدرے سرخی مائل ہوتا ہے جبکہ اس کا ذائقہ شیریں اور مزاج سرد اور تر دوسرے درجے میں ہوتا ہے ۔ اس کی مقدار خوراک سات دانہ تک ہے ، اس کے حسب ذیل فوائد ہیں ۔

آڑو کے اجزا میں کاربوہائیڈریٹس ، پروٹین ، وٹامن اے اور سی ، کیلشیم ، فولاد اور فاسفورس شامل ہیں ۔ مقوی معدہ اور جگر ہے ۔ خون کے جوش کو کم کرتا ہے ۔ پیاس کو تسکین دیتا ہے ۔ ذیابیطس ، صفراوی بخار میں مفید ہے ۔ 

اس کی گٹھلی کا روغن بواسیر ، کان کے درد اور بہرے پن میں مفید ہے ۔ کان درد کی صورت میں مذکورہ روغن کےصرف دو قطرے کافی ہیں ۔ پیٹ کے کیڑے ختم کرنے کےلئے اس کے پتوں کو رگڑ کر ، چھان کر پلانے سے فائدہ ہوتا ہے ۔

آڑو کا رس دانتوں پر ملنے سے دانت مضبوط ہوتے ہیں ۔ آڑو کے استعمال سے گرمی کا بخار ٹھیک ہو جاتا ہے ۔ آڑو ہرنیا کے ابتدائی مرض میں بے حد مفید ہے ۔ دو تولہ آڑو کے پتے پانی میں جوش دے کر دو تولہ شہد ملا کر دن میں تین بار پینے سے ہرنیا وہیں رک سکتا ہے ۔ منہ کی بدبو کو دور کرتا ہے ۔ آڑو مصفی خون ، مقوی معدہ ، مقوی جگر اور مقوی طحال ہوتا ہے ۔ آڑو کے گودے کی چٹنی بھی بنائی جاتی ہے جو بے حد لذیذ ہوتی ہے ۔ آڑو کے اڑھائی پتے اور ایک کالی مرچ کو رگڑ کر پینے سے پرانے سے پرانا بخار بھی دور ہو سکتا ہے ۔ 

آڑو گرم اور بلغمی مزاج والوں کیلئے بالخصوص مفید ہے ۔ آڑو کے پتے تین تولہ اور پانی ڈھائی تولہ رگڑ کر اس شخص کو پلانے سے جسے سانپ چاند کے چاند یا پھر پورے سال بعد کاٹتا ہو اس عذاب سے نجات دلانے میں مفید ہے ۔ دماغ کی گرمی کو دور کرتا ہے ۔ اس میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پھل ہمیشہ پکا ہوا اور تازہ کھانا چاہیے ۔ سرد مزاج والوں کیلئے یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ بعض اوقات اس سے فالج،  لقوہ ، رعشہ اور اعصابی کمزوری کا احتمال ہوتا ہے لہٰذا سرد مزاج والے اسے احتیاط سے استعمال کریں ۔
                        
                                                  تحریر: حکیم محمد رشید

انتخابی وعدے پورے نہ کرنے پر عوام کا مئیر کو انوکھی سزا ، خواتین کے کپڑے پہنا کر سڑکوں پر گھمادیا



 میکسیکو کے ایک قصبے میں عوام نے انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدے پورے نہ کرنے پر میئر کو انوکھی سزا دیتے ہوئے انہیں زنانہ لباس پہنا دیا اور چار دن تک انہیں سڑکوں پر گھمایا ۔

میئر کی بہانے بازیوں سے تنگ عوام نے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے ان کی درگت بنا ڈالی ۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی دنیا بھر کے لوگوں نے اس عمل کو سراہا اور ہر جگہ کرپٹ حکمرانوں کو ایسی ہی سزا دینے کا مطالبہ کردیا ۔

 میڈیا رپورٹس کے مطابق سان انڈریاس پیورٹو ریکو کے میئر جاویر جیمنیز نے وعدہ کیا تھا کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد علاقے میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام بہتر بنائیں گے ، تاہم بعد میں انہوں نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا ۔ 

میئر کی بہانے بازیوں سے تنگ عوام نے میئر کے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور میئر اور میونسپل کمیٹی کے عہدیدار کو عورتوں والے کپڑے پہنا دئیے اور انہیں چار دن تک قصبے کی سڑکوں پر گھمایا ۔ سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر کے لوگوں نے اس عمل کو سراہا اور ہر جگہ کرپٹ حکمرانوں کو ایسی ہی سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔

جمعرات، 10 اکتوبر، 2019

اِک شخص دلربا سا



جب میں نے اپنے استادِ محترم ساجد ابو تلتان صاحب کے توسط سے خیرالحکیم المعروف وکیل حکیم زئی صاحب سے ملاقات کی ، اور ان کی سیاسی و ادبی خدمات پر اپنے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو مقالے کا جامہ پہنایا ۔ تو میرا ان سے روحانی رشتہ سا پیدا ہوگیا ، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً ان سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا ، اور یوں میرا اور وکیل حکیم زے صاحب کے ملنے کا سلسلہ بڑھتا گیا ۔ 

ابو تلتان صاحب سے میں نے وکیل حکیم زے صاحب کے چھوٹے بھائی پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے صاحب کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا ، لیکن ملاقات کی شرف حاصل نہیں ہوا تھا ۔ عیدالضحیٰ کے دوسرے دن وکیل حکیم زے کو عید کی مبارکباد دینے کےلئے ایک دوست کے ہمراہ ان کے حجرہ برہ درشخیلہ پہنچ گیا ، تو گیٹ میں داخل ہوتے ہی حکیم زے برادران کے ارد گرد ایک ہجوم دیکھا ۔ وکیل حکیم زے صاحب کو عید کی مبارک باد دی ، اور باچا لالا کی جانب بڑھا ، تو انہوں نے پہل کرتے ہوئے مجھے عید کی مبارک باد دی ۔ یہ تھی میری ان سے پہلی ملاقات کی ایک مختصر سی کہانی ، جس میں انہوں نے میری ایسی سواگت کی ، جیسے ہماری برسوں سے جان پہچان ہو  ۔ ایسا برتاؤ اپنے سے بڑی عمر کے شخص کا پہلے بار دیکھا ۔ گیٹ میں دیکھتے ہی اپنی نشست سے اٹھ کر مجھے گلے ملے تھے ۔ ملتے ہی مجھے میرے نام سے پُکارا ۔ مجھے اپنے کانوں پر بالکل یقین نہ آیا ۔ لیکن جب باتیں شروع ہوئیں ، تو آپ مجلس میں بیٹھے تمام افراد سے لاتعلق ہوکر اپنی تمام تر توجہ مجھ ہی پر مرکوز رکھی ۔ یہ برتاؤ دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ آپ میرے دیرینہ دوست ہیں ۔اسی وقت میں ان کا گرویدہ ہوا ۔ ان کی عالمانہ باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں ، لیکن گفتگو میں شائستگی اور روانی ایسی تھی کہ میرے فہم و فراست کے بند خانے کھلتے گئے اور مجھے ان کے ساتھ بیٹھنے کا اشتیاق بڑھتا گیا ۔ یہاں تک کہ میں نے ساجد ابو تلتان کی ہمراہ ان کے ساتھ ایک لمبی نشست کر ڈالی ، لیکن وقت گزرنے کا قطعاً احساس نہ ہوا ۔ واپسی پر جب گھر آیا تو دل میں ٹھان لی کہ مذکورہ نشست کی روشنی میں ان کی ذات کے حوالہ سے کچھ نہ کچھ سپرد قلم کرکے ہی رہوں گا ۔ آج اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہے ، اسلئے موصوف پر قلم اٹھانے کی جسارت کرتا ہوں ۔ 
  
  اللہ تعالیٰ کریم ذات ہے ، اس نے اگر ایک طرف وادی سوات کو خوشگوار آب و ہوا اور قدرتی حسن دیا ہے ، تو دوسری طرف مختلف شعبہ ہائے زندگی کی عظیم شخصیات اس مٹی کو عطاء کیں ہیں ۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درشخیلہ سے تعلق رکھنے والے نامور مفکر ، مؤرخ ، ماہر لسانیات ، ادیب ، شاعر اور کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے صاحب بھی ہیں ۔ ان سے ملاقات کرنے کے بعد جو کچھ میرے پلے پڑا ، وہ یوں  ہے :

آپ کا قد متوسط ، چھریرا بدن ، مخروطی انگلیاں ، کانوں میں رس گھولتی آواز ، سرخ رنگت جسے انکساری ، بردباری اور عمیق مطالعہ نے کسی حد تک سیاہی مائل کردی ہے ۔ جواں رہنے کا راز داڑھی چٹ کرنے میں ڈھونڈتے ہیں ، لیکن حقیقت میں گالوں اور جبڑوں کے درمیان سے گوشت غائب ہے ، اور یہ جگہ اندر دھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ ناک خاندانی شناخت کےلئے علامت کے ساتھ چہرے پر وجاہت لانے کےلئے کافی ہے ۔ کان نہ زیادہ اُبھرے نہ دھنسے ، نہ چھوٹے اور نہ بڑھے ہی ہیں ۔ سر کے بال بائیں ہاتھ سے کنگھی کرتے ہیں ۔ گویا پیشانی کی چمک رنگ آلود بالوں سے چھپانے کی کوشش میں ہوں ۔ آنکھیں پر جلالت ہونے کی دلیل ہے ، جس میں خوشی ، غم ، غصہ اور احسان مندی کی چمک مختلف اوقات میں آشکارا ہوتی رہتی ہے ۔ بھوئیں ، جو زیادہ گھنی نہیں ، آنکھوں کی پُرعظمت ہونے کا ثبوت ہے ۔ مناسب کالی مونچھیں ، جس میں ایک آدھ سفید بال اور منہ ٹھوڑی سمیت سر کی جسامت کے ساتھ مناسب ہیں ۔ لباس کے معاملے میں زیادہ سادہ ہیں اور نہ ہی فیشن ایبل ، لیکن اکثر واسکٹ کپڑوں سے میچنگ پسند کرتے ہیں ۔ 

   پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے صاحب 21 نومبر 1964ء کو تحصیل مٹہ کے گاؤں برہ درشخیلہ میں یوسف زئی قبیلے کے بوڈا خیل خاندان میں عبدالحکیم المعروف سور حکیم کے گھر میں پیدا ہوئے ۔

ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول برہ درشخیلہ سے حاصل کی ۔ حکیم زے صاحب نے 1982ء اور 1984ء میں جہانزیب کالج سے بالترتیب ایف اے اور بی اے کا امتحان پاس کیا ۔ ماسٹر ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ اسی طرح علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے پشتو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ جو سوات کی سطح پر پشتو میں پہلی پی ایچ ڈی تھی ۔ موصوف کی زندگی اور تعلیمی سفر بارے  آپ شہاب شعور کی کتاب ” ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے ( جوند او قلم ) “ مطالعہ کرسکتے ہیں ۔ 

قارئین ! حکیم زے صاحب کی صحت پر دشمن کو بھی ترس آئے گا لیکن خود ان کو اپنی صحت پر نہیں آتا ۔ حالانکہ وہ عالم ہیں اور اپنی صحت ہر کسی کو پیاری ہے ۔ گھنٹوں کسی علمی مسلئے پر بحث کرتے ہیں ۔ جب بندہ مطمئن ہوجاتا ہے تب اپنی بات منقطع کرتے ہیں ۔ محدود خوراک ، کم دانت اور سیگریٹ کی عادت بھی ان کی صحت خراب کرنے کی وجہ ہے ۔ حالانکہ وہ دودھ کو خاندانی غذا سمجھتے ہیں ۔ گھر میں بے تکلف کھانا کھاتے ہیں ۔ البتہ مہمان ہوجائے تو کھانا شاہانہ انداز میں تناول فرماتے ہیں ، اور اپنے مہمانوں کا خود تواضع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ دعوت پر جانے سے پہلے گھر میں کچھ نہ کچھ کھانا ان کا معمول ہے ۔ ہر خوراک کو اللہ کا نعمت تصور کرکے کھاتے ہیں ، کھانے پینے میں احتیاط ضرور کرتے ہیں ، مگر شک سے خالی ۔ جھبی تو سامنے پڑے خوراک میں کسی قسم کا نقص نہیں نکالتے ۔ البتہ گوبھی اور بینگن سے ازلی رقابت ہے ۔ 

پھلوں کا رسیاں ہیں ، ہر قسم کے پھل کھاتے ہیں ۔ بعض پھلوں کو کیلا سمجھ کر کھاتے ہیں ۔ جب تک پھل کے جسم سے چھلکے کا لباس نہیں اتارتے ، تب تک انہیں چھین نہیں آتا ۔

شاید چائے پینا شراب کی طرح حرام سمجھتا ہو ، یا اس بات کے ڈر سے کہ کہیں جنت میں چائے کی بینی بینی خوشبو سے محروم نہ ہوجائے ، ورنہ ایسی نفرت نہ کرتے ۔ البتہ مشروبات کو شوق سے پیتےہیں ۔ خاص کر پیپسی تو اتنا مرغوب ہے کہ جب مطالبہ کرتے ہیں یا دوسروں کو پلاتے ہیں تو کہتے ہیں ” تورے اوبہ بہ سکو “ ۔ ٹھنڈا شربت جب پیتے ہیں تو ایک گھونٹ کے بعد دوسرے ہاتھ سے جبڑے دباتے ہیں اور جب زیادہ ٹھنڈا ہو تو پیشانی یا کھوپڑی پکڑنے کی نوبت آتی ہے ۔ 

اس ساری صورتحال کا خلاصہ بزرگ ادیب اور شاعر روح الامین نایابؔ اپنے تاثرات میں کچھ یوں لکھتے ہیں: ” حکیم زے صاحب جتنے بڑے محقق اور عالم فاضل شخصیت کے حامل ہیں اتنے اچھے انسان بھی ہیں ۔ سادگی ان میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہے ۔ ان کا رہن سہن ، اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا سادگی کا ایک اعلی نمونہ ہے ۔ ملنے ملانے میں کمال تعلق و محبت رکھتے ہیں ۔ ان سے ایک بار ملنے سے برسوں کی شناسائی کا گمان ہوتا ہے “۔ 

حکیم زے صاحب سنجیدہ مجالس میں علمی گفتگو توجہ سے سنتے ہیں ۔ دوسروں کے رائے اور علمی براہین پر غور کرتے ہیں ۔ اس وقت تک انہیں سنتے ہیں جب بولنے والا سب کچھ کہہ دیتا ہے اور ان کے پاس بولنے کےلئے کچھ نہیں رہتا ۔ تب موصوف ان کے موقف کی تعریف کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان سے مخاطب ہوکر عامیانہ انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں : ” آپ بجا فرماتے ہیں ، میں آپ کے دلیل سے اتفاق کرتے ہوئے اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں “ ، اور اگر اختلاف کا پہلوں نکالنا مقصود ہو اور اس کے تناظر میں کسی فکر کی وضاحت کرنا چاہے تو فرماتے ہیں : ” آپ کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن اس حوالے سے میرا خیال تھوڑا مختلف ہے “۔

یہ فرمانے کے بعد جب تمام جزیات کے ساتھ ترتیب وار بحث شروع کرتے ہیں تو آخر تک سب لوگ ان کو سنتے ہیں ۔ اس ضمن میں مسئلہ سیاسی ہو یا مذہبی ، ادبی ہو یا سماجی ، تاریخی ہو یا جغرافیائی ، فلسفے کا ہو یا تصوف کا ، ہر میدان میں علم کا ایک چشمہ ہے جو رواں ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ جس کی مثال امجد علی سحابؔ کے تاثرات کچھ یوں ملتی ہیں :
” ان کی تاریخی حوالہ جات کی کیا کہیئے ۔ جس سے ان کے غیر معمولی مطالعہ کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ۔ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں اور اپنے سننے والے کو سیکھنے کی خاطر بہت کچھ دیتے ہیں “۔

عام اور بے تکلف مجالس میں گفتگو کا انداز بالکل بدل جاتا ہے ، طنز و مزاح کے ذیادہ قائل ہیں ۔ بڑے تو بڑے ہے چھوٹے بچے بھی ان سے مذاق کرتے رہتے ہیں ۔ خود سنتے ہیں ، دوسروں کو بھی سناتے ہیں ۔ اس وقت کسی کو یقین نہیں آتا کہ یہ صاحب بھی بلند پایہ علمی کتابوں کے خالق ہوسکتے ہیں ، لیکن حقیقت میں موصوف ایک درجن سے زائد کتب کا خالق ہے ۔ جس کی وضاحت ساجد ابو تلتان صاحب کے تاثرات میں کچھ یوں موجود ہے :
 ” 1996ء ایک ادب خیز تاریخ کی رو سے وہ خوش بخت سال تھا جس میں علم و ادب کے چمن میں ڈاکٹر صاحب کے روپ میں ایک خوشبو دار اور سایہ دار درخت مل گیا ۔ جن کی ادبی خوشبو اور تخلیقی رعنائیوں نے ایک درجن سے زائد کتب کی شکل میں شرف طباعت حاصل کی ہے “۔ 

طنز و مزاح کے بعد جب مجلس سنجیدہ ہوجاتی ہے تو فوراً متانت و سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں ۔ گویا ایک لمحہ پہلے جو مذاق ہورہا تھا وہ کوئی اور بندہ تھا ، اور یہ کوئی اور ہیں ۔ بلا کا حافظہ پایا جاتا ہے ، برسوں پرانی بات ان کو یاد ہوتی ہے ۔ اکثر کہتے ہیں یہ بات پہلے میں ایک دو دفعہ کہہ چکا ہوں ۔ یقیناً جتنی بار کہا ہو تمام جزیات کے ساتھ ان کو یاد بھی ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ مقام اور محل وقوع بھی بتاتے ہیں ۔ 

اس کے علاوہ آپ انتہائی حاضر جواب شخصیت ہیں ۔ ایک بار ایک اجنبی نے فون کیا اپنا نام فقیر بتایا تو آپ نے فوراً جواب دیتے ہوئے اپنا نام ملنگ ظاہر کیا ۔ اس طرح ان کے ظرافت کے بے شمار کہانیاں موجود ہیں ۔ آپ جذباتی ہیں نہ آپ کو گھبراہٹ محسوس ہوتی ہیں ۔ لیکن زلزلہ اور بچے کی بے ہوشی ان کے اوسان خطا کرتے ہیں ۔ فطری محبت خاص کر ماں سے متعلق کچھ پڑھتے یا سنتے ہوئے جذباتی ہوتے ہیں ۔ 

موضوع ، موقع محل ، حاضرین مجلس کی علمی سطح اور ان کے طبع مذاق دیکھ کر بات کرتے ہیں ۔ ہر معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بہتر نتائج نکالتے ہیں ۔ 

  قارئین ! یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران حکیم زے صاحب میں سیاست کا جذبہ بیدار ہوا تھا اور یوں انہوں نے ”پختون سٹوڈنٹس ارگنائزیشن “ کی پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا ۔ اس وقت ان کے بڑے بھائی وکیل حکیم زے صاحب مزدور کسان پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے منصب پر فائز تھے ۔ 

1999ء میں آپ کے بڑے بھائی وکیل حکیم زے نے ایک قوم پرست ہونے کے ناتے” افغان نیشنل پارٹی “ تشکیل دے دی ۔ اسی لئے موصوف نے مذکورہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہوئے عملی سیاست میں کود پڑے ۔ 

آپ نے 2002ء کے جنرل الیکشن میں صوبائی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا ، لیکن ایم ایم اے کی ہوا چلنے کی وجہ سے آپ کو کامیابی نہ ملی ۔ اسی طرح آپ 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل درشخیلہ سے ناظم کی حیثیت سے میدان میں اترے ، لیکن کامیاب نہ ہوئے ۔

  قارئین ! آپ سیاسی و ادبی اجتماعات اور الیکشن کمپئن میں ایسی پُرجوش اور  ولولہ انگیز خطاب کرتے کہ لوگ حیران ہوجاتے ۔ اس قابلِ رشک کیفیت کو ساجد ابو تلتان صاحب اپنی مضمون میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں : ” آپ کی برجستہ تحریر اور شستہ تقریر کو ہر جگہ پذیرائی حاصل ہے “۔ 

اس کے علاوہ حکیم زے صاحب ایک بہترین محقق اور لکھاری ہیں ، جنہوں نے اب تک 13 کتب لکھے ہیں اور ان کےلئے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ان کی تین تصانیف باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے پشتو نصاب میں شامل ہیں ۔

 ان کی تحقیقی کتابوں میں دہ اخون میاں داد دیوان ، زیرے ، دہ دوست محمد خان دوستی گنجتہ الگویری ، میاں قاسم بابا ، سرتورفقیر ، دہ میاں حمداللہ فقیر خیل کلام اور سوات میں انتہا پسندی کے چند محرکات ( اردو ) شامل ہیں ۔

جبکہ تخلیقی کتابوں میں دہ حق چغہ ، پشتون ولی اور دہ پختونخواہ لنڈہ مطالعہ شامل ہیں ۔ اسی طرح موصوف نے افسانوں کی بھی دو کتابیں لکھی ہیں جن میں د ملالئی ٹپہ اور دہ مزے غوسول غواڑی شامل ہیں ۔ 

باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے شعبہ پشتو کے طالب علم آپ کے لیکچرز سے مستفید ہورہے ہیں ۔ موجودہ رہائش حیات آباد پشاور میں رکھتے ہیں ، جہاں فارغ اوقات میں ادبی مجالس ، ٹیلی ویژن انٹرویوز اور دوستوں سے ملنے جاتے ہیں ۔  

تخلیق و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ، لیکن جب مناسب موصوع نہیں ملتا ، تو قلم اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ البتہ ادیبوں اور شعراء کی سرپرستی خوب کرتے ہیں ، ان کی کتب پر دیباچے اور تاثرات قلمبند کرتے ہیں ۔ 

اس کے علاوہ مختلف ادبی تنظیمیں آپ کو ادبی مجالس میں صدر اور مہمانِ خصوصی کے طور پر بلاتے ہیں ۔ خاص کر مشال ادبی و ثقافتی ٹولنہ (تنظیم) اور سوات ادبی تڑون کو موصوف کی سرپرستی کا شرف حاصل ہے ۔

جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر دے ، تاکہ آپ علم و ادب کے گلستان کی آبیاری اس طرح جاری رکھ سکیں ، آمین ۔

                                                تحریر : اختر حسین ابدالؔی

تشدد



د تشدد د نوم اخيستو سره د انسان خيال وهلو ټکولو اړخ ته لاړ شي او څنګه به نه ځي مونږ خو هم وهلو ټکولو ته تشدد وايو خو تاسو ته معلومه نه ده چې د جسماني تشدد نه ذهني تشدد زيات زيان رسونکې دې زکه جسماني تشدد خو په وجود اوشي او د څه وخته پورې په انسان تکليف وي خو ذهني تشدد انسان د کاره اوباسي او په قلاره قلاره يې محرومئ او مايوسئ اړخ ته بيايي چې انجام يې د ژوند نه لاس وينځل او ځان پخپله وژل جوړ شي .

نن سبا د تشدد په اړه د ښځو په هقله وئنا ګانې زياتې کيږي چې ښځې د تشدد زياتې ښکار دي ويل کيږي چې د ښځو سره وهل ټکول کيږي، خبرې ورته اورول کيږي او قارېدل ورته کيږي او داسې غېر سرکاري تنظيمونه په دې حواله مهمونه هم چلوي خو دلته چا دې اړخ ته پام نه دې کړې چې د تشدد شروکېدل هم د ښځې د وجې کيږي او هغه داسې چې په کور کښې زيات تره هلکانو له توجه ورکولې کيږي او جينکو ته په هغه نظر نه کتلې کيږي .

تاسو به هم ليدلي وي چې ميېندې په کورونو کښې غوره شې ورونړو له د پاتې کولو ترغيب ورکوي او لور ته وائي ته سړه اوخوره نو دا د تشدد اغاز دې زکه ماشومان دوانړه دي خو دلته هلک غوره او جينئ  کينه شوه او دا دغه ماشومه جينئ محسوس کوي هم چې دا ورور مې خه او زه نا خه يم او داسې د ماشوموالي نه د محرومئ ښکار شي .

بل که د سکول معامله شي نو هلک به په خه شخصي سکول کښې داخلوي او جينئ به په سرکاري سکول کښې او يا به يې سکول ته هډو ليږي هم نه وائي به چې دې ته د تعليم ضرورت چرته بل د هلک په باره کښې به وخت په وخت تپوسونه کيږي خو په جينئ پسې هډو څوک نه ښکاره کيږي او دا به هم وائي چې دا خو د پردي کور ده بس دغه پوره وه نور سبقونه دې نه وائي خو د تعليم ضرورت جينئ ته زيات وي زکه تعليم يافته مور د بچو خسمانه خه او په برابرئ کولې شي چې د مستقبل کامياب خلق ترې جوړ کړي دې سره د تشدد او د هغې د نقصان نه هم خبر وي .

زما مقصد هډو دا نه دې چې زه د تشدد نه منکر يم يا په ښځو تشدد نه کيږي انسان چې وي نو تشدد به خامخا وي مونږ خپله هم د دې ښکار يو يا زمونږ د وجې نور خلق ښکار دي خو چې عدم تشدد وي او د برابرئ په بنياد باندې حق ورکړې شي نو ژوند پرامنه او د خوشالو وي او دا د مور نه جوړېږي بل دا هم پکار ده د بچي په تربيت کښې چې هغه ته اوخول شي چې خپله خبره کولې شي د دې فائده به دا وي چې دغه ماشوم به سبا خپل حق غوښتې شي د خپل حق تپوس به کولې شي که چرې ماشوم ته په تپوس يا خبره قار کيږي نو دغه ماشوم به تر د بوډا والي پورې خپل د زړه حال چاته اونه وائي .

بل که هلک څه غلطي اوکړي نو مور به يې پلار ته وائي چې ايبه هلک دې خو د جينئ سره د غلطئ ګنجائش د سره نه وي او که غلطي اوکړي هم نو بيا ورته پېغور شي او تر د مرګه پورې ورته هغه په ګوته کيږي .

راځئ چې د تشدد نه ډډه اوکړو هغه که په ښځه وي او که په سړي خو زيان يې يو شان وي او د دغه تشدد نه عدم تشدد جوړ کړو چې ژوند مو فراښه او د خوشالو خنداګانو ډک شي .

                                        لیک : عصمت علي اخون 

بدھ، 2 اکتوبر، 2019

02 اکتوبر عالمی یوم عدم تشدد



ہر سال 02 اکتوبر کو عالمی یوم عدم تشدد کے مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔ 

دنیا میں بہت سے لیڈر کو ان کے عدم تشدد کے فلسفہ کے وجہ سے جانا جاتا ہے ، جن میں عظیم پشتون قوم پرست سیاسی رہنماء ، سوشل ریفارمر ، بابائے امن ، خدائی خدمت گار تحریک کے بانی اور فلسفہ عدم تشدد کے پیکر خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان سرفہرست ہیں ۔ 

دنیا بھر میں ان کی فلسفہ پر مختلف سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ 
یاد رہے کہ باچا خان بابا کے فلسفہ عدم تشدد پر 06 پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی ہوچکے ہیں ۔



منگل، 1 اکتوبر، 2019

محسن داوڑ کا قومی اسمبلی میں دھواں دار خطاب



پاکستان کے قبائلی علاقے سے آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ سوچیں جب ریاست قتل بھی کرے اور مقدمہ بھی اسی پر درج کرے تو یہ ایکشن لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ ریاست ہماری نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر نہیں ہونا چاہئے کہ ریاست اپنے ہی شہریوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں۔ میں اپوزیشن کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے ہمارے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

محسن داوڑ نے خڑ کمر چیک پوسٹ واقعہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہب ”ہم نے جیسے ہی دوسرا بیریئر پار کیا تو پیچھے سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ جب لوگوں کو خون میں لت پت دیکھا تو پتہ چلا سیدھی گولی چلائی جا رہی ہے۔ ہمارے 15 ساتھی اس وقت جاں بحق ہوئے۔“

انہوں نے کہا کہ ہم نے 4 دن تک وہیں پر احتجاج کیا۔ ہم پر الزام لگا کہ ہم نے حملہ کیا ہے۔ جو ہمارے لوگ مارے گئے ان کی ایف آئی آر کس کے خلاف کاٹی گئی ہے۔

”محسن داوڑ اور علی وزیر پر ایک بھی گولی ثابت ہو جائے تو ہمیں ڈی چوک میں پھانسی دے دی جائے۔“

قومی اسمبلی اجلاس میں محسن داوڑ نے اپنی تقریر کا آغاز پشتو کے شعر سے کیا جس کا ترجمہ ہے کہ ہمارے ہاتھ مت باندھو ایک وقت آئے گا جب ایک ایک بات کا حساب ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے جو میرے بارے میں کہا ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ شاہد خاقان عباسی کا شکریہ جنہوں نے کہا کہ جب تک محسن داوڑ اور علی وزیر نہیں آتے میں بھی ایوان میں نہیں آؤں گا۔

  
محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ 25 مئی کو اطلاع ملی کہ سیکورٹی فورسز چند لوگوں کو اٹھا کر لے گئی ہے۔ سیکورٹی فورسز کے ساتھ معاہدہ تھا کہ سرچ آپریشن کے لیے علاقے کے عمائدین کو اعتماد میں لیں گے۔ ہم ایک احتجاج میں اپنے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گئے مگر یکدم ہمارے پیچھے سے فائرنگ ہوئی۔

فائرنگ کے نتیجے میں ہمارے 15 ساتھی اسی وقت شہید ہوئے 40 سے زائد زخمی ہوئے

علی وزیر کو اسی وقت گرفتار کیا کیا گیا جبکہ چار دن احتجاج کے بعد میں نے خود پولیس کو گرفتاری دی۔ ہم پر الزام لگا کہ ہم نے پہلے حملہ کیا۔

محسن داوڑ نے کہا کہ اس تمام دورانیے سے میڈیا سے سخت مایوسی ہوئی۔ میں جیل میں پڑا تھا تب ایک واقعے میں کچھ فوجی شہید ہوئے اس کی ایف آئی آر بھی ہمارے اوپر کاٹی گئی۔

وزیراعظم خود کہتے ہیں کہ القاعدہ اور دہشتگردوں کو ہم نے بنایا ہے۔ اگر ہم کچھ کہیں گے تو ہمارے اوپر ایک اور دہشتگردی کی دفعہ لگ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وزیر نے ہمارے بارے میں کہا کہ ان کی ریاست سے وفاداری مشکوک ہے۔ ہمیں کسی سے وفادرای کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں۔ جناب اسپیکر پروڈکشن آرڈر جای نہ ہونے کے باعث میں ایوان میں چار ماہ بعد آیا ہوں اب بات مکمل کرنے دیں۔

”ایس پی طاہر داوڑ قتل کیس میں ایوان میں چار بار کہا گیا کہ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے مگر کوئی پارلیمانی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔ اسپیکر صاحب، اگر پارلیمانی کمیٹی نہیں بنائی تو اپنے وزیر شہریار آفریدی کو سمجھائیں۔“