منگل، 22 دسمبر، 2020

حکومت پچھلے دو سالوں سے کورونا کی آڑ میں طلبہ کی مستقبل سے کھیل رہی ہیں، ایمل ولی خان


اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے دو سالوں سے وفاقی وزیر اپنی اختیارات سے تجاوز کرکے اس میں مداخلت کررہے ہیں

پشاور (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے باچا خان مرکز پشاور میں شہیدِ امن بشیر احمد بلور کی آٹھویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد انصاف کی دعوے دار حکومت پچھلے دو سالوں سے کورونا کی آڑ میں طلبہ کی مستقبل سے کھیل رہی ہیں، جو انتہائی مایوس کُن اور قابلِ مذمت فعل ہے۔  

اُنہوں نے کہا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے دو سالوں سے مرکز میں تعلیم کا وزير بار بار ماورائے آئین اقدامات کرتے ہوئے صوبوں کے اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ مرکزی حکومت کس قانون کی تحت پورے ملک میں یکساں نصابِ تعلیم کی بات کرتا ہے، اور صوبائی معاملات میں مداخلت کرکے تعلیمی ادارے بند کردیتے ہیں۔۔۔؟ 

اُن کا مزید کہنا تھا کہ پورے ملک میں ہر شعبہ ہائے زندگی معمولات کے مطابق چل رہا ہے، لیکن تعلیمی ادارے کورونا کی آڑ میں بند کرکے حکومت اپنی تعلیم دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ 

22 دسمبر، جب بشیر احمد بلور کو شہید کیا گیا


خیبر پختون خوا کی فضاؤں پر چھائے دہشت گردی کے خوف کا بہادری سے سامنا کرنے اور اس کے خلاف لڑتے ہوئے جان قربان کرنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر راہنما اور جُرأت مند سیاست دان بشیر احمد بلور کی آج آٹھویں برسی منائی جا رہی ہے۔

دہشت گردوں کے مسلسل چار بم حملوں میں محفوظ رہنے والے اے این پی کے راہنما بشیر احمد بلور 22 دسمبر 2012ء کو پشاور کے قصہ خوانی بازار میں انتخابی مہم کے دوران ایک خودکش حملے میں 09 ساتھیوں سمیت شہید ہوئے تھے، جن میں بشیر احمد بلور کے پرائیویٹ سیکرٹری نور محمد اور ایس ایچ او عبدالستار خٹک بھی شامل تھے۔ اس
حملے کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔ 

وہ اس بات پر مکمل ایمان رکھتے تھے کہ جو رات قبر میں ہے، وہ گھر میں نہیں گزارا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت سے پہلے اُنہوں نے کئی بار دہشت گرد قوتوں کو للکارا تھا اور وہ کہتے تھے کہ ”تمہاری گولیاں ختم ہو جائیں گی، لیکن ہمارے سینے ختم نہیں ہوں گے۔“ 


اے این پی سے تعلق رکھنے والے سینئر وزیر بشیر بلور کو پانچ بار پشاور کے عوام نے صوبائی اسمبلی تک پہنچانے کا اعزاز بخشا، اور اُنہوں نے بھی نمائندگی کا بھرپور حق ادا کیا۔ حکومتِ پاکستان نے اُن کو دلیری اور بہادری پر تمغۂ شجاعت سے بھی نوازا۔ 

2018 کی انتخابی مہم کے دوران بشیر احمد بلور شہید کے فرزند ہارون بشیر بلور بھی دہشت گردوں کا نشانہ بنے، لیکن یہ دلیر خاندان آج بھی اپنے اُصولوں پر ڈٹا ہوا ہے۔

اتوار، 22 نومبر، 2020

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی والدہ انتقال کرگئیں



لاہور (عصرنو) مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شمیم اختر کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ نواز اور شہباز کی والدہ شمیم اختر کا انتقال ہوا ہے

تفصیلات کی مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز  شریف اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی والدہ ماجدہ شمیم اختر انگلینڈ میں انتقال کرگئیں۔

ذرائع مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ شمیم اختر کی میت پاکستان لانے یا نہ لانے کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔

بدھ، 18 نومبر، 2020

ڈارک ویب پر بچوں فحش کے ویڈیوز اپلوڈ کرنے والے سہیل آیاز کو تین بار سزائے موت دینے کا حکم


راولپنڈی (عصرنو) ایڈیشنل اینڈ سیشن جج کی عدالت نے ڈارک ویب کیس میں بڑا فیصلہ سنا دیا، ڈارک ویب سائٹ چلانے والے سہیل ایاز کو 3 بار سزائے موت سنادی گئی۔ مجرم سہیل ایاز کو 3 بار عمر قید اور 55 لاکھ روپے جرمانہ کی بھی سزا سنائی گئی ہے جب کہ عدالت نے شریک مجرم خرم کو 77 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی سزا یافتہ ڈارک ویب چلانے والے سہیل ایاز کیس کا ڈراپ سین، عدالت کا فیصلہ آگیا۔ عدالت نے بچوں سے زیادتی اور وڈیوز بنانے والے مجرم سہیل ایاز کو تین بار  سزائے موت تین بار عمر قید اور پانچ لاکھ جرمانہ کی سزا سنا دی۔ ملزم کے ساتھی خرم کو سات سال قید ایک لاکھ جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ 

واضح رہے کہ سہیل ایاز نے سینکڑوں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی کی اور ان کی تصاویر اور وڈیوز ڈارک ویب پر نشر کی تھی۔ مجرم برطانیہ کے عدالت سے بھی چار سال کی سزا کاٹ چکا ہے۔ مجرم کی خلاف اٹلی میں بھی بچوں کے ساتھ زیادتی کا مقدمہ چلایا گیا تھا۔ سہیل ایاز کے متعلق برطانوی اخبار دی گارڈئین میں بھی گیارہ سال پہلے  تحقیقاتی خبر شائع ہوئی۔

یاد رہے کہ روات پولیس نے سہیل ایاز کو نجی ہاؤسنگ سوساٹئی سے گرفتار کیا تھا۔ راولپنڈی میں ملزم پر اغوا زیادتی اور ویڈیو بنانے کے تین  مقدمات درج تھے۔

جمعہ، 13 نومبر، 2020

تحریکِ انصاف کی ننواتے اور اے این پی کا بڑا پن


آج سے چند دن پہلے وفاقی وزیر برائے داخلہ اُمور بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”عوامی نیشنل پارٹی نے طالبان کی مخالفت کی، تو اُنہوں نے بلور کو مار دیا، میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے (میاں راشد حسین) کو مار دیا، اُن کے کارکنان کو مار دیا، یہ طالبان کی جانب سے ایک ری ایکشن تھا، اور اب جو لوگ نون لیگ کے بیانیے کا ساتھ دے رہے ہیں، اُن کو اللہ خیر کرے۔“

موصوف کی وائرل شدہ ویڈیو پر پوری پختون قوم اور بالخصوص عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین اور کارکنان کی طرف سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ صوبائی صدر اور ولی باغ کی سیاسی وارث ایمل ولی خان نے متنازعہ بیان پر اعجاز شاہ سے فوری طور پر مستعفی ہونے اور ریاست سے ایک غیر جانب دار تحقیقاتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ پہلے پہل حکومت یہ بات سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں تھی، لیکن ایمل ولی خان نے جب 10 دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اسلام آباد کی طرف ”سُرخ پوش مارچ“ کا اعلان کیا تو حکومت پر دباؤ بڑھتا گیا۔ یوں اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سے ختم کرنے کےلیے وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک مذاکراتی ٹیم (جرگہ) تشکیل دی۔ جس میں وفاقی وزیرِ داخلہ اعجاز شاہ، صوبائی وزیرِ صحت تیمور جھگڑا اور ارباب شیر علی خان شامل تھے۔ 

جرگہ نے باچا خان مرکز پشاور میں اے این پی کی قائدین حاجی غلام احمد بلور، میاں افتخار حسین، ایمل ولی خان، سردار حسین بابک، ثمر ہارون بلور اور دیگر مرکزی و صوبائی قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی متنازعہ بیان پر وضاحت دینے کے ساتھ ساتھ پوری پختون قوم سے معافی بھی مانگ لی۔ جس کے بعد اے این پی نے وزیر داخلہ کی معافی اور معذرت کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ ”پختون روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم اِن لوگوں کی جرگہ (ننواتے) اور معذرت کو قبول کرتے ہیں۔

اس بیان کے بعد چند سوشل میڈیائی صحافیوں کے ساتھ ساتھ حادثاتی انقلابیوں اور کچھ سیاسی جماعتوں کے نابالغ کارکنوں نے اے این پی اور ایمل ولی خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اُن کو جن الفاظ سے نوازا، وہ ضبطِ تحریر میں لانے کی قابل نہیں۔

قارئین! ”ننواتے“ ایک عظیم قوم (پختون) کی ایک عظیم روایت ہونے کے ساتھ ساتھ پختون ولی کا ایک اہم اور ضروری عنصر ہے۔ بقولِ پروفیسر ڈاکٹر بدرالحکیم حکیم زے ”ننواتے (جرگہ) پختون ولی کا اہم جز ہے، اگر کوئی پختون ننواتے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اُسے مسترد کرتا ہے، تو پختون معاشرے میں اس شخص کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔“

اس موقع پر اے این پی کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ ”ننواتے“ کو قبول کرکے موصوف کو معاف کیا جاتا، جس طرح کیا گیا۔ دوسرا راستہ، پختون ولی اور ننواتے سے منھ پھیر کر ”جرگہ“ ماننے سے انکار کیا جاتا۔ اب عوامی نیشنل پارٹی بحیثیتِ پختون قوم کی نمائندہ جماعت اگر پختون ولی (ننواتے) سے انکار کرتی، تو کیا وہ اپنی قوم پرست بیانیے کو برقرار رکھ پاتی ۔۔۔؟ 

قارئین! لہذا ہمیں اپنی سیاسی بغض اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بحیثیتِ پختون قوم اپنی روایات کو زندہ رکھنا ہوگا، کیوں ثقافت اور روایات ہی وہ شے ہیں جس کی بنیاد پر قومیں اپنی ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔

      تحریر: اختر حسین ابدالؔی 

منگل، 10 نومبر، 2020

خیبر میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کی طالب علم عدنان حلیم کورونا سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے


عدنان حلیم کا تعلق ودای سوات کے پُربہار علاقہ فتح پور سے تھا، خیبر میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر ایم بی بی ایس کے طالب علم تھے، کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارگئے۔ 

پشاور (عصرِنو) خیبر میڈیکل کالج میں تھرڈ ایئر کی طالب علم کورونا سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کی ترجمان کے مطابق نوجوان عدنان حلیم کو وبائی مرض کے سبب شدید بخار کی حالت میں اتوار کے روز ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، دو دن زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہوئے کورونا سے لڑ رہے تھے کہ آج اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ 

سوات سے تعلق رکھنے والے طالب علم عدنان حلیم ایف ایس سی میں سوات بورڈ کے ٹاپر تھے، جس کی وجہ سے اُنہیں گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا۔ 

یاد رہے کہ عدنان حلیم عوامی نیشنل پارٹی یو سی فتح پور کے جنرل سیکرٹری محمد حلیم خان کے فرزند تھے۔

پیر، 9 نومبر، 2020

پختون روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی جرگہ اور معذرت کو قبول کرتے ہیں، ایمل ولی خان


پشاور (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے تحریک انصاف کی جرگہ اور معذرت قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ پختون روایات کو مدنظر رکھ کر ہم آئے ہوئے وفد کا جرگہ اور معذرت کو قبول کرتے ہیں۔ 

وفاقی وزیر برائے داخلہ امور بریگیڈئیر(ر) اعجاز شاہ کی بیان سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تحریک انصاف کی وفد وفاقی وزیردفاع پرویز خٹک کی قیادت میں باچا خان مرکز پشاور آئی، جس نے اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین، صوبائی صدر ایمل ولی خان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں وزیر داخلہ نے اپنی بیان پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے بات کو میڈیا نے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا۔ 

وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ، صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا اور ارباب شیر علی بھی تحریک انصاف کی وفد میں شامل تھے۔ جب کہ اے این پی کی طرف سے مرکزی سیکرٹری مالیات حاجی ہدایت اللہ خان، حاجی غلام احمد بلور، صوبائی جنرل سیکرٹری سردار حسین بابک، صوبائی ترجمان و ایم پی اے ثمر ہارون بلور اور دیگر مرکزی و صوبائی کابینہ کے اراکین بھی موجود تھے۔

سُرخ پوش مارچ، تحریک انصاف کی قائدین اے این پی کو منانے باچا خان مرکز جائیں گے


ملاقات میں وفاقی وزیر اعجاز شاہ، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان بھی شریک ہوں گے، پرویز خٹک 

پشاور (عصرِنو) وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اسلام آباد کی جانب مارچ اور دھرنے کے اعلان کے تناظر میں پی ٹی آئی قائدین اے این پی کو منانے کےلیے باچا خان مرکز پشاور جائیں گے۔

ملاقات میں وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر داخلہ اعجاز شاہ بھی شریک ہوں گے۔

پرویز خٹک نے کہا کہ ملاقات میں اے این پی قیادت کو اسلام آباد میں دھرنا نہ دینے پر قائل کرنے اور گلے شکوے دور کریں گے، جب کہ اعجاز شاہ کے بیان سے متعلق بھی بات چیت کی جائے گی۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات آج متوقع ہے جس میں وفاقی وزیر اعجاز شاہ اے این پی قائدین سے معافی مانگیں گے۔

جمعرات، 5 نومبر، 2020

باچا خان بابا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ملاقات


خدائی خدمت گار اور باچا خان کا نام سنتے ہی عمومیت کے دل اور سوچ میں غدار اور پاکستان دُشمن کے کردار سامنے آجاتے ہیں، جو کہ بالکل تاریخ سے نا آشنائی اور تاریخ سے دُشمنی کا نتیجہ ہے۔

جناب شریف فاروق ایک کہنہ مشق صحافی ہیں، وہ ہیں تو پنجابی لیکن عالمِ شباب سے صوبہ خیبر پختون خوا کے دارلحکومت پشاور میں مقیم ہیں۔ کئی معروف اخبارات کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، جب کہ روزنامہ ”جہاد پشاور اور اسلام آباد“ کے مُدیر و مالک بھی ہیں۔ صوبہ خیبر پختون خوا کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات پر کافی گہری نظر اور نشیب و فراز کےلیے جانے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک کتابچے میں لکھا ہے کہ، ”خان عبدالغفار خان پر پاکستان دُشمنی، اسلام دُشمنی، مسلمانوں سے نفرت، نظریۂ پاکستان کی دُشمنی اور مضبوط مرکز (وفاق) کی مخالفت کے الزامات مختلف حیلوں اور بہانوں سے عائد کیے جاتے رہے ہیں، مگر تاریخ نے اپنے حتمی فیصلے سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے، دراصل الزامات عائد کرنے والوں کے مجرمانہ ضمیر کی صدائے باز گشت تھی۔“

ہمارے اس وطن میں باچا خان بابا پر یہ الزام بھی مشہور ہے کہ باچا خان کا سیاسی جُھکاؤ شخصیت کے اعتبار سے گاندھی کی طرف تھا، باچا خان قائد اعظم محمد علی جناح سے نفرت اور اُن سے ذاتیات کے بناء پر دور رہتے تھے۔ حالاں کہ باچا خان اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ جب 1929ء میں اُنہوں نے خدائی خدمت گار تحریک کی بنیاد رکھی، تو اُنہوں نے سب سے پہلے دستِ تعاؤن مسلم لیگ اور محمد علی جناح کی طرف بڑھایا۔ مگر اُن کی غیر سنجیدگی اور انکار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خدائی خدمت گاروں نے کانگرس میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا۔  

قائدِ اعظم محمد علی جناح سے ملاقات باچا خان کی پاکستان اور محمد علی جناح سے رشتے اور تعلق کی نوعیت بالکل صاف اور واضح کر دیتی ہے۔

23 فروری 1948ء کو باچا خان نے پاکستان کی پارلیمینٹ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کی، وہ چاہتے تو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حسبِ سابق رُکن رہ سکتے تھے، لیکن آپ نے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بطورِ رکن رہنے کو ترجیح دی اور وفاداری کا حلف اُٹھایا۔ جس پر بانی پاکستان محمد علی جناح بہت خوش ہوئے۔ اُنہوں نے باچا خان کو چائے پر مدعو کیا، دونوں رہنماؤں میں ملکی مفادات کے بارے میں گفتگو ہوئی، ماضی کی شکر رنجیاں اور چشمک کا دور لد گیا، جب کہ قائدِ اعظم اس حد تک مسرور تھے کہ اُنہوں نے باچا خان سے بِلا تکلف کہا کہ ”آج میرا پاکستان کا خواب پورا ہوا۔“

باچا خان کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے، مصافحہ کیا اور خلافِ معمول معانقہ بھی۔ وہ واپسی پر کار چھوڑنے آئے۔ اپنے ہاتھ سے کار کا دروازہ کھولا اور کار کی روانگی تک کھڑے رہے۔ قائدِ اعظم کے حسنِ اخلاق نے باچا خان کو بہت متاثر کیا۔ اس ملاقات کی کامیابی اور اس پر خوشی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم نے مزید گفت و شنید کےلیے اُنہیں اگلے ہی روز کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد قائدِ اعظم باچا خان کو ایک علاحِدہ کمرے میں لے گئے جہاں ایک گھنٹے تک دونوں رہنماؤں کے درمیان پاکستان کے مستقبل بارے بات چیت ہوئی۔

قائد اعظم نے باچا خان سے پوچھا کہ، ”اب آپ کا کیا پروگرام ہے ۔۔۔؟“
جس پر باچا خان نے کہا کہ، ”اب آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ میں خدائی خدمت گار کا پُرانا اصلاحی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہوں۔“
باچا خان نے قائدِ اعظم کو خدائی خدمت گار تحریک کے اغراض و مقاصد بتائے اور واضح کیا کہ انگریزوں نے کس طرح اس سماجی تحریک کا رُخ سیاست کی طرف موڑا تھا۔ باچا خان کی باتیں سُن کر محمد علی جناح اپنی نشست سے بڑے پُر جوش انداز میں اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور خلافِ عادت باچا خان کو گلے سے لگایا اور کہا کہ ” ایسے کام کےلیے میں بھی ہر قسم کی مدد کروں گا۔“
جس پر باچا خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ، ”مجھے صرف آپ کے اعتماد اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔“
قائدِ اعظم نے کہا کہ، ”میں ملک کا آئینی سربراہ ہوں۔ میری نظر میں سب جماعتیں یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔“

اس ملاقات سے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی خوش گوار صورتِ حال پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہونے لگے، باچا خان نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی جس کو محمد علی جناح نے قبول کیا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان پر مسلط طبقہ مفاد پرست ٹولہ تھا، اس لیے اُن کا مستقبل تاریک ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے مفادات کو براہِ راست ٹھیس پہنچ رہی تھی۔ اس لیے سازشی ٹولہ نے سازشوں کے جال بچھانا شروع کر دئیے اور بعد میں یہی جماعت پاکستان مخالف اور غدار جماعت ٹھہرائی گئی، اور مستقبل میں اُن کے ساتھ کون سی رویے اور مظالم ڈھائے گئے، تاریخ ماضی کی اُن تمام کارستانی پر قلم بند ہے۔

تحریر: شاہد خان           

اتوار، 1 نومبر، 2020

یکم نومبر، جب ممتاز قوم پرست سیاست دان اور ”پختون قامی وحدت“ کے علمبردار محمد افضل خان لالا گزر گئے


عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر راہنما، پختون قامی وحدت کے علمبردار، سابق وفاقی و صوبائی وزیر اور وادی سوات میں شدت پسندوں کے خلاف مزاحمت کی آواز خان محمد افضل خان لالا یکم نومبر 2015ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ 

وہ تقریباً ایک برس تک سوات کے طالبان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے شورش زدہ وادی میں اپنے آبائی مکان میں محصور رہے، لیکن اُسے چھوڑا نہیں۔

اُس شورش کے دوران اُنہیں کئی مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کے علاوہ اپنے دو نواسوں، ڈرائیور اور ملازم کے قتل جیسے خونی وار برداشت کرنا پڑے۔ تاہم اُن کا پایۂ استقلال پختہ تھا۔

جی او سی ملاکنڈ میجر جنرل نادر خان، افضل خان لالا کا استقبال کرتے ہوئے

افضل خان لالا نے ساٹھ کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا، ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کی جانب سے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خواہ) کے صوبائی وزیر رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت میں افضل لالا وفاقی وزیر برائے اُمورِ کشمیر بھی رہے، اُنیس سو ستانوے کے بعد سے اُنہوں نے انتخابی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

موصوف کو پیپلز پارٹی کے تیسرے دورِ حکومت میں دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانے پر ”ہلالِ شُجاعت“ سے بھی نوازا گیا تھا۔ آپ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ چھ کتابوں کے مصنف بھی تھے۔

جمعرات، 29 اکتوبر، 2020

سپریم کورٹ بار الیکشن، عبدالطیف آفریدی نے میدان مارلیا


سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے ممتاز قوم پرست سیاست دان اور وکیل عبدالطیف آفریدی اور حامد خان گروپ کے عبدالستار خان کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔

پشاور (عصرِنو) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن
(21- 2020) میں عاصمہ جہانگیر گروپ کے ممتاز قوم پرست سیاست دان اور وکیل عبدالطیف آفریدی اور حامد خان گروپ کے عبدالستار خان کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔ ابتدائی نتائج کے مطابق مقابلے میں عبدالطیف آفریدی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے اپنے مخالف امیدوار عبدالستار کو شکست دے دی ہے۔ 

پولنگ کے دوران کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے نمٹنے کےلیے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، اور سپریم کورٹ رجسٹری کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی تھی۔

پیر، 26 اکتوبر، 2020

فرانس میں آزادی اظہارِ رائے کے نام پر گُستاخانہ خاکوں کی اشاعت کسی صورت برداشت نہیں، شاہی دوران خان


سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے کہا ہے کہ فرانسیسی میگزین میں گُستاخانہ خاکوں کی دوبارہ اشاعت کی شدید مذمت کرتے ہیں، ایسے اقدامات سے عالمی سطح پر مذہبی ہم آہنگی اور اَمن کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ جان بوجھ کر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا آزادی اظہارِ رائے کا مصداق نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ پہلا ایسا اتفاق نہیں کہ فرانسیسی میگزین ”چارلی ہیبڈو“ نے اس قسم کا توہین آمیز اقدام کیا ہے۔ بلکہ اُس نے 2015ء میں سرکارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے۔ جس کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب کے پیرو کاروں نے غم و غصے کا اظہار اور شدید احتجاج کیا تھا۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر مُسلمِ اُمّہ کے جذبات سے نہ کھیلیں ورنہ اُن کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ فوراً او آئی سی کا اجلاس بُلایا جائے، اور زبانی جمع خر چ کرنے کی بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔ کیوں کہ اس طرح کی توہین آمیز خاکے عالمِ اسلام کی تضحیک ہے۔

اتوار، 25 اکتوبر، 2020

جانتے ہیں ”کشتی والی“ مسجد کے بارے میں

 زیرِ نظر آنے والی مسجد ترقی یافتہ کسی باہر کے ملک کی نہیں ہے، بلکہ خوب صورت مسجد کی یہ تصویر پاکستان کے شہر کراچی کے نسبتاً پسماندہ علاقے ”لیاری“ کی ہے، جہاں بلوچ کمیونٹی آباد ہیں۔ 

یہاں کے مکینوں کی اکثریت مکران سے آنے والوں کی ہے۔ اُن کا پیشہ ماہی گیری ہے، جنہوں نے کشتی کی صورت میں یہ خوب صورت مسجد بنا دی ہے۔

کھچی مسجد کا نام دھوبی گھاٹ کے آس پاس رہنے والی برادری کے نام پر رکھا گیا تھا۔ جب 2012ء میں اِس مسجد کی دوبارہ تعمیر کی گئی، تو اِس کا نام ”کشتی والی مسجد“ رکھا گیا۔

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2020

میاں افتخار حسین اور حیدر ہوتی کا محسن داوڑ کے رہائی تک احتجاجی دھرنے میں بیٹھنے کا اعلان

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیر حیدر خان ہوتی اور جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کا کوئٹہ ائیر پورٹ میں محسن داوڑ کے داخلے پر پابندی کے خلاف احتجاجی دھرنے میں شرکت، حیدر خان ہوتی نے دھرنے کی شُرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ممبر قومی اسمبلی مُحسن داوڑ کے بلوچستان میں داخلے تک دھرنے میں شریک ہوں گے، کیوں کہ آئینِ پاکستان ہر شہری کو آزاد گھومنے پھرنے کا حق دیتا ہے۔


واضح رہے کہ رُکنِ قومی اسمبلی مُحسن داوڑ کو ایک بار پھر کوئٹہ شہر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کی غرض سے کوئٹہ ائیر پورٹ پر پہنچنے کے بعد اُنہیں ضلعی انتظامیہ نے نقصِ اَمن کے خدشے کے باعث باہر نکلنے سے منع کرتے ہوئے ڈی پورٹ کیا ہے۔ جس پر لوگوں نے شدید رد عمل دیتے ہوئے دھرنا دیا ہے۔

اتوار، 18 اکتوبر، 2020

انگریزوں کے کتے نِہلا کر اقتدار حاصل نہیں کیا، عبدالولی خان


ساری عمر کیا یہ باور کرانے میں گزرے گی کہ ہم مسلمان اور اس ملک کے وفادار ہیں، میں کمیونسٹ ہوں اور نہ ہی سوشلسٹ، بلکہ ایک پکّا نیشنلسٹ ہوں

پشاور (عصرِنو) 1983ء کو حیدرآباد سندھ میں رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان نے ایم آر ڈی (مومنٹ فار ریسٹورنگ آف ڈیموکریسی) کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے انگریزوں کے کتے نہلا کر اقتدار حاصل نہیں کیا، بلکہ تحریکِ آزادی تک اُن کا پیچھا کرکے اُن سے آزادی حاصل کی۔
 
ہم نے سکندر مرزا، ایوب خان، یحیٰ خان اور ضیاء الحق پر واضح کیا کہ کسی بھی صورت چور دروازے سے آنے والے  کی ماننے کو تیار نہیں۔ کیوں کہ تاریخ کسی فردِ واحد کے محور پر گھمانے کا قائل نہیں، ہمارا قصور صرف اتنا ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہماری ساری عمر کیا یہ باور کرانے میں گزرے گی کہ ہم مسلمان اور اس ملک کے وفادار ہیں، میں کمیونسٹ ہوں اور نہ ہی سوشلسٹ، بلکہ ایک پکا نیشنلسٹ ہوں۔

اُنہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحاریک ہمیشہ ناکام ہوئی کیوں یہ تحاریک چھوٹے صوبوں سے شروع ہوئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ جس دن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پنجاب سے آواز اُٹھنا شروع ہوئی اور عوام و عدلیہ اِن آمروں کے خلاف اکھٹی ہوئی، تو سمجھیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور اِن جرنیلوں کو ملک میں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔

محترم قارئین! یہ چھوٹی سی بلاگ اُس تقریر کا مختصر خلاصہ ہے، جو رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان نے حیدر آباد میں (ایم آر ڈی) کے زیرِ اہتمام جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا

منگل، 13 اکتوبر، 2020

کیا ”پب جی“ گیم کھیلنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔۔۔؟ نئی بحث چھڑ گئی

 ١٣ اکتوبر ٢٠٢٠
 کراچی (عصرِنو) پاکستان کی معروف دینی درس گاہ جامعۂ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے فتویٰ دیا ہے کہ ”پب جی“ گیم کھیلنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

یہ فتویٰ دار الافتاء جامعۂ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کی جانب سے ایک شہری کے پوچھے گئے سوال پر جاری کیا گیا ہے، شہری کا سوال اور  فتویٰ جامعۂ کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔

فتوے کی نقول سوشل میڈیا پر بھی بڑی تعداد میں پوسٹ کی گئی ہیں اور اس معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

ایک شہری کی جانب سے سوال کیا گیا تھا کہ” گزشتہ جمعے کو ہماری مسجد کے امام صاحب نے بیان میں فرمایا تھا کہ جو شخص پب جی (pubg) گیم کھیلتا ہے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس کا نکاح باقی نہیں رہتا، یعنی جو احکام اسلام سے نکلنے کی صورت میں لگتے ہیں وہ سب بیان کیے، برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔“

سوال کے جواب میں دار الافتاء کی جانب سےکہا گیا ہے کہ ”معلومات کے مطابق پب جی گیم میں بعض اوقات ”پاور“ حاصل کرنے کےلیے گیم کھیلنے والے کو  بتوں کے سامنے پوجا کرنی پڑتی ہے اور گیم کھیلنے والے شخص کا اپنے کھلاڑی کو پاور حاصل کرنے کےلیے بتوں کے سامنے جھکانا اور بتوں کی پوجا کروانا اس کا اپنا فعل ہے۔“

فتوے میں مزید کہا گیا ہے کہ ” گیم میں نظر آنے والا کھلاڑی اسی گیم کھیلنے والے کا عکاس اور ترجمان ہے اور مسلمان کا توحید کا عقیدہ ہوتے ہوئے بتوں کے سامنے جھکنا شرک ہے۔“

 فتوے میں کہا گیا ہے کہ” گیم میں یہ عمل کرنے سے رفتہ رفتہ بتوں کے سامنے جھکنے کی قباحت بھی دل سے نکل جائے گی، لہٰذا یہ گیم کھیلنا ناجائز ہے اور ”پب جی“ گیم میں بتوں کے سامنے جھک کر پاور حاصل کرنا شرک ہے، اور عمدًا اس کو کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا، ایسے شخص پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہے۔

دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے جاری ہونے والے فتوے کا عکس  

فتوے کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ” اگر کوئی شخص ”پب جی “ گیم میں شرک کا کوئی عمل نہیں کرے تو پھر بھی شرک پر راضی رہنے اور کئی اور مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ”پب جی“ گیم کھیلنا جائز نہیں ہے۔“

خیال رہے کہ پب جی دنیا بھر کی طرح پاکستانی نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے رواں سال یکم جولائی کو ”پب جی“ گیم پر عارضی طور پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 24 جولائی کو پب جی پر پابندی کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے آن لائن گیم کو فوری بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

جامعہ فاروقیہ کراچی کے مہتمم مولانا عادل قاتلانہ حملے میں شہید


کراچی (عصرنو) وفاق المدارس کے سابق سربراہ مولانا سلیم اللہ خان مرحوم کے صاحبزادے اور مہتمم جامعہ فاروقیہ مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان اور ان کے ڈرائیور قاتلانہ حملے میں شہید ہوگئے۔

پولیس کے مطابق مولانا ڈاکٹر عادل خان ویگو گاڑی میں شاہ فیصل کالونی نمبر 2 میں موجود تھے، کہ ان کی گاڑی پر مبینہ طور پر موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کی۔

پولیس ذرائع کے مطابق انہیں فوری طور پر ہسپتال روانہ کیا گیا۔ لیاقت نیشنل اسپتال ذرائع کے مطابق مولانا عادل خان ہسپتال لائے جانے کے دوران انتقال کر چکے تھے۔ ہسپتال ترجمان کے مطابق مولانا عادل خان کو دو گولیاں لگیں۔

جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق فائرنگ کے واقعے میں جاں بحق مقصود نامی شخص کی میت جناح اسپتال کی ایمرجنسی پہنچائی گئی ہے۔

ڈاکٹر عادل خان جامعہ فاروقیہ کے مہتمم تھے اور وفاق المدارس العربیہ الباکستان کے سابق سربراہ مولانا سلیم اللہ خان کے صاحبزادے تھے۔

جمعہ، 9 اکتوبر، 2020

پاکستان میں ”ٹِک ٹاک“ پر پابندی لگا دی گئی


اسلام آباد (عصرنو) پاکستان میں چینی سوشل میڈیا ایپ  ”ٹِک ٹاک“ پر پابندی عائد کردی گئی۔

اطلاعات کے مطابق معروف سوشل میڈیا ایپ پر پابندی غیر قانونی و غیر اخلاقی مواد کو روکنے کےلیے مؤثر مکینزم تیار کرنے کی ناکامی پر لگائی گئی۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے ”ٹِک ٹاک“ پر غیر اخلاقی اور غیر مہذب مواد کی موجودگی کی شکایات کی تھیں، جس کے بعد ایپ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا۔

جمعرات، 8 اکتوبر، 2020

چارسدہ میں ڈھائی سالہ بچی جنسی زیادتی کے بعد قتل


چارسدہ میں ایک اور بنتِ حوا ابنِ آدم کی حوس کا نشانہ بن گئی، ڈیڑھ سالہ بچی سے جنسی زیادتی کرکے قتل کیا گیا، ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے دور، پڑانگ پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفشیش شروع کر دی

چارسدہ (عصرِنو) ڈھائی سالہ بچی زینب کو مبینہ زیادتی کے بعد تشدد کرکے قتل کیا گیا، لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔

ڈی این اے کے نمونے خیبر میڈیکل کالج پشاور کو بھیج دئیے گئے ہیں۔ ہسپتال ذرائع نے بھی معصوم زینب سے زیادتی کی  تصديق کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق چارسدہ کے نواحی علاقہ پڑانگ سے گذشتہ روز زینب نامی ڈھائی سالہ بچی پر اسرار طور ہر غائب ہو گئی تھی جن کی گُمشدگی کی اطلاعات سوشل میڈیا اور اخبارات میں دی گئی تھی۔ بُدھ کے روز والدین کے طرف سے نامعلوم افراد کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، اور شام شیخ کلی علاقہ جبہ کے کھیتوں سے اس کی تشدد زدہ لاش مل گئی۔ پولیس کے مطابق بچی کی پیٹ اور سینے کو چاقو سے کاٹا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے بھی موت سے 18 گھنٹے قبل جنسی زیادتی کی تصدیق کردی ہیں۔ جب کہ بچی کی جسم کے نمونے ڈی این اے ٹسٹ کےلیے خیبر میڈیکل کالج بھجوائے گئے ہے۔ معصوم زینب کے اس بہیمانہ زیادتی اور قتل پر علاقہ مکینوں میں شدید غم و غصے کا لہر پایا جاتا ہے۔

منگل، 6 اکتوبر، 2020

خواجہ سرا اور ہمارا معاشرہ


سرِ دست چند خبریں مُلاحظہ ہوں:
☆ پشاور میں فائرنگ سے ”گل پانڑہ“ نامی خواجہ سرا جاں بحق، جب کہ ساتھی چاہت شدید زخمی
☆ اسلام آباد میں فلیٹ سے خواجہ سرا کا تشدد زدہ لاش برآمد
☆ معاشرتی ناہمواریوں کی وجہ سے ایان عرف ڈولفن نے سکالر شپ چھوڑ کر ڈانس سیکھنا شروع کردیا
☆ پشاور سُپر مارکیٹ میں فائرنگ سے ”سپوگمئی“ نامی خواجہ سرا قتل
☆ خواجہ سرا علیشاہ قتل کیس کا مرکزی ملزم فضل تاحال مفرور
☆ خیبر پختون خوا میں خواجہ سرا کا گینگ ریپ، تشدد کی وجہ سے لُقمہ اجل بن گئے۔ 

قارئین! یہ کسی غیر اسلامی ملک کی نہیں اسی وطنِ عزیز کی خبریں ہیں جس کی 90 فی صد آبادی مسلمان ہے، جب کہ حج و عمرے کی سعادتیں حاصل کرنے میں پچاس اسلامی ممالک کی فہرِست میں ہم دوسری نمبر پر ہیں۔ آئے دِن یہ دل خراش خبریں دیکھ یا سُن کر رُوح تڑپ اُٹھتی ہے۔ 
 
مملکتِ خداداد میں تقریباً ہر شخص معاشرتی نا انصافیوں کا رونا روتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن جو صِنف سب سے زیادہ معاشرے اور سماج کے منفی رویوں کا شکار ہے، وہ تیسری جنس یعنی ”خواجہ سرا“ ہے۔ اَمسال رُونما ہونے والے چند واقعات نے عوام کی توجہ خواجہ سراؤں کے مسائل اور اُن کی زندگی کی جانب ضرور مبذول کرائی، جس کا کریڈیٹ سوشل میڈیا کو جاتا ہے۔

قارئین! خواجہ سرا جسے ”مخنث“ بھی کہا جاتا ہے، ایک تیسری صِنف ہیں۔ جن کا جسم مردانہ ہوتا ہے، لیکن اُس کی اَٹھک بیٹھک صنفِ نازک والی ہوتی ہے۔ خواجہ سرا صرف مملکتِ خداداد پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اِن کے مسائل اُن دیگر ممالک میں ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو اُس کے حل کےلیے کیا کچھ کیا گیا ہے ۔۔۔؟

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں سے انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ اُنہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہر کوئی اُنہیں دھتکارتا ہے۔ ہر شعبۀ زندگی میں اُن سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ چاہے وہ شعبہ تعلیم ہو، صحت ہو یا پھر ملازمت، ہر جگہ اُن کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ مرد، عورت یا خواجہ سرا ہونے میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں، بلکہ یہ تو قدرت کا نظام ہے۔ پھر بھی ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ساتھ وہ غیر انسانی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے جو ایک مہذب معاشرے میں حیوانوں سے برتنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔

 قارئین! اُن کے ساتھ ظلم اور تکالیف کی ابتداء اُن کے گھر ہی سے ہوتی ہے، جہاں اُن کے والدین یا رشتہ دار اُن سے نفرت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ والدین شروع ہی سے ایسے ”سپیشل“ بچے سے ویسا پیار نہیں کرتے، یا ویسی تعلیم و تربیت نہیں دیتے جو اپنے دوسرے نارمل بچوں کو دیتے ہیں۔ سماج کے ڈر سے خواجہ سرا بچے کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا پھر اُس سے ایسا منفی رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ خود گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے جیسے لوگوں کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اپنی ایک الگ دُنیا بسا لیتا ہے۔ یہاں سے وہ بے رحم لوگوں کی نذر ہو جاتا ہے، جس کا ذکر پاکپتن پنجاب سے تعلق رکھنے والے خواجہ سرا وینا خان نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ بقول اُن کے ”ہمیں پہلا دُکھ اپنے گھر سے ہی ملتا ہے۔ اگر ہمارے خاندان والے ہماری شناخت قبول کر لیں، تو شاید ہمیں ڈھیر سارے ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے، جو عام طور پر ہمارے ساتھ پیش آتے ہیں۔“

اسی طرح ایک اور خواجہ سرا نے روتے ہوئے اپنی والدین سے گلہ کیا کہ ”معاشرے میں ہمارے لیے عدل و انصاف کی بات ہورہی ہے۔ سب سے زیادہ نا انصافی تو خود ہمارے والدین نے کی ہے، جنہوں نے خود ہمیں قبول نہیں کیا، تو سوسائٹی ہمارے لیے کیا کرے گی ۔۔۔؟“

ایک خواجہ سرا نے لاک ڈاؤن کے دوران میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”کوئی بھی ہمیں قبول نہیں کرتا۔ ہمارے ساتھ اس قدر تعصب ہے کہ نہ ہمارا گھر ہے نہ بہن بھائی، نہ تعلیم ہے نہ نوکری، نہ لوگوں سے مضبوط و محفوظ تعلق ہی ہے۔اوپر سے ہمیں کوئی عذاب کہتا ہے تو کوئی گناہ کا نتیجہ، یا ہمارے لیے وہ غلیظ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں کہ توبہ، اگر اتنے مسائل کے ساتھ ہم رہ رہے ہیں تو غربت اور بے روزگاری کیا کم بات ہے ۔۔۔؟ 
جنسی ہراسانی کے مسائل الگ ہیں۔ ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے ایک کورونا ہمارے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ 
جب کہ اس نے معاشرتی ناانصافیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”اس معاشرے میں انصاف ہے نہ عدل، نہ انسانیت ہے اور نہ ہی شعور۔ اتنی چیزوں کے اندر ہم کورونا کو کتنی اہمیت دیں گے ۔۔۔؟
 اگر ہمارے اندر اسلام اور انسانیت آجائے تو ہمارے مسائل خود حل ہوجائیں گے۔“

ایک خواجہ سرا تو دلبرداشتہ ہوکر یہاں تک بول اُٹھا کہ ”ہم تو پہلے ہی سے مرے ہوئے ہیں۔ اب کورونا سے مرنا تو اُنہیں ہے، جو روئے زمین پر خدا بنے پھرتے ہیں۔ جس کو چاہے بند کر دیں، مار دیں، جو چاہیں کریں، لوگوں کو ذلیل کریں اور رسوا بھی۔ جو دنیا میں حاکم و عادل بنے پھرتے ہیں اللہ نے اُن کو دکھانا ہے، اوقات یاد دلانی ہے کہ تم گندے پانی کا قطرہ ہی ہو، ذرا بڑے ہوتے ہوئے سمجھ دار ہوتے ہو، تو اکڑ جاتے ہو، اپنی اوقات بھول کر ظلم و زیادتی پر اتر آتے ہو۔“


قارئین! اصل بات یہ ہے کہ دل کے دُکھی اور سماج کے ستائے ہوئے لوگ ہی سچی اور کھری باتیں کرتے ہیں۔ اُن کے الفاظ میں دُکھ بھرا  ہوا ہوتا ہے۔ افسوس کہ لوگ نہیں سمجھتے کہ آخر ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔۔۔؟

سڑک پر تشدد کا شکار ہونے والا یا کسی مضِر بیماری سے تڑپ کر مرنے والا خواجہ سرا معاشرے کی بے حِسی کی ایک بھیانک تصویر ہے۔ وہ معاشرہ جو بظاہر تو بہت مہذب اور اخلاقیات سے بھر پور نظر آتا ہے، پَر اندر سے اتنا ہی کھوکھلا ہے۔ ہمارے اس گونگے اور بہرے معاشرے میں اکثر خواجہ سراؤں کو فحاشی پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس بات سے چنداں انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیٹ پالنے کی خاطر خواجہ سرا اکثر بد اخلاقی کی اس حد تک جاتے ہیں جس کے تصور سے ہی گھن آنے لگتی ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کو اس کام کےلیے مجبور کرنے والے بھی یہی لوگ اور یہی معاشرہ ہے، جو نہ اُنہیں درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے دیتے ہیں اور نہ ہی کسی ادارے میں روزگار فراہم کرتے ہیں۔

کچھ دن پہلے بریلوی علماء کی ایک تنظیم نے فتویٰ دیا ہے کہ خواجہ سراؤں سے بھی شادی کی جا سکتی ہے۔ اس تنظیم نے اپنے فتوے میں کہا ہے کہ زنانہ جسمانی خصوصیات والے خواجہ سرا مردانہ جسمانی خصوصیات والے خواجہ سراؤں سے شادی کر سکتے ہیں۔ ”تنظیمِ اتحادِ اُمت پاکستان“ نامی بریلوی تنظیم کے مطابق ایسے خواجہ سرا عام مرد اور عورتوں سے بھی شادی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم وہ خواجہ سرا، جن میں مردانہ و زنانہ دونوں خصوصیات پائی جاتیں ہیں وہ ہرگز نکاح نہیں کر سکتے۔

فتوے میں مزید کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کا بھی نمازِ جنازہ اسی طرح ہی پڑھائی جانی جاہیے، جس طرح عام مسلمان مرد و خواتین کی پڑھائی جاتی ہے۔ فتوے کے مطابق خواجہ سراؤں کا جائیداد میں بھی حصہ ہوتا ہے اور جو والدین اُنہیں جائیداد سے محروم کرکے اُنہیں گھر سے نکال دیتے ہیں، اُن کے خلاف حکومت کو قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ علماء نے کہا ہے کہ خواجہ سراؤں کی تضحیک کرنا، آوازیں کسنا، مذاق اڑانا یا اُنہیں حقیر سمجھنا شرعی طور پر حرام ہے۔

فتوے نے پاکستان کے سماجی حلقوں میں ایک دل چسپ بحث چھیڑ دی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس خبر کا خوب چرچا رہا ہے۔ فیس بُک پر کئی افراد نے اس خبر کے ”لنک“ کو اپ لوڈ کیا تو ٹوئٹر پر بھی کئی افراد نے اس پر دل چسپ تبصرے کیے۔ ایک تبصرے میں کہا گیا  ہے کہ ”خواجہ سراؤں کے حوالے سے حال ہی میں افسوس ناک خبریں آتی رہی ہیں لیکن یہ اب کچھ بہتر خبر ہے۔“ اسی ایک اور ٹوئیٹر صارف نے لکھا کہ ”فتویٰ پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ بھی ہے۔“

فتوے پر خواجہ سراؤں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی الماس بوبی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ” اس فتوے سے اُن لوگوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، شادی تو دور کی بات ہے۔ پہلے حکومت ہمارے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار اور گھر تو دے تاکہ ہم لوگوں کو ذلت و خواری نہ اُٹھانا پڑے، سڑکوں پر بھیک نہ مانگنا پڑے۔“

خواجہ سراؤں کی حالت زار کو دیکھ کر ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا روشن خیالی یا مذہب کی نظر میں خواجہ سرا کسی حقوق کا مستحق نہیں ہے ۔۔۔؟ 
اگر ہیں، تو پھر اُنہیں اس بے رحمی کے ساتھ نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے، اور اُنہیں ایک اچھوت کی طرح کیوں دیکھا جاتا ہے ۔۔۔؟

خواجہ سراؤں پر ہونے والے ظلم و ستم کی گونج جب سینیٹ پہنچی تو سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ، ’’ہمارے ہاں خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت پُرانا ہے اور یہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ سماجی رویوں کو تبدیل ہونا چاہیے۔ گو کہ لوگوں کو اب اس حوالے سے شعور بھی آرہا ہے۔ خواجہ سراؤں کے مسائل کے حل کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اُن کےلیے تعلیم کے دروازے کھول دی جائیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں شمولیت اختیار کر سکیں۔ جب وہ مختلف شعبوں میں شمولیت اختیار کریں گے، تو اُن کے سماجی مرتبے میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور آئے گا۔“

قارئین! خواجہ سراؤں کے مسائل یہ ہیں کہ اُنہیں اپنی شناخت، روزگار، تعلیم، ہسپتال، سکول، تھانہ، پُرامن ماحول، شیلٹر ہوم، کمیونٹی اور وؤٹ ڈالنے کا حق میسر نہیں۔ 

اگر حکومت چاہے تو خواجہ سراؤں کے حوالے سے سر دست ایک قانون بنا دے جس کے مندرجات یہ ہوسکتے ہیں۔ 
☆ خواجہ سرا کو کسی بھی جگہ پر ہراساں کرنا قانوناً جُرم تصور ہوگا۔ 
☆ تعلیمی اداروں میں داخلے کا کوٹہ مختص کرنا اور کم از کم انٹرمیڈیٹ تک فری تعلیم دینا تاکہ اُنہیں بھی نوکری اور روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ 
☆ فری علاج، رہائش کا مناسب بندوبست، ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لیس سروسز کے ذریعے اُن کی اکثریتی آبادی والی جگہوں پر ٹرانس جنیڈر سینٹرز، شیلٹر ہوم یا کمیونٹی سینٹر ز کا قیام عمل میں لانا، شناختی کارڈز کا اجراء اور ووٹ دینے کا آئینی حق دینا وغیرہ۔

یہ صرف حکومت کا فرض نہیں بلکہ سب سے پہلے خواجہ سراؤں کے والدین، بہن اور بھائیوں کا بھی فرض بنتا ہے کے وہ اُن کی کفالت کریں۔ اُن کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آئیں تاکہ وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ پھر ہم سب کایہ فرض بنتا ہے کہ اُن کے جذبات، احساسات اور حقوق کا خیال رکھیں، اور جتنا ممکن ہو سکے، اُن کی مدد کریں اور اُن کے متعلق مثبت رویہ اپنائیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے معاشرے میں شعور اُجاگر کرنے، آگاہی پھیلانے اور اپنی پسماندہ منفی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
 
خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کیوں کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں خواجہ سراؤں کے ساتھ تیسرے درجے کے انسانوں کا سلوک کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔؟
 ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نبھائیں۔

خدارا! خواجہ سراؤں کی قدر کریں۔ اُنہیں اس اندھیری راہوں کا مسافر بننے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے فوری اقدامات کرے۔ ہمیں خواجہ سراؤں کے مسائل، دُکھ درد اور پریشانیوں کو اپنا سمجھ کر معاشرے کی مثبت تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ 

کہاں ہے ارض و سماں کا مالک
که  چاہتوں  کی  رگیں کریدے
ھوس  کی سرخی  رُخ  بشر کا
حسین   غازہ   بنی   ہوئی   ہے
 کوئی مسیحا اِدھر بھی دیکھے 
کوئی  تو  چارہ   گری  کو اُترے
اُفق  کا  چہرہ  لہو  میں  تر  ہے
زمین   جنازہ   بنی    ہوئی   ہے

                       تحریر: اختر حسین ابدالؔی

اتوار، 4 اکتوبر، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر چھ



قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  
عُنوان: مذہب اور سیاست
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

یہ میرا یقین ہے کہ اسلام امن، مساوات اور اِنسانیت کا درس دیتا ہے۔ سیاست انسان اور انسان کے درمیان تعلق کا نام ہے، جب کہ خدا اور بندہ کے درمیان تعلق کا نام مذہب ہے۔ چند مُفاد پرست سیاست دان دین فروش مُلاؤں کے ذریعے مذہب کو اس کے آفاقی اور روحانی مقام سے گِرا کر دُنیاوی سیاست میں گھسیٹ لائے ہیں۔ میں اُن کو خبر دار کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا نہ کریں، کیوں کہ خدا اور مذہب کے نام پر اتنا خون بہے گا کہ ہم سب اس میں ڈوب جائیں گے۔ 

توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

بدھ، 30 ستمبر، 2020

غلام بن کر نہیں رہ سکتا، عزت کی زندگی جینے کا فیصلہ کرلیا ہے، نواز شریف


لندن (عصرِنو) سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں غلام بن کر نہیں رہ سکتا، بلکہ پاکستانی بن کر رہنا چاہتا ہوں، عزت کی زندگی جینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس لاہور میں ہوا، جس میں مریم نواز، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، محمد زبیر اور راجہ فاروق شریک ہوئے۔ اجلاس میں شہباز شریف کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور، درپیش حالات کے پیش نظر سیاسی حکمت عملی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر مشاورت کی گئی۔

اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا کہنا تھا کہ آج تو ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر اپنوں کی غلامی میں آ گئے ہیں۔ ہم آزاد شہری نہیں ہیں، اپنے آپ سے پوچھے کیا آپ ازاد شہری ہیں ۔۔۔؟ وہ وقت دور نہیں جب تمام چیزوں کا حساب دینا ہوگا۔ دو ٹوک فیصلہ کیا ہے کہ ذلت کی زندگی ہم نہیں جی سکتے۔ ظلم اور زیادتیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا قوم نے فیصلہ کر لیا تو تبدیلی سالوں میں نہیں چند مہینوں اور ہفتوں میں آجائے گی۔

اُنہوں نے اجلاس میں شریک اپنے اراکین اسمبلی سے سوال کیا کہ جس پارلیمنٹ کے آپ کے رُکن ہیں وہ کتنی خود مختار ہے۔ مجھے لوگوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس پارلیمنٹ کو کوئی اور چلا رہا ہے۔ دوسرے لوگ  پارلیمنٹ میں آ کر بتاتے ہیں کہ آج ایجنڈا کیا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ جسے لائے ہیں اس کا ذہن خالی ہے، پچھتا تو رہے ہوں گے، آپ لائے، آپ کو ہی جواب دینا ہوگا۔  یہ بندہ تو قصور وار ہے ہی لیکن لانے والے اصل قصور وار ہیں، اس کا جواب بھی اُنہیں  دینا ہوگا۔ پی ڈی ایم کا فیصلہ ہے کہ اس کا جواب دینا ہوگا۔

سربراہ مسلم لیگ ن نے کہا کہ روزانہ کی بنیادوں پر پارٹی کو دستیاب رہوں گا، پارٹی جو فرض سونپے گی، ادا کروں گا۔ آپ کی مشاورت کا منتظر ہوں کہ اِن مقاصد کے حصول کےلیے کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔

اُنہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے ساتھ سلوک پر دُکھا ہوں، ہمارے بچوں کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، تاریخ میں ایسا سیاہ رویہ نہیں ہوا، جو کچھ  ہو رہا ہے اس سے ہمارے جذبے مزید بڑھے ہیں، اور ہم اپنی جدوجہد مزید تیز کریں گے۔

نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ساتھی جُرأت سے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں، شہبازشریف نے بے مثال جرات و بہادری اور استقلال کا مظاہرہ کیا ہے، وہ مردِ میدان ہیں، اُنہوں نے مشکلات کے سامنے سر نہیں جھکایا،  ہمارے بیانیے کو تقویت دینے میں کردار ادا کیا، اور وفاداری و نظریاتی وابستگی کی مثال قائم کی، مشکل کو برداشت کرکے کردار ادا کریں گے تو قوم کو تمام مصیبتوں سے نجات مل جائے گی۔

قائد (ن) لیگ نے کہا کہ شہباز شریف کو سیلوٹ کرتا ہوں کہ اُنہوں نے دیانتداری سے قوم اور ملک کی خدمت کی، پنجاب میں دن رات محنت کرکے بجلی کے کارخانے لگائے، اسحاق ڈار نے وسائل مہیا کیے، یہ تمام سہرا شہباز شریف، خواجہ آصف اور شاہد خاقان عباسی کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اُن سرکاری افسران کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے توانائی کی قلت ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

آرمی پبلک سکول حملہ سکیورٹی کی ناکامی قرار، سپریم کورٹ کا عدالتی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم

پشاور میں سنہ 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کےلیے تشکیل پانے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے چھ برس قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے سے متعلق تحقیقات کےلیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل تھا اور اس نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جولائی 2020ء میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔

رپورٹ میں مزید کیا کہا گیا ہے ۔۔۔؟
انکوائری کمیشن نے سکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں جب کہ دھمکیوں کے بعد سکیورٹی گارڈز کی تعداد میں کمی کے علاوہ درست مقامات پر عدم تعاون کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کا انتظام فوج کے ذمے ہوتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ اس کے لیے فوج کے اپنے ہی اہلکار مامور ہوں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند سکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ افغانستان سے شدت پسند مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل ہوئے اور ان شدت پسندوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری کو کسی طور پر بھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اپنا ہی خون غداری کر جائے تو اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں، اور کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کرسکتی جب دشمن اندر سے ہی ہو۔

رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ کیسے انسدادِ دہشتگردی کے قومی ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی طرف سے فوج کے مراکز فوجی افسران اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے ایک عمومی الرٹ جاری کیا تھا اور اس الرٹ کے بعد فوج نے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اے پی ایس کے واقعے نے فوج کی شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

عدالت کا اٹارنی جنرل کے تبصرے بھی پبلک کرنے کا حکم
اس سے قبل چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک سکول سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت نے اس کمیشن کی رپورٹ سے متعلق اٹارنی جنرل کے کمنٹس بھی پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ اس بات کا تعین اوپر سے ہونا چاہیے کہ کس کی غفلت کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سیکیورٹی اداروں کو اس حملے کی منصوبہ بندی اور سازش کے بارے میں اطلاع ہونی چاہیے تھی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اتنی سکیورٹی میں بھی عوام محفوظ نہیں ہیں تو یہ بات لمحہ فکریہ ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کس کی عفلت سے ہوا اس بارے میں کسی نے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں جو کہ قابل افسوس امر ہے۔ سماعت کے دوران واقعے میں شہید ہونے والے طلب علموں کے والدین نے عدالت کو بتایا کہ یہ واقعہ دہشت گردی کا نہیں بلکہ ”ٹارگٹ کلنگ“ کا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں یہ المیہ رہا ہے کہ کسی بھی واقعے میں نیچے والوں کو پکڑا جاتا ہے جب کہ بڑے لوگوں کو پوچھا بھی نہیں جاتا۔
اُنہوں نے کہا کہ کم از کم آرمی پبلک سکول کے واقعے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اوپر والے لوگوں کو پکڑا جانا چاہیے، جو بھی فرائض میں غفلت کا مرتکب پایا گیا ہو۔
اُنہوں نے کہا کہ اس واقعے نے پوری قوم کو رنجیدہ کر دیا تھا۔

”وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے“
اس واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ زندہ لاشوں کی طرح گھوم رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ہی ان ذمہ داروں کو سزا مل جائے جو ان بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ لوگ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے اس میں کامیاب رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب عوام محفوظ نہیں ہیں تو اتنا بڑا ملک اور نظام کیسے چلایا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا چاہیے جس سے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔

سرکاری تحقیقات سے مطمئن نہیں، والدین
اس واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں اپنے بچوں کا کیس لڑنا چاہتے ہیں۔ سماعت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہویے انہوں نے کہا کہ اُنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ فائرنگ کس نے کی، بلکہ اُنہیں تو صرف یہ غرض ہے کہ اصل ذمہ داروں کا تعین ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ ان کے بچے تو واپس نہیں آسکتے لیکن اس اقدام سے دوسرے بچوں کو تحفظ ملے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس واقعے سے متعلق حکمرانوں نے جس طرح کی تحقیقات کروائی ہیں اس سے وہ کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہیں اور اگر وہ عدالتی فیصلے سے بھی مطمئن نہ ہوئے تو اگلے اقدام کے بارے میں سوچیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس واقعہ کی جامع تحقیقات کا مطالبہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔

کمیشن نے رپورٹ کیسے تیار کی ۔۔۔؟
کمیشن کی جانب سے اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور مارے جانے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن میں 101 عام شہری اور 31 سکیورٹی اہلکار اور افسران شامل تھے۔ یہ تحقیقاتی کمیشن سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے طلبا اور اساتذہ کے والدین کی درخواست پر 2018ء میں قائم کیا تھا۔ پشاور کے وارسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول پر مسلح شدت پسندوں نے 16 دسمبر 2014 کو حملہ کر کے طلبہ، اساتذہ اور عملے کے ارکان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں 147 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والا گروپ 27 ارکان پر مشتمل تھا جس کے نو ارکان مارے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر سزا دی ہے تاہم شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا مؤقف رہا ہے کہ ان کے بچے ایک چھاؤنی میں قائم فوج کے زیر انتظام سکول میں حصولِ تعلیم کےلیے گئے تھے وہ جنگ کے محاذ پر نہیں تھے اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کی فیس سکول انتظامیہ کو باقاعدگی سے دیتے تھے تو پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا، کس کی ایما پر ہوا اور کس کی غفلت کا نتیجہ تھا۔۔۔؟ 

والدین کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ اس سلسلے میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور جن کی غفلت یا لاپرواہی سے یہ حملہ ہوا ہے انہیں سزا دی جائے۔

جمعرات، 24 ستمبر، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر پانچ


قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  
عُنوان: ظالم اور مظلوم
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

 ہمارا فرض دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کو ظالم سے نجات دلانا ہے۔ ہم ہر اُس قوم اور حکومت کی مخالفت کریں گے، جو مخلوقِ خُدا پر ظلم ڈھاتی ہو، چاہے ظالم ہمارا بھائی اور ہم مذہب کیوں نہ ہو۔ 


توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

باچا خان کے معروف اقوال ۔۔۔ قسط نمبر چار


قول: فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان  
عُنوان: جمہوریت
تحریر: اختر حسین ابدالؔی

میرا عقیدہ ہے کہ جب تک ایک قوم اجتماعی طور پر بیدار نہیں ہوتی، اس وقت تک اس قوم میں سیاسی شعور نہیں آسکتا اور جس قوم میں سیاسی شعور کا فقدان ہو، اس میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ 

توجہ فرمائیں! 
محترم قارئین! اِن اقوال کا مقصد ہرگز سیاسی نہیں، بلکہ لوگوں میں فخرِ افغان خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کی افکار کی ترویج کرنا ہے

جمعرات، 17 ستمبر، 2020

سوشل میڈیا، ترقی یافتہ گلوبل ولیج کا ضامن


سوشل میڈیا جسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ بھی کہا جاتا ہے، دورِ جدید میں اپنے وسیع استعمال کی وجہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سوشل میڈیا نے فاصلوں کی وسعتوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت کے سات براعظموں پر پھیلی اس دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دینے کے ساتھ حیاتِ انسانیت کو ایک نیا رُخ دیا ہے۔ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ دنیا کے بڑے تھنک ٹینک پرائیویٹ و سرکاری ادارے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگانے کےلیے کافی ہے کہ یہ ایک ہی کلک پر پوری دنیا اُلٹا سکتا ہے۔

دنیا کے سبھی ممالک جہاں سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی وجہ سے مستفید ہورہے ہیں، وہیں بڑی حد تک اس کے غلط استعمال کی وجہ سے نقصانات کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے وہیں دوسری طرف اس کے بھیانک نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں۔ دنیا میں جرائم کی شرح میں اضافہ سوشل میڈیا کا مرہونِ منت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں روزانہ کی بنیاد پر وقوع پذیر ہونے والے جرائم کے ہزاروں کیسز جن میں قتل، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، راہ زنی، سائبر کرائمز وغیرہ شامل ہیں، سب سوشل میڈیا ہی کے زیرِ اثر وجود میں آتے ہیں۔ سُپر پاؤرز کہلانے والے ممالک بھی اس وقت سوشل میڈیا کے نرغے میں ہیں اس لیے اس کے منفی استعمال کی روک تھام کےلیے کیے جانے والے سبھی اقدامات بے سود اور ناکام نظر آتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ امریکی صدارتی انتخابات میں ہونے والی روسی مداخلت سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

اس کے ساتھ سائبر کرائمز کرنے والے بھی دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ جرائم کی بنیادیں مضبوط ہوچکی ہیں ، اور آئے روز تہلکہ خیز انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت سائبر کرائمز کے جو کیسز پوری دنیا میں سامنے آئے ہیں، اُن کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جرائم کی فہرست آئے روز لمبی ہوتی جارہی ہیں جن میں اندوہناک واقعات جنسی زیادتی، قتل، اغوا برائے تاوان اور ہیکنگ وغیرہ سرِفہرست ہیں۔

قارئین! مملکت خداداد میں بھی سائبر کرائمز کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔  فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جرائم میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی سائٹس "فیس بُک" اور پیغام رسانی کی ایپ "واٹس ایپ" کے زریعہ بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس کی نسبت رواں سال بلیک میلنگ کے واقعات میں 40 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سائبر کرائم ونگ میں فیس بُک پر بلیک میلنگ اور اکاؤنٹ ہیک ہونے کی 3560 شکایات موصول ہوئیں جب کہ گذشتہ برس اِن کی تعداد 2236 تھی۔ 

اگر ایک طرف یہ حال ہے، تو دوسری طرف سوشل میڈیا نے طالب علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ طالب علموں کی بہت بڑی تعداد یوٹیوب پر موجود اسباق سے بڑی حد تک مستفید ہورہی ہے جو اُن کے کیریئر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوٹیوب پر ہزاروں کی تعداد میں مفت اسباق و دیگر مواد دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں موجود اسلامی ویڈیوز روحانی تسکین کا زریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کے سنہرے اُصولوں کو ترتیب دیتی ہیں۔ اس طریقہ تعلیم نے جہاں ایک طرف طالب علموں کی سہولت میں اضافہ کردیا ہے تو وہیں "یوٹیوب" کو بھی منافع بخش بنا دیا ہے۔

قارئین! کوئی بھی چیز خود اچھی یا بُری نہیں ہوتی بلکہ اس کا طریقہ استعمال اچھا یا بُرا ہوتا ہے۔ فیس بُک ہی پر بہت سی ویب سائٹس ہیں جو نئی نسل کےلیے مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ جن میں کچھ کا ذکر مناسبِ حال سمجھتا ہوں۔ 
”لفظونہ ڈاٹ کام“ کے بانی ایڈیٹر امجد علی سحابؔ تاریخی واقعات و شخصیات کی کھوج لگا کر اُسے سائٹ پر ڈالتے ہیں، تو ”لیکوال ڈاٹ کام“ پر عصمت علی اخون پشتو کے گمنام شعراء و ادباء کو لوگوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔ جلال الدین یوسف زئی ”انسائیکلو پیڈیا آف سوات“ پر ریاستِ سوات کی تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہیں، تو فیاض ظفر ”باخبر سوات ڈاٹ کام“ پر پَل پَل کی مُصدقہ خبر دیتے ہیں۔ فضل خالق اگر ”مارننگ پوسٹ“ پر علاقائی خبروں کے ساتھ ساتھ جنت نظیر وادی سوات کے چھپے گوشے ہم کو دیکھاتے ہیں، تو ”غگ نیوز ڈاٹ کام“ کے مراد یاسین اور مختار احمد مختار تاریخی، سماجی اور ثقافتی موضوعات پر ماہرین کا انٹرویوز لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ الغرض سوات نیوز ڈاٹ کام، زمونگ سوات ڈاٹ کام، زما سوات ڈاٹ کام، شمال نیوز ڈاٹ کام، نیوز میوز ڈاٹ کام، سپین سر نیوز ڈاٹ کام اور سوات ون ڈاٹ پی کے تازہ ترین خبروں کے ساتھ ساتھ صحت، کھیل و ثقافت کو سائٹس پر ڈالتے ہیں جب کہ ”درسِ قرآن ڈاٹ کام“ دنیا بھر کے معروف علماء کی بیانات، تفسیرِ قرآن اور شرعی مسائل کا حل بتاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری نوجوان نسل اِن تمام چیزوں سے غافل ہوکر پب جی، ٹِک ٹاک اور سیاسی و مذہبی جنونیت کی لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔

جہاں سوشل میڈیا کے مثبت پہلو اُجاگر ہورہے ہیں، وہیں دوسری طرف اس کے منفی پہلوؤں کا چہرہ بھی بے نقاب ہورہا ہے۔

سوشل میڈیا نے انسانی اخلاقیات کو بُری طرح متاثر کیا ہے جس سے انسانی اَقدار گراوٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی لت اور مذہبی و سیاسی جنونیت نے انسانیت کو نفسیاتی عارضے میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہر چھوٹا بڑا، امیر غریب، مزدور، دیہاڑی دار، موٹا پتلا، کالا گورا سبھی اس لت کا شکار نظر آتے ہیں۔ عُریانیت و فحاشی کے پھیلاؤ کا زمہ دار بھی سوشل میڈیا ہی ہے۔ فحاشی کا منبع لاکھوں کی تعداد میں موجود ”پورن ویڈیوز“ ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آئے روز مختلف قسم کے عجیب و غریب واقعات سننے کو ملتے ہیں۔ بعض افراد مسخ شدہ لاشوں کی تصویریں، جنگ و جدل کی خون ریزی اور گالم گلوچ نشر کرتے ہیں جس سے لوگوں میں بے چینی اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ذریعے چھپے جرائم بھی بے نقاب ہوتے ہیں۔ 

مثلاً چند مہینے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں پاکستان کی مشہور و معروف یونیورسٹی کا دل دہلا دینے والا انسانیت سوز اور تاریخ کا بد ترین سکینڈل بے نقاب ہوا، جس سے انسانیت بھی شرم سار ہے۔ اسی طرح زینب، عاصمہ، فرشتہ، کراچی میں پانچ سالہ مروہ یا گزشتہ روز لاہور موٹر وے پر خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُن سے سوشل میڈیا ہی نے پردہ اُٹھایا۔ 

اگر کہا جائے کہ سوشل میڈیا کے بغیر زندگی ممکن نہیں، تو کہنا بے جا نہ ہوگا کیوں کہ اب سوشل میڈیا انسانی و سماجی معاملات کا لازمی جُزو بن چکا ہے۔ کاروباری لحاظ سے یہ وہ ذریعہ آمدن ہے جو انسان کو روزانہ کی بنیاد پر اخراجات برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ 

سوشل میڈیا کے اگر نقصانات ہیں، تو فائدوں کی فہرست بھی خاصی لمبی ہے۔ اگر سوشل میڈیا کی ضرورت کو مثبت استعمال کی حد تک لیا جائے، تو ”گلوبل ولیج“ کی ترقی کا نیا باب رقم کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم سوشل میڈیا کا مثبت استعمال ممکن بناتے ہیں یا پھر منفی ۔۔۔؟

                      تحریر: اختر حسین ابدالؔی 

منگل، 15 ستمبر، 2020

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی و ضلعی قائدین کا ”باچا ہاؤس مٹہ“ آمد، تمام گلے شکوے دور

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی و ضلعی قائدین اے این پی ضلع سوات کے راہنماء اور اتفاق ایسوسی ایشن مٹہ بازار کے سابق صدر اکبر باچا  کے رہائش گاہ پہنچ گئے، تمام تحفظات دور کیے گئے، مل بیٹھ کر پارٹی کو کامیابی تک لے جائیں گے، تحفظات ہر کارکن کا بنیادی حق ہیں کیوں کہ اس وقت پارٹی کارکنان مشکلات برداشت کرکے پارٹی کا ساتھ دے رہے ہیں، مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری بریگیڈئیر ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد سلیم خان کی گفتگو

سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری بریگیڈئیر ریٹائرڈ ڈاکٹر محمد سلیم خان، سابق ضلع نائب ناظم عبدالجبار خان اور سابق اپوزیشن لیڈر تحصیل کونسل مٹہ صلاح الدین خان نے اے این پی ضلع سوات کے راہنما اور اتفاق ایسوسی ایشن مٹہ بازار کے سابق صدر اکبر باچا کو منانے اُن کی رہائش گاہ (باچا ہاؤس مٹہ) پہنچ گئے اور اُن کے تمام تحفظات دور کیے گئے۔ 

اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد سلیم خان اور عبدالجبار خان نے کہا کہ صوبائی صدر ایمل ولی خان کا واضح پیغام ہے کہ مقامی قائدین اور کارکنان پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہے جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ مقامی قائدین کا پارٹی کےلیے قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ 

اُنہوں نے کہا کہ اے این پی کے مقامی قائدین اور کارکنان نہ جُھکنے والے ہیں اور نہ ہی بِکنے والے، جس کی وجہ سے پارٹی قائدین اُن پر فخر کرتے ہیں اور انشاءاللہ پارٹی قائدین اپنی کارکنان اور مقامی قائدین کی عزت اور حقوق کےلیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ 

اُنہوں نے مزید کہا کہ اے این پی ہم سب کی مشترکہ پارٹی ہے اور ہم سب مل کر پارٹی کو مضبوط بنائیں گے۔ اس موقع پر اکبر باچا کا چھوٹا بھائی اور اے این پی تحصیل مٹہ کے راہنما خان باچا، اتفاق ایسوسی ایشن مٹہ بازار کے صدر محمد زبیر، سابق صدر عبدالقیوم، فراموش خان باماخیلہ، عبدالغفار خان ایڈوکیٹ، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن گورنمنٹ افضل خان لالا کالج مٹہ کے صدر اختر حسین ابدالؔی اور دیگر قائدین موجود بھی تھے۔ 

جمعہ، 11 ستمبر، 2020

موٹروے پر خاتون کی عصمت دری انتہائی شرم ناک ہے، ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، شاہی دوران خان

موٹروے پر خاتون کی عصمت دری کا واقعہ ریاستِ مدینہ کے دعویداروں کے مُنھ پر طمانچہ ہے، پنجاب پولیس عہدوں کے کشمکش کی بجائے فرائض کو مقدم رکھے، شاہی دوران خان 

سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے لاہور رنگ روڈ سے چند کلو میٹر دور موٹروے پر خاتون کی عصمت دری کے واقعہ پر اِظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ معصوم بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سخت اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ آئینِ پاکستان کی رو سے ہر شہری کی جان و مال کی تحفظ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہیں۔ 

دوسری ‏طرف سی سی پی او لاہور کی جانب سے موٹروے واقعے میں متاثرہ خاتون کو ذمہ دار قرار دینے کو بھی اِنتہائی شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی ذہنیت کے آفیسر کو اہم عہدے پر تعیناتی کےلیے حکومت ذمہ دار ہے، اور حکومت ہی کا محاسبہ ہونا چاہئیے۔
 
اُنہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ریاستِ مدینہ کے دعویداروں، پنجاب اور موٹروے پولیس کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پنجاب پولیس عہدوں کی کشمکش کی بجائے فرائض کی بجا آوری کو مقدم رکھیں کیوں کی پولیس کا کام عوام کی زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں بلکہ اُن کی حفاظت کرنا ہے۔