پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے دس رُکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر جمعے کی صبح فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے جمعے کی شام سنایا گیا۔
عدالت نے جمعے کو سماعت کے موقع پر درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے کے بعد معاملے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سماعت سے پہلے وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے ایف بی آر کی دستاویز سر بہ مہر لفافے میں عدالت میں جمع کرادیں، جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ جج ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی کوئی آرڈر پاس کریں گے کیوں کہ درخواست گزار کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لا چکی ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی تصدیق کروائیں۔
بعدازاں منیر اے ملک نے جمعے کو اپنے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل نے کبھی بھی اپنی اہلیہ کی جائیداد کو خود سے منسوب نہیں کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِن درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور اُن کی برطرفی کا حوالہ دیا اور حقیقت یہ ہے کہ جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ اِن درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ کہا کہ اُن کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے اور اُن کے دلائل سے سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا؟
اُنہوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اِنکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی اور منی لانڈرنگ کا ذکر ہے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔
درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے کہا کہ اِن درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل بدقسمتی سے غلط بس میں سوار ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو ایف بی آر میں لے جانے کی بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آ گئی۔
اُنہوں نے کہا کہ ایف بی آر اپنا کام کرے اور درخواست گزار نے اس میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا اور درخواست گزار چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔ اُنہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ اُنہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔
منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو کا قیام قانون کے خلاف ہے اور وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کے لیے رولز میں ترمیم ضروری تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جا سکتا۔
بینچ میں موجود جسٹس یحییٰ افریدی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ان کے موکل کو ملنے والے شوکاز نوٹس کے جواب کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا گیا؟
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چاہیے وہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی۔
جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چاہیے وہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی۔
اُنہوں نے کہا کہ لندن میں جائیدادوں کی تلاش کےلیے ویب سائٹ استعمال کی گئی جس کےلیے کسی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کےلیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ فرد کو ای میل کرتی ہے۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ضیاءالمصطفیٰ نے ہائی کمیشن سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں۔ اُنہوں نے کہا کہ لندن میں جن سیاسی شخصیات کی سرچ کی گئی اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت رسیدیں دے تو سامنے آ جائے گا کہ اُن کے موکل کی اہلیہ کی جائیدادیں کس نے تلاش کیں۔
اُنہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے تو ایک جائیداد کا بتایا تھا اور اگر اُن کے موکل کی اہلیہ کی جائیداد کی سرچ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کیں تو وہ رسیدیں دے۔ اس پر بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وفاق کے وکیل کہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججوں کے خلاف لیتے۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے اور یہ فیصلہ اُن کے موکل نے لکھا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ درخواست گزار کی اہلیہ نے لندن میں اِن جائیدادوں سے متعلق منی ٹریل سے متعلق دستاویز جمع کروا دی ہے اور اس کے علاوہ زرعی زمین کی دستاویزات اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کروائی ہیں۔
منیر اے ملک نے کہا کہ پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کےلیے سپریم کورٹ کے حکم پر جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس نے کہا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ الزام عائد کیا گیا کہ اُن کے موکل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں۔ اُنہوں نے کہا کہ گذشتہ سماعت کے بعد آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ سوال اُٹھایا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟
منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہونے کے بعد سندھ بار کونسل کے وکیل سینیٹر رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو لیگل فورس ہے اور حکومت کے مطابق وزیرِاعظم ادارہ بنا سکتے ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
اُنہوں نے کہا قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں، اُن کو قانون کی مدد بھی حاصل ہے۔
رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو یونٹ کو لامحدود اختیارات دیے گئے جب کہ اے آر یو یونٹ کےلیے قانون سازی نہیں کی گئی۔
سپریم کورٹ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اس بارے میں بینچ کے ارکان شام چار بجے اکٹھے ہوں گے اور اگر ججوں کا کسی ایک معاملے پر اتفاق ہوا تو اس بارے میں مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔
سماعت ختم ہونے کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ سپریم کورٹ آئے اور کیا اُنہوں نے بنیادی حق استعمال کرکے اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا اس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا عدالت آنا ضابطۂ اخلاق کے منافی نہیں؟ جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ جج صاحب اپنی ذات ک لیے آئے تھے یا عدلیہ کے لیے؟
اُنھوں نے کہا کہ ”آج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہے تو کل نہ جانے کس کے خلاف ہو“۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں