سندھ کے معروف قوم پرست ادیب اور تاریخ نویس عطاء محمد بھنبھرو نوے (90) برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ موصوف نے 300 سے زائد کتابیں لکھیں ہیں۔
کراچی (عصرِنو) عطاء محمد بھنبھرو سندھ کی تاریخ کے موضوع پر 40 سے زائد کتابوں کے مصنف اور مُترجم ہیں۔ اُن کی آخری وصیت کے مطابق اُن کی قبر کو چاروں اطراف سے زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ آپ آزاد سندھ کے حامی تھے، اور اُنہوں نے وصیت میں کہا تھا کہ ”میرے قبر کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جائے، تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چل سکے کہ یہاں ایک غلام قوم کا غلام فرد سو رہا ہے۔“
عطا محمد بھنبھرو نے 2012ء میں آزاد سندھ کے حامیوں اور ہندوؤں سے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف احتجاجاً صدارتی ایوارڈ لینے سے انکار کیا تھا۔
2015ء میں عطاء محمد بھنبھرو کے بیٹے راجہ داہر بھی لاپتا کردیئے گئے تھے، جس کے بارے میں آپ کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ” اُن کا بیٹا راجہ داہر گاؤں میں زمینیں سنبھالتا ہے اور چار جون کی شب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُن کے گاؤں بچل بھنبھرو کا محاصرہ کرکے اُن کے بیٹے کو حراست میں لے لیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر اُسے اپنے ساتھ لے گئے۔“
عطا محمد بھنبھرو کا دعویٰ تھا کہ اُن کا بیٹا کبھی مجرمانہ کارروائی میں ملوث نہیں رہا بلکہ وہ ایک سنجیدہ قوم پرست سیاسی کارکن ہے اور اس پر کوئی مقدمہ بھی درج نہیں۔
اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اُن کے نوجوان بیٹے کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا جائے گا، یا تشدد میں ہلاک کرکے مسخ شدہ لاش پھینک دی جائے گی۔ جیسے اس سے پہلے بھی قوم پرست کارکنوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ 26 جولائی 2015ء کو اُن کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا، اور بعد میں اُن کی لاش ملی۔ جس کےلیے وہ انصاف کی دہائی دیتے رہے، مگر اُنہیں انصاف نہیں ملا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں