اُستاد کسی بھی معاشرے میں اِکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشرے کو سُدھارنے میں اُستاد کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہوتی ہے۔ ایک بگڑے ہوئے سماج میں اُستاد ہی سُدھار لا سکتا ہے۔ اُستاد کا مقام بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ اُستاد ہی کی بدولت بنی نوع انسان نے فرش سے عرش تک سفر کیا۔ اُستاد نے بہشت اور دوزخ کی سیر کرائی۔ اُستاد کی عظمت اور رفعت کی اگر بات کی جائے تو دنیا میں کوئی بھی ایسا پیمانہ نہیں جو اِس کو تول سکے۔ اہلِ قلم اپنے استاد کی عزت اور عظمت کی خاطر الفاظ کے درلنڈھانے میں بخل سے کام نہیں لیتا۔
اُستاد کو معمارِ وطن اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ قوم کا پیکر تراشتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کے اساتذہ پر ہوتا ہے۔ کیوں کہ اُستاد ہی سائنس دان، سیاست دان، کیمیادان، ماہرِ فلکیات، ماہرِ ارضیات، ڈاکٹر، انجینئر یا آسمان کی اونچائی تک اُڑان کرنے والا ہوا باز تیار کرتا ہے۔ اگر اس دنیا میں رحمت اللعالمین اُستاد بن کر نہ آتے تو عرب کے بُت پرست اور آتش پرست لوگوں جہالت کی اندھیروں سے اسلام کے اُجالوں میں کون لے کر لاتا؟ اگر اُستاد رحمت بن کر نہ آتے تو زندہ درگور بچیوں کی چیخ و پُکار کون سنتا۔ جس طرح خاتم النّبین نے اُستاد بن کر عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کو ایک مثال بنایا۔ اِس طرح وہ اِس دور کے اساتذہ کےلیے ایک مشعل راہ بن گئے۔ اب چوں کہ سماج بدل چکا ہے اور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے تو زیادہ محنت لگن اور جذبے سے دونوں سرکاری اور نجی اداروں میں اساتذہ اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس قوم وملّت کو اچھے سے اچھے طریقے سے سنوارتے ہیں۔
اگر پاکستان اپنے وجود میں آنے کے ستر سال بعد بھی ترقی پذیر ہے تو اس میں بڑی وجہ اُستاد کی تحقیر کرنا اور اسے حقارت کی نظروں سے دیکھنا بھی ہوسکتا ہے۔ جو وقار قوم و ملت کو ملا ہے، وہ اُستاد کی مرہون منت ہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کو اگر دیکھا جائے تو وہاں اُستاد کی عزت، رتبہ اور مقام وزیرِ اعظم اور صدر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں اُستاد کی عزت اتنی ذیادہ ہے کہ سڑک پار کرتے وقت ٹریفک روک لی جاتی ہے۔ مرتبہ اتنا بڑا کہ عدالت میں اُسے کرسی پیش کی جاتی ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ اُستاد ہی سماج کا محسن اور معمار ہے۔
بابا اشفاق احمد اپنی کتاب ”زاویہ“ میں لکھتے ہیں کہ ایک روز میں اٹلی میں گاڑی چلا رہا تھا، میں نے ٹریفک سگنل توڑا جس پر میرا چالان ہوا۔ اگلے ہی روز میں جج کے سامنے عدالت میں حاضر ہوا۔ جب جج نے پوچھا کہ چالان جمع کرانے میں دیر کیوں ہوئی؟ تو میں نے کہا کہ میں پروفیسر ہوں، پڑھاتا ہوں اس لیے دیر ہوئی۔ اس پر وہ جج اپنی کرسی سے اُٹھ کر کھڑا ہوا اور زور سے سے کہا کہ ایک استاد کٹہرے میں!
وہ اپنا نشست چھوڑ کر میرے پاس آئے اور مجھ سے معافی مانگی۔ اور پھر پورے عدالت کے لوگ اکٹھا ہو کے مجھے باعزت اور با وقار طریقے سے وہاں سے رخصت کرنے لگے۔ کہتے ہیں اس دن میں نے اُن قوموں کی ترقی کا راز جان گیا۔
لیکن ہمارے ہاں اُستاد کی تذلیل کرنا، اُسے گالیاں دینا اور دھمکانا ڈرانا نہ صرف طلبہ بلکہ والدین کا بھی ایک معمول بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں ایک تبدیلی سرکار کے ذمہ دار رُکن کی سرکاری اساتذہ کے خلاف بیان بازی نے ایک نیا سماں باندھ لیا ہے۔ اس صاحب کو یہ بتا دینا چاہیے کہ آپ بھی کھبی اساتذہ کے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ تب آپ اس قابل ہوئے کہ ”وزیر“ بنے ۔آپ جو آج کاغذ پہ لکھے الفاظ اسمبلی ہاؤس میں کھڑے ہوکر زباں پہ ادا کرتے ہے، یہ اُستاد ہی کی بدولت ہے۔
جناب، بولنے سے قبل سوچیں۔ تمام اساتذہ سے معافی مانگیں، ورنہ اُستاد کی بد دُعا رد نہیں ہوتی۔ اللہ مجھے اور آپ سب قارئین کو استاد کا عزت کرنے والا بنائے، آمین
تحریر: شانزیب خان اخون خیل
Good Article Man Keep It Up..
جواب دیںحذف کریں