موجودہ حکومت میں بلوچستان سے 1500 کے قریب جبری گمشدگیاں ہوئی ہیں۔ جو لاپتہ افراد گزشتہ ادوار میں واپس آئے تھے وہ اس حکومت میں دوبارہ لاپتہ ہوئیں۔ سردار اختر مینگل قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پھٹ پڑے
سردار اختر مینگل نے کہا کہ اس عرصے میں 418 افراد بازیاب ہوئے ہیں اور یہ وہ ہیں جنھوں نے ان سے رابطہ کیا یا ان کے ذریعے رہا ہوئے ہیں۔
بدھ کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے اپنی جماعت کی علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران حکومت سے حالیہ بجٹ اور بلوچستان کے مستقبل سے متعلق کئی سوال بھی کیے تھے۔
پارلیمان کے اجلاس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ "میں اپنی جماعت کی تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کا باضابطہ طور پر اعلان کرتا ہوں، ہم پارلیمنٹ میں رہیں گے اور مسائل پر بات کرتے رہیں گے۔"
واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی چار نشستیں ہیں اور اس کی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکمران جماعت کی عددی برتری میں کمی واقع ہوئی ہے۔
سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "ہر بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جاتا ہے لیکن ان میں ہمیں کتنی فیصد عوام دوستی نظر آتی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ وزرا دوست ہو سکتا ہے، بیورو کریسی دوست ہو سکتا ہے، عسکریت دوست ہو سکتا ہے لیکن عوام دوست بجٹ آج تک نہ اس ملک میں آیا ہے اور نہ ہی کبھی آنے کے امکانات ہیں۔"
سردار اختر مینگل نے کہا کہ یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کے حقیقی نمائندگی کا حق رکھنے والے فری اینڈ فیئر الیکشن کے تحت منتخب ہو کر آئیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ "اس ملک میں آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا، کوڑیوں کے بھاؤ یہاں انصاف بکا ہے اور اس کے خریدار بھی ہم ہی ہیں۔ ہم نے عوام کو مجبور کیا ہے کہ وہ انصاف لیں نہیں بلکہ اس کو خریدیں اور منڈیوں میں جس طرح انصاف بکتا ہے شاید ہی اس ملک کے علاوہ کہیں بکتا ہو۔"
حکومت پر تنقید جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جس دن بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پہلی صف بھری ہوتی ہے، بجٹ منظوری کے دن بھی صف بھری ہوتی ہے لیکن جب بجٹ تجاویز پیش کی جاتی ہیں تو خوردبین سے حکومتی اراکین کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔"
قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ "ہمارے یہاں ایک روایت رہی ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومت کو قصور وار ٹھہراتی ہے، میں موجودہ حکومت کی بات نہیں کرتا، پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا، اس سے پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہوگا کہ یہ بدحال معیشت ہمیں ورثے میں ملی ہے، خالی خزانہ ہمیں ورثے میں ملا ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ "اگر آپ اس ورثے کے چکر میں چلتے جائیں تو بات 1947 تک پہنچ جائے گی کیونکہ ورثہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے، پھر تو آپ کہیں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں پاکستان خالی اور کھوکھلا کر کے دیا ہوا تھا"۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی، یہ غلطی سے چھپا ہے یا زبان پھسل گئی ہے؟ نہیں، یہ ان کی پالیسی ہے اور اس پالیسی کے چرچے ہم کئی عرصے سے سن رہے ہیں"۔
اختر مینگل نے کہا کہ میں اس ایوان کے توسط سے حکومت اور وزرا سے اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ یہ نظرثانی کس طرح کی جا رہی ہے، کیا یہ جو کہا جا رہا تھا کہ 18ویں ترمیم کو ختم کیا جائے گا، تو کیا یہ اسی کا حصہ ہے، یہ کس کی پالیسی ہے، حکومت کی پالیسی ہے، ان کے اتحادیوں کی پالیسی ہے یا کسی اور کی پالیسی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی رقم کو کم کردیا گیا ہے اور اس کے بدلے تمام صوبوں کو پیکیج دیے گئے ہیں لیکن بلوچستان کو صرف دس ارب کا پیکیج دیا گیا ہے۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ پچھلے پی ایس ڈی پی میں جو بجٹ رکھا گیا تھا، اس سال اسے کورونا یا ٹڈی دل کھا گیا، یہ اسی طرح بلوچستان کو اپنے ساتھ چلائیں گے؟ یہی ہے بلوچستان کی اہمیت؟ یہی ہیں بلوچستان کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے طریقے؟
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ بجٹ سے پہلے چینی، آٹے، پیٹرول وار اشیائے خورونوش کا بحران تھا، امن و امان کا بحران تھا، لوگوں کی اپنے گھروں میں حفاظت کا بحران تھا لیکن اس کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھینا جا رہا ہے۔"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں