ہفتہ، 13 جون، 2020

آٸینہ اُن کو دکھایا تو بُرا مان گئے


ملک میں جو افلاطون اور حقیتِ ناشناس بلکہ شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے خلاف بول رہے ہیں، اور ان ناگُفتہ بہہ حالات میں قناعت اور صبر کی تعلیم دے رہے ہیں، اِن جاہلوں کی خدمت میں عرض ہے کہ خیرات ہمیشہ اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذہ آپ جیسے غیرت مند حکومت سے یہ پوچھنے کی جسارت بھی کرے کہ اگر مملکتِ خداداد واقعی حالتِ جنگ میں ہے تو پھر آپ نے پچھلے دو سالوں کے دوران چاروں صوبائی اسمبلیوں، ایک قومی اسمبلی اور سینٹ کے ہزاروں ارکان کی تنخواہوں میں ایک ہزار فیصد تک اضافہ کیوں کیا گیا۔۔۔؟ کیا اُس وقت خزانہ خالی نہیں تھا۔۔۔؟

اگر آپ اپنی نابینا آنکھوں سے پٹیاں اُتار کر دیکھ لیں تو وہ دن یاد ہوگا جب پنجاب اسمبلی نے اپنے ارکان کی تنخواہوں میں دو سوفیصد اضافے کی سفارش وزیرِاعظم کو بھیج دی اور اُنہوں نے جب یہ سفارش مسترد کی تو پتہ ہے کیا ہوا۔۔۔؟ اسی اسمبلی نے وزیراعظم کی ناراضگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ازخود اپنی تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ کردیا، اور کیا یاد ہے وہ دن جب پچھلے سال یعنی حکومت کو بنے ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ صوبہ خیبر پختون خوا کی اسمبلی نے اپنی تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ کیا۔۔۔؟ 

اور اگر شرم و حیاء کی کوئی جھلک باقی ہو تو یہ بھی نوٹ فرمالیں کہ پچھلے سال ہر فوجی کی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ کیا گیا، جب کہ باقی تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف پانچ فیصد اضافہ کرکے اوپر سے اُن پر بھاری ٹیکسز عائد کیے۔ عمرانی حکومت میں پروفیسر سے جتنا ٹیکس کاٹا جاتا ہے، برائی مہربانی وہ خود بتا دیجٸےگا۔ 

وہ دانشور جو کہتے ہیں کہ دفاعی بجٹ پر بات نہ کریں اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ دفاعی بجٹ اس سال تقریباً کل بجٹ کا 19.5 فیصد بنتا ہے جو سابقہ سارے بجٹ سے ذیادہ ہے اور وہ بھی اس وقت جب آپ کشمیر کا سودا کرچکے اور دُشمن کے ساتھ ہرقسم جنگ سے توبہ تائب ہوئے۔ تو پھر اِن ناگفتہ بہہ حالات میں 11 فیصد اضافہ کیوں۔۔۔۔؟

وہ افلاطونِ زمانہ جو کہتے ہیں کہ تعلیم اور صحت صوبائی شعبے ہیں، تو اُن کےلیے عرض ہے کہ پاکستان ایک ایسا وفاق ہے جہاں مالی معاملات میں صوبے طوعاً و کرھاً مرکزی حکومت ہی کو فالو کرتے ہے اور آپ صوبائی حکومتوں کے کارنامے بھی بجٹ میں دیکھیں گے۔ یہ بھی کنفرم کیجٸے گا کہ این ایف سی ایوارڈ اور دیگر رائلٹیز کے مد میں مرکز صوبوں کا کتنا مقروض ہے۔۔؟ صوبے تو یہی بہانہ بنائیں گے کہ جب مرکز نے نہیں کیا تو ھم کیوں کریں۔۔؟ ہمارے پاس ہے کیا۔۔۔؟ 

بجلی، ٹیلی فون، بینک، ڈاک خانے، ریلوے، پولیس، وفاقی کالجز، ایٸرلائنز اور شِپنگ وغیرہ جو اسلام آباد سے باہر صوبوں کے اندر اپریشن میں مصروف ہوتے ہیں وہ وفاقی ملازمین ہوتے ہیں۔ جب اُن کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا تو کیا صوبے اُنہیں جواز نہیں بنائیں گے۔

ہاں چونکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے تو شاید وہاں معاملہ اُلٹ ہوجائے اور وہ اپنے ملازمین کے ساتھ احسن معاملہ کرے جیسا کہ سابقہ ادوار میں بھی صرف PPP ہی سرکاری ملازمین کی اہمیت و افادیت سمجھ چکی تھی۔

باقی سب کو چھوڑئیے، اِن دو سالوں میں ڈرگ مافیا نے ادویات کی قیمتوں میں کتنا فیصد اضافہ کیا۔۔۔۔؟ ہے اس ملک میں حکومت نامی کوئی چیز جو اُن سرمایہ داروں سے پوچھے۔۔۔ ؟ چینی، آٹا اور دیگر چوروں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی۔۔۔؟
اپنی بے حِسی کے دائرے سے ذرا باہر نکل کر آپ نے کبھی یہ  بھی پوچھا ہے کہ ملک کی 72 سالہ تاریخ میں شرح نمو زیرو سے کیوں نیچے آگیا۔۔۔۔؟ وزیرِ اعظم ہاؤس اور پزیذیڈنٹ ہاؤس کے اخراجات اور شاہ خرچیوں میں دو سالوں کے اندر کتنا اضافہ کیا گیا۔۔۔؟

سرکاری ملازمین کسی بھی ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ملک اور ملک کے بہت سارے اداروں اور شعبہ جات کو چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جب سرمایہ دارانہ حکومتیں اُن کے خون پسینے کی کمائی پر قبضہ جماکر اُن کی جائز مطالبات اور تمنّاووں کا خون کرتی ہیں تو پھر ریاست کی بنیادیں کھوکھلا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

لہذا آج امر اس بات کی ہے کہ جکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ اپنی ہم نواوؤں کو نوازنے کی بجائے غریب عوام پر توجہ دے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے بجائے عوام دوست نظام لایا جائے۔ شرح نمو کو بڑھانے کےلیے عملی اقدامات کیا جائے۔ تعلیمی پالیسی کو جدید خُطوط پر استوار کیا جائے اور نوجوانوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی پالیسی تَرک کیا جائے ورنہ بقولِ شاعر!
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

تحریر: جمشید خان
لیکچرار شعبۀ سیاسیات،
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج تیمرگرہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں