ہفتہ، 29 فروری، 2020

پنجاب یونیورسٹی میں پشتون طلباء پر حملہ کرنا، اُن پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کی مترادف ہے، سہیل اختر


لاہور (عصرِنو) پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن صوبہ خیبر پختونخواہ کی آرگنائزینگ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری سہیل اختر نے پنجاب یونیورسٹی میں پشتون طلباء پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ اس حملے میں ملوث ہیں، اُن کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ پشتون طلباء وہاں لڑائی جھگڑوں کےلئے نہیں، بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جاتے ہیں۔ پختون ایس ایف کے صوبائی جنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ پشتون پہلے ہی ظلم و بربریت اور دہشت گردی کا شکار ہیں، دہشت گردوں نے ہمارے تعلیمی اداروں کو تباہ کردیا ہے، اگر ہم سب ایک پاکستانی ہیں تو خدارا پشتون طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش کو ناکام بنایا جائے اور انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔ انہوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ پشتون طلباء کو تحفظ دی جائے اور ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کیا جائے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ آج ہوگا


امریکا اور طالبان کے درمیان دو دہائیوں پرمحیط طویل جنگ کے خاتمے کے لیے تاریخی امن معاہدہ آج قطر میں ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اورطالبان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ نہ صرف تاریخی بلکہ افغانستان میں امن، سلامتی اور خوشحالی کی جانب بہترین قدم ہوگا۔

 وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی پاکستان کے نمائندے کے طورپرآج دوحہ میں امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان امن معاہدے کی دستخطوں کی تقریب میں شرکت کریں گے۔

جبکہ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سمیت پچاس ممالک کے نمائندے معاہدے پردستخطوں کی تقریب میں شرکت کریں گے۔

افغان حکام کی جمعے کو قطر میں طالبان اراکین سے ملاقات ہوئی ہے جس میں امریکا اور طالبان کے معاہدے سے قبل قیدیوں کی تبادلہ کے منصوبہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

افغان حکام نے مستقل جنگ بندی کیلئے طالبان 5 ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی  کا مطالبہ کیا ہے ۔ دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہو گا جب کہ اس کے جواب میں طالبان  یہ ضمانت دیں گے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں  ہوگی۔اس حوالے سے وزیرخارجہ شا ہ محمودقریشی نے پاکستان کا موقف واضح کرتے ہوئے کہاہے کہ امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان امن معاہدے سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن سے وسطی ایشیا کے ساتھ ہمارے روابط بڑھیں گے۔

وزیرخارجہ نے کہاکہ امن واستحکام سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے شاندارمواقع پیدا ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن سے پاکستان کوکاسا1000منصوبے سے استفادہ کرنے اورملک میں توانائی کے بحران پرقابوپانے میں مدد ملے گی۔

وزیرخارجہ نے مزید کہا پاکستان نے امن کے لئے اپنی سیکیورٹی فورسز، پولیس اور شہریوں کی قربانیاں دے کر بھاری قیمت ادا کی ہے۔ 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر  کہا  کہ افغان عوام موقع سے فائدہ اٹھائیں، امن معاہدے سے نئے مستقبل کا موقع مل سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اُن کی ہدایات کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو طالبان نمائندوں کے ساتھ سمجھوتے کی تقریب میں شامل ہوں گے، جبکہ وزیر دفاع مارک ایسپر افغان حکومت کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے۔

جمعہ، 28 فروری، 2020

پنجاب یونیورسٹی میں پشتون طلباء پر حملے کی مذمت کرتے ہیں، شاہی دوران خان


لاہور(عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکریٹری شاہی دوران خان نے پنجاب یونیورسٹی میں پشتون طلباء پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ اس حملے میں ملوث ہیں، اُن کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ 

اے این پی ضلع سوات کے جنرل سیکرٹری شاہی دوران خان نے عصرِنو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب ہمارا بڑا بھائی ہے، لیکن اگر بڑا بھائی غلط رویہ اختیار کرے یا بڑے بھائی کے لبادے میں ایسی حرکت کرے تو اس سے باقی صوبوں کے عوام میں خطرناک تاثر اُبھرے گا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ پشتون طلباء وہاں لڑائی جھگڑوں کےلئے نہیں، بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جاتے ہیں۔ اے این پی کے ضلعی جنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ پشتون پہلے ہی ظلم و بربریت اور دہشت گردی کا شکار ہیں، دہشت گردوں نے ہمارے تعلیمی اداروں کو تباہ کردیا ہے، اگر ہم سب ایک پاکستانی ہیں تو خدارا پشتون طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش کو ناکام بنایا جائے اور اُنہیں انصاف فراہم کیا جائے۔

 اُنہوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پشتون طلباء کو تحفظ فراہم کرے اور حملے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرکے اُنہیں سخت سزا دیا جائے۔

اے این پی کے شہداء کےلئے قومی دن مختص کرنا اور اُن کے حوالے سے کتاب شائع کرنے کا فیصلہ لائقِ تحسین ہے، ایوب خان اشاڑی


سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے کہا ہے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے جانب سے اپنے شہداء کےلئے قومی دن مختص کرنا، اور شہداء کے حوالے سے کتاب شائع کرنے کا اعلان لائقِ تحسین ہے۔

ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اے این پی اپنے شہداء کو کھبی فراموش نہیں کر سکتی، کیوں کہ اُن ہی کی قربانیوں کی بدولت امن قائم ہوا ہے۔

یاد رہے کہ شہید میاں مشتاق کی برسی پر ایمل ولی خان نے اعلان کیا تھا کہ اے این پی بہت جلد اپنے شہداء کے حوالے کتاب شائع کرررہی ہے، جس میں اُن شہداء کے حوالے سے تاریخ درج ہوگی۔

اس کے ساتھ ساتھ اے این پی اپنے شہداء کےلئے ایک روز بھی مختص کررہی ہے جو کہ عوامی نیشنل پارٹی شہداء کے قومی دن کی حیثیت سے منائے گی۔

جمعرات، 27 فروری، 2020

نادر شاہی مخلوق اور پی ٹی ایم


 فرانز فینن اپنی مشہور کتاب ”افتادگانِ خاک“ میں لکھتے ہیں کہ ”جب نادر شاہی مخلوق اپنی مطلق طاقت کے نشہ میں سرشار اور اس کے خاتمے کے خوف سے دوچار ہوتی ہے تو اُنہیں یہ واضح طور پر یاد نہیں رہتا کہ وہ کبھی انسانی جامے میں تھے۔ وہ اب اپنے آپ کو بندوق یا کوڑا سمجھنے لگتی ہے“۔

جنوری 2018 میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی جنہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں تمام پشتون قیادت نے شرکت کی اور تقاریر کیں۔ دھرنے کے دوران ایک بات کی نشان دہی پشتون قیادت بار بار کرواتی رہی کہ دھرنا صرف چند مطالبات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پلیٹ فارم سے ان تمام مظالم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے جن کا سامنا بحیثیت قوم پشتون کئی دہائیوں سے کررہے ہیں۔

اسی دھرنے کے دوران پختونخوا میپ کے چئیرمین محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہ مطالبات کیا ہیں؟ یہ تو گھنٹوں میں حل ہوسکتے ہیں، تم کیوں اتنی سادہ بن رہے ہو!دہشت گرد ایک شخص ہوتا ہے، مارکیٹ، گھر، اور دکانیں تو دہشت گرد نہیں ہوتی پھر اپریشنز میں مارکیٹیں کیوں گرائی گئیں؟ ہمیں اس کا حساب کون دے گا ؟ “۔ 

دھرنے میں ملک بھر سے پشتونوں نے شرکت کی اور اسی دھرنے کے دوران محسود تحفظ موومنٹ (ایم ٹی ایم) پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) میں تبدیل ہوئی۔

پشتون تحفظ موومنٹ نے اپنا پہلا جلسہ فروری دو ہزار انیس میں ژوب کے مقام پر کیا، دوسرا جلسہ قلعہ سیف اللہ، تیسرا جلسہ خانوزئی بازار اور چوتھا جلسہ کوئٹہ شہر میں کیا۔ ان جلسوں میں قبائلی عمائدین اور پشتون سیاسی کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہاں سے پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھیوں کو تنگ کرنے اور انہیں اس کام سے روکنے کےلیے مقتدر قوتوں کی طرف سے طرح طرح کے اوچھے ہتھکنڈے شروع ہوئے۔ شروع میں ان کے خلاف صرف ایف آئی آر درج ہوئیں لیکن جیسے جیسے پشتون تحفظ موومنٹ عوام میں مقبول ہوتی رہی، مقتدر قوتیں تشدد پر اتر آئی۔

کراچی جلسے کی کمپین کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کو اغوا کیا گیا ان پر بے تحاشا تشدد کیا گیا۔ ان رہنماؤں میں پروفیسر ارمان لونی بھی شامل تھے جن پر حراست کے دوران اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ تشدد کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے تھے۔ تشدد، پروپیگنڈے، گرفتاریاں اور دھمکیاں معمول بن گئی اور پھر رمضان کے مقدس مہینے میں علی وزیر اور اس کے ساتھیوں پر حملہ ہوا جس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان شہید ہوئے۔ اس واقعے پر شدید احتجاج بھی ہوا لیکن یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں۔

02 فروری 2019 کو پشتون تحفظ موومنٹ کے راہنماء پروفیسر ابراہیم ارمان لونی کو احتجاجی دھرنے میں شرکت کے فوراً بعد دن کے اجالے میں قتل کیا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس کے قتل کے بعد لوگوں کو اس کے جنازے میں شرکت سے روکا گیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کی صوبے میں داخلے پر پابندی لگائی گئی اور جنازے کے بعد جب وہ واپس جا رہے تھے تو ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ مہینوں تک اس کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور بجائے اس کے کہ ارمان کے قاتل کو سزا ملتی اسے پروموشن ملی۔ یہ مقتدر قوتوں کا ایک ایسا جبر تھا جس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔

26 مئی 2019 کو پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء علی وزیر اور محسن داوڑ پُرامن احتجاج کےلئے جارہے تھے جن پر خڑ کمر چیک پوسٹ کے مقام پر رمضان کے مقدس مہینے میں گولیاں برسائی گئی جس کے نتیجے میں چودہ سے زیادہ افراد شھید ہوئے۔ منتخب اراکین اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کو بنا کسی وارنٹ گرفتار کرکے جیل میں ڈالتے ہوئے آئین پاکستان کو روند ڈالا ۔ ایک طرف بے گناہ افراد کو قتل کیا اور دوسری طرف میڈیا پر علی وزیر اور محسن داوڑ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے۔ 
بقولِ شاعر!
تمہارا شہر، تم ہی مدعی، تم ہی منصف
مجھے یقین تھا میرا ہی قصور  نکلے گا

ایک پُرامن سیاسی تحریک کے کارکنان کی گرفتاریاں، ان پر تشدد، مار دھاڑ ، ان کے خلاف پروپیگنڈے عروج پر تھے کہ اسی دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین کو رات کی تاریکیوں میں پشاور سے گرفتار کیا گیا۔ اس غیر قانونی گرفتاری کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔  مملکت خداداد میں پُرامن  مظاہرین پر ریاست پھٹ پڑی اور کارکنان پر تشدد کیا گیا۔ ریاست کے دارلحکومت میں منتخب رکن اسمبلی کو مارتے اور گھسیٹتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور ساتھ ہی درجنوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر دہشتگردی اور بغاوت کا مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیئے گئے۔

گزشتہ ہفتہ یعنی 09 فروری 2020 کو لورالائی شہر میں پشتون تحفظ موومنٹ کا جلسہ ارمان لونی شھید کے برسی کی مناسبت سے منعقد کیا گیا ۔ کیوں کہ یہ وہی شہر ہے جہاں پروفیسر ارمان لونی کو قتل کیا گیا تھا۔ صبح ارمان لونی کی بہن ”وڑانگہ لونی“ اپنی آہ و فریاد لے کر جلسہ گاہ اپنے بھائیوں کے پاس جانے والی تھی کہ جہاں وہ اپنے بھائیوں کو بتا سکے، کہ کس جرم کی بنا پر ارمان کو قتل کیا گیا؟ ارمان کس ارمان کی تکمیل میں مارا گیا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ جلسہ گاہ پہنچتی انہیں ان کے ساتھی ثناء اعجاز کے ساتھ ہی گرفتار کیا گیا۔

پشتون معاشرے میں عورت کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہاں عورت کی گرفتاری اور وہ بھی ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ، ایک نا قابل برداشت عمل ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں دوستی سے لے کر دشمنی تک ہر چیز کے اصول، قواعد وضوابط طے ہوں، وہاں اس طرح کی اوچھی حرکتیں کرنے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ کیا ریاست چاہتی ہے کہ پشتون نوجوان اپنی پُرامن سیاسی جدوجہد چھوڑ کر کوئی پُرتشدد راستہ اختیار کریں؟ اگر نہیں تو پھر ان سے پر امن احتجاج کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے؟ 

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی پختون شکن پالیسیوں پر نظرثانی کریں ۔ پختونوں کو ان کا آئینی و قانونی حقوق دیا جائے ۔ مقتدر قوتوں کو پختونوں کی نسل کشی سے روکا جائے، کیوں کہ پختون مزید اس ریاست سے وفاداری کی سرٹیفیکیٹ لینے والے نہیں ۔ پختونوں کی وسائل پر غیروں کا تسلط ختم کردیا جائے ۔ پنجاب میں پشتونوں کو شناختی کارڈ، این او سی اور دیگر بہانوں سے تنگ کرنا چھوڑ دیا جائے۔ فوجی آپریشنز میں جن لوگوں کے مکانات اور دوکانیں سمیت تمام کاروباری سرگرمیاں تباہ ہوچکی ہیں، ان کی بحالی کےلیے فی الفور اقدامات کئے جائیں۔ حکومت پچاس لاکھ گھر بنانے سے پہلے پشتوں کے تباہ حال گھروں کو آباد کرے اور آئین کے مطابق پختونوں کی پُرامن سیاسی تحریک کو چلانے دے۔
ورنہ بقولِ علامہ محمد اقبال!
 پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں 
ہم  وفادار  نہیں تو  بھی  تو دل  دار نہیں

                                                     تحریر: اختر حسین ابدالؔی 


___________________________________________________________________________________

بدھ، 26 فروری، 2020

قوم کے معماروں پر تشدّد ناقابل برداشت ہے، سہیل اختر


اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں ٹیچر ایسوسی ایشن کے پُرامن احتجاج پر پولیس کی لاٹھی چارج کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ سہیل اختر

سوات (عصرِنو) پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن صوبہ خیبر پختونخواہ کی آرگنائزینگ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری سہیل اختر نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں ٹیچر ایسوسی ایشن کے پُرامن مظاہرین پر پولیس گردی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مثالی پولیس حکومت کے کہنے پر لوگوں کی حفاظت کی بجائے ان پر تشدّد کررہے ہیں، جو ناقابل برداشت ہے۔ 

ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قوم کی معماروں پر بد ترین تشدّد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد کمیشن بنا کر ذمہ داروں کا تعین کریں، اور ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ 

ٹیچر ایسوسی ایشن اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے پُرامن احتجاج پر پولیس کی لاٹھی چارج جہالت کی انتہا ہے، ایوب خان اشاڑی


سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے ٹیچر ایسوسی ایشن اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے پُرامن احتجاج پر پولیس کی لاٹھی چارج کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پُرامن اساتذہ کرام پر تشدد کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ 

ان خیالات کا اظہار انہوں نے عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ مستقبل کے معماروں پر طلبہ کے سامنے تشدّد کرکے انہیں کیا پیغام دیا ‏جارہا ہے؟

اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے آنے والے نسلوں کو تعلیم سے محروم نہیں ہونے دینگے، یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت اور مالی بحران خود ساختہ جو ہمارے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے گہری سازش ہے۔ 

اے این پی اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے اساتذہ کے مطالبات کی نہ صرف حمایت کرتی ہے بلکہ ان پر پولیس گردی کی بھی مذمت کرتی ہے۔

سانحہ بونیر کے متاثرہ خاندانوں کو شہداء پیکیج دیا جائے، شاہی دوران خان


سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے جنرل سیکریٹری شاہی دوران خان نے بونیر کے علاقے بامپوخہ میں ماربل کان میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے افراد سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے واقعے پر دُکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ 

واقعہ بارے عصرِنو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیش آنے والا واقعہ دلخراش ہے، دُکھ کی اس گھڑی میں اے این پی غمزدہ خاندانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت واقعے میں زخمی ہونے والے افراد کو بہترین طبی سہولیات فراہم کریں۔ جبکہ جاں بحق مزدوروں کو شہداء پیکیج دیا جائے، کیوں کہ لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آنیوالے تمام کے تمام افراد مزدور اور غریب طبقے سے ہیں۔

منگل، 25 فروری، 2020

صوبائی دارالحکومت میں پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل باعثِ تشویش ہے، محمد ایوب خان اشاڑی


سوات (عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی ضلع سوات کے صدر محمد ایوب خان اشاڑی نے پشاور کے علاقہ ریگی میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ کے دارالحکومت میں مثالی پولیس کی جانب سے ماورائے عدالت قتل باعث تشویش ہے، پشتونوں کو ایک بار پھر نشانہ بناکر جعلی پولیس مقابلوں میں مارا جارہا ہے جو ایک ناقابل برداشت عمل نہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے (عصرِنو) سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اے این پی کے ضلعی صدر کا کہنا تھا کہ پشتونوں کی ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ نہ روکنے سے کیا پیغام دیا جارہا ہے؟

پشاور میں جعلی مقابلوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت ظلم و بربریت ہے، اگر نقیب اللہ محسود کیس میں مجرمان کو سزا ملتی تو آج ایسے واقعات دیکھنے کو نہ ملتی۔

سزا دینا پولیس کا نہیں بلکہ عدالتوں کا کام  ہے۔ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کے خلاف جانے والوں کو سزا دئے بغیر اس قسم کے واقعات کو روکنا ممکن نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے خاموشی کا مطلب ہے کہ انہوں نے بھی اپنے لئے راؤ انوار رکھے ہیں، انہوں نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات پر حکمرانوں کی خاموشی ان کی نااہلی اور ناکامی کا ثبوت ہے، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کی صاف و شفاف تحقیقات کرکے ملوث ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

پیر، 24 فروری، 2020

پشاور میں جعلی مقابلوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت ناقابل برداشت ہے، ایمل ولی خان


پشاور(عصرِنو) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے پشاور کے علاقہ ریگی میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی پولیس مقابلوں کا کلچر معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے، پشتونوں کو ایک بار پھر نشانہ بناکر جعلی پولیس مقابلوں میں مارا جارہا ہے جو قابل برداشت نہیں۔

باچاخان مرکز پشاور سے جاری بیان میں اے این پی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ پشتونوں کی ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ نہ روکنے سے کیا پیغام دیا جارہا ہے؟

پشاور میں جعلی مقابلوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت ظلم و بربریت ہے، اگر نقیب اللہ محسود کیس میں مجرمان کو سزا ملتی تو آج ایسے واقعات سامنے نہ آتے۔ 

ایمل ولی خان نے مزید کہا کہ اگر کوئی ملزم ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے، یہ کہاں کا قانون ہے کہ ایک شخص کو گھر سے اٹھایا جاتا ہے، وہ دہشتگرد قرار پاتا ہے اور پولیس مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دوسری جانب سوشل میڈیا پر متحرک کارکنوں کو دھمکایا، ڈرایا جاتا ہے جو افسوسناک امر ہے، عوامی نیشنل پارٹی اس قسم کے واقعات پر خاموش نہیں رہے گی۔

سزا دینا پولیس کا نہیں بلکہ عدالتوں کا دائرہ اختیار ہے۔ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کے خلاف جانے والوں کو سزا دئے بغیر اس قسم کے واقعات کو روکنا ممکن نہیں۔

 ایمل ولی خان نے کہا کہ اس جعلی مقابلے کے بعد احتجاجی مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہیں، عوام ایک اور راؤ انوار برداشت نہیں کرسکتے اور اس ضمن میں عدالتوں سمیت ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

انہوں نے حکمرانوں کی جانب سے خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات پر حکمرانوں کی خاموشی انکی نااہلی اور ناکامی کا ثبوت ہے، واقعے کی شفاف و صفاف تحقیقات کرکے ملوث ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

جاری اعلامیہ کے نکات:

☆ جعلی پولیس مقابلوں کا کلچر معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہاہے، ایمل ولی خان.

☆ پشتونوں کی ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ نہ روکنے سے کیا پیغام دیا جارہا ہے؟

☆ پشاور میں جعلی مقابلوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت ظلم و بربریت ہے.

☆ نقیب اللہ محسود کیس میں مجرمان کو سزا ملتی تو آج ایسے واقعات رونما نہ ہوتے.

☆ اگر کوئی ملزم ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے، سزا دینا پولیس کا نہیں عدالتوں کا دائرہ اختیار ہے.

☆ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کے خلاف جانے والوں کو سزا دئے بغیر اسے روکنا ممکن نہیں.

☆ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں، لنڈی کوتل میں اے این پی کارکنان لواحقین کے ساتھ موجود ہیں.

☆ عوام ایک اور راؤ انوار برداشت نہیں کرسکتے، عدالتوں سمیت ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا.

 ☆ سوشل میڈیا پر متحرک کارکنوں کو دھمکایا، ڈرایا جاتا ہے جو افسوسناک امر ہے، اے این پی خاموش نہیں رہے گی.

☆ ایسے واقعات پر حکمرانوں کی خاموشی ان کی نااہلی اور ناکامی کا ثبوت پیش کررہی ہے 

☆ واقعے کی شفاف تحقیقات کرکے ملوث ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے.

ہفتہ، 22 فروری، 2020

اٹھارہ سال بعد امریکہ اور طالبان میں جنگ بندی کا اعلان خوش آئند ہے، اسفندیار ولی خان


چارسدہ: عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے 18سال بعد امریکہ اور طالبان میں جنگ بندی کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان مسئلے میں بنیادی طور پر فریق دو نہیں بلکہ حکومت سمیت تین فریق تھے، یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ تینوں فریق جنگ بندی کے اعلان پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں، جو امن کے حوالے سے خوشخبری ہے۔ 

ولی باغ چارسدہ سے جاری اپنے بیان میں اسفندیار ولی خان نے کہا کہ اے این پی کا روز اول سے مطالبہ تھا کہ دنیا کو افغان مسئلے کے حل کےلیے راہ تلاش کرنی ہوگی، اور حکومت افغانستان کو اس عمل کا حصہ بنانا ہوگا۔

آج پہلی بار محسوس ہورہا ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونے کی طرف جارہا ہے، افغان امن کے ساتھ پورے خطے اور بالخصوص پاکستان کا امن جڑا ہوا ہے، اگر افغانستان میں امن قائم ہوجاتا ہے تو یقینی طور پر اُس کے اچھے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔

اسفندیار ولی خان نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی یہی مطالبہ کرتی چلی آرہی تھی کہ افغان مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔ آج یہ مذاکرات ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ امریکا اور طالبان عارضی جنگ بندی کا اعلان کررہے ہیں۔

 اگر مذاکرات کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو عارضی جنگ بندی مستقل جنگ بندی میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے تمام امن پسندوں کےلیے خوشی کا دن ہے کہ عارضی جنگ بندی ہی سہی، لیکن افغان عوام آج پرامن افغانستان کا پہلا دن منارہے ہیں۔

جاری اعلامیہ کے نکات:
☆ 18سال بعد امریکہ اور طالبان میں جنگ بندی کا اعلان خوش آئند ہے،اسفندیار ولی خان.

☆ افغان مسئلے میں بنیادی طور پر فریق دو نہیں بلکہ حکومت سمیت تین فریق تھے۔

☆ یہ پہلی بار ہورہا ہے کہ تینوں فریق جنگ بندی کے اعلان پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔

☆ افغان امن کے ساتھ پورے خطے اور بالخصوص پاکستان کا امن جڑا ہوا ہے۔

☆ اگر افغانستان میں امن قائم ہوجاتا ہے تو یقینی طور پر اُس کے اچھے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔

☆ اے این پی یہی مطالبہ کرتی چلی آرہی تھی کہ افغان مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔

☆ یہ مذاکرات ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ امریکا اور طالبان عارضی جنگ بندی کا اعلان کررہے ہیں۔

☆ مذاکرات کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو عارضی جنگ بندی مستقل جنگ بندی میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔

☆ خوشی کا دن ہے کہ عارضی جنگ بندی ہی سہی لیکن افغان عوام آج پرامن افغانستان کا پہلا دن منارہے ہیں۔

جمعہ، 21 فروری، 2020

مادری زبانوں کا عالمی دن، پختون ایس ایف ضلع سوات کی طرف سے تقریب کا اہتمام


مادری زبانوں کی عالمی دن کے حوالے سے پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع سوات کے صدر شہاب باغی کی زیرِ صدارت ایک پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ 

پروگرام کے مہمانِ خصوصی پشتو زبان کے معروف شاعر اور تاریخ دان ڈاکٹر ہمدرد یوسفزے جبکہ اعزازی مہمان معروف کالم نِگار ہمایون مسعود صاحب تھے۔

یہ پُروقار تقریب سہ پہر تین بجے شروع ہوئی، جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی قائدین، پختون ایس ایف ضلع سوات کے تمام یونٹوں کے صدور و سیکریٹریز، شُعراء و ادباء، ادب کے شوقین اور معززینِ علاقہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اسلامی روایات کی رو سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا، جس کی سعادت پختون ایس ایف ڈاکٹر خان شہید کالج کبل کے صدر بلال خٹک کو نصیب ہوئی۔

پروگرام میں مشاعرے کا اہتمام بھی کیا گیا، جس میں فیض علی خان فیض، سیّد طارق باغی، وحید اللہ قرار، شاہد علی شاداب اور موسیٰ خان موسیٰ نے نظمیں اور اشعار پڑھنے کےلیے یکے بعد دیگرے سٹیج کا رُخ کیا۔

شُرکاء نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر اپنی مادری زبان اور قوم کی خدمت کریں۔ اپنے مادری زبان کی ترویج کےلیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ حکومتِ وقت پشتو زبان کو شامل نصاب کرکے اسے لازمی قرار دیا جائے۔ مادری زبان ماں جیسی میٹھی اور اس قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پشتو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ اسے دفتری زبان بھی قرار دیا جائے، کیوں کہ زبان ہی سے اقوام کی پہچان ہے لیکن بد قسمتی سے ہماری پشتو زبان تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ لہذا اسے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ بچے اپنی مادری زبان لکھ اور پڑھ سکیں۔
بقولِ خوشحال خان خٹک بابا!
پرہ دئی ژبہ زدہ کول کہ لوئی کمال دے
خپلہ    ژبہ    ھیرول    بے    کمالی   دہ

                                                                            پروگرام کے بعد شرکاء کا گروپ فوٹو

جمعرات، 20 فروری، 2020

متحدہ طلبہ محاذ کے پُرامن احتجاج پر پولیس تشدّد کی مذمت کرتے ہیں، صوبائی چئیرمین پختون ایس ایف جمشید وزیر


پشاور: پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن خیبرپختونخوا کے صوبائی چیئرمین جمشید وزیر اور سیکریٹری جنرل سہیل اختر نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں متحدہ طلبہ محاذ کے پُرامن احتجاج پر پولیس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے مطالبات و مسائل کو فی الفور حل کئے جائیں۔ 

صوبائی چیئرمین الیکشن و آرگنائزنگ کمیٹی جمشید وزیر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یورنیورسٹی انتظامیہ طلباء کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کرے، تمام گرفتار ساتھیوں کو جلد سے جلد رہا کیا جائے ۔ طلباء کو ہاسٹل سے نکالنا اور ہاسٹل کی بندش مسئلے کا حل نہیں۔ 

انہوں نے کہا ہے کہ طلباء کا اخراج ان پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہیں، انتظامیہ اس قسم کی کارروائیوں سے گریز کرے۔

جاری اعلامیہ کے نکات:
☆ ایس ایف کی متحدہ طلبہ محاذ کے پرامن احتجاج پر پولیس تشدد کی مذمت۔

 ☆ پر امن احتجاج پر پولیس کی لا ٹھی چارج اور گرفتاری کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ 

☆ گومل یونیورسٹی متحدہ طلبا محاذ کے تمام تر مطالبات کو فی الفورر حل کیا جائے اور تمام گرفتار ساتھیوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے،یونیورسٹی انتظامیہ طلبا کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کرے۔

☆ طلبہ کو ہاسٹل سے نکالنا، ہاسٹل کی بندش مسئلے کا حل نہیں، طلبہ کا اخراج تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہیں،ایسی کارروائیوں سے گریز کیا جائے۔

ہفتہ، 15 فروری، 2020

تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء نعیم الحق انتقال کر گئے


کراچی: وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور اور تحریک انصاف کے سینئر رہنما نعیم الحق علالت کے باعث انتقال کرگئے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے نعیم الحق کے انتقال کی تصدیق کی اور بتایا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

فواد چوہدری کا ٹویٹ میں کہنا تھا کہ "نعیم الحق بہادری کینسر کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، ہم ان کی کمی ہمیشہ محسوس کریں گے، اللہ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے"۔

تحریک انصاف کے رکن سندھ اسبملی خرم شیر زمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نعیم الحق کا انتقال کچھ دیر قبل ہوا، وہ ایک روز قبل ہی علاج کےلیے اسلام آباد سے کراچی آئے تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ نعیم الحق کی کل صبح سے طبیعت زیادہ خراب تھی، جس کے بعد انہیں کل رات ہی اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ "نعیم الحق نے پی ٹی آئی کی کامیابی کے لیے سر توڑ کوششیں کیں، انہوں نے پی ٹی آئی کے وژن اور منشور کے لیے بہت زیادہ کام کیا"۔

جمعہ، 14 فروری، 2020

خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلى سے خطاب


فخرِ افعان، بابائے امن اور فلسفہ عدم تشدّد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اسمبلی کے اجلاس میں متواتر شرکت کرتے رہے، 05 مارچ 1948ء کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فخر افعان اور بابائے امن باچا خان بابا نے فرمایا:
میں نے یہ کٹ موشن اس لیے لیا ہے کہ میں پاکستان کی حکومت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکوں، میں یہاں اپنے تنظیم اور میرے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کو دور کرنے بارے وضاحت کروں گا۔

سب سے پہلے ہم پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ ہم پاکستان کے خلاف ہیں اور ہم اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں دلیل بازی نہیں کروں گا اگر مجھے اجازت ہو تو میں اس کے بارے میں روشنی ڈالوں گا جو کہ میں اپنے صوبے میں بھی بولتا ہوں، تاکہ پاکستان کے ذمہ دار لوگوں کو پتہ چلے کہ میں پاکستان کا دوست ہوں یا دشمن ؟ وہ یہ اختلاف تو نہیں کر سکتے کہ میں ابھی اور بعد میں غلط فہمیاں دور کرنے کی کوششں کرتا رہوں گا میں اپنے لوگوں کو اپنے صوبے میں کہتا رہتا ہوں، حالاں کہ میرا خیال یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ آج ہم ہندوستان میں اس کے نتائج کے گواہ ہیں ہزاروں نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد اور عورتیں تباہ و برباد ہو گیئں ہیں اب جبکہ بٹوارہ ہو چکا ہے تو اختلاف بھی ختم ہوا۔

میں نے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف بہت سے تقاریر کی ہیں لیکن ایک بات ہے کہ کیا ہر شخص نے مجھے سنا ہے ؟ ہم نے صوبہ سرحد میں مسلم لیگ حکومت کو کہا کہ ہم آپ کو حکومت کا موقع دیتے ہیں مگر وہ پختونوں سے نہایت سختی کے ساتھ پیش آئے، لوگ میرے پاس آئیں اور کہا کہ ہم حکومت پاکستان کے یہ مظالم برداشت نہیں کر سکتے، ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی طاقتور ترین قوم (انگریز) سے مقابلہ کیا جو ہمارے اوپر حکومت کرنا چاہتا تھا، میں نے ان لوگوں کو کہا کہ اب صورتحال مختلف ہے پہلے غیر ملکی تسلط تھا اور اب مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے۔

 میں نے حکومت پاکستان کو بار بار کہا کہ ہم اپ کے حکمرانی میں رہنے کو تیار ہیں، میں خطرات سمجھتا ہوں آپ میرے لیے کوئی بھی نظریہ رکھ سکتے ہیں، مگر میں توڑنے والا نہیں جوڑنے والا ہوں۔ اگر آپ میری زندگی کا مطالعہ کریں گے تو میں نے اپنی زندگی اپنے ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کےلیے وقف کر رکھی ہیں۔ 

میں بتاتا چلوں کے خدائی خدمت گار  تحریک سیاسی نہیں بلکہ اصلاحی تحریک  تھی مگر یہ بہت لمبی کہانی ہے، جسے میں دہرانا نہیں چاہتا۔ اس اصلاحی تنظیم کو سیاسی تنظیم میں منتقل کرنے کا ذمہ دار کون تھا؟ انگریز!
 ہمیں کانگریس کے ساتھ کس نے ملایا انگریز نے، میں یہ باتیں صرف آپ کے سامنے نہیں کر رہا مگر خدا نے مجھے حوصلہ دیا ہے اور یہ باتیں میں نے انگریزوں کے سامنے بھی کی ہیں۔

ہم خدائی خدمت گاروں پر الزام ہے کہ وہ حکومت کو ترقیاتی کام نہیں کرنے دے رہے،  اصلاحی پروگرام تب کامیاب ہو سکتا ہے جب ملک میں امن ہو، مگر ہمارا یہ موقف ہے کہ اگر گورنمنٹ ہمارے ملک اور عوام کےلیے کام کرنا چاہتی ہے تو خدائی خدمت گاران ان کے ساتھ ہوں گے۔ میں پھر دہراتا ہوں کہ میں پاکستان کو تباہ کرنا نہیں چاہتا، تباہی میں ہندوں، مسلمان، سرحد، پنجاب، بنگال اور سندھ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ 

صرف تعمیر میں ہی فائدہ ہے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں تباہی و بربادی کےلیے کسی بھی شخص کی مدد نہیں کروں گا۔ اگر آپ کے سامنے کوئی تعمیری کام ہے اور اگر آپ ہمارے لوگوں کےلیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور وہ عملی طور پر ہو، تو میں آپ کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں اور میری ساتھی اس میں حصہ لینے کےلیے تیار ہیں۔

میں گزشتہ کئی مہینوں سے سے پاکستان کی سرکار کو دیکھ رہا ہوں مگر مجھے انگریز حکومت اور اس حکومت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا ہے۔ 
ہو سکتا ہے کہ یہ غلط ہو مگر یہ عام رائے ہے اپ جائیں اور غریب عوام سے پوچھیں تو آپ کو میری بات کی تصدیق ہو جائے گی۔ یہ اس لیے ہے کہ اپ ان کی آواز کو طاقت سے دباتے ہیں، مگر یاد رکھیں! طاقت یا ظلم زیادہ دیر پا نہیں رہتا ، طاقت صرف عارضی طور پر رہ سکتی ہے اگر آپ طاقت استعمال کریں تو لوگ آپ سے نفرت کرینگے۔

اس کو چھوڑیں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ انگریز حکومت سے اب یہاں (پاکستان) میں زیادہ کرپشن ہورہی ہے اور انگریز حکومت سے زیادہ بدامنی ہے۔

میں ایک دوست کے حیثیت سے آیا ہوں، براہ کرم ان حقائق کے بارے میں سوچیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ اگر آپ ان کو پاکستان کے بارے میں فائدہ مند سمجھتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ ان کو رہنے دیں۔

 ہم انگریزوں سے کیوں لڑیں ؟ ہم نے ان کو لڑ کر باہر اس لیے نکالا کہ یہ ملک ہمارا ہو، اور ہم اس پر حکمرانی کریں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اب بھی بہت سے انگریز پھیلے ہوئے ہیں۔

بدقسمتی سے آج دیکھتے ہیں کہ وہی پرانی انگریزی پالیسی چل رہی ہے، وہی پرانے طریقے سے چاہے صوبہ سرحد ہو یا قبائلی علاقے، ہندو نے سب صوبوں میں ہندوستانی گورنر مقرر کیے ہیں۔ صرف مرد ہی نہیں، بلکہ عورتیں بھی گورنر مقرر کی گئیں ہیں۔

 مگر کیا صوبہ سرحد، بنگال اور پنجاب میں کوئی مسلمان نہیں تھے کہ آپ نے وہاں مسلمان گورنر مقرر نہیں کیے ہیں؟ کیا یہ اسلامی طریقہ ہے کیا آپ اسے بھائی چارہ کہیں گے ؟ کیا یہ اسلامی پاکستان ہے؟

حکومت میں یہی ایک غلط طریقہ نہیں ہے بلکہ دوسرا یہ کہ حکومت نے شاہی آرڈیننس بھی جاری کیے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا دُکھ ہوا کہ صوبہ سرحد کی حکومت نے بالکل انگریزی طریقے کے فرمان جاری کیے، وہی پرانی زبان اور پرانا جذبہ، جو انگریزوں میں تھا۔

 اگر انگریز جھوٹ بولتا تھا تو وہ غیر ملکی تھا، مگر ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں، کیوں کہ وہ یہاں ہماری بھلائی کےلیے نہیں، بلکہ اپنے مقاصد اور ہمیں لوٹنے کےلیے آیا تھا۔ مجھے اب پاکستانی حکومت سے شکایت ہے، کیوں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں اور یہ حکومت ہماری حکومت ہے۔

ہمیں اب پُرانے انگریزی طریقوں کو تَرک کرنا ہوگا، اگر ہم پاکستان میں پرانے طریقے استعمال کریں گے تو ہمیں بڑی پریشانیاں ہونگی جن سے ہمیں نقصان ہی ہوگا۔

ایک اور بات میں آپ کو بتاتا چلوں کہ مجھ پر الزام ہے کہ میں نے پٹھانوں (پختونوں) کی الگ قومیت اور الگ صوبائیت کی بات کرتا ہوں، حقیقت میں آپ ہی اس صوبائیت کے خالق ہیں۔ ہم پختونوں کو ان چیزوں کا پتہ نہ تھا کہ صوبائیت کیا ہوتی ہے؟ سندھ کو دیکھیں، کیا سندھ میں ہم صوبائیت پیدا کر رہے ہیں۔

 سوال یہ ہے کہ صوبائیت کیسے پیدا ہو رہی ہے؟ 
اس موقع پر غضنفر علی خان نے فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا کی بات کاٹتے ہوئے کہا ہم صوبائیت پر نہیں بلکہ پاکستان پر یقین رکھتے ہیں۔

فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے جواب دیا، پنجابیوں نے صوبائیت کا سبق دیا ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کو کچھ عرصہ اسلام کے نام پر بیوقوف بناتے رہیں، مگر یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا۔ یہ ایک عارضی چیز ہے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ صورتحال کس نے اور کیوں پیدا کی ؟ 
یہ قانونِ قدرت ہے کہ سبب کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آ سکتی۔

وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے جواب دیا یہ حالات پیدا ہو چکے ہیں، فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے فرمایا، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اگر آپ معاملہ دیکھیں گے تو بہت افسوس دہ باتیں سامنے آئیں گی۔ میں بدمزگی پیدا نہیں کرنا چاہتا، میں تقریریں بھی نہیں کرنا چاہتا، لیکن پہلی دفعہ میں آپ کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں ۔ 

وزیراعظم پاکستان کے دورہ پشاور کے موقع پر ہمارے بھائیوں نے بھی ان کے سامنے پختونستان کا مطالبہ کیا، مگر انہوں نے کہا کہ ہم خیبر سے چٹاگانگ تک سب مسلمانوں کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ سے سب پختونوں کو متحد رکھنے کی مدد مانگتے ہیں۔

اسی دوران فیروزخان نون نے پوچھا کیا آپ افعانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ؟
فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے کہا اگر یہ ممکن ہے کہ بنگالی بھائی ہم سے ہزاروں میل دور ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں جبکہ ہمارے اپنے بھائی جو ہمارے پڑوس میں ہیں اور پختون ہیں، جنہیں انگریزوں نے ہم سے جدا کر دیا (ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے) کیوں کہ پختونوں کا اتحاد انگریزوں کےلیے خطرے کا باعث تھا، مگر یہ ہمارے بھائی ہیں آپ ان سے کیوں ڈرتے ہیں۔

لیاقت علی خان نے کہا برائے مہربانی اپنے نقطے کی وضاحت کریں۔ جس پر فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے کہا کہ ہمارے پختونستان کا مطلب کیا ہے، یہ میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں۔ یہاں کے لوگ سندھی کہلاتے ہیں اور ان کے وطن کا نام سندھ ہیں۔ اسی طرح پنجاب اور بنگال پنجابیوں اور بنگالیوں کا اپنا وطن ہے۔ بالکل اسی طرح شمالی مغربی سرحدی صوبہ بھی ہے ہم ایک قوم ہیں اور ہماری دھرتی پاکستان کے ساتھ ہے ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن کا بھی ایک نام ہو کیا یہ اسلام کے خلاف ہے ؟۔

لیاقت علی خان نے کہا کیا پٹھان ایک ملک کا نام ہے یا برادری کا؟
فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے کہا پختون ایک برادری کا نام ہے اور وطن کا نام پختونستان ہو گا۔ میں وضاحت کرتا ہوں کہ ہندوستان کے لوگ ہمیں پٹھان اور ایرانی ہمیں افعان کہتے ہیں۔ ہمارا اصل نام پختون ہے ہم پختونستان چاہتے ہیں، اور ہم ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کا اشتراک چاہتے ہیں کہ ہم سب مل کر پختونستان میں شامل ہوں۔

 آپ اس میں ہماری مدد کر سکتے ہیں، آپ سوال کریں گے کہ اس سے پاکستان کمزور ہو گا، تو میں کہوں گا کہ اس سے پاکستان کمزور بالکل نہیں ہوگا اس سے ایک علیحدہ سیاسی یونٹ بنے گا، جو مضبوط ہوگا۔ اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری مشکلات ہیں، گورنمنٹ بد اعتمادی نہیں بلکہ اعتماد سے چلانی چاہیے۔

ایک اور چیز میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کہا جا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے اپنے فرائض پورے کرلیے، پاکستان بننے سے ان کا کام ختم ہو گیا۔ اب یہ دوسری پارٹیوں کا کام ہے کہ وہ معاشی بنیاد پر مشکلات کا خاتمہ کرنے کےلیے جدوجہد کریں۔ اگر ہمارے درمیان کوئی مشکلات ہو تو ہمیں صلاح و مشورے سے اسے دور کرنا چاہیے۔ 

اسلام ہمیں برداشت کا درس دیتا ہے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کی حکومت امیروں کی طرح نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں وہ طریقے ڈھونڈنے ہوں گے، جس پر پاکستان کو چلایا جاسکے۔

پاکستان کےلیے میرے خیالات یہ ہیں کہ یہ ایک آزاد پاکستان ہونا چاہیے۔ یہ کسی بھی مخصوص شخص یا قوم کے قبضے میں نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان ان سب لوگوں کےلیے ہونا چاہیے۔ ہر کسی کو ایک جیسے حقوق حاصل ہو، اور کسی کی حق تلفی نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پاکستان کی حکومت عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

 جہاں تک ٹیکنوکریٹس کا تعلق ہے تو انہیں مزید تربیت کےلیے امریکا اور برطانیہ بھیجا جائے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو میں اس سے متفق ہوں گا کہ یہاں اس کےلیے لوگ نہیں ہیں۔ جب ہندو اپنے معاملات حل کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔۔۔!

آخر میں ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے برداشت کیا، والسّلام۔

یہ تقریر سترہ دسمبر 1948ء کو باچا خان نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے پہلی خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔

جمعہ، 7 فروری، 2020

سات فروری، عظیم شاعر و سیاست دان اجمل خٹک کا یومِ وفات


معروف پاکستانی سیاست دان، شاعر، ادیب اور قوم پرست راہنما اجمل خٹک 1925ء میں اکوڑہ خٹک کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 

ان کے والد بزرگوار حکمت خان  بھی قومی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد معلمی کا پیشہ اختیار کیا، لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ علمی استعداد بھی بڑھاتے رہے۔ منشی فاضل، ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ 

ریڈیو پاکستان پشاور سے بطورِ سکرپٹ رائٹر وابستہ رہے، کافی عرصہ روزنامہ انجام پشاور کے ایڈیٹر رہے۔ سیاست میں اجمل خٹک ابتدا ہی سے قوم پرستانہ خیالات کے مالک رہے۔ شروع شروع میں زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری کے حق میں رہے۔ پھر رفتہ رفتہ خان عبدالغفار خان کے زیرِ اثر پختونستان کی بھی حمایت کی۔ اسی وجہ سے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے۔

 خان عبدالولی خان کی صدارت میں نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے۔ جب 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) کو غیر قانونی جماعت قرار دیا اور حکومت نے پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ان کو بھی گرفتار کرنا چاہا، لیکن اجمل خٹک روپوش ہوکر افغانستان چلے گئے وہاں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے لگے۔

جب افغانستان میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو ان کی عملی مدد کی اور افغانستان اور پاکستان کے پختون لیڈروں کی حمایت حاصل کرنے کےلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، لیکن سویت یونین کی تحلیل اور افغانستان میں اس کی شکست کے بعد اپریل 1989ء میں بےنظیر بھٹو کے عہدِ حکومت میں واپس پاکستان آئے اور یہاں کی سیاست میں حصہ لینے لگے۔ 

1990 تا 1993ء قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ مارچ 1994ء میں چھ سال کےلیے صوبہ سرحد(خیبر پختون خوا) کی جانب سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ آخری دونوں میں عمر کی زیادتی کی وجہ سے عملی سیاست سے کنارہ کش رہے۔

بطورِ شاعر و ادیب اجمل خٹک ترقی پسند تحریک سے متاثر رہے۔ پشتو اور اردو دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ دونوں زبانوں کے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ”جلا وطن“ کی شاعری بھی ان کا مجموعہ کلام ہے۔ جس میں افغانستان کے دوران جلا وطنی کے احساسات و جذبات کی عکاسی کی گئی ہے۔

آپ کی تیرہ کتابیں اور سترہ رسالے شائع ہوئے ہیں، ان کے اردو تصانیف میں، پشتو ادب کی تاریخ، عالمی ادب و خوشحال خان خٹک اور جلا وطنی کی شاعری جبکہ پشتو تصانیف میں، پښتانۀ شعرا، ژوند او فن، د غيرت چيغه، کچکول، باتور، دا زۀ پاگل ووم، دوخت چغه، گلونه تکلونه، گل پرهر، سرې غونچې، ځنډ و خنډ، افغان ننگ، دژوند چغه اور قيصه زما دادبى ژوند شامل ہیں۔

اجمل خٹک نے صحافت کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ وہ پشتو اور اردو زبانوں کے کئی اخبارات اور رسائل کے مدیر رہے جن میں انجام، شہباز، عدل، رہبر اور بگرام قابل ذکر ہیں۔

اجمل خٹک، جو کافی عرصہ سے علیل تھے، سات فروری، 2010ء کو پشاور کی ایک مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ کافی عرصہ وہ سیاست سے کنارہ کش رہے اور زندگی کی آخری ایام انہوں نے اپنے آبائی گاؤں اکوڑہ خٹک میں گزارے اور آپ کو وہی سپردِ خاک کر دیا گیا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر پچاسی برس تھی۔

جمعرات، 6 فروری، 2020

06 فروری، فخرِ افغان باچا خان کا یومِ پیدائش


خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا 06 فروری 1890ء کو ہشنغر اُتمانزوں میں خان سیف اللہ خان کے بیٹے بہرام خان کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں محمد اسماعیل سے حاصل کی ۔ میٹرک امتحان پاس کرنے کے غرض اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صیب کے ہمراہ پشاور سکول چلے گئے ۔ وہاں سے میٹرک امتحان پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے مشن کالج شفٹ ہوگئے ۔

آپ کی شخصیت وکیپیڈیا چند سطور میں کچھ یوں بیان کرتی ہے:
”خان عبد الغفار خان پختونوں کے سیاسی راہنما کے طور پر مشہور شخصیت ہیں ، جنھوں نے برطانوی دور میں عدم تشدد کے  فلسفے کا پرچار کیا ۔ خان عبد الغفار خان زندگی بھر عدم تشدد کے حامی رہے اور مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے ایک تھے ۔ آپ کے مداحوں میں آپ کو باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا جاتا ہے ۔

آپ پہلے اپنے خاندان کے افراد کے دباؤ پر برطانوی فوج میں شامل ہوئے ، لیکن ایک برطانوی افسر کے پشتونوں کے ساتھ ناروا رویے اور نسل پرستی کی وجہ سے فوج کی نوکری چھوڑ دی ۔ بعد میں انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ اپنی والدہ کے کہنے پر موخر کیا ۔

برطانوی راج کے خلاف کئی بار جب تحاریک کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو خان عبد الغفار خان نے عمرانی تحریک چلانے اور پختون قبائل میں اصلاحات کو اپنا مقصد حیات بنا لیا ۔ اس سوچ نے انھیں جنوبی ایشیاء کی ایک نہایت قابل ذکر تحریک خدائی خدمتگار تحریک شروع کرنے پر مجبور کیا ۔ اس تحریک کی کامیابی نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پابند سلاسل کیا گیا ۔ 

1920ء کے اواخر میں بدترین ہوتے حالات میں انھوں نے مہاتما گاندھی اور انڈین نیشنل کانگریس کے  ساتھ الحاق کر دیا ، جو اس وقت عدم تشدد کی سب سے بڑی حامی جماعت تصور کی جاتی تھی ۔ یہ الحاق 1947ء میں آزادی تک قائم رہا ۔

جنوبی ایشیا کی آزادی کے بعد خان عبد الغفار خان کو امن کے نوبل انعام کےلئے بھی نامزد کیا گیا ۔ 1960ء اور 1970ء کا  درمیانی عرصہ خان عبد الغفار خان نے جیلوں اور جلاوطنی میں گزارا ۔ 

1987ء میں آپ پہلے شخص تھے جن کو بھارتی شہری نہ ہونے کے باوجود “بھارت رتنا ایوارڈ“ سے نوازا گیا جو سب سے عظیم بھارتی سول ایوارڈ ہے ۔ 

بدقسمتی سے باچا خان جیسے تاریخی شخصیت کو پاکستان نے فراموش کر دیا ہے ۔ اس عظیم لیڈر کا انتقال 20 جنوری 1988ء کو اٹھانوے سال کی عمر میں نظربندی کے دوران ہوا ، اور آپ کو وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں دفن کیا گیا ۔  

افغانستان میں اس وقت گھمسان کی جنگ جاری تھی لیکن آپ کی تدفین کے موقع پر دونوں اطراف سے جنگ بندی کا فیصلہ آپ کی شخصیت کے علاقائی اثر رسوخ کو ظاہر کرتی ہے ۔“

ریمنڈ ڈیوس کا پاکستان میں آخری دن


امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے حال ہی میں شائع ہونے والی سنسنی خیز آپ بیتی ”دی کنٹریکٹر“ میں اپنی گرفتاری، مختلف اداروں کی جانب سے تفتیش، مقدمے اور بالآخر رہائی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔

اس دوران سب سے ڈرامائی دن مقدمے کا آخری دن تھا جب لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قائم کردہ خصوصی سیشن کورٹ میں ریمنڈ ڈیوس پر قتل کی فردِ جرم عائد ہونا تھی۔ ڈیوس لکھتے ہیں کہ اُنہیں اس رات نیند نہیں آئی۔

عدالت میں پنجرہ:
عدالت میں اس دن معمول سے زیادہ بھیڑ تھی۔ ڈیوس کو سٹیل کے پنجرے میں بند کر کے جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ، ”مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا مقصد مجھے لوگوں سے بچانا ہے یا پھر لوگوں کو مجھ سے محفوظ رکھنا“۔

اس دوران وہاں موجود لوگوں کے رویے سے اُنہیں لگا جیسے وہ سبھی لوگ جج کی جانب سے اُن کے قصور وار ہونے کا فیصلہ سنائے جانے کے منتظر ہیں تاکہ ”اس کے بعد وہ مجھے گھسیٹ کر کسی قریبی درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دیں“۔

ڈیوس کو عدالت میں ایک حیران کُن بات یہ نظر آئی کہ اس دن وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ غیر حاضر تھے، جنہوں نے اس سے قبل خاصی سخت جرح کر رکھی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ ڈیوس نے فیضان حیدر کو بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیا ہے۔

کتاب کے مطابق بعد میں منظور بٹ نے کہا کہ جب وہ اس صبح عدالت پہنچے تو اُنہیں پکڑ کر کئی گھنٹوں تک قید رکھا گیا اور کارروائی سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلائنٹس سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔

”دی کنٹریکٹر“ کے مطابق یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ 23 فروری 2011 کو پاکستانی اور امریکی فوج کے سربراہان جنرل کیانی اور ایڈمرل مائیک ملن کے درمیان عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی جس کا بڑا حصہ اس بات پر غور کرتے ہوئے صرف ہوا کہ پاکستان عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے کہ کسی نہ کسی طرح ڈیوس کی گلوخلاصی ہو جائے۔

موبائل فون پر مسلسل رابطہ:
16 مارچ کی دوپہر کو جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو جج نے صحافیوں سمیت تمام غیر متعلقہ لوگوں کو باہر نکال دیا۔ لیکن ایک شخص جو کارروائی کے دوران کمرۂ عدالت میں موجود رہے، وہ تھے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل شجاع پاشا۔

اس وقت ڈیوس کو معلوم نہیں تھا لیکن اسی دوران پسِ پردہ خاصی سرگرمیاں ہو رہی تھیں۔ ان سرگرمیوں کے روحِ رواں جنرل پاشا تھے، جو ایک طرف امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو دوسری جانب اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر سے بھی رابطے میں تھے۔

ڈیوس لکھتے ہیں کہ عدالت کی کارروائی کے دوران جنرل صاحب مسلسل کیمرون منٹر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے۔

شرعی عدالت:
عدالتی کارروائی چونکہ اُردو میں ہو رہی تھی کہ ڈیوس کو پتہ نہیں چلا لیکن درمیان میں لوگوں کے ردِ عمل سے پتہ چلا کہ کوئی بڑی بات ہو گئی ہے۔ ڈیوس کے ایک امریکی ساتھی پال وکیلوں کا پرا توڑ کر پنجرے کے قریب آئی اور کہا کہ ”جج نے عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا ہے“.

یہ کیا کہہ رہی ہو؟ ڈیوس نے حواس باختہ ہو کر کہا۔ ”میرے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا“۔

کتاب کے مطابق مقدمے کو شرعی بنیادوں پر ختم کرنے کے فیصلے کے منصوبہ سازوں میں جنرل پاشا اور کیمرون منٹر شامل تھے۔ پاکستانی فوج بھی اس سے آگاہ تھی جب کہ صدر زرداری اور نواز شریف کو بھی بتا دیا تھا کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔

ڈیوس لکھتے ہیں کہ جنرل پاشا کو صرف دو دن بعد یعنی 18 مارچ کو ریٹائر ہو جانا تھا اس لیے وہ سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ یہ معاملہ کسی طرح نمٹ جائے۔ اور جب یہ معاملہ نمٹا تو ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور مارچ 2011 کی بجائے مارچ 2012 میں ریٹائر ہوئے۔

”دی کنٹریکٹر“ کے مطابق یہ جنرل پاشا ہی تھے جنہوں نے سخت گیر وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ کو مقدمے سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو یہ مقدمہ مفت لڑ رہے تھے۔

گن پوائنٹ پر:
ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں کہ جب دیت کے تحت معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں ایک اڑچن یہ آ گئی کہ مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، چنانچہ 14 مارچ کو آئی ایس آئی کے اہلکار حرکت میں آئے اور انہوں نے تمام 18 عزیزوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا، ان کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے اور ان سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔

کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں ان لواحقین کے سامنے دو راستے رکھے گئے: 
☆ یا تو وہ ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کریں
☆ کتاب میں لکھا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔

یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے، اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید لیتے رہے۔

یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ یہ رقم کس نے دی؟ اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس بات سے صاف انکار کیا تھا کہ یہ خون بہا امریکہ نے ادا کیا ہے۔ تاہم بعد میں خبریں آئیں کہ رقم آئی ایس آئی نے دی اور بعد میں اس کا بِل امریکہ کو پیش کر دیا۔

جونھی یہ کارروائی مکمل ہوئی، ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں ایک سیسنا طیارہ رن وے پر ان کا انتظار کر رہا تھا۔

اور یوں پاکستان کی عدالتی، سفارتی اور سیاسی تاریخ کا یہ عجیب و غریب باب بند ہوا۔

                                               بی بی سی اردو سروس 

اتوار، 2 فروری، 2020

ارمان لونی قتل کی تحقیقات نہ ہونا مضحکہ خیز ہے، ایمل ولی


پشاور: عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی پروفیسر ارمان لونی کے قتل کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونا مایوس کن اور مضحکہ خیز ہے۔

پولیس اور دیگر انتظامی اداروں کو اس کیس سے بری الذمہ قرار دینا متاثرہ خاندان اور پختون سیاسی نوجوانوں کو مایوس کریگا۔

سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں ایمل ولی خان نے کہا کہ ایک سال میں ارمان لونی کے قتل کے بعد درج کیے گئے ایف آئی آر کی تحقیقات نہ کرنا ہتک آمیز، مضحکہ خیز اور لاقانونیت کی انتہا ہے۔

پولیس اور دیگر ذمہ داروں کو اس کیس میں بری الذمہ قرار دینا متاثرہ خاندان اور پختون سیاسی نوجوانوں کو مزید مایوسی کی طرف لیکر جائیگا۔

انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ پروفیسر ارمان لونی کی شہادت لفظوں کے ہیر پھیر میں نظر انداز نہیں کی جاسکتی، اس وقت تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے جب تک ارمان لونی کا غریب خاندان تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوتا۔

ایمل ولی خان نے کہا کہ ملک بھر میں اور بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پختونوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رواں رکھا جارہا ہے، اگر حالات یہی رہے تو پھر مشتعل پختون نوجوان معتدل قوتوں کی آواز بھی نہیں سنیں گے اور حالات معتدل قوتوں کے ہاتھوں میں بھی نہیں رہیں گے۔

باچا خان مرکز پشاور سے جاری اعلامیہ:
☆ پروفیسر ارمان لونی قتل کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونا مایوس کن اور مضحکہ خیز ہے، ایمل ولی خان

☆ پولیس اور دیگر انتظامی اداروں کو بری الذمہ قرار دینا متاثرہ خاندان اور پختون سیاسی نوجوانوں کو مایوس کریگا۔ 

☆ ایف آئی آر کی تحقیقات نہ کرنا ہتک آمیز، مضحکہ خیز اور لاقانونیت کی انتہا ہے۔

☆ پروفیسر ارمان لونی کی شہادت لفظوں کے ہیر پھیر میں نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔

☆ ارمان لونی کے خاندان کے اطمینان تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔

☆ ملک بھر بالخصوص خیبرپختونخوا، بلوچستان میں پشتونوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔

 ☆ اگر حالات یہی رہے تو پھر مشتعل پختون نوجوان معتدل قوتوں کی آواز بھی نہیں سنیں گے، اور ان حالات میں معتدل قوتیں بھی کچھ نہیں کرسکیں گی۔

ہفتہ، 1 فروری، 2020

جہالت کے خلاف باچاخان کا مجاہدہ


تحریکِ آزادی کے دوران 1931ء میں صرف ہری پور جیل میں باچا خان سمیت خدائی خدمتگار تحریک کے 15 ہزار کارکن و رہنما پابندِ سلاسل تھے ۔ جبکہ جیل کے عقب میں واقع قبرستان میں بے شمار سرفروش جانباز محوِ خواب ۔

آج اگر ہم آزادی کے دعویدار ہیں تو یہ اُن قربانی دینے والوں کی جدوجہد کا ثمر ہے جنہوں نے خود کو تو مصائب و آلام سے دوچار کیا لیکن غاصب انگریز کو یہ کہنے پر مجبور کیا ”1930ء تک وہی ہوا جو ہم (انگریز) چاہتے تھے، روس پسپا ہوا، کابل میں خاموشی چھا گئی اور سرحدوں پر امن قائم ہوگیا، ایسے میں ایک شخص عبدالغفار خان اُٹھا اور پھر ہر طرف شورش اور بے چینی پھیل گئی (خفیہ دستاویزات این ڈبلیو ایف پی لندن آفس لائبریری) خان عبدالغفار خان کو پختون پیار سے باچا خان (بادشاہ خان) کہتے تھے، آپ نے تحریک آزادی اور پھر پاکستان میں بنیادی انسانی و جمہوری حقوق کی خاطر 35 برس قید، 15سال جلا وطنی کاٹی، مردان مارچ میں کارکنوں کو پیچھے رکھ کر خود آگے رہے، انگریز سرکار کے تشدد سے دونوں پسلیاں ٹوٹ گئیں اور اسی حالت میں جیل ڈالے گئے، جائیدادیں نیلام ہوئیں، طرح طرح کے مظالم برداشت کیے لیکن کبھی اُف تک نہ کی۔“ 
بقولِ حبیب جالبؔ؎
ہوتا    اگر    پہاڑ    تو    لاتا    نہ    تابِ   غم​
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کہ سہہ گیا​

باچا خان کی زندگی و جدوجہد کے مختلف پہلو ہیں مگر آپ کی جدوجہد کا محرک جہالت کے خاتمے کا خیال تھا، اس لیے ان سطور میں ہم صرف اس وژن و مجاہدہ پر بات کریں گے۔

انگریز چاہتے تھے کہ تلوار کے دھنی پختون قلم کے ماہر نہ بن جائیں، اس کےلیے تمام مکتب بند کر دیے گئے تھے۔ حصولِ تعلیم کا واحد ذریعہ انگریزی سکول تھے لیکن پروپیگنڈے کے زیرِ اثر پختون ان میں داخلے کو کفر سمجھنے لگے تھے اور یوں یہ صرف انگریزوں کے تنخواہ دار طبقات کےلیے مخصوص ہو کر رہ گئے۔ اس عالم میں باچا خان نے آزاد مدرسوں (سکولوں) کے قیام کا بیڑہ اٹھایا اور 1910ء میں اپنے گاؤں اتمان زئی میں پہلے سکول کی بنیاد رکھی۔ اسکے بعد قریبی دیہات میں سکولوں کے قیام کا سلسلہ شروع کر دیا۔ 

باچا خان اپنی خود نوشت ’’میری زندگی اور جدوجہد‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’ایک ملّا صاحب مسلح ہو کر مناظرے کےلئے آئے، ان کا استدلال تھا کہ چوں کہ ان مدرسوں کے نصاب میں اردو شامل ہے جو دنیاوی مقاصد کےلیے پڑھائی جا رہی ہے لہٰذا ان مدرسوں کا قیام ناجائز ہے‘‘۔
 باچا خان کا جواب تھا، ہمارے مدرسوں میں دینی و دنیاوی دونوں تعلیم دی جاتی ہے یہاں تک کہ بچوں کو سب سے پہلے نماز کا ترجمہ سکھایا جاتا ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ آپ لوگ خود بھی یہ نیک کام نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی کرنے نہیں دیتے۔ 

ہندوستانی نژاد امریکی مصنف ایکنات سوارن اپنی کتاب
”A Man to Match His Mountains“ میں لکھتے ہیں کہ ”باچا خان نے اپنے اصلاحی اور تعلیمی پروگرام کو عوام تک پہنچانے کےلیے کندھے پر چادر ڈالے ہزاروں میل کا سفر کیا اور تین سال میں صوبہ سرحد کے تمام 500 بندوبستی گاؤں کا دورہ کیا۔ فارغ بخاری اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’باچا خان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک طرف صوبے کے خوانین انگریزوں کے آلہ کار تھے تو دوسری طرف بعض مولوی بھی ان کے ہمنوا تھے لیکن باچا خان اس گٹھ جوڑ سے متاثر نہیں ہوئے‘‘۔

 یہ صورتحال انگریز کےلیے ناقابل برداشت بن گئی لہٰذا صوبہ بھر میں سکولوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا اور جگہ جگہ اساتذہ کی گرفتاریاں ہونے لگیں۔ 

دیر کے علاقے میں تو سفاکی کی انتہا کر دی گئی، یہاں قائم مدرسہ پولیٹکل ایجنٹ مسٹر کیب کے حکم پر نواب نے نذرِ آتش کر دیا، انہی دنوں پولیس کپتان حافظ زین العابدین جن کا تعلق امرتسر سے تھا، نےمرکزی مدرسہ بند کر دیا۔ 
بقولِ باچا خان، "مجھے اُس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب اس موقع پر پولیس کپتان نے بتایا کہ امرتسر میں آپ کی تقلید میں مدرسے قائم ہو گئے ہیں"۔ باچا خان بنیادی طور پر مصلح تھے لیکن اُنہیں تعلیمی و اصلاحی سے زیادہ انگریزوں کو وطن سے نکال باہر کرنے کےلیے آزادی کی جدوجہد کرنا پڑی۔ 

باچا خان نے 1948ء میں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں حلف لیا اور پاکستانی شناخت کو مقدم جانا۔ پاکستانی سفارتکار ایس فدا یونس اپنی کتاب ’’تھانے سے سفارت تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1969ء میں وہ کابل میں تعینات تھے اور باچا خان بھی افغانستان میں تھے، باچاخان کو گاندھی جی کی برسی میں شرکت کےلیے بھارت سے دعوت نامہ ملا، اُن کے پاکستانی پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی، افغان حکومت نے افغان پاسپورٹ دینے کی پیشکش کی، کابل میں  بھارتی سفیر نے کہا کہ باچاخان کو کسی پاسپورٹ، ویزے کی ضرورت نہیں، باچا خان نے کہا کہ وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان ہی کے پاسپورٹ پر سفر کریں گے۔ بحیثیت قونصل آفیسر میں نے باچا خان کی درخواست مع خط اپنی وزارتِ خارجہ کو ارسال کی اور منظوری آنے پر میں نے باچا خان کو نیا پاسپورٹ جاری کر دیا‘‘۔

 ایسی اَن گنت مثالیں ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے بے لوث رہنماؤں کی ہم نے وہ قدر نہ کی جس کے وہ مستحق تھے۔ غالبؔ نے کہا تھا۔
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا جن کو آسماں نے خاک چھان کے

تحریر: اجمل خٹک کشر  
20 جنوری، 2020 

عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے بلائے جانے والا ”پختون قومی جرگہ“ دس مارچ کو باچا خان مرکز پشاور میں ہوگا


پشاور: عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان کی جانب سے نوشہرہ جلسہ عام سے خطاب کے دوران اعلان کردہ ''پختون قامی جرگہ'' 10 مارچ کو بروز منگل صبح دس بجے باچاخان مرکز پشاور میں منعقد ہوگا۔

اس جرگہ میں تمام پختون رہنما اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے پختون نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جائیں گی۔

 اس بات کا فیصلہ اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیرحیدر خان ہوتی کی زیرصدارت ایک اجلاس میں کیا گیا ۔ اجلاس میں اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخارحسین ، صوبائی صدر ایمل ولی خان اور صوبائی جنرل سیکرٹری سردارحسین بابک نے شرکت کی۔

اجلاس میں اے این پی پنجاب ، سندھ  اور بلوچستان کے صدور سے بھی مشاورت کی گئی۔ اس موقع پر اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر امیرحیدرخان ہوتی کا کہنا تھا کہ ''پختون قامی جرگہ'' ایک تاریخی جرگہ ہوگا جس میں پختونوں کو درپیش تمام مشکلات اور مسائل پر تفصیلی بحث اور جرگہ کیا جائیگا۔ 

جرگے میں شریک تمام ممبران کی تجاویز اور آراء کے نتیجے میں پختونوں کو درپیش مشکلات اور مسائل کے حل کےلیے لائحہ عمل بھی طے کیا جائیگا۔

امیرحیدرخان ہوتی کا کہنا تھا کہ پختونوں کو درپیش مشکلات اور مسائل متفقہ طور پر حل کرنیکی ضرورت ہے، کیوں کہ پختون مزید مشکلات اور مسائل برداشت نہیں کرسکتے۔ پختون قومی جرگہ کے دو رس نتائج ہوں گے اور یہ تاریخی جرگہ پختونوں کے مشکلات اور مسائل کےلیے نیک شگون ثابت ہوگا۔

واضح رہے کہ اے این پی سربراہ اسفندیارولی خان نے 20 جنوری کو نوشہرہ میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران مرکزی سینئر نائب صدر امیرحیدرخان ہوتی اور مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کو جرگہ منعقد کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔

اعلامیہ کے اہم نکات درجہ ذیل ہیں۔
☆ پختون قامی جرگہ 10مارچ بروز منگل صبح دس بجے باچاخان مرکز پشاور میں ہوگا۔

☆ پختون قامی جرگہ کی میزبانی اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان کریں گے۔

☆ پختون قامی جرگے کا اعلان اسفندیارولی خان نے نوشہرہ جلسہ عام سے خطاب کے دوران کیا تھا۔

☆ پختون قامی جرگہ میں تمام پختون رہنماؤں اور دیگر شعبہ جات سے پختون نمائندوں کو شرکت کی دعوت دی جائیگی۔

☆ یہ ایک تاریخی جرگہ ہوگا جس میں پختونوں کو درپیش تمام مسائل اور مشکلات پر تفصیلی بحث کی جائیگی۔

☆ جرگے میں شریک تمام ممبران کی تجاویز اور آراء کی روشنی میں پختونوں کو درپیش مشکلات و مسائل کے حل کےلیے لائحہ عمل طے کیا جائیگا۔

☆ پختونوں کو درپیش مشکلات اور مسائل متفقہ طور پر حل کرنیکی ضرورت ہے۔

☆ پختون مزید مشکلات اور مسائل برداشت نہیں کر سکتے، اس تاریخی پختون قامی جرگے کے دو رس نتائج برآمد ہوں گے۔

☆ یہ تاریخی جرگہ پختونوں کی مشکلات اور مسائل کے حل کےلیے نیک شگون ثابت ہوگا۔