جمعہ، 14 فروری، 2020

خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کا پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلى سے خطاب


فخرِ افعان، بابائے امن اور فلسفہ عدم تشدّد کے علمبردار خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا اسمبلی کے اجلاس میں متواتر شرکت کرتے رہے، 05 مارچ 1948ء کو پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فخر افعان اور بابائے امن باچا خان بابا نے فرمایا:
میں نے یہ کٹ موشن اس لیے لیا ہے کہ میں پاکستان کی حکومت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر سکوں، میں یہاں اپنے تنظیم اور میرے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کو دور کرنے بارے وضاحت کروں گا۔

سب سے پہلے ہم پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ ہم پاکستان کے خلاف ہیں اور ہم اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ میں دلیل بازی نہیں کروں گا اگر مجھے اجازت ہو تو میں اس کے بارے میں روشنی ڈالوں گا جو کہ میں اپنے صوبے میں بھی بولتا ہوں، تاکہ پاکستان کے ذمہ دار لوگوں کو پتہ چلے کہ میں پاکستان کا دوست ہوں یا دشمن ؟ وہ یہ اختلاف تو نہیں کر سکتے کہ میں ابھی اور بعد میں غلط فہمیاں دور کرنے کی کوششں کرتا رہوں گا میں اپنے لوگوں کو اپنے صوبے میں کہتا رہتا ہوں، حالاں کہ میرا خیال یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ آج ہم ہندوستان میں اس کے نتائج کے گواہ ہیں ہزاروں نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد اور عورتیں تباہ و برباد ہو گیئں ہیں اب جبکہ بٹوارہ ہو چکا ہے تو اختلاف بھی ختم ہوا۔

میں نے ہندوستان کی تقسیم کے خلاف بہت سے تقاریر کی ہیں لیکن ایک بات ہے کہ کیا ہر شخص نے مجھے سنا ہے ؟ ہم نے صوبہ سرحد میں مسلم لیگ حکومت کو کہا کہ ہم آپ کو حکومت کا موقع دیتے ہیں مگر وہ پختونوں سے نہایت سختی کے ساتھ پیش آئے، لوگ میرے پاس آئیں اور کہا کہ ہم حکومت پاکستان کے یہ مظالم برداشت نہیں کر سکتے، ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی طاقتور ترین قوم (انگریز) سے مقابلہ کیا جو ہمارے اوپر حکومت کرنا چاہتا تھا، میں نے ان لوگوں کو کہا کہ اب صورتحال مختلف ہے پہلے غیر ملکی تسلط تھا اور اب مسلمانوں کی اپنی حکومت ہے۔

 میں نے حکومت پاکستان کو بار بار کہا کہ ہم اپ کے حکمرانی میں رہنے کو تیار ہیں، میں خطرات سمجھتا ہوں آپ میرے لیے کوئی بھی نظریہ رکھ سکتے ہیں، مگر میں توڑنے والا نہیں جوڑنے والا ہوں۔ اگر آپ میری زندگی کا مطالعہ کریں گے تو میں نے اپنی زندگی اپنے ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کےلیے وقف کر رکھی ہیں۔ 

میں بتاتا چلوں کے خدائی خدمت گار  تحریک سیاسی نہیں بلکہ اصلاحی تحریک  تھی مگر یہ بہت لمبی کہانی ہے، جسے میں دہرانا نہیں چاہتا۔ اس اصلاحی تنظیم کو سیاسی تنظیم میں منتقل کرنے کا ذمہ دار کون تھا؟ انگریز!
 ہمیں کانگریس کے ساتھ کس نے ملایا انگریز نے، میں یہ باتیں صرف آپ کے سامنے نہیں کر رہا مگر خدا نے مجھے حوصلہ دیا ہے اور یہ باتیں میں نے انگریزوں کے سامنے بھی کی ہیں۔

ہم خدائی خدمت گاروں پر الزام ہے کہ وہ حکومت کو ترقیاتی کام نہیں کرنے دے رہے،  اصلاحی پروگرام تب کامیاب ہو سکتا ہے جب ملک میں امن ہو، مگر ہمارا یہ موقف ہے کہ اگر گورنمنٹ ہمارے ملک اور عوام کےلیے کام کرنا چاہتی ہے تو خدائی خدمت گاران ان کے ساتھ ہوں گے۔ میں پھر دہراتا ہوں کہ میں پاکستان کو تباہ کرنا نہیں چاہتا، تباہی میں ہندوں، مسلمان، سرحد، پنجاب، بنگال اور سندھ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ 

صرف تعمیر میں ہی فائدہ ہے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں تباہی و بربادی کےلیے کسی بھی شخص کی مدد نہیں کروں گا۔ اگر آپ کے سامنے کوئی تعمیری کام ہے اور اگر آپ ہمارے لوگوں کےلیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور وہ عملی طور پر ہو، تو میں آپ کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں اور میری ساتھی اس میں حصہ لینے کےلیے تیار ہیں۔

میں گزشتہ کئی مہینوں سے سے پاکستان کی سرکار کو دیکھ رہا ہوں مگر مجھے انگریز حکومت اور اس حکومت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا ہے۔ 
ہو سکتا ہے کہ یہ غلط ہو مگر یہ عام رائے ہے اپ جائیں اور غریب عوام سے پوچھیں تو آپ کو میری بات کی تصدیق ہو جائے گی۔ یہ اس لیے ہے کہ اپ ان کی آواز کو طاقت سے دباتے ہیں، مگر یاد رکھیں! طاقت یا ظلم زیادہ دیر پا نہیں رہتا ، طاقت صرف عارضی طور پر رہ سکتی ہے اگر آپ طاقت استعمال کریں تو لوگ آپ سے نفرت کرینگے۔

اس کو چھوڑیں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ انگریز حکومت سے اب یہاں (پاکستان) میں زیادہ کرپشن ہورہی ہے اور انگریز حکومت سے زیادہ بدامنی ہے۔

میں ایک دوست کے حیثیت سے آیا ہوں، براہ کرم ان حقائق کے بارے میں سوچیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ اگر آپ ان کو پاکستان کے بارے میں فائدہ مند سمجھتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ ان کو رہنے دیں۔

 ہم انگریزوں سے کیوں لڑیں ؟ ہم نے ان کو لڑ کر باہر اس لیے نکالا کہ یہ ملک ہمارا ہو، اور ہم اس پر حکمرانی کریں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اب بھی بہت سے انگریز پھیلے ہوئے ہیں۔

بدقسمتی سے آج دیکھتے ہیں کہ وہی پرانی انگریزی پالیسی چل رہی ہے، وہی پرانے طریقے سے چاہے صوبہ سرحد ہو یا قبائلی علاقے، ہندو نے سب صوبوں میں ہندوستانی گورنر مقرر کیے ہیں۔ صرف مرد ہی نہیں، بلکہ عورتیں بھی گورنر مقرر کی گئیں ہیں۔

 مگر کیا صوبہ سرحد، بنگال اور پنجاب میں کوئی مسلمان نہیں تھے کہ آپ نے وہاں مسلمان گورنر مقرر نہیں کیے ہیں؟ کیا یہ اسلامی طریقہ ہے کیا آپ اسے بھائی چارہ کہیں گے ؟ کیا یہ اسلامی پاکستان ہے؟

حکومت میں یہی ایک غلط طریقہ نہیں ہے بلکہ دوسرا یہ کہ حکومت نے شاہی آرڈیننس بھی جاری کیے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا دُکھ ہوا کہ صوبہ سرحد کی حکومت نے بالکل انگریزی طریقے کے فرمان جاری کیے، وہی پرانی زبان اور پرانا جذبہ، جو انگریزوں میں تھا۔

 اگر انگریز جھوٹ بولتا تھا تو وہ غیر ملکی تھا، مگر ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں، کیوں کہ وہ یہاں ہماری بھلائی کےلیے نہیں، بلکہ اپنے مقاصد اور ہمیں لوٹنے کےلیے آیا تھا۔ مجھے اب پاکستانی حکومت سے شکایت ہے، کیوں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں اور یہ حکومت ہماری حکومت ہے۔

ہمیں اب پُرانے انگریزی طریقوں کو تَرک کرنا ہوگا، اگر ہم پاکستان میں پرانے طریقے استعمال کریں گے تو ہمیں بڑی پریشانیاں ہونگی جن سے ہمیں نقصان ہی ہوگا۔

ایک اور بات میں آپ کو بتاتا چلوں کہ مجھ پر الزام ہے کہ میں نے پٹھانوں (پختونوں) کی الگ قومیت اور الگ صوبائیت کی بات کرتا ہوں، حقیقت میں آپ ہی اس صوبائیت کے خالق ہیں۔ ہم پختونوں کو ان چیزوں کا پتہ نہ تھا کہ صوبائیت کیا ہوتی ہے؟ سندھ کو دیکھیں، کیا سندھ میں ہم صوبائیت پیدا کر رہے ہیں۔

 سوال یہ ہے کہ صوبائیت کیسے پیدا ہو رہی ہے؟ 
اس موقع پر غضنفر علی خان نے فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا کی بات کاٹتے ہوئے کہا ہم صوبائیت پر نہیں بلکہ پاکستان پر یقین رکھتے ہیں۔

فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے جواب دیا، پنجابیوں نے صوبائیت کا سبق دیا ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کو کچھ عرصہ اسلام کے نام پر بیوقوف بناتے رہیں، مگر یہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا۔ یہ ایک عارضی چیز ہے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ صورتحال کس نے اور کیوں پیدا کی ؟ 
یہ قانونِ قدرت ہے کہ سبب کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آ سکتی۔

وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے جواب دیا یہ حالات پیدا ہو چکے ہیں، فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے فرمایا، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اگر آپ معاملہ دیکھیں گے تو بہت افسوس دہ باتیں سامنے آئیں گی۔ میں بدمزگی پیدا نہیں کرنا چاہتا، میں تقریریں بھی نہیں کرنا چاہتا، لیکن پہلی دفعہ میں آپ کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں ۔ 

وزیراعظم پاکستان کے دورہ پشاور کے موقع پر ہمارے بھائیوں نے بھی ان کے سامنے پختونستان کا مطالبہ کیا، مگر انہوں نے کہا کہ ہم خیبر سے چٹاگانگ تک سب مسلمانوں کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم آپ سے سب پختونوں کو متحد رکھنے کی مدد مانگتے ہیں۔

اسی دوران فیروزخان نون نے پوچھا کیا آپ افعانستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ؟
فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے کہا اگر یہ ممکن ہے کہ بنگالی بھائی ہم سے ہزاروں میل دور ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں جبکہ ہمارے اپنے بھائی جو ہمارے پڑوس میں ہیں اور پختون ہیں، جنہیں انگریزوں نے ہم سے جدا کر دیا (ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے) کیوں کہ پختونوں کا اتحاد انگریزوں کےلیے خطرے کا باعث تھا، مگر یہ ہمارے بھائی ہیں آپ ان سے کیوں ڈرتے ہیں۔

لیاقت علی خان نے کہا برائے مہربانی اپنے نقطے کی وضاحت کریں۔ جس پر فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے کہا کہ ہمارے پختونستان کا مطلب کیا ہے، یہ میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں۔ یہاں کے لوگ سندھی کہلاتے ہیں اور ان کے وطن کا نام سندھ ہیں۔ اسی طرح پنجاب اور بنگال پنجابیوں اور بنگالیوں کا اپنا وطن ہے۔ بالکل اسی طرح شمالی مغربی سرحدی صوبہ بھی ہے ہم ایک قوم ہیں اور ہماری دھرتی پاکستان کے ساتھ ہے ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے وطن کا بھی ایک نام ہو کیا یہ اسلام کے خلاف ہے ؟۔

لیاقت علی خان نے کہا کیا پٹھان ایک ملک کا نام ہے یا برادری کا؟
فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے کہا پختون ایک برادری کا نام ہے اور وطن کا نام پختونستان ہو گا۔ میں وضاحت کرتا ہوں کہ ہندوستان کے لوگ ہمیں پٹھان اور ایرانی ہمیں افعان کہتے ہیں۔ ہمارا اصل نام پختون ہے ہم پختونستان چاہتے ہیں، اور ہم ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف کا اشتراک چاہتے ہیں کہ ہم سب مل کر پختونستان میں شامل ہوں۔

 آپ اس میں ہماری مدد کر سکتے ہیں، آپ سوال کریں گے کہ اس سے پاکستان کمزور ہو گا، تو میں کہوں گا کہ اس سے پاکستان کمزور بالکل نہیں ہوگا اس سے ایک علیحدہ سیاسی یونٹ بنے گا، جو مضبوط ہوگا۔ اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری مشکلات ہیں، گورنمنٹ بد اعتمادی نہیں بلکہ اعتماد سے چلانی چاہیے۔

ایک اور چیز میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کہا جا رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے اپنے فرائض پورے کرلیے، پاکستان بننے سے ان کا کام ختم ہو گیا۔ اب یہ دوسری پارٹیوں کا کام ہے کہ وہ معاشی بنیاد پر مشکلات کا خاتمہ کرنے کےلیے جدوجہد کریں۔ اگر ہمارے درمیان کوئی مشکلات ہو تو ہمیں صلاح و مشورے سے اسے دور کرنا چاہیے۔ 

اسلام ہمیں برداشت کا درس دیتا ہے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کی حکومت امیروں کی طرح نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ہمیں وہ طریقے ڈھونڈنے ہوں گے، جس پر پاکستان کو چلایا جاسکے۔

پاکستان کےلیے میرے خیالات یہ ہیں کہ یہ ایک آزاد پاکستان ہونا چاہیے۔ یہ کسی بھی مخصوص شخص یا قوم کے قبضے میں نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان ان سب لوگوں کےلیے ہونا چاہیے۔ ہر کسی کو ایک جیسے حقوق حاصل ہو، اور کسی کی حق تلفی نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پاکستان کی حکومت عوام کے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

 جہاں تک ٹیکنوکریٹس کا تعلق ہے تو انہیں مزید تربیت کےلیے امریکا اور برطانیہ بھیجا جائے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو میں اس سے متفق ہوں گا کہ یہاں اس کےلیے لوگ نہیں ہیں۔ جب ہندو اپنے معاملات حل کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔۔۔!

آخر میں ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے تلخ حقیقت بیان کرتے ہوئے برداشت کیا، والسّلام۔

یہ تقریر سترہ دسمبر 1948ء کو باچا خان نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے پہلی خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں