تحریکِ آزادی کے دوران 1931ء میں صرف ہری پور جیل میں باچا خان سمیت خدائی خدمتگار تحریک کے 15 ہزار کارکن و رہنما پابندِ سلاسل تھے ۔ جبکہ جیل کے عقب میں واقع قبرستان میں بے شمار سرفروش جانباز محوِ خواب ۔
آج اگر ہم آزادی کے دعویدار ہیں تو یہ اُن قربانی دینے والوں کی جدوجہد کا ثمر ہے جنہوں نے خود کو تو مصائب و آلام سے دوچار کیا لیکن غاصب انگریز کو یہ کہنے پر مجبور کیا ”1930ء تک وہی ہوا جو ہم (انگریز) چاہتے تھے، روس پسپا ہوا، کابل میں خاموشی چھا گئی اور سرحدوں پر امن قائم ہوگیا، ایسے میں ایک شخص عبدالغفار خان اُٹھا اور پھر ہر طرف شورش اور بے چینی پھیل گئی (خفیہ دستاویزات این ڈبلیو ایف پی لندن آفس لائبریری) خان عبدالغفار خان کو پختون پیار سے باچا خان (بادشاہ خان) کہتے تھے، آپ نے تحریک آزادی اور پھر پاکستان میں بنیادی انسانی و جمہوری حقوق کی خاطر 35 برس قید، 15سال جلا وطنی کاٹی، مردان مارچ میں کارکنوں کو پیچھے رکھ کر خود آگے رہے، انگریز سرکار کے تشدد سے دونوں پسلیاں ٹوٹ گئیں اور اسی حالت میں جیل ڈالے گئے، جائیدادیں نیلام ہوئیں، طرح طرح کے مظالم برداشت کیے لیکن کبھی اُف تک نہ کی۔“
بقولِ حبیب جالبؔ؎
ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تابِ غم
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کہ سہہ گیا
باچا خان کی زندگی و جدوجہد کے مختلف پہلو ہیں مگر آپ کی جدوجہد کا محرک جہالت کے خاتمے کا خیال تھا، اس لیے ان سطور میں ہم صرف اس وژن و مجاہدہ پر بات کریں گے۔
انگریز چاہتے تھے کہ تلوار کے دھنی پختون قلم کے ماہر نہ بن جائیں، اس کےلیے تمام مکتب بند کر دیے گئے تھے۔ حصولِ تعلیم کا واحد ذریعہ انگریزی سکول تھے لیکن پروپیگنڈے کے زیرِ اثر پختون ان میں داخلے کو کفر سمجھنے لگے تھے اور یوں یہ صرف انگریزوں کے تنخواہ دار طبقات کےلیے مخصوص ہو کر رہ گئے۔ اس عالم میں باچا خان نے آزاد مدرسوں (سکولوں) کے قیام کا بیڑہ اٹھایا اور 1910ء میں اپنے گاؤں اتمان زئی میں پہلے سکول کی بنیاد رکھی۔ اسکے بعد قریبی دیہات میں سکولوں کے قیام کا سلسلہ شروع کر دیا۔
باچا خان اپنی خود نوشت ’’میری زندگی اور جدوجہد‘‘ میں رقم طراز ہیں ’’ایک ملّا صاحب مسلح ہو کر مناظرے کےلئے آئے، ان کا استدلال تھا کہ چوں کہ ان مدرسوں کے نصاب میں اردو شامل ہے جو دنیاوی مقاصد کےلیے پڑھائی جا رہی ہے لہٰذا ان مدرسوں کا قیام ناجائز ہے‘‘۔
باچا خان کا جواب تھا، ہمارے مدرسوں میں دینی و دنیاوی دونوں تعلیم دی جاتی ہے یہاں تک کہ بچوں کو سب سے پہلے نماز کا ترجمہ سکھایا جاتا ہے لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ آپ لوگ خود بھی یہ نیک کام نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی کرنے نہیں دیتے۔
ہندوستانی نژاد امریکی مصنف ایکنات سوارن اپنی کتاب
”A Man to Match His Mountains“ میں لکھتے ہیں کہ ”باچا خان نے اپنے اصلاحی اور تعلیمی پروگرام کو عوام تک پہنچانے کےلیے کندھے پر چادر ڈالے ہزاروں میل کا سفر کیا اور تین سال میں صوبہ سرحد کے تمام 500 بندوبستی گاؤں کا دورہ کیا۔ فارغ بخاری اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’باچا خان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک طرف صوبے کے خوانین انگریزوں کے آلہ کار تھے تو دوسری طرف بعض مولوی بھی ان کے ہمنوا تھے لیکن باچا خان اس گٹھ جوڑ سے متاثر نہیں ہوئے‘‘۔
”A Man to Match His Mountains“ میں لکھتے ہیں کہ ”باچا خان نے اپنے اصلاحی اور تعلیمی پروگرام کو عوام تک پہنچانے کےلیے کندھے پر چادر ڈالے ہزاروں میل کا سفر کیا اور تین سال میں صوبہ سرحد کے تمام 500 بندوبستی گاؤں کا دورہ کیا۔ فارغ بخاری اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’باچا خان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک طرف صوبے کے خوانین انگریزوں کے آلہ کار تھے تو دوسری طرف بعض مولوی بھی ان کے ہمنوا تھے لیکن باچا خان اس گٹھ جوڑ سے متاثر نہیں ہوئے‘‘۔
یہ صورتحال انگریز کےلیے ناقابل برداشت بن گئی لہٰذا صوبہ بھر میں سکولوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا اور جگہ جگہ اساتذہ کی گرفتاریاں ہونے لگیں۔
دیر کے علاقے میں تو سفاکی کی انتہا کر دی گئی، یہاں قائم مدرسہ پولیٹکل ایجنٹ مسٹر کیب کے حکم پر نواب نے نذرِ آتش کر دیا، انہی دنوں پولیس کپتان حافظ زین العابدین جن کا تعلق امرتسر سے تھا، نےمرکزی مدرسہ بند کر دیا۔
بقولِ باچا خان، "مجھے اُس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب اس موقع پر پولیس کپتان نے بتایا کہ امرتسر میں آپ کی تقلید میں مدرسے قائم ہو گئے ہیں"۔ باچا خان بنیادی طور پر مصلح تھے لیکن اُنہیں تعلیمی و اصلاحی سے زیادہ انگریزوں کو وطن سے نکال باہر کرنے کےلیے آزادی کی جدوجہد کرنا پڑی۔
باچا خان نے 1948ء میں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں حلف لیا اور پاکستانی شناخت کو مقدم جانا۔ پاکستانی سفارتکار ایس فدا یونس اپنی کتاب ’’تھانے سے سفارت تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1969ء میں وہ کابل میں تعینات تھے اور باچا خان بھی افغانستان میں تھے، باچاخان کو گاندھی جی کی برسی میں شرکت کےلیے بھارت سے دعوت نامہ ملا، اُن کے پاکستانی پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی، افغان حکومت نے افغان پاسپورٹ دینے کی پیشکش کی، کابل میں بھارتی سفیر نے کہا کہ باچاخان کو کسی پاسپورٹ، ویزے کی ضرورت نہیں، باچا خان نے کہا کہ وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان ہی کے پاسپورٹ پر سفر کریں گے۔ بحیثیت قونصل آفیسر میں نے باچا خان کی درخواست مع خط اپنی وزارتِ خارجہ کو ارسال کی اور منظوری آنے پر میں نے باچا خان کو نیا پاسپورٹ جاری کر دیا‘‘۔
ایسی اَن گنت مثالیں ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ایسے بے لوث رہنماؤں کی ہم نے وہ قدر نہ کی جس کے وہ مستحق تھے۔ غالبؔ نے کہا تھا۔
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا جن کو آسماں نے خاک چھان کے
تحریر: اجمل خٹک کشر
20 جنوری، 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں