فرانز فینن اپنی مشہور کتاب ”افتادگانِ خاک“ میں لکھتے ہیں کہ ”جب نادر شاہی مخلوق اپنی مطلق طاقت کے نشہ میں سرشار اور اس کے خاتمے کے خوف سے دوچار ہوتی ہے تو اُنہیں یہ واضح طور پر یاد نہیں رہتا کہ وہ کبھی انسانی جامے میں تھے۔ وہ اب اپنے آپ کو بندوق یا کوڑا سمجھنے لگتی ہے“۔
جنوری 2018 میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی جنہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں تمام پشتون قیادت نے شرکت کی اور تقاریر کیں۔ دھرنے کے دوران ایک بات کی نشان دہی پشتون قیادت بار بار کرواتی رہی کہ دھرنا صرف چند مطالبات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس پلیٹ فارم سے ان تمام مظالم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے جن کا سامنا بحیثیت قوم پشتون کئی دہائیوں سے کررہے ہیں۔
اسی دھرنے کے دوران پختونخوا میپ کے چئیرمین محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہ مطالبات کیا ہیں؟ یہ تو گھنٹوں میں حل ہوسکتے ہیں، تم کیوں اتنی سادہ بن رہے ہو!دہشت گرد ایک شخص ہوتا ہے، مارکیٹ، گھر، اور دکانیں تو دہشت گرد نہیں ہوتی پھر اپریشنز میں مارکیٹیں کیوں گرائی گئیں؟ ہمیں اس کا حساب کون دے گا ؟ “۔
دھرنے میں ملک بھر سے پشتونوں نے شرکت کی اور اسی دھرنے کے دوران محسود تحفظ موومنٹ (ایم ٹی ایم) پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) میں تبدیل ہوئی۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے اپنا پہلا جلسہ فروری دو ہزار انیس میں ژوب کے مقام پر کیا، دوسرا جلسہ قلعہ سیف اللہ، تیسرا جلسہ خانوزئی بازار اور چوتھا جلسہ کوئٹہ شہر میں کیا۔ ان جلسوں میں قبائلی عمائدین اور پشتون سیاسی کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہاں سے پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھیوں کو تنگ کرنے اور انہیں اس کام سے روکنے کےلیے مقتدر قوتوں کی طرف سے طرح طرح کے اوچھے ہتھکنڈے شروع ہوئے۔ شروع میں ان کے خلاف صرف ایف آئی آر درج ہوئیں لیکن جیسے جیسے پشتون تحفظ موومنٹ عوام میں مقبول ہوتی رہی، مقتدر قوتیں تشدد پر اتر آئی۔
کراچی جلسے کی کمپین کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کو اغوا کیا گیا ان پر بے تحاشا تشدد کیا گیا۔ ان رہنماؤں میں پروفیسر ارمان لونی بھی شامل تھے جن پر حراست کے دوران اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ تشدد کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے تھے۔ تشدد، پروپیگنڈے، گرفتاریاں اور دھمکیاں معمول بن گئی اور پھر رمضان کے مقدس مہینے میں علی وزیر اور اس کے ساتھیوں پر حملہ ہوا جس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنان شہید ہوئے۔ اس واقعے پر شدید احتجاج بھی ہوا لیکن یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں۔
02 فروری 2019 کو پشتون تحفظ موومنٹ کے راہنماء پروفیسر ابراہیم ارمان لونی کو احتجاجی دھرنے میں شرکت کے فوراً بعد دن کے اجالے میں قتل کیا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس کے قتل کے بعد لوگوں کو اس کے جنازے میں شرکت سے روکا گیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کی صوبے میں داخلے پر پابندی لگائی گئی اور جنازے کے بعد جب وہ واپس جا رہے تھے تو ان پر گولیاں برسائی گئیں۔ مہینوں تک اس کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور بجائے اس کے کہ ارمان کے قاتل کو سزا ملتی اسے پروموشن ملی۔ یہ مقتدر قوتوں کا ایک ایسا جبر تھا جس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔
26 مئی 2019 کو پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء علی وزیر اور محسن داوڑ پُرامن احتجاج کےلئے جارہے تھے جن پر خڑ کمر چیک پوسٹ کے مقام پر رمضان کے مقدس مہینے میں گولیاں برسائی گئی جس کے نتیجے میں چودہ سے زیادہ افراد شھید ہوئے۔ منتخب اراکین اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کو بنا کسی وارنٹ گرفتار کرکے جیل میں ڈالتے ہوئے آئین پاکستان کو روند ڈالا ۔ ایک طرف بے گناہ افراد کو قتل کیا اور دوسری طرف میڈیا پر علی وزیر اور محسن داوڑ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا ہے۔
بقولِ شاعر!
تمہارا شہر، تم ہی مدعی، تم ہی منصف
مجھے یقین تھا میرا ہی قصور نکلے گا
ایک پُرامن سیاسی تحریک کے کارکنان کی گرفتاریاں، ان پر تشدد، مار دھاڑ ، ان کے خلاف پروپیگنڈے عروج پر تھے کہ اسی دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین کو رات کی تاریکیوں میں پشاور سے گرفتار کیا گیا۔ اس غیر قانونی گرفتاری کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ مملکت خداداد میں پُرامن مظاہرین پر ریاست پھٹ پڑی اور کارکنان پر تشدد کیا گیا۔ ریاست کے دارلحکومت میں منتخب رکن اسمبلی کو مارتے اور گھسیٹتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور ساتھ ہی درجنوں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر دہشتگردی اور بغاوت کا مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیئے گئے۔
گزشتہ ہفتہ یعنی 09 فروری 2020 کو لورالائی شہر میں پشتون تحفظ موومنٹ کا جلسہ ارمان لونی شھید کے برسی کی مناسبت سے منعقد کیا گیا ۔ کیوں کہ یہ وہی شہر ہے جہاں پروفیسر ارمان لونی کو قتل کیا گیا تھا۔ صبح ارمان لونی کی بہن ”وڑانگہ لونی“ اپنی آہ و فریاد لے کر جلسہ گاہ اپنے بھائیوں کے پاس جانے والی تھی کہ جہاں وہ اپنے بھائیوں کو بتا سکے، کہ کس جرم کی بنا پر ارمان کو قتل کیا گیا؟ ارمان کس ارمان کی تکمیل میں مارا گیا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ جلسہ گاہ پہنچتی انہیں ان کے ساتھی ثناء اعجاز کے ساتھ ہی گرفتار کیا گیا۔
پشتون معاشرے میں عورت کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہاں عورت کی گرفتاری اور وہ بھی ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ، ایک نا قابل برداشت عمل ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں دوستی سے لے کر دشمنی تک ہر چیز کے اصول، قواعد وضوابط طے ہوں، وہاں اس طرح کی اوچھی حرکتیں کرنے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ کیا ریاست چاہتی ہے کہ پشتون نوجوان اپنی پُرامن سیاسی جدوجہد چھوڑ کر کوئی پُرتشدد راستہ اختیار کریں؟ اگر نہیں تو پھر ان سے پر امن احتجاج کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے؟
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی پختون شکن پالیسیوں پر نظرثانی کریں ۔ پختونوں کو ان کا آئینی و قانونی حقوق دیا جائے ۔ مقتدر قوتوں کو پختونوں کی نسل کشی سے روکا جائے، کیوں کہ پختون مزید اس ریاست سے وفاداری کی سرٹیفیکیٹ لینے والے نہیں ۔ پختونوں کی وسائل پر غیروں کا تسلط ختم کردیا جائے ۔ پنجاب میں پشتونوں کو شناختی کارڈ، این او سی اور دیگر بہانوں سے تنگ کرنا چھوڑ دیا جائے۔ فوجی آپریشنز میں جن لوگوں کے مکانات اور دوکانیں سمیت تمام کاروباری سرگرمیاں تباہ ہوچکی ہیں، ان کی بحالی کےلیے فی الفور اقدامات کئے جائیں۔ حکومت پچاس لاکھ گھر بنانے سے پہلے پشتوں کے تباہ حال گھروں کو آباد کرے اور آئین کے مطابق پختونوں کی پُرامن سیاسی تحریک کو چلانے دے۔
ورنہ بقولِ علامہ محمد اقبال!
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دل دار نہیں
تحریر: اختر حسین ابدالؔی
___________________________________________________________________________________
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں