جمعرات، 27 جون، 2019

پُرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا



   ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازیں نکالنےلگا ۔

   گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا ۔ مگر جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے ۔

   وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی نہ کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ۔ یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا ۔

   سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا ۔ جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھے میں ڈال رہے تھے ۔ گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا ، اس نے اور تیز آوازیں نکالنے شروع کر دیں ۔ 

    کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا ۔ جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ 

   یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا ۔

   یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آگئے اور پھر بخوشی اپنے گھر رواں دواں ہوئے ۔ 

    قارئین ! اس مختصر سی کہانی سے یہ بات بلکل واضح ہوئی کہ زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے ، ہمارے کردار کشی کی جائے ، ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے ، ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے ۔ 

  لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں ، بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے۔ 

   کیونکہ زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں اور خاک ڈالنے والے خاک ڈالتے رہیں ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں